Express News:
2025-07-24@18:28:05 GMT

ایک عام سی بات

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

انسانی جسم کی تشکیل کے دوران دل پہلے اور دماغ بعد میں وجود میں آتا ہے، یہ دونوں انسانی جسم کے بنیادی اعضاء ہیں، جسم کے دیگر اعضاء بھی اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں مگر جب تک انسان کا دل اور دماغ ٹھیک سے اپنا کام سر انجام دیتے ہیں اُس کی سانسوں کی ڈور چلتی رہتی ہے۔

ایک توانا دل اور صحت مند دماغ کا امتزاج ہی انسان کی اندرونی اور بیرونی تازگی کا ضامن ہوتا ہے۔ انسانوں کے بارے میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ جس کا دل مضبوط ہو اُس کا دماغ مشکل سے ہی تھکتا ہے، اس کے برعکس نازک دل تھکن زدہ دماغ کی وجہ بنتا ہے۔

خالق کائنات نے اپنی پسندیدہ مخلوق کو جہاں ایک طرف اپنی تمام تخلیقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے وہیں دوسری طرف اسے بیشمار احساسات کا منبع بھی قرار دیا ہے۔ احساس پر عمل کا گہرا اثر ہوتا ہے اور یہی انسانی جسم میں روح کی موجودگی کی زندہ جاوید علامت سمجھا جاتا ہے۔

 احساسات دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک مثبت اور دوسرے منفی، انسانی دماغ کو یہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انسان ایک عجوبہ ہے، کیونکہ اگر وہ کسی عمل کو کرنے یا شے کو پانے کا پکا ارادہ کر لے تو اُس میں کامرانی حاصل کرکے ہی دم لیتا ہے پھر چاہے اُس کے پاس ہمت، حوصلے، وسائل، ذرایع اور مواقعوں کا فقدان ہی کیوں نہ ہو۔

انسان ’’من موجی‘‘ کی تعریف پر من وعن پورا اُترتا دکھائی دیتا ہے، اس کے من کو بھائے تو خوب دوڑ لگائے اور جب جی نہ چاہے تو ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھائے۔ مولانا جلال الدین رومی سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا، زہر کیا ہے؟

آپ نے فرمایا، ’’ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو وہ زہر ہے جیسے قوت، اقدار، دولت، بھوک، لالچ، محبت اور نفرت۔‘‘ ایک وقت میں بیشمار احساسات کی انسانی جسم میں موجودگی اور اُس میں سے ہر احساس کو ذہن پر سوار رکھنا انسان کو روشنی سے اندھیروں کی جانب کم وقت میں پہنچا دیتا ہے اور ایسے ہی اندھیروں کے بارے میں مرشد رومی فرماتے ہیں، ’’اپنی زندگی کے تاریک لمحات میں بھی بغیر کسی خوف کے انتظار کرو۔‘‘

یہاں انتظار سے مراد ہے سوچوں کی یلغار پر بند باندھ کر کچھ وقت کے لیے چین کے لمحات جینا۔ ہم انسان کائنات کے جس سیارے پر اُتارے گئے ہیں وہاں دوڑ کا مقابلہ زور و شور سے جاری و ساری ہے، افراتفری کا بھیانک عالم ہے اور نفسا نفسی کا جن بوتل سے باہر نکل کر انسانی زندگیوں کو سالم نگل رہا ہے، ان حالات میں انسان اپنا آپ سنبھالنے میں بالکل قاصر نظر آرہا ہے۔

انسان کو مٹی سے خلق کیا گیا ہے اور مٹی بدلتے ہوئے موسموں کا سب سے زیادہ اثر لینے والی شے ہے، برسات میں یہ بہت نم ہو جاتی ہے، تیز ہوا کے جھونکوں میں یہ بکھر جاتی ہے، تپتی گرمی میں یہ بنجر صحرا کا روپ دھار لیتی ہے اور طوفان کے وقت اس میں دھول شامل ہو جاتی ہے۔

