Express News:
2025-07-25@15:02:02 GMT

خواتین ’’بیعت النساء‘‘ پر عمل کیوں نہیں کررہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

کسی کو اپنا  مکمل رہبر و رہنما ماننے اور اس کے کہنے پر عمل کرنے کا عہد بیعت کہلاتا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر اور اس کے بعد بھی اسلام کے دائرہ میں داخل ہونے کےلیے جب  خواتین رسول اللہ کی بارگاہ میں بیعت کےلیے آئیں تو ان کےلیے قرآن کریم میں یہ احکامات نازل ہوئے۔

ارشاد ربانی ہے ’’اے نبی جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کےلیے آئیں تو اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کس چیز کو شریک نہیں کریں گی، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑکر نہ لائیں گی اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو۔ یقیناً اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘ (الممتحنہ،12)

یہ وہ شرائط ہیں جو کہ اللہ رب العزت کی طرف سے رسول اللہ پر اتاریں گئیں تاکہ ان شرائط کی بنیاد پر ہی خواتین اسلام کے دائرہ میں داخل ہوں۔ یہ بیعت ’’بیعۃ النساء‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

کچھ اور شرائط جو احادیث (وحی الہیٰ کی ہی دوسری صورت ہے) میں مذکور ہیں کہ رسول اللہؐ خواتین سے بیعت لیتے ہوئے یہ بھی فرماتے کہ  ’’میت پر نوحہ اور واویلا نہ کریں گی، شوہر کی نافرمانی نہیں کریں گی، نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات نہ کریں گی اور جاہلیت کے بناؤ سنگھار کرکے اپنی نمائش نہیں کریں گی‘‘ (مسند احمد)

یہ وہ ارکان عہد ہیں جن میں سے ہر رکن کی مکمل پاسداری لازمی شرط ہے۔ مراد ہم مسلمان خواتین ان شرائط کے ساتھ رسول اللہؐ کے ہاتھ پر بیعت ہیں، ان میں سے ایک رکن کو منسوخ کرنا گویا بیعت سے نکل جانا ہے۔

ذرا غور سے دیکھا جائے تو یہ وہ شرائط ہیں جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد  کسی نہ کسی طرح دور جاہلیت میں بھی ملوث تھیں اور آج کے دور میں بھی ہیں۔ سب سے پہلی شرط اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔ اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو آج بھی خواتین بڑی تعداد میں اس کبیرہ گناہ میں نہ صرف خود شامل ہیں بلکہ بہت سے مردوں کو بھی شامل کرنے میں ملوث ہیں۔ خواتین چونکہ جذباتی اور حساس طبیعت کی ملک ہوتی ہیں اس لیے وہ بہت جلد ماحول کا اثر قبول کرتی ہیں اور اس اثر کی وجہ سے اپنی خواہشات کی تکمیل میں اللہ کے ساتھ شریک بنانے والے کبیرہ گناہ میں بہت جلد شامل ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ وہی ذات واحد ہے جس کے قبضہ قدرت میں سب ہے۔ کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کی ذات صفات اور قدرت میں کسی کو شامل کیا جاسکے۔ یہی ایمان کی مضبوطی ہے جو ایک سچا مسلمان ہونے کی بنیادی دلیل ہے اور جب بنیاد ہی کمزور ہو تو اس پر تعمیر عمارت کی کیا گارنٹی ہے؟

پھر فرمان باری ہے کہ چوری، زنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ چوری، زنا، قتل، یہ وہ قبیح جرائم ہیں جو کہ حدود اللہ میں شامل ہیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کےلیے عبرت ناک سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ لیکن جب رسول اللہ سے کنجوس شوہر کے مال سے کچھ چرانے کے بارے میں پوچھا  گیا تو رحمۃ اللعالمین کی طرف سے اس کی یہ وضاحت ملی کہ صرف اتنا ہی لو جو کہ فی الواقع جائز ضرورت کےلیے کافی ہو۔ بدکاری سے اپنے دامن کو بچا کر رکھنا اور پھر اپنی اولاد کو قتل نہ کرنے پر عہد لیا۔ اس میں اسقاط حمل کے علاوہ پیدائش کے بعد کی اولاد بھی شامل ہے۔ بھوک و افلاس کے ڈر سے اولاد کو ختم کردینا اور خاص کر بچیوں کے حق میں کہ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو قتل کردیا جاتا تھا سب کو مکمل حرام ٹھہرا دیا گیا۔ اولاد اللہ کی طرف سے والدین کےلیے ایک امانت ہوتی ہے۔ والدین کو اس امانت کا امین بنایا جاتا ہے۔ لہٰذا اس امانت میں کسی طرح سے بھی خیانت کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔

