’رویہ درست کرو ورنہ ہمیں نمٹنا آتا ہے‘، بھارتی سپریم کورٹ کی سمے رائنا کو وارننگ
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
بھارتی سپریم کورٹ نے کامیڈین سمے رائنا پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ یوٹیوبرز اپنے رویے کو درست کریں، ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ ان سے کیسے نمٹنا ہے۔
عدالت نے مشہور کامیڈین سمے رائنا کو کینیڈا میں اپنے شو انڈیا گاٹ لیٹنٹ سے متعلق متنازع بیانات دینے پر سخت ریمارکس دیے ہیں۔
یہ ریمارکس اس وقت دیے گئے جب عدالت مشہور پوڈکاسٹر رنویر الہٰ بادیہ کی درخواست سن رہی تھی، جنہوں نے پچھلے مہینے رائنا کے شو میں کچھ غیر اخلاقی اور نازیبا تبصرے کیے تھے، جس کے بعد ایک بڑا تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔
جسٹس سوریا کانت نے کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ یہ نوجوان خود کو حد سے زیادہ چالاک سمجھتے ہیں کہ انہیں سب کچھ معلوم ہے، ان میں سے ایک کینیڈا گیا اور وہاں جا کر ان معاملات پر بات کرنے لگا۔
جج نے مزید کہا کہ یہ نوجوان حد سے زیادہ چالاک بن رہے ہیں، انہیں عدالت کی حدود و قیود کا ادراک نہیں ہے، شاید انہیں معلوم نہیں کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار کیا ہے۔
سمے رائنا گزشتہ مہینے اپنے سمے رائنا ان فلٹرڈ ٹور کے دوران کینیڈا میں تھے، جہاں انہوں نے اس تنازع پر ہلکے پھلکے انداز میں بات کی۔
انہوں نے اپنے شو کی شروعات میں سامعین سے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ شکریہ! آپ لوگوں نے میرے وکیل کی فیس ادا کر دی۔
واضح رہے کہ یہ تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب یوٹیوبر اور پوڈکاسٹر رنویر الہٰ بادیہ نے سمے رائنا کے شو انڈیا گاٹ لیٹنٹ میں والدین اور جنسی تعلقات پر کچھ انتہائی غیر شائستہ اور قابلِ اعتراض تبصرے کیے۔
ان بیانات کے بعد شدید ردِعمل سامنے آیا، یہاں تک کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی زیرِ بحث آیا اور رنویر کے خلاف متعدد شکایات درج کی گئیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے، ملک معتصم خان
جماعت اسلامی کے نائب امیر نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے 2006ء کے 7/11 ممبئی ٹرین دھماکوں کے مقدمے میں تمام 12 ملزمان کو بری کئے جانے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے مہاراشٹر حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے جس کے تحت وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ 21 جولائی 2025ء کو سنایا گیا جس میں 2015ء کی سزا کو کالعدم قرار دیا گیا اور عدالت کی طرف سے تفتیش میں سنگین کوتاہیوں اور ناقص شواہد کی بنیاد پر شدید سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ عدالت کی طرف سے جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ ہمارے فوجداری نظام انصاف پر سنجیدہ غوروفکر کے متقاضی ہیں۔
میڈیا کو دئے گئے اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ ہم 7/11 ممبئی دھماکوں کے مقدمے میں 12 بے گناہ افراد کو بری کرنے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک جیل میں ظلم و جبر کا سامنا کیا۔ عدالت کے ریمارکس نے واضح کر دیا ہے کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا اور جو شواہد عدالت میں پیش کئے گئے وہ ناقابل اعتبار تھے۔ کورٹ کے مطابق مہاراشٹر اے ٹی ایس بم دھماکوں میں استعمال ہونے والے بارود کی قسم تک معلوم نہ کر سکی اور مشکوک گواہیوں اور غلط طریقے سے جمع کئے گئے شواہد پر انحصار کیا۔ یہ صرف اے ٹی ایس کی ناکامی نہیں بلکہ پورے نظام انصاف کی ناکامی ہے جس نے ملزمان اور ان کے خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ملک معتصم خان نے اس شدید ناانصافی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد 19 سال جیل میں رہے جہاں ان پر تشدد ہوا اور انہیں نفسیاتی طور پر ہراساں کیا گیا، خود عدالت نے بھی ان باتوں کا مشاہدہ کیا ہے، بے قصور افراد کے خاندان بدنامی کا شکار ہوئے اوران کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ انہون نے کہا کہ اب بجائے اس کے کہ حکومت ان مظلوموں کو انصاف دے اور ان کے نقصانات کا ازالہ کرے وہ سپریم کورٹ میں اپیل کر کے ایک ناقص اور بلاجواز فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ اس طرح کے اقدام سے اصل مسئلہ پس پشت چلا جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 7/11 بم دھماکوں کے اصل مجرم اب بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ ان دھماکوں میں 189 افراد جاں بحق اور 800 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کے ساتھ انصاف کرے۔ ان دھماکوں میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کو انصاف اور سکون چاہیئے جو 19 سال بعد بھی میسر نہیں آسکا ہے۔ ہائی کورٹ کے 671 صفحات پر مشتمل فیصلے نے استغاثہ کی مکمل ناکامی کو ظاہر کر دیا ہے۔ اس کے بعد اب یہ سوال بدستور قائم ہے کہ اس خوفناک جرم کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنا وقت اور وسائل سپریم کورٹ میں اپیل کرکے ضائع نہ کرے بلکہ دھماکوں کی ازسرنو اور سنجیدہ تفتیش کرے تاکہ اصل مجرموں کو گرفتار کیا جا سکے۔ یہی قانون کی بالادستی اور عوام کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ ملک معتصم خان نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