Express News:
2025-09-18@14:48:14 GMT

معیشت اور مہنگائی

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے ساتھ گزشتہ روز پاکستان کی معروف صنعتی کاروباری شخصیات نے ملاقات کی ہے۔ وزیراعظم نے زرعی پیداوار اور زرعی اصلاحات کے لیے بھی ایک اجلاس کی صدارت کی ہے۔

میڈیا کی اطلاع میں بتایا گیا ہے کہکاروباری برادری نے ملکی معاشی ترقی کے لیے تجاویزوزیراعظم کو پیش کی ہیں‘وزیراعظم نے ان تجاویز کو خاصا اہم قرار دیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ہر مہینے کاروباری برادری سے باقاعدگی سے بذات خود ملاقات کرکے انھیں ملکی معاشی ترقی کے لیے مشاورتی عمل کا حصہ بنائیں گے۔

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ استحکام کے بعد ہدف ملکی معیشت کی ترقی، برآمدات میں اضافہ، روزگار کی فراہمی، صنعتی ترقی اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہے،ترقی کا یہ طویل سفر ہم سب کو محنت اور باہمی تعاون سے طے کرنا ہے۔ اب ہمیں مقامی سطح پر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے معیشت کی ترقی سے پاکستان کو خود کفیل بنانا ہے۔

پاکستان میں ترقی کا پورا پوٹینشل موجود ہے۔ اگر اس پوٹینشل کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو پاکستان معاشی ترقی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ایک اہم اجلاس میں زرعی پیدوار میں اضافے اور زرعی اصلاحات کے لیے جامع لائحہ عمل طلب کرتے ہوئے کہا کہ زرعی شعبے کی پیداوار میں بہتری، ویلیو ایڈیشن اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیح ہے، زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے زرعی شعبے کے تحقیقی مراکز کو مزید فعال بنایا جائے۔

انھوں نے ہدایت کی کہ جدید زرعی مشینری، معیاری بیج، فصلوں کی جغرافیائی منصوبہ بندی اور کسانوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کا طویل و قلیل مدتی جامع لائحہ عمل پیش کیا جائے، زرعی تحقیقی مراکز میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت جدید تحقیق کو یقینی بنایا جائے، زراعت میں مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے، زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن سے برآمدی اشیا کی تیاری کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کی زرعی صنعت کی ترقی کے حوالے سے اقدامات کا لائحہ عمل بھی پیش کیا جائے۔

 منافع بخش فصلوں کی کاشت اور پاکستان کو غذائی تحفظ کے حوالے سے خود کفیل بنانے کے لیے کسانوں کو ہر قسم کی رہنمائی فراہم کرنے کے اقدامات کیے جائیں،کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تجاویز کے لیے مشاورتی عمل کو یقینی بنایا جائے،زرعی شعبے کی ترقی کے لیے صوبائی حکومتوں سے روابط و تعاون مزید مربوط بنایا جائے، موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچاؤ کے لیے کلائیمیٹ رزسسٹینٹ بیج اور زراعت کے جدید طریقہ کار اپنانے میں کسانوں کی معاونت کی جائے، بارشوں اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش نظر نئے موزوں علاقوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں کپاس کی کاشتکاری کے لیے صوبائی حکومت سے تفصیلی مشاورت کے بعد جامع منصوبہ بندی کی جائے، نباتاتی ایندھن کو ملک کے انرجی مکس میں شامل کرنے کے لیے تحقیق اور منصوبہ بندی کی جائے اور زرعی شعبے میں مزید اصلاحات کے لیے جامع لائحہ عمل جلد پیش کیا جائے۔

پاکستان میں زرعی اور صنعتی ترجیحات کا تعین کرتے وقت کئی اہم پہلو نظر انداز ہوئے ہیں‘ صنعتی ترقی کسی ملک کی ترقی میں ایک اہم عنصر ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ کونسی صنعت کم لاگت سے پروان چڑھ سکتی ہے‘اس کا خام مال کتنا آسانی کے ساتھ مل سکتا ہے‘ ٹیکنالوجی پر کتنا خرچ آئے گا اور اس کے بعد جو پروڈکٹ تیار ہوگی مقامی مارکیٹ میں کتنی مقدار میں جائے گی اور کس قیمت پر فروخت ہو گی۔

مثال کے طور پر شوگر انڈسٹری کو لے لیں۔اس انڈسٹری کی جتنی سرپرستی کی گئی‘اس کے بدلے میں عوام کو فوائد کم ملے ہیں‘بلاشبہ انڈسٹری میں روز گار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں لیکن پیداواری اعتبار سے یہ عوام کے لیے مہنگی ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ روز نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار کی زیرصدارت چینی کی صورتحال اور ضروریات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی کے اجلاس میں چینی کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دی گئی۔یہ منظوری اس لیے دی گئی کہ مارکیٹ میں چینی کی فی کلو گرام قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

