جنین کی مہین سرگوشیوں بھری جنبشیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
انسانی زندگی کی ابتداء اور ارتقاء کو لے کر سائنسدان اور محقق ہمیشہ سے متجسس رہے ہیں۔
کیسے شکم ِ مادہ میں ایک بچہ تخلیق کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور اس کا کیا نظام ہوتا ہے،ایسے موضوعات نے سائنسی تحقیق میں ہمیشہ الگ مقام پایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے اس کے نئے راز افشاں ہو رہے ہیں۔
تمام جانداروں کی طرح، ہر انسان ایک ہی خلیے سے پیدا ہوتا ہے جو کہ بے شمار سیلز کی تقسیم اور ضرب کھاتے ہوئے ایک نیا خلیہ ترتیب دیتے ہیں۔ بلکل اسی طرح جنین(embryo) کی شکل اختیار کرنے کے ساتھ ہی ہزاروں خلیے ایک دوسرے پر مکینیکل قوتوں کو مربوط کرتے، حرکت دیتے اور استعمال کرتے ہیں۔
کچھ یونیورسٹیوں اور بیالوجی کے محققین نے اب ایک نیاانکشاف کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے جنین کے خلیات اپنے رویے کو مربوط کرتے ہیں۔ اس میں مالیکیولر میکانزم شامل ہوتا ہے جو پہلے صرف سماعت کے عمل کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مختلف خلیے ایک ہی پروٹین کو دو ایسے مختلف افعال کے لیے استعمال کرتے ہیں جو ان کی ارتقاء کا بنیادی عنصر ہے۔
بین الضابطہ تحقیقی ٹیم نے سیل کمیونیکیشن میں حیران کن دریافت کرنے کے لیے سائنس کی مختلف شاخوں سے بنیادی اصول اور طریقوں کو استعمال کیا جس میں جینیات، نفسیات، اور سماعت کی تحقیق کے ساتھ نظریاتی طبیعیات کے طریقوں کا ایک غیر معمولی امتزاج شامل تھا۔ انھوں نے تحقیق کے نتیجے میں یہ جانا کہ جلد کی پتلی تہوں میں، خلیے اپنے پڑوسی خلیوں کی حرکات کو رجسٹر کرتے ہیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی حرکتوں کو دوسروں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔
اس طرح پڑوسی خلیوں کے گروپ زیادہ طاقت کے ساتھ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ کھینچتے ہیں۔ اپنی اعلیٰ حساسیت کی بدولت، خلیے بہت تیزی اور لچکدار طریقے سے مربوط ہوتے ہیں کیونکہ یہ لطیف قوتیں جنین کے بافتوں میں سفر کرنے والے تیز ترین سگنلز ہوتے ہیں۔ایسی صورت میں جب خلیات جینیاتی طور پر ایک دوسرے کو "سننے" کی صلاحیت سے محروم تھے، تو پورے ٹشو بدل گئے، جن سے جنین کی ترقی میں تاخیر ہوئی یا مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔
محققین نے سیلولر کوآرڈینیشن کو ٹشو کے کمپیوٹر ماڈلز میں ضم کیا۔ ان ماڈلز نے ظاہر کیا کہ پڑوسی خلیات کے درمیان "سرگوشی" پورے ٹشو کی ایک جڑی ہوئی کوریوگرافی کی طرف لے جاتی ہے اور اسے بیرونی قوتوں سے بچاتی ہے۔
دونوں اثرات کی تصدیق جنین کی نشوونما کی ویڈیو ریکارڈنگ اور مزید تجربات سے ہوئی۔ تحقیق میں شریک ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ، "AI کے طریقوں اور کمپیوٹر کی مدد سے تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے اس میدان میں پہلے کے مقابلے میں تقریباً سو گنا زیادہ سیلز کے جوڑوں کی جانچ کی جس میں کامیاب ہوئے۔ایک بڑے پیمانے پر ڈیٹا اپروچ نتائج کو خلیات کے درمیان ان نازک تعاملات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے درکار اعلیٰ سطح کی درستگی فراہم کرسکتی ہے۔
