ہم کون ہیں اور ہمیں کیا کرنا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
زندگی ایک راز ہے، ایک معمہ، ایک مسافرت، جو ہمیں ایک منزل کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہم آنکھ کھولتے ہیں،کچھ پل جیتے ہیں، خوشی اور غم کے تجربات سمیٹتے ہیں اور پھر ایک دن خاموشی سے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، لیکن دنیا میں آنے والا ہر انسان ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ ’’ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ کہاں جانا ہے؟‘‘ کیا زندگی صرف کمانے، کھانے، بچے پیدا کرنے اور ایک خاص وقت کے بعد دنیا سے چلے جانے کا نام ہے، یا اس سے بھی آگے کچھ ہے؟
یہ سوالات ہمیں اپنی حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور یہ سوالات ہر باشعور انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں اور جب تک ان کے جوابات نہ مل جائیں، زندگی بے معنی معلوم ہوتی ہے۔ انسان محض گوشت پوست کا بنا ہوا ایک جاندار نہیں، بلکہ ایک شعور رکھنے والی مخلوق ہے، جسے خالقِ کائنات نے کسی خاص مقصد کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے۔ یہ کائنات کوئی بے مقصد تماشا نہیں اور نہ ہی انسان کی تخلیق محض کھانے، پینے اور افزائشِ نسل کے لیے ہوئی ہے۔ انسان وہ مخلوق ہے جسے زمین پر خلافت عطا کی گئی، جو عقل، شعور، علم اور بصیرت سے آراستہ ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد بہت بڑا اور عظیم ہے۔
ہم صرف گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ نہیں، نہ ہی صرف ایک جسمانی مشین ہیں جو کھانے، سونے،کام کرنے اور مرنے کے لیے بنی ہو۔ ہمارے اندر ایک روح ہے، ایک شعور ہے، ایک احساس ہے، جو ہمیں کائنات کی دیگر مخلوقات سے ممتازکرتا ہے۔
ہماری شناخت کسی عارضی چیز میں محدود نہیں ہو سکتی۔ ہم اپنی قوم، زبان، رنگ، نسل، علاقے، یا خاندان سے پہچانے جا سکتے ہیں، لیکن ہماری اصل پہچان یہ نہیں۔ ہماری حقیقی شناخت ہمارے اعمال، ہماری سوچ اور ہمارے مقصد سے ہے۔ ہم وہی ہیں جو ہم سوچتے ہیں، ہم وہی ہیں، جو ہم کرتے ہیں۔
ہماری حقیقت یہ ہے کہ ہم امانت دار ہیں، جنھیں زمین پر ایک خاص ذمے داری سونپی گئی ہے۔ ہم مسافر ہیں، جنھیں ایک منزل کی طرف بڑھنا ہے۔ ہم خلیفہ ہیں، جنھیں دنیا میں نیکی، انصاف اور سچائی کو فروغ دینا ہے۔
زندگی کا مقصد صرف جینا، کھانا،کمانا اور مر جانا نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ زندگی ایک امتحان ہے، ایک موقع ہے، ایک موقع اپنے آپ کو ثابت کرنے کا اور اس کائنات میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا ہے۔
دنیا کی ہر چیز ایک خاص ترتیب کے تحت چل رہی ہے،کوئی چیز بے مقصد نہیں تو پھر انسان کیسے بے مقصد ہو سکتا ہے؟ ہم ایک مشن کے تحت دنیا میں آئے ہیں اور اگر ہم نے اپنی ذمے داریوں کو پہچان کر ان پر عمل کیا تو ہماری زندگی بامقصد بن سکتی ہے۔ انسان محض مٹی کا پتلا نہیں، نہ ہی ایک حیوان کی طرح صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آیا ہے۔
وہ شعور و ادراک، عقل و فہم اور جذبات و احساسات کا مجموعہ ہے۔ اس کے اندر سوچنے، پرکھنے، جانچنے اور فیصلہ کرنے کی طاقت ہے، جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ انسان اس دنیا میں اللہ کا نائب ہے اور اس کی ذمے داری ہے کہ وہ انصاف، علم، خیر اور بھلائی کا نظام قائم کرے۔
اگر دنیا میں ہمیں ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے تو ہماری کچھ ذمے داریاں بھی ہیں۔ سب سے پہلی ذمے داری اپنی پہچان کرنا ہے کہ ہم کون ہوں، ہماری صلاحیتیں کیا ہیں، ہماری کمزوریاں کیا ہیں اور ہم کس طرح ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی عقل، اپنے جذبات اور اپنے خیالات کو کسی بڑے مقصد کے لیے بروئے کار لانا چاہیے۔ ہم دنیا میں اکیلے نہیں، بلکہ ایک سماج کا حصہ ہیں۔