نائب وزیر اعظم نے چینی کی قیمتوں میں استحکام اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت کے عزم کا اظہار کیا۔لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جب چینی کی قلت ہو سکتی تھی تو پھر چینی برآمد کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ‘اس سوال کا جواب اس ملک کے باشعور حلقے بخوبی جانتے ہیں لیکن پاکستان میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کا کوئی فعال میکنزم موجود نہیں ہے‘ اس لیے عوام چپ چاپ مہنگائی برداشت کرتے رہتے ہیں۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ کورونا وبا کے بعد پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر آئی اور یہ اب تک برقرار ہے۔ پسماندہ ممالک کی حکومتوں کے لیے مہنگائی پر قابو پانا ایک مسلسل چیلنج ہے، ان ممالک میں خوراک، توانائی اور درآمدات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ براہ راست عوام پر اثر انداز ہوتا ہے۔پاکستان میں مہنگائی کی بلندشرح کے پیش نظر اقتصادی ماہرین سخت مالی نظم و ضبط اور پالیسی اصلاحات پر زور دے رہے ہیں۔سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کے کئی ممالک سے کم ہے،یہ بات اعدادوشمار کی حد تک درست ہو سکتی ہے لیکن گراس روٹ لیول پر اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا رجحان نہیں ہے۔

گوصورت حال کسی حد تک مستحکم ہے لیکن مہنگائی میں جتنی کمی ہونی چاہیے اتنی ہے نہیں۔ خاص طور پر ادویات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں‘حکومت نے اس کے لیے سرکاری اسپتالوں میںادویات کا بندوبست کر رکھا ہے لیکن سرکاری اسپتالوں میںاکثر اوقات دوائیاں موجود نہیں ہوتیں۔اسی طرح میڈیکل ٹیسٹ لیبارٹریز کی فیسیں بھی بہت زیادہ ہیں۔نجی اسپتالوں میں علاج بہت مہنگا ہے۔نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں بھی بہت زیادہ ہیں۔یہ ایسے معاملات ہیں جن پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات اچھے بنائے ہیں جس سے معیشت کی میکرو اکنامک بنیادیں مضبوط ہوئیں۔ کوئی منی بجٹ بھی نہیں آیا اور نہ ہی مالیاتی اہداف سے انحراف کیا گیا۔

یعنی حکومت کی مالی حکمت عملی موثر رہی ہے۔ مالی سال 2025میں سب سے نمایاں پیش رفت کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی صورت میں دیکھنے کو ملی، لیکن دوسری جانب عوام پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں اضافہ کردیا ہے ۔یوں عوام پر خاصا بوجھ پڑا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہمیشہ سے مہنگائی کو بڑھاوا دینے کا باعث ہوتا ہے۔ پاکستان کا کاروباری طبقہ بھی کاروباری اخلاقیات پر عمل نہیں کرتا۔وہ جس شرح سے ٹیکس میں اضافہ ہوتا ہے یا توانائی کے ذرایع کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘کاروباری طبقہ اس کے مطابق اپنی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین نہیں کرتا۔اسی طرح ریٹیلر بھی اپنے منافع کی شرح بڑھا دیتا ہے۔

اشیائے خورونوش مہنگی ہو جاتی ہیں، چھوٹے کاروبار دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ایک عام مزدور یا تنخواہ دار طبقہ اپنے اخراجات پورے کرنے میں بے بس ہو جاتا ہے۔ ڈیزل اور پٹرول مہنگے ہوتے ہیں تو مال بردار گاڑیوں، بسوں، ویگنوں اور رکشوں کے کرائے بڑھا دیے جاتے ہیں۔ تاجر کہتا ہے کہ اس کے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں،وہ اپنی چیز کی قیمت بڑھا دیتا ہے۔ جو بالآخر صارف کو اپنی جیب سے برداشت کرنا پڑتا ہے، آٹے، چینی، دال، سبزی، گوشت، دودھ، انڈے حتیٰ کہ ہر چھوٹی بڑی شے کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں۔

یہ صورتحال متوسط اور غریب طبقے کی مالی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہے، ان طبقات کی ماہانہ آمدنی پہلے ہی محدود ہوتی ہے۔اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے سے ان طبقوں کا ماہانہ بجٹ ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔ یوں ایک منحوس چکر چلتا رہتا ہے جس میں متوسط اور غریب طبقات گھومتے رہتے ہیں۔

حکومتوں کا کام معیشت کے تمام شعبوں کا تفصیلی جائزہ لینا ہوتا ہے‘ اسی طرح ملک کے اندر موجود تمام طبقوں کی آمدنی کی شرح کا بھی جائزہ لینا ہوتا ہے۔ یہ جائزہ لے کر ہی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ معاشی پالیسیوں کا مقصد کسی ملک میں طبقاتی ہم آہنگی اور استحکام کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی قیمتوں میں پاکستان میں مصنوعات کی بنایا جائے لائحہ عمل میں اضافہ اور زرعی کیا جائے ترقی کے کے ساتھ کی ترقی ہوتا ہے چینی کی ہے لیکن کے بعد پیش کی کے لیے

پڑھیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں

دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔

رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔

دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:

پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔

دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔

پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔

یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔

ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔

یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔

اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔

چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔

نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔

یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:

قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راحیل نواز سواتی

متعلقہ مضامین

  • ایس آئی ایف سی کے اقدامات سے کان کنی شعبے کی ترقی اورسرمایہ کاری میں اضافہ
  • ایس ائی ایف سی کے اقدامات سے کان کنی شعبے کی ترقی اورسرمایہ کاری میں اضافہ
  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصداضافہ
  • معیشت کی مضبوطی کےلیے ڈیجیٹائزیشن ناگزیر ہے،وزیراعظم شہباز شریف
  • وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیر ضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت
  • وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیرضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت
  • شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
  • سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار
  • قدرتی وسائل اور توانائی سمٹ 2025 میں پاکستان کی صلاحیت اجاگر کیا جائے گا