Express News:
2025-11-05@04:34:35 GMT

خواتین ’’بیعت النساء‘‘ پر عمل کیوں نہیں کررہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)

کسی کو اپنا  مکمل رہبر و رہنما ماننے اور اس کے کہنے پر عمل کرنے کا عہد بیعت کہلاتا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر اور اس کے بعد بھی اسلام کے دائرہ میں داخل ہونے کےلیے جب  خواتین رسول اللہ کی بارگاہ میں بیعت کےلیے آئیں تو ان کےلیے قرآن کریم میں یہ احکامات نازل ہوئے۔

ارشاد ربانی ہے ’’اے نبی جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کےلیے آئیں تو اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کس چیز کو شریک نہیں کریں گی، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑکر نہ لائیں گی اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو۔ یقیناً اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘ (الممتحنہ،12)

یہ وہ شرائط ہیں جو کہ اللہ رب العزت کی طرف سے رسول اللہ پر اتاریں گئیں تاکہ ان شرائط کی بنیاد پر ہی خواتین اسلام کے دائرہ میں داخل ہوں۔ یہ بیعت ’’بیعۃ النساء‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

کچھ اور شرائط جو احادیث (وحی الہیٰ کی ہی دوسری صورت ہے) میں مذکور ہیں کہ رسول اللہؐ خواتین سے بیعت لیتے ہوئے یہ بھی فرماتے کہ  ’’میت پر نوحہ اور واویلا نہ کریں گی، شوہر کی نافرمانی نہیں کریں گی، نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات نہ کریں گی اور جاہلیت کے بناؤ سنگھار کرکے اپنی نمائش نہیں کریں گی‘‘ (مسند احمد)

یہ وہ ارکان عہد ہیں جن میں سے ہر رکن کی مکمل پاسداری لازمی شرط ہے۔ مراد ہم مسلمان خواتین ان شرائط کے ساتھ رسول اللہؐ کے ہاتھ پر بیعت ہیں، ان میں سے ایک رکن کو منسوخ کرنا گویا بیعت سے نکل جانا ہے۔

ذرا غور سے دیکھا جائے تو یہ وہ شرائط ہیں جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد  کسی نہ کسی طرح دور جاہلیت میں بھی ملوث تھیں اور آج کے دور میں بھی ہیں۔ سب سے پہلی شرط اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔ اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو آج بھی خواتین بڑی تعداد میں اس کبیرہ گناہ میں نہ صرف خود شامل ہیں بلکہ بہت سے مردوں کو بھی شامل کرنے میں ملوث ہیں۔ خواتین چونکہ جذباتی اور حساس طبیعت کی ملک ہوتی ہیں اس لیے وہ بہت جلد ماحول کا اثر قبول کرتی ہیں اور اس اثر کی وجہ سے اپنی خواہشات کی تکمیل میں اللہ کے ساتھ شریک بنانے والے کبیرہ گناہ میں بہت جلد شامل ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ وہی ذات واحد ہے جس کے قبضہ قدرت میں سب ہے۔ کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کی ذات صفات اور قدرت میں کسی کو شامل کیا جاسکے۔ یہی ایمان کی مضبوطی ہے جو ایک سچا مسلمان ہونے کی بنیادی دلیل ہے اور جب بنیاد ہی کمزور ہو تو اس پر تعمیر عمارت کی کیا گارنٹی ہے؟

پھر فرمان باری ہے کہ چوری، زنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ چوری، زنا، قتل، یہ وہ قبیح جرائم ہیں جو کہ حدود اللہ میں شامل ہیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کےلیے عبرت ناک سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ لیکن جب رسول اللہ سے کنجوس شوہر کے مال سے کچھ چرانے کے بارے میں پوچھا  گیا تو رحمۃ اللعالمین کی طرف سے اس کی یہ وضاحت ملی کہ صرف اتنا ہی لو جو کہ فی الواقع جائز ضرورت کےلیے کافی ہو۔ بدکاری سے اپنے دامن کو بچا کر رکھنا اور پھر اپنی اولاد کو قتل نہ کرنے پر عہد لیا۔ اس میں اسقاط حمل کے علاوہ پیدائش کے بعد کی اولاد بھی شامل ہے۔ بھوک و افلاس کے ڈر سے اولاد کو ختم کردینا اور خاص کر بچیوں کے حق میں کہ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو قتل کردیا جاتا تھا سب کو مکمل حرام ٹھہرا دیا گیا۔ اولاد اللہ کی طرف سے والدین کےلیے ایک امانت ہوتی ہے۔ والدین کو اس امانت کا امین بنایا جاتا ہے۔ لہٰذا اس امانت میں کسی طرح سے بھی خیانت کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔

اپنے ہاتھ اور پاؤں سے بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی۔ ہاتھ سے بہتان گھڑنے کے بارے میں مفسرین کی اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی عورت دوسری عورت پر غیر مردوں سے آشنائی کی تہمتیں لگائےاور اس طرح کی بدکاری کے قصے لوگوں میں پھیلائے۔ کیونکہ عورتوں میں خاص طور پر ان باتوں کے چرچے کرنے کی بیماری پائی جاتی ہے۔ پاؤں سے بہتان گھڑنا مراد عورت ایسا  بچہ اپنے شوہر کے ساتھ منسوب کرے جو کہ اس کے شوہر کا ہے ہی نہیں۔ 
حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’جو عورت کسی خاندان میں ایسا بچہ گھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے تو اس کا اللہ سے کوئی واسطہ نہیں، اور اللہ اسے کبھی جنت میں داخل نہیں کرے گا‘‘ (سنن ابی داؤد) یہ وہ راز ہے جس کو  عموماً کرنے والی عورت  کے سوا کوئی اور نہیں جان سکتا۔ لہٰذا اس خفیہ جرم پر بھی عورت سے عہد لیا گیا ہے کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کرسکتی۔

پھر فرمان ہے کہ کسی امر معروف میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تمہاری نافرمانی نہ کریں، بلکہ یہ فرمایا کہ وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی تک کی اطاعت کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے تو پھر  غیر نبی یعنی کوئی بھی اور شخصیت کی اطاعت جو اللہ کی معصیت یعنی نافرمانی میں ہو، کیسے جائز ہے۔

آج ہم نے اپنے بہت سے رشتوں کی فرمانبرداری میں اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ رسول اللہؐ کا فرمان ہے، ’’یعنی جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے، اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کردیتا ہے‘‘۔ یہ ارشاد ان جاہلوں کے خیالات کی تردید کےلیے کافی ہے جو سمجھتے ہیں کہ کسی ہستی کی اطاعت مطلقاً غیر مشروط لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو رسول کی اطاعت پر بھی معروف کی قید لگادی، حالانکہ رسول کبھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ اس سے مقصود لوگوں کو خبردار کرنا ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں۔

پھر فرمان رسولؐ کے مطابق میتوں پر نوحہ کرنے سے سختی سے منع فرما دیا گیا ہے۔ ان نوحوں میں عورتیں ایسے ایسے کفریہ جملے بول جاتی ہیں کہ انہیں ان کی سنگینی کا خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ زندگی اور موت اللہ کی طرف سے ہے۔ موت پر صبر پر اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ شوہروں کی نافرمانی اور نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات کرنے سے منع کیا گیا۔ یہ وہ احتیاطیں ہیں جو کسی بھی خاندان کی مضبوطی کی لازمی دلیل ہیں۔ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کرکے اپنی نمائش کرنا عورت پر حرام ہے، کیونکہ عورت میں فطرتا ً نمودونمائش کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔

اس ’’بیعۃ النساء‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے آج کی مسلمان عورت کو سنجیدگی سے اپنے کردار کو دیکھنا ہوگا کہ وہ اس بیعت کی پاسداری میں کہاں کھڑی ہے، جو کہ اس نے اللہ کے حکم سے رسول اللہؐ سے کی۔ ان میں سے ایک شرط کا بھی مفقود ہونا اسے اس عہد سے محروم کرسکتا ہے جس کی بنا پر اس سے مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں کریں گی نافرمانی نہ اللہ تعالی نہ کریں گی رسول اللہ کی طرف سے اولاد کو کی اطاعت اللہ کی اللہ کے کے ساتھ کو قتل اور اس

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ
  • لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا
  • 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے: رانا ثنا
  • شاہ رخ خان نے شوبز کیریئر کے آغاز میں فلموں میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟
  • مرزا رسول جوہؔر کی یاد میں
  • عاشقان رسولﷺ کو غازی علم دین کے راستے کو اپنانا ہوگا، مفتی طاہر مکی
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