Express News:
2025-10-08@13:49:21 GMT

خواجہ شمس الدین عظیمی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

ممتاز عالم دین، دانشور، محقق، مصنف اور سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی جمعے کے دن 98 سال کی عمر میں کراچی میں رحلت فرما گئے۔ عظیمی صاحب ایک روایتی بزرگ یا پیر نہیں تھے بلکہ انھوں نے روحانیت کو سائنسی اور جدید انداز میں پیش کر کے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔

خواجہ صاحب ماہنامہ ’’روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل‘‘ اور میگزین ’’قلندر شعور‘‘ کے بانی چیف ایڈیٹر تھے۔اپ کا معروف کالم ’’روحانی ڈاک‘‘ اپنے دور کی ایک تاریخی دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ اس کالم کے ذریعے اپ نے لاکھوں افراد کے سماجی، نفسیاتی اور روحانی مسائل کے حل تجویز کیے۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا اور ان میں روحانیت کے حقیقی مفہوم کو اجاگر کیا۔

آپ 17 اکتوبر 1927 کو ہندوستان کے شہر سہارن یور میں پیدا ہوئے ،آپ کا تعلق حضرت ابو ایوب انصاری کی نسل سے ہے۔ آپ نے روحانیت کی تعلیم اپنے عظیم استاد حضرت قلندر بابا اولیاء سے حاصل کی۔

خواجہ شمس الدین عظیمی کو ان کے منفرد طرز تحریر کی وجہ سے بھی شہرت حاصل رہی ہے۔آپ نے 50 سے زائد کتابیں اور 100 سے زائد رسائل اور مضامین تحریر کیے جو ماورائی علوم کے تقریبا ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہیں۔

اپ کی بیشتر کتابوں کا ترجمہ انگریزی،عربی فارسی،روسی، تھائی، پشتو اور سندھی اور کئی دوسری زبانوں میں کیا جا چکا ہے۔ روحانیت کے حوالے سے آپ کی تشریحات سے پہلے روحانیت کو ایک پراسرار اور مشکل موضوع سمجھا جاتا تھا لیکن عظیمی صاحب نے اسے ایک سادہ سائنسی اور قابل فہم انداز میں لوگوں تک پہنچایا۔

ان کا کہنا تھا کہ روحانیت کی تعلیم انسان کو اپنی ذات اور اپنے خالق کے قریب لے آتی ہے۔انھوں نے روحانی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مختلف ادارے قائم کیے جن میں قلندر شعور اکیڈمی اور مراقبہ حال کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

عظیمی صاحب نے روحانی تربیت کے لیے مراقبہ ہالز کو ایک ادارے کے طور پر قائم کیا اور اس کے نیٹ ورک کو دنیا بھر میں وسیع تر بنایا۔آپ نے امریکا یورپ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں منعقد پروگراموں میں شرکت کی اور وہاں کے لوگوں کو روحانی تعلیمات سے روشناس کرایا، آپ کی تقریریں کتابیں اور ورکشاپس عالمی سطح پر ایک وسیع اثر پیدا کرنے کا سبب بنی۔

نئی نسل کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے عظیمی صاحب نے پاکستان بھر میں 60 سے زیادہ مراقبہ حال قائم کیے جب کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اسی طرح کے 26 مراکز قائم کیے گئے جن میں 13 مراکز یورپی ممالک میں اور چار امریکا میں ہیں۔ ان کے علاوہ کینیڈا، متحدہ عرب امارات، بحرین، تھائی لینڈ، روس ڈنمارک، ہالینڈ اور ناروے میں بھی روحانی مراکز قائم کیے۔

عظیمی صاحب نے روحانی علوم پر کتب ہی نہیں لکھی بلکہ انھیں ایک مکمل نصاب کی شکل دی۔عظیمی صاحب نے تعلیمی میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اپ نے عظیمی پبلک اسکول قائم کیا جو کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے خاندان کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔

ان کی کتابیں جن میں ’’احسان و تصوف‘‘ اور ’’ایک سو ایک اولیاء اﷲ خواتین‘‘ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ روحانیت ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کی فلاح کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا پیشتر حصہ روحانی علوم کی تدریس تحقیق اور اس کے فروغ کے لیے واقف رکھا۔

نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لیے آپ کا کتابچہ ’’روحانی نماز‘‘ اور روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے آپ کی کتابیں ’’روحانی علاج‘‘ اور ’’رنگ و روشنی سے علاج‘‘ یعنی Colour Therapy منفرد حیثیت کی مالک ہیں۔ عظیمی صاحب پر کولمبو انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکالر نے پی ایچ ڈی بھی کی، اس کے علاوہ دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ پر تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر تین جلدوں پر مشتمل ایک شاندار کتاب تصنیف کی۔

ایک تحقیق کے مطابق عظیمی صاحب کی تعلیمات اور تربیت کا اہم مقصد انسان کے طرز فکر کو مثبت بنانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کا طرز فکر مثبت نہ ہوگا، آپ نہ تو زندگی میں سکون حاصل کر سکتے ہیں اور نہ فلاح انسانیت کے لیے کوئی کام دلجمی سے کر سکتے ہیں۔ آپ کی علمی اور روحانی خدمات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ آپ کی کئی کتابیں مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔آپ کو کئی یونیورسٹیوں نے اعزازی پروفیسر کا درجہ دے رکھا تھا۔آپ کی پوری زندگی ایک مشن کے طور پر دنیا کے سامنے ائی۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئی

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پناہ ہو گئی

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کیے دنیا بھر

پڑھیں:

26 ویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین

سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین  نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر براہ راست سماعت  جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہا ہے، سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ چھبیسیویں ترمیم رات کے وقت پارلیمنٹ میں لائی گئی۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ پہلے بینچ کی تشکیل پر معاونت کریں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اچھا ہوا یا برا، ان میرٹس کو ابھی رہنے دیں۔

حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ میں میرٹس پر نہیں جارہا، صرف کچھ حقائق بتارہا ہوں، ہم اس کیس کی فل کورٹ میں ہی سماعت چاہتے ہیں، فل کورٹ وہ والی جو 26ویں ترمیم کے وقت تھی، اس حساب سے سولہ رکنی بنچ بنے گا، موجودہ بینچ کے تمام ججز بھی اس وقت موجود تھے، استدعا ہے باقی اس وقت کے آٹھ ججزکو بھی شامل کیا جائے۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کیا آپ متفق ہیں اس وقت 26 ویں ترمیم کا حصہ ہے یا نہیں؟
حامد خان نے جواب دیا کہ اگر فل کورٹ اس ترمیم کو کالعدم قراردے تو یہ پہلے دن سے ختم تصور ہو گی۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ جب تک کالعدم ہو نہ جائے تب تک تو آئین کا حصہ ہے نا؟ اس وقت آپ دلائل اس ترمیم کو آئین کا حصہ مانتے ہوئے دیں گے، جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ اسی ترمیم کے تحت بنے بینچ کے سامنے آئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک اس ترمیم کو معطل نہیں کیا گیا۔

لاہور بار اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آگئے،  حامد خان ایڈوکیٹ نے فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل شروع کردئیے اور مؤقف اختیار کیا کہ  26ویں آئینی ترمیم غیر ضروری جلد بازی میں منظور کی گئی،  20 اکتوبر 2024 کی شام کو ترامیم پہلے سینٹ میں پیش ہوئیں،  20 اور 21 اکتوبر 2024 کی درمیانی شب ترامیم قومی اسمبلی میں پیش ہوئیں۔

جسٹس امین الدین خان  نے کہا کہ خان صاحب یہ تو بینچ کی تشکیل کے حوالے سے دلائل نہیں ہیں، آپ پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے جب مرکزی کیس سنیں گے تو تب آپ اس حوالے سے دلائل دیجئے گا۔