ہمارا جینا صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے بھی ہونا چاہیے، اگر ہماری زندگی کسی کے لیے آسانی، روشنی، یا خوشی کا سبب نہیں بن رہی تو ہم ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم دنیا میں ایک خالق کے حکم سے آئے ہیں، جو ہمیں تخلیق کرنے والا اور پالنے والا ہے۔ یہ زندگی آزمائش کے لیے ہے، جہاں ہمارے اعمال کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے اور ہمیں آخرت میں اس کا حساب دینا ہوگا۔
زندگی ایک امتحان ہے۔ ایک بڑی حکمت کے تحت انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فکری، سماجی، اخلاقی اور روحانی ذمے داریاں سونپی ہیں، تاکہ ہم اپنی ذات کی بہتری کے ساتھ ساتھ دنیا میں بہتری کے لیے بھی کام کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا یہاں آنا ایک مشن ہے اور ہمیں اس مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنی بہترین کوشش کرنا ہوگی۔ دنیا میں بہتری لانا ہمارا فرض ہے اور خاص طور پر باشعور اور باصلاحیت انسانوں پر یہ ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے۔
ہم اس دنیا میں ایک بڑے مقصد کے لیے آئے ہیں۔ ایک اچھا انسان وہ نہیں جو صرف خود اچھا ہو، بلکہ وہ ہے جو دوسروں کے لیے بھی بھلائی چاہے اور عملی طور پر بہتری کے لیے کام کرے۔کسی بھی بڑی تبدیلی کا آغاز خود سے ہوتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بہتر ہو تو ہمیں سب سے پہلے خود کو بہتر بنانا ہوگا۔
اپنی ذات کی پہچان، اپنی کمزوریوں کو دورکرنا اور اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں مثبت انداز میں استعمال کرنا ہماری پہلی ذمے داری ہے۔ اگر ہر شخص صرف اپنی اصلاح پر کام کر لے تو آدھا معاشرتی مسئلہ خودبخود حل ہو جائے۔ اخلاق کسی بھی معاشرے کی روح ہوتے ہیں۔
اگر ہمارا کردار مضبوط ہوگا، اگر ہم دیانت دار، سچائی پر قائم اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ہیں تو ہمارا وجود دنیا کے لیے ایک مثبت قوت بنے گا۔ جھوٹ نہ بولیں، دھوکا نہ دیں، وقت کی پابندی کریں، دوسروں کی مدد کریں اور خود کو بہتر بنائیں۔
تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جو جہالت، غربت اور بدعنوانی کو ختم کر سکتا ہے، اگر ہمارے پاس وسائل ہیں تو ہم کسی بچے کی تعلیم میں مدد کریں۔ اگر وسائل نہیں تو ہم اپنے علم کو دوسروں تک پہنچائیں، کتابیں پڑھائیں اور شعور پیدا کریں۔ ہماری زندگی کا ہر پہلو سچائی پر مبنی ہونا چاہیے۔ جھوٹ، دھوکہ اور بے ایمانی ہمیں بظاہر وقتی فائدہ دے سکتے ہیں، لیکن ہماری حقیقی شناخت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
زندگی رکنے کا نہیں، سیکھنے اور آگے بڑھنے کا نام ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں، جو بھی کر رہے ہوں، ہمیں ہر روز کچھ نیا سیکھنا چاہیے اور اپنی فکری سطح کو بلند کرنا چاہیے۔ زندگی میں مشکلات آئیں گی، ناکامیاں ملیں گی، لوگ تکلیف بھی دیں گے، لیکن ہمیں ہمیشہ صبر اور نرمی سے کام لینا چاہیے۔
سخت رویہ مسائل کو بڑھاتا ہے، جب کہ نرمی دلوں کو جیتتی ہے۔ اگر ہم ہر لمحے کو بامقصد گزاریں، وقت کی قدر کریں اور اپنے کاموں میں سنجیدگی اور محنت کو شامل کریں تو ہماری زندگی نہ صرف ہمارے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی۔
اگر ہم کسی کے لیے آسانی پیدا کر سکتے ہیں، کسی کی مدد کر سکتے ہیں، کسی کے چہرے پر خوشی لا سکتے ہیں تو مجھے ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ زندگی کا سب سے بڑا حسن دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بڑی بڑی تبدیلیاں ضروری نہیں، چھوٹے چھوٹے نیک اعمال بھی ایک بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دوسروں کے لیے ہماری زندگی دنیا میں ا کے لیے بھی زندگی کا سکتے ہیں کے لیے ا پیدا کر مقصد کے ایک خاص ہیں اور زندگی ا میں ایک ہیں تو اگر ہم کام کر اور ہم ہے اور کے تحت
پڑھیں:
ہماری اصل طاقت عوام کی وہ بیداری ہے جو کسی سیاسی مصلحت کی مرہونِ منت نہیں