انسانی طبیعت میں اُس کی تخلیقی شے کے جزو کے تمام اثرات واضح طور دکھائی دیتا ہے۔ز یست انسانی ربِ کریم کا خوبصورت تحفہ ہے جس میں خوشنما بہاریں، رنگوں بھرے دن، ہنستا کھلکھلاتا وجود ابن آدم اور اُمنگوں بھری کرن موجود ہوتی ہے۔

بندہ بشر کو فریب سے نکال کر سفر کی سختیاں محسوس کروا کر حقیقت ِ زندگانی کی چوکھٹ تک لے جایا جاتا ہے لیکن اندر صرف وہی لوگ داخل ہوتے ہیں جنھوں نے اپنے کٹھن سفر کو وسیلہ ظفر سمجھا ہو۔ پرُسکون ایام صرف تبھی پر لطف مانے جاتے ہیں جب زندگی کی مسافتوں میں انسان اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ کر اذیت کا ہر احساس بہادری کے ساتھ محسوس کرے اور اپنی زخمی روح پر نکلنے والے آبلوں کا مداوا بھی خود ہی کرے۔

اس کرہ ارض پر ایسا کوئی فرد نہیں جس کی زندگی میں کسی قسم کا رنج و غم موجود نہ ہو، یہاں پھولوں کی سیج پر براجمان افراد کو بھی کانٹوں کی چبھن محسوس ہوتی ہے، اس دنیا کا ہر دوسرا انسان ذ ہنی یا جسمانی اعتبار سے تھکا ہوا ہے۔

گزرتے ہوئے زمانوں، بدلتے ہوئے سالوں اور موسموں میں پیدا ہوتی شدتوں نے انسانوں کا طرزِ زندگی بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور تازہ ہوا کا جھونکا قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری دنیا جدیدیت کی اُس چوٹی پر پہنچی ہوئی ہے جہاں سے مزید بلندیوں کی راہیں ہموار ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہاں کے باسی اپنے نڈھال وجود کو منظر عام پر لانے سے نہ صرف ہچکچاتے ہیں بلکہ ذلت کا احساس بھی محسوس کرتے ہیں۔

اگر کسی غیر جاندار چیز، جانور یا انسان پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو یہ یکساں طور پر سبھی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے، انسان کے جسمانی اعضاء کا بھی یہی معاملہ ہے جب کسی عضو سے اُس کی وسعت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے تو صرف وہی نہیں اُس سے منسوب دیگر اعضاء بھی تکلیف کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جدید دنیا کا انسان تقریباً اپنے تمام معاملات زندگی کے حوالے سے ترقی پسند سوچ کا مالک ہے ماسوائے اپنی اور اپنے اطراف کے لوگوں کی ذہنی تھکن کے۔ اس دنیا میں موجود انگنت معاشروں اور وہاں بسنے والے افراد عقل و فراست کے گروہ سے تعلق رکھتے ہوں یا پستہ سوچ کے، وہ سبھی بے چینی اور ذہنی اضطراب و بوجھ کی ظاہری علامات کو پاگل پن یا نیم پاگل پن کی کیفیت گردانتے ہیں۔

جب کسی انسان کو دل کی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اُسے ہمارا معاشرہ قلبی مریض کہہ کر زِچ نہیں کرتا لیکن ایسا ذہنی تھکن زدہ افراد کے ساتھ ضرور کیا جاتا ہے۔ جس طرح بیمار قلب کو خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے بالکل ویسے ہی تھکے ہوئے ذہن کے مالک افراد بھی خیال، فکر، توجہ، اپنایت اور محبت کے مستحق ہوتے ہیں۔

اس دنیا کا انسان بیشمار اخلاقی برائیوں کے ہمراہ دوغلے پن کا بھی شکار ہے، وہ مرض دینے والے کے بجائے مریض کو مرض کا مورودِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کے ذہن کو تھکانے میں اُس کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے ساتھ اس میں بھی دو رائے نہیں ہے کہ اندرونی سے زیادہ بیرونی عوامل انسان کی ذہنی سرگرمیوں کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کسی فرد کا خود کے ذہن کو تھکا ہوا ماننا انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے کے مترادف ہے پھر اگر وہ ڈرتے، سہمتے اپنے مرض کی تشخیص کے بعد ماہر ِ نفسیات کے پاس علاج کی غرض سے چلا جائے تو دنیا والے اُسے ایسی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اُس کی مشکل سے جمع کی ہوئی ہمت اور شخصی اعتماد فضا میں محلول ہو جاتا ہے۔