حامد خان  نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، ترامیم منظور ہونے کا طریقہ کار پر بات کرہا ہوں،  جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ  چلیں ہم ماں لیتے ہیں کہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے، آپ بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے۔

جسٹس امین الدین  نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین پر انحصار کرتےہیں، وکلاء بھی آئین پر انحصار کرتےہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت حلالی نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی، آپ چھبیسویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیاہے۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے حامدخان کو ہدایت دی کہ مرکزی کیس کو نہیں فی الحال سن رہے، فی الحال فُل کورٹ کہ درخواست پر دلائل دیں،وکیل حامدخان نے مؤقف اپنایا کہ  فی الحال بات نہیں کررہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے نکات کیسے آئین کے خلاف ہیں،
چھبیسویں آئینی ترمیم سے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتاہوں، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد بینچز بنانے کا اختیار چیف جسٹس سے پہلی بار واپس لےلیاگیاہے، چھبیسویں آئینی ترمیم میں بینچز بنانے کے طریقے کار کے حوالے سے بتایاگیاہے۔

وکیل حامدخان نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی جوڈیشل کمیشن موجود تھا،
چھبیسویں آئینی ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی فارمیشن پر اثر پڑا، چھبیسویں آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے۔

وکیل حامد خان نے جوڈیشل کمیشن کے اراکین کےحوالے سے عدالت کو آگاہ کیا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ  مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بنچ نے کیس سننا ہے،  ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ  جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں،  26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟ 

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ حامد خان صاحب مگر آپ نے اپنی استدعا میں یہ مانگا ہی نہیں،
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟ 

حامد خان نے استدلال کیا کہ جی بالکل آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے،جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ  فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے تمام سپریم کورٹ ججز کو آئینی بنچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ آئینی بنچ کا تصور آپ نے 26ویں ترمیم سے دیا ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہم نے نہیں دیا پارلیمان نے دیا ہم پر نہ ڈالیں،  حامد خان نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے آرٹیکل 191اے کو بھول جائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ  بھول جائیں تو پھرآئینی بینچ ہی ختم پھرہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم اسے بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا،  اگر اس آئینی بنچ کا وجود ختم ہوجائے تو پھر ہم آرڈر کیسے کر سکتے ہیں؟

گزشتہ روز آئینی بینچ نے فریقین کو سننے کے بعد کیس کی سماعت لائیو سٹریمنگ کا حکم دیا تھا، چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر پہلی سماعت 27 جنوری 2025 کو ہوئی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • "وزیراعلی کی پوزیشن عمران خان صاحب کی امانت تھی اور ان کے حکم کے مطابق ان کی امانت ان کو واپس کر کے اپنا استعفی دے رہا ہوں" علی امین گنڈا پور
  • 26 ویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین
  • چھبیسویں آئینی ترمیم کیس: آئین میں ترمیم ہونے تک موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا، جسٹس امین الدین
  • وزیراعظم بننا عمران خان کی سب سے بڑی غلطی تھی: عفت عمر
  • علامہ سید ہاشم رضا مجلس علماء مکتب اہلبیتؑ خیبر پختونخوا کے صدر منتخب
  • کیسز کی کھچڑی پکانے والے خود پھنس گئے, علیمہ خان
  • کیسز کی کھچڑی پکانے والے پھنس گئے، انھوں نے سمجھا تھا عمران خان گھبرا کر ڈیل کر لیں گے، علیمہ خان
  • منصورہ :فلوٹیلا سے واپس آنیوالے عزیز الدین کے اعزازمیں تقریب
  • ایلون مسک نے بھی مذہبی تبلیغ کا علم بلند کردیا، امریکیوں سے چرچ واپسی کی اپیل
  • 26ویںآئینی ترمیم سے متعلق درخواست کی سماعت کل ہوگی