میکانزم سے یہ بات سامنے آئی کہ جنین کی نشوونما میں سماعت کے عمل کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت تو پہلے سے ہی معلوم تھی۔ جیسے مثال کے طور پر، جب بہت پرسکون آوازیں سنائی دیتی ہیں، تو کان کے بالوں کے خلیے، جو آواز کی لہروں کو اعصابی اشاروں میں تبدیل کرتے ہیں، چھوٹی میکانکی حرکات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ سماعت کی دہلیز پر، سیل پروٹریشنز(آگے کو نکلا ہوا حصہ، ابھار) صرف چند ایٹم قطر کے فاصلے پر جھک جاتے ہیں۔ کان خاص پروٹین کی وجہ سے بہت حساس ہوتا ہے جو مکینیکل قوتوں کو برقی کرنٹ میں بدل دیتا ہے۔
اب تک، تقریباً کسی کو شک نہیں تھا کہ طاقت کے اس طرح کے سینسر بھی جنین کی نشوونما میں اہم کردار ادا سکتے ہیں۔ اصولی طور پر، یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ جسم کا ہر خلیہ تمام پروٹینز کے لیے جینیاتی بلیو پرنٹ رکھتا ہے اور ضرورت کے مطابق انہیں استعمال کر سکتا ہے، یہ رجحان اس بات کی بصیرت بھی فراہم کرتا ہے کہ سیلولر سطح پر قوت کا تصور کیسے تیار ہوا ہے۔
ماہرین کے نزدیک قوت سے حساس پروٹینز کی ارتقاء اصل میں شاید ہمارے آباؤ اجداد والے واحد خلیے میں سے ہی ہے، جسے ہم فنگس کے ساتھ بانٹتے ہیں ۔ جس کا تصور حیوانی زندگی کی ابتدا سے بہت پہلے سے تھا۔لیکن یہ صرف پہلے جانوروں کے ارتقاء کے ساتھ ہی تھا کہ اس پروٹین کی قسم کا موجودہ تنوع سامنے آیا۔ مستقبل میںہونے والی مزید تحقیقات میں ہوسکتا ہے کہ یہ تعین کیا جاسکے کہ آیا ان سیلولر "نانوماشینز" کا اصل کام جسم کے اندر قوتوں کو محسوس کرنا ہے یا سماعت کی صورت میںبیرونی دنیا کو محسوس کرنا۔
سائنس دانوں نے اس تحقیق میں یہ جانا ہے کہ ایمبریو (جنین) کی جلد کے خلیے "سرگوشی" کرتے ہیں، اور مہین جنبشوں کے ذریعے وہی قوت محسوس کرنے والے پروٹین کا استعمال کرتے ہیں جو ہمارے کانوں کو انتہائی حساس بناتے ہیں۔ یہ وہی پروٹینز ہیں جو ہماری قوت سماعت کو غیر معمولی صلاحیتں عطا کرتی ہیں۔ ان مہین حرکتوں اور جنبشوں کی بنیاد پر جنین اپنی صورت گری کرتا ہے۔
اس تحقیق میںAI سے چلنے والی امیجنگ اور کمپیوٹر ماڈلز کی مدد لی گئی ۔۔ خلیات میں اگر آپس میں یہ سرگوشیوں کا سلسلہ کسی بھی وجہ سے رک جائے تو یہ نشوونما کے سلسلے کو بھی متاثر کرتا ہے اور جنین کا ماںکی کوکھ میں تشکیل پانا مکمنہ خدشات کی نذر ہو جاتا ہے ۔ دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ ایمبریوز اپنے آپ کو مہین جنبشوںکی صورت ترتیب دیتے ہیں۔جو بلکل اسی اصول پہ ہوتی ہے جس میں سینسر سماعت کے لئے پڑوسی خلیوں کو ایک جیسے انداز میں جنبش دے کر حرکت کرنے دیتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: استعمال کر کرتے ہیں ہوتا ہے کے ساتھ جنین کی ہے اور کے لیے ہیں جو
پڑھیں:
اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”
اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”
یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟
یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔
یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