ذہن کا تھکا ہوا ہونا یا ذہن پر کسی قسم کا بوجھ موجود ہونا ایک عام سی بات ہے اگر حقیقت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ہماری دنیا کا ہر دوسرا فرد ذہنی طور پر بیمار ہے۔ آج اگر ہم دوسروں کو اُن کے تھکن زدہ ذہن کی وجہ سے Alien سمجھیں گے تو کل کوئی دوسرا بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک روا رکھے گا۔

دنیا بہت تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہی ہے ہمیں بھی اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر صرف چلنا نہیں بھاگنا بھی ہوگا محض رہن سہن کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی سوچ میں وسعت پیدا کرنے اور دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اُن کے لیے اپنے دل میں احترام کا جذبہ اُجاگر کرنے اور اُس کا عملی مظاہرہ کرنے کے اعتبار سے بھی اور جب ہم ایسا کر جائیں گے تبھی ہم صحیح معنوں میں ماڈرن انسان کہلانے کے اہل ہونگے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے زیادہ جاتا ہے ہوتی ہے دنیا کا ہے اور

پڑھیں:

نسل کشی کا جنون

اسلام ٹائمز: آج غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف جنگ نہیں ہے بلکہ وہ ایک منصوبہ بیندی کے تحت نسل کشی کا نتیجہ ہے جو یا تو مغرب کی خاموشی اور یا اس کے براہ راست تعاون سے جاری ہے۔ امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مغربی اور بین الاقوامی تعلیمی، قانونی، انسانی حقوق اور دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد میڈیا ذرائع کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ اقدامات کو برملا کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کے لیے موثر اقدامات انجام دیں۔ تحریر: رسول قبادی
 
غزہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا کھلا زندان بن چکا ہے۔ ایسا زندان جس کے قیدیوں کا واحد جرم فلسطینی ہونا ہے اور انہیں اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ مارچ 2025ء سے غزہ کی پٹی کا مکمل گھیراو جاری ہے اور حتی بنیادی ضرورت کی انسانی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی تقریباً تمام آبادی جو 22 لاکھ افراد پر مشتمل ہے غذائی قلت کا شکار ہو چکی ہے۔ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں: 9 لاکھ 24 ہزار افراد غذائی بحران جبکہ 2 لاکھ 44 ہزار افراد غذائی اشیاء کی قلت کے باعث موت کے خطرے سے روبرو ہیں۔ اس خاموش جنگ کی بھینٹ چڑھنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے اور اب تک سینکڑوں بچے غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
 
اسی طرح 60 ہزار بچے غذائی قلت کے باعث شدید خرابی صحت کا شکار ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کی امداد رسانی کرنے والے ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ اس کے طبی مراکز میں معائنہ ہونے والے ہر 10 بچوں میں سے ایک غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے معیارات کی روشنی میں یہ صورتحال مرحلہ وار نسل کشی ہے اور بین الاقوامی ادارے واضح طور پر اسرائیل پر قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لانے کا الزام عائد کر چکے ہیں۔
بھوکے افراد کا قتل عام، بے مثال جرم
گذشتہ کچھ عرصے سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ایک نئی قسم کا مجرمانہ اقدام انجام پا رہا ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ یہ کہ غذائی امداد تقسیم کرنے کے بہانے مخصوص مراکز میں بھوکے فلسطینیوں کو بلایا جاتا ہے اور پھر صیہونی فوج ان پر فائرنگ کر کے ان کا قتل عام کرتی ہے۔
 