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 25 اپریل 2025ء ) عمران خان کا کہنا ہے کہ ہماری اصل طاقت عوام کی وہ بیداری ہے جو کسی سیاسی مصلحت کی مرہونِ منت نہیں، 8 فروری کو پاکستانی عوام نے ہمارے خلاف ہونے والی بدترین فسطائیت، سیاسی قیدوبند، الیکشن مہم پر مکمل پابندی کے باوجود، ہمیں 2 تہائی سے ذیادہ اکثریت سے کامیاب کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اصل طاقت عوام ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کا تحریکِ انصاف کے 29ویں یومِ تاسیس کے موقع پر جیل سے خصوصی پیغام جاری کیا گیا ہے۔ اپنے پیغام میں عمران خان نے کہا کہ " میں تحریکِ انصاف کے تمام ورکرز، سپورٹرز اور ووٹرز کو 29ویں یومِ تاسیس کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 29 سال پہلے ہم نے “انصاف، انسانیت اور خودداری” کے بنیادی اصولوں کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی اور آج تک اپنے منشور پر قائم ہے- تحریکِ انصاف وہ واحد جماعت ہے جو ناصرف آئینی اصولوں، عدلیہ کی آزادی اور اداروں کی خودمختاری کی علمبردار ہے بلکہ الیکشن کمیشن، نیب، پولیس سمیت تمام ریاستی اداروں کو کسی بھی قسم کے اثر و رسوخ سے پاک دیکھنا چاہتی ہے۔(جاری ہے)
ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ملک میں تمام ریاستی ستونوں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے- آج تحریکِ انصاف پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے۔ 8 فروری 2024 کو پاکستانی عوام نے ہمارے خلاف ہونے والی بدترین فسطائیت، سیاسی قیدوبند، اور الیکشن مہم پر مکمل پابندی کے باوجود، ہمیں دو تہائی سے ذیادہ اکثریت سے کامیاب کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اصل طاقت عوام ہیں، اور وہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی کی مقبول سیاسی جماعت عوامی لیگ کو بھی ایک سالہ بھرپور انتخابی مہم کے بعد کامیابی نصیب ہوئی تھی، جبکہ تحریکِ انصاف کو تو انتخابی نشان تک سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود عوام نے تحریکِ انصاف کے حق میں تاریخی فیصلہ سنا کر ہر سازش کو ملیامیٹ کردیا۔ تحریکِ انصاف پاکستان میں وفاق کی علامت ہے۔ آج یہ پاکستان کی واحد قومی جماعت ہے جسے چاروں صوبوں کے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تحریکِ انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی نہیں، درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کو تحریکِ انصاف کی ضرورت ہے۔ کیونکہ صرف اصلی عوامی مینڈیٹ اور عوامی حمایت کے ساتھ آنے والی حکومت ہی ملک کو درپیش سنگین بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ الحمدللہ تحریکِ انصاف کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ الیکٹیبلز کمزور جماعتوں کی مجبوری ہوتے ہیں۔ تحریکِ انصاف ایک ایسی نظریاتی تحریک ہے جس نے شدید ریاستی جبر، غیر آئینی ہتھکنڈوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کے باوجود ثابت کیا ہے کہ وہ ایک ناقابلِ شکست،اور مضبوط ترین جماعت ہے۔ ہماری اصل طاقت عوام کی وہ بیداری ہے جو کسی سیاسی مصلحت کی مرہونِ منت نہیں۔ ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیا گیا ہے، جب آئین اور قانون کی حکمرانی نہ ہو، ادارے فنکشنل نہ ہوں تو ملک میں باہر سے ڈائریکٹ انویسٹمینٹ نہیں آسکتی۔ ملک صرف فارن remittances سے نہیں، فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ سے ترقی کرتے ہیں، جو کہ اس وقت ملکی تاریخ میں کم ترین نمبرز پر آچکی ہے۔ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور دہشت گردی کے شدید بحرانوں سے نکالنے کے لئے ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو عوام کی تائید کے ساتھ ملک میں آئین قانون کی حاکمیت قائم کر سکے، اور اس کے لئے سخت ادارہ جاتی اصلاحات کر سکے۔ اور صرف تحریکِ انصاف ہی یہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ میں اپنے ان اوورسیز پاکستانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو ملک میں جمہوریت، آئین اور انصاف کی بحالی کیلئے ہر محاذ پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ آپ قوم کا فخر ہیں-“