اپنے ہاتھ اور پاؤں سے بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی۔ ہاتھ سے بہتان گھڑنے کے بارے میں مفسرین کی اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی عورت دوسری عورت پر غیر مردوں سے آشنائی کی تہمتیں لگائےاور اس طرح کی بدکاری کے قصے لوگوں میں پھیلائے۔ کیونکہ عورتوں میں خاص طور پر ان باتوں کے چرچے کرنے کی بیماری پائی جاتی ہے۔ پاؤں سے بہتان گھڑنا مراد عورت ایسا  بچہ اپنے شوہر کے ساتھ منسوب کرے جو کہ اس کے شوہر کا ہے ہی نہیں۔ 
حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’جو عورت کسی خاندان میں ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے تو اس کا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں، اور اللہ اسے کبھی جنت میں داخل نہیں کرے گا‘‘ (سنن ابی داؤد) یہ وہ راز ہے جس کو  عموماً کرنے والی عورت  کے سوا کوئی اور نہیں جان سکتا۔ لہٰذا اس خفیہ جرم پر بھی عورت سے عہد لیا گیا ہے کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کرسکتی۔

پھر فرمان ہے کہ کسی امر معروف میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تمہاری نافرمانی نہ کریں، بلکہ یہ فرمایا کہ وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی تک کی اطاعت کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے تو پھر  غیر نبی یعنی کوئی بھی اور شخصیت کی اطاعت جو اللہ کی معصیت یعنی نافرمانی میں ہو، کیسے جائز ہے۔

آج ہم نے اپنے بہت سے رشتوں کی فرمانبرداری میں اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ رسول اللہؐ کا فرمان ہے، ’’یعنی جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے، اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کردیتا ہے‘‘۔ یہ ارشاد ان جاہلوں کے خیالات کی تردید کےلیے کافی ہے جو سمجھتے ہیں کہ کسی ہستی کی اطاعت مطلقاً غیر مشروط لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو رسول کی اطاعت پر بھی معروف کی قید لگادی، حالانکہ رسول کبھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ اس سے مقصود لوگوں کو خبردار کرنا ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں۔

پھر فرمان رسولؐ کے مطابق میتوں پر نوحہ کرنے سے سختی سے منع فرما دیا گیا ہے۔ ان نوحوں میں عورتیں ایسے ایسے کفریہ جملے بول جاتی ہیں کہ انہیں ان کی سنگینی کا خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ زندگی اور موت اللہ کی طرف سے ہے۔ موت پر صبر پر اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ شوہروں کی نافرمانی اور نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات کرنے سے منع کیا گیا۔ یہ وہ احتیاطیں ہیں جو کسی بھی خاندان کی مضبوطی کی لازمی دلیل ہیں۔ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کرکے اپنی نمائش کرنا عورت پر حرام ہے، کیونکہ عورت میں فطرتا ً نمودونمائش کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔

اس ’’بیعۃ النساء‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے آج کی مسلمان عورت کو سنجیدگی سے اپنے کردار کو دیکھنا ہوگا کہ وہ اس بیعت کی پاسداری میں کہاں کھڑی ہے، جو کہ اس نے اللہ کے حکم سے رسول اللہؐ سے کی۔ ان میں سے ایک شرط کا بھی مفقود ہونا اسے اس عہد سے محروم کرسکتا ہے جس کی بنا پر اس سے مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں کریں گی نافرمانی نہ اللہ تعالی نہ کریں گی رسول اللہ کی طرف سے اولاد کو کی اطاعت اللہ کی اللہ کے کے ساتھ کو قتل اور اس

پڑھیں:

معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!

بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر  انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔

کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟

کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔

کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟

اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟

یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !

بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔

قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔

تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔

نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟

یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راؤ علی

بلوچستان کوئٹہ لڑکیاں

متعلقہ مضامین

  • سانحہ بابوسر ٹاپ: ’بیٹا، بھائی، اہلیہ سب کھو دیے، مگر حوصلہ چٹان سے کم نہیں‘
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • مارشل آرٹ میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی کوئٹہ کی باہمت خواتین
  • ایئرپورٹ پر کپڑے اتروا کر طبی معائنہ؛ آسٹریلوی خواتین کی مقدمے میں کامیابی
  • صوبہ دہشتگردوں کے حوالے کرنے والی حکومت کی اے پی سی میں شرکت کیوں کریں؟گورنر خیبرپختونخوا
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 
  • عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
  • ہم اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں، ایرانی صدر