جی ایچ ایف، اسرائیل کے چہرے پر امریکی نقاب
حال ہی میں امریکہ اور اسرائیل نے مل کر غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کے لیے ایک نیا ادارہ بنایا ہے جس کا نام جی ایچ اف (Gaza Humanitarian Foundation) رکھا گیا ہے۔ یہ ادارہ اس وقت غزہ میں "قاتل انسانی امداد" کی علامت بن چکا ہے۔ اس ادارے نے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا اور تشہیر کے ذریعے غزہ میں بھوکے فلسطینیوں کو اپنے امدادی مراکز آ کر امداد وصول کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور جب ان مراکز میں فلسطینیوں کا اکٹھ ہو جاتا ہے تو صیہونی فوجی فائرنگ کر کے دسیوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کر دیتے ہیں۔ یہ ادارہ وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے خود کو اہل غزہ کا نجات دہندہ ظاہر کرتا ہے اور اس کا ماہیانہ بجٹ 140 ملین ڈالر ہے۔ ماہرین کی نظر میں اس ادارے کی تشکیل کا اصل مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی مدد نہیں بلکہ انہیں کنٹرول کرنا ہے۔
 
جبری منتقلی اور اندھی بمباری
غزہ میں شدید قحط کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جنگی مشینری بھی پوری طرح سرگرم عمل ہے اور آئے دن نہتے فلسطینیوں پر زمین اور ہوا سے وحشیانہ حملے جاری ہیں۔ 20 اور 21 جولائی کی بات ہے جب اسرائیلی ٹینک غزہ کے مرکزی حصے میں واقع دیر البلح شہر میں گھس گئے اور شہری علاقوں پر شدید گولہ باری شروع کر دی۔ اس حملے میں کم از کم تین عام شہری شہید اور ہزاروں دیگر شہری وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس وقت غزہ کا تقریباً 90 فیصد حصہ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی تسلط یا وہاں سے شہریوں کی جبری جلاوطنی کا شکار ہے۔ امریکی اور صیہونی حکام نے حال ہی میں ایک اور منصوبہ بنایا ہے جسے "انسان پسند شہر" نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کے جنوب میں 6 لاکھ فلسطینیوں کو جمع کرنا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس کی مذمت کی ہے۔
 
مغرب کی مجرمانہ خاموشی اور تعاون
عالمی سطح پر غزہ میں فلسطینیوں کی جاری نسل کشی کے ردعمل میں دنیا کے اکثر ممالک نے زبان کی حد تک مذمت کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ پاپ کوئی چہاردھم نے بھی اپنے سرکاری بیانیے میں اسرائیلی اقدامات کو "وحشیانہ" قرار دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے دیگر مغربی اتحادی ممالک کھل کر اس کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ نے تو تمام حدیں پار کرتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت پر بھی اسرائیلی حکمرانوں کے خلاف فیصلہ سنانے کے جرم میں پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یورپی یونین نے غزہ کے لیے امدادرسانی کے معاہدے پر دستخط کے باوجود اب تک غزہ میں فلسطینیوں تک امداد پہنچنے کی یقین دہانی کے لیے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے یورپی یونین پر بھی اسرائیلی جرائم میں شریک ہونے کا الزام لگایا ہے۔
 
فلسطینیوں کی نسل کشی میں مغرب کا کردار
آج غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف جنگ نہیں ہے بلکہ وہ ایک منصوبہ بیندی کے تحت نسل کشی کا نتیجہ ہے جو یا تو مغرب کی خاموشی اور یا اس کے براہ راست تعاون سے جاری ہے۔ امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مغربی اور بین الاقوامی تعلیمی، قانونی، انسانی حقوق اور دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد میڈیا ذرائع کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ اقدامات کو برملا کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کے لیے موثر اقدامات انجام دیں۔

متعلقہ مضامین

  • 5 اگست کو عوام اپنی بیزاری کا بھرپور اظہار کریں گے: سلمان اکرم راجہ
  • ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے: عطا تارڑ
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، عطا تارڑ
  • نسل کشی کا جنون
  • ’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
  • یہ کون لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے لیے سیلاب میں اترتے ہیں؟
  • جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • دو عورتیں دو دنیائیں