قومی شاہراہوں اور انٹرنیٹ کی بندش سے بلوچستان میں کاروباری طبقے کو کتنا نقصان ہو رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ لیے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی جانب سے وڈھ سے نکلنے والا لانگ مارچ 12ویں روز بھی لکپاس کے مقام پر موجود ہے۔
سردار اختر مینگل کی جانب سے لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ مظاہرین کو روکنے کے لیے حکومت نے قومی شاہراہ پر خندق کھود کر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں کوئٹہ لک پاس دھرنا: حکومتی وفد اور اختر مینگل کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم
دوسری جانب صوبے میں بگڑی سیاسی صورتحال کی وجہ سے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس پہلے کئی روز تک بند رکھی گئی جبکہ گزشتہ روز سروس کو جزوی طور پر بحال کیا گیا۔ قومی شاہراہوں کی بندش اور موبائل فون و انٹرنیٹ سروس متاثر ہونے نے صوبے میں کاروباری طبقے کو روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے چیئرمن تفتان بس یونین محمود بادینی نے کہاکہ صوبے میں آئے روز دہشتگردی کے واقعات اور احتجاج کے سبب اکثر قومی شاہراہیں بند رہتی ہیں، گزشتہ 12 روز سے لکپاس کے مقام پر دھرنے کی وجہ سے کوئٹہ سے کراچی، اندرون سندھ اور تفتان کو جانے والا راستہ مکمل طور پر بند ہے۔
انہوں نے کہاکہ راستے کی بندش کے باعث ٹرانسپورٹ سروس شدید متاثر ہو رہی ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کا نقصان بس مالکان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ بس مالکان صرف مسافروں سے پیسے نہیں کماتے بلکہ مال برداری کے ذریعے بھی کمائی کی جاتی ہے لیکن گزشتہ 12 روز سے اہم قومی شاہراہ کی بندش کے باعث ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔
محمود بادینی نے بتایا کہ بلوچستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ٹرانسپورٹ کے شعبے سے منسلک ہے، ڈرائیور، بس کنڈکٹر اور لوڈر سمیت کئی افراد کا روزگار اس شعبے سے منسلک ہے لیکن آئے روز سڑکوں کی بندش سے یہ شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے جبکہ حالیہ اہم شاہراہ کی لکپاس کے مقام پر بندش نے ٹرانسپورٹرز کی کمر توڑ دی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر صورتحال یہی رہی تو ایسے میں ٹرانسپورٹرز کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا جس کا براہِ راست اثر قومی معیشت پر پڑے گا، حکومت کو جمہوری انداز میں معاملات کو حل کرنا چاہیے۔
سابق صدر ایوان صنعت و تجارت فدا حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ بہت اہم مقام پر واقع ہے جو گزشتہ 12 روز سے بند ہے، یہ قومی شاہراہ جہاں کوئٹہ کو اندرون سندھ اور کراچی پورٹ سے ملاتی ہے وہیں تفتان جیسی اہم تجارتی پٹی بھی اسی شاہراہ کی محتاج ہے اور روزانہ کی بنیاد پر تفتان کے راستے اربوں روپے کا سامان پاکستان سے ایران اور ایران سے پاکستان لایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر یہ قومی شاہراہ یوں ہی بند رہی تو مستقبل قریب میں راشن کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس کے علاوہ صوبے میں ایرانی پیٹرول اور پاکستانی پیٹرول اسی راستے سے کوئٹہ اور دیگر علاقوں کو لایا جاتا ہے، اگر راستے بند رہے تو پیٹرول کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پیٹرول اور اشیائے خورونوش کے علاوہ بڑے پیمانے پر کاروباری آئٹمز کوئٹہ لائے اور لے جائے جاتے ہیں، ایسے میں یہ راستہ بند ہونے سے کاروباری حضرات کا کروڑوں روپے کا نقصان روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس بحران پر جلد از جلد قابو پا لے۔
صوبے میں آئے روز موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بند ہونے سے طلبا و طالبات اور فری لانسنگ کرنے والے نوجوانوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے آن لائن کاروبار کرنے والے وجاہت اللہ نے بتایا کہ وہ مختلف اشیا کا آن لائن کاروبار کرتے ہیں لیکن آئے روز انٹرنیٹ سروس کی بندش کی وجہ سے آن لائن کاروبار کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں کوئٹہ، 4 جماعتی اتحاد کا دھرنا ختم، صوبے بھر میں احتجاج کا اعلان
انہوں نے کہاکہ چند روز قبل کئی دن تک بند رہنے والی انٹرنیٹ سروس کی وجہ سے ایک بھی آرڈر موصول نہیں ہوا جس کی وجہ سے لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انٹرنیٹ سروس بلوچستان بلوچستان نیشنل پارٹی بی این پی قومی شاہراہ کوئٹہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرنیٹ سروس بلوچستان بلوچستان نیشنل پارٹی بی این پی قومی شاہراہ کوئٹہ وی نیوز روزانہ کی بنیاد پر انہوں نے کہاکہ برداشت کرنا پڑ روپے کا نقصان انٹرنیٹ سروس قومی شاہراہ کی وجہ سے کی بندش رہا ہے
پڑھیں:
ملک میں مزید صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 03 اکتوبر 2025ء ) پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں مزید صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ، کئی عالمی کمپنیاں پاکستان سے نکلنے پر مجبور ہو چکیں، یہ واضح ثبوت ہے کہ ملک میں توانائی کے نرخ، ٹیکس بوجھ اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال بڑے مسائل کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے برآمدات میں نمایاں کمی اور صنعتوں کی بندش پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کونسل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں برآمدات 3.83 فیصد کمی کے بعد 7.61 ارب ڈالر رہ گئی ہیں، جبکہ صرف ستمبر کے مہینے میں برآمدات میں 11.71 فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی جس کی مالیت 2.51 ارب ڈالر رہی۔(جاری ہے)
پی ٹی سی کے مطابق اس سہ ماہی میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 9.37 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس کی بڑی وجہ درآمدات میں 13.49 فیصد اضافہ ہے، جو بیرونی کھاتوں پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس طرح کی صورتحال کے باعث گل احمد ٹیکسٹائل نے اپنے ایکسپورٹ اپیرل سیگمنٹ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے ہزاروں ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح کئی عالمی بڑی کمپنیاں بھی پاکستان سے نکلنے یا اپنے آپریشن محدود کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ پروکٹر اینڈ گیمبل، مائیکروسافٹ، شیل سمیت دیگر اداروں کا انخلا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں توانائی کے نرخ، ٹیکس بوجھ اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال بڑے مسائل کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے حکومت سے فوری اصلاحات پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو مزید صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ ہے۔ چیئرمین پی ٹی سی فواد انور نے کہا ہے کہ برآمدی صنعتوں کے لیے خطے کے مطابق توانائی کے نرخ فراہم کیے جائیں اور ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ساتھ ریفنڈ سسٹم کو بھی بہتر بنایا جائے تاکہ برآمدات کو سہارا دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی صورتحال میں مزید برآمدات کا سکڑنا ایک بڑا خدشہ ہے، جس سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