ٹرمپ انتظامیہ غیر ملکی طلبہ کی قانونی حیثیت کے خاتمے کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 26 April, 2025 سب نیوز

واشنگٹن(آئی پی ایس ) ٹرمپ انتظامیہ امریکا میں موجود غیر ملکی طلبہ کی قانونی حیثیت کے خاتمے کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی۔عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے امریکا میں موجود ان ہزاروں غیر ملکی طلبہ کے اسٹوڈنٹ ویزوں کی رجسٹریشن بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی قانونی حیثیت حال ہی میں اچانک ختم کردی گئی تھی۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد امریکا میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کرنے والے طالب علموں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ان کے ویزے منسوخ کردیے تھے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرانڈس واٹر کمیشن نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا جائزہ لینا شروع کردیا انڈس واٹر کمیشن نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا جائزہ لینا شروع کردیا چھٹا ای سی او ٹورازم وزارتی اجلاس ، لاہور ٹورازم کیپٹل 2027 قرار،وزیر اعلی پنجاب کا خیر مقدم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی  مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت  فالس فلیگ آپریشن ، مودی سرکار کا مسلمانوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ، منظم انداز میںمہم جاری ’پاکستانیوں کو نکال رہے ہیں تو عدنان سمیع کا کیا ہوگا؟‘ سوال پر گلوکار کو مرچیں لگ گئیں پی ایم اے کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ، کیڈٹس میں اعزازت اور انعامات تقسیم TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کی قانونی حیثیت ٹرمپ انتظامیہ غیر ملکی طلبہ

پڑھیں:

زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور اعترافی بیان میڈیا پر جاری کرنے پرپابندی عائد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیر حراست ملزم کا انٹرویو فیئر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے وشال شاکر کی زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر گیارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا اور زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ملزمان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ کسی میڈیا پرسن کو زیر حراست ملزم کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں دے گا، زیر حراست ملزم کا انٹرویو اس کی عزت نفس اور مستقبل کو داؤ پر لگا دیتا ہے، زیر حراست ملزم کا انٹرویو فئیر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے افسر کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی ہوگی، زیر حراست ملزم کے انٹرویو کی تمام ذمہ داری تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ پر ہوگی۔عدالت نے بتایا کہ یہ مناسب وقت ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے کردار کو ریگولیٹ کرے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ناکوں اور چیک پوسٹوں پر میڈیا نمائندوں کو ساتھ کھڑا کر کے شہریوں کی تذلیل کرنا افسوس ناک ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اداروں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا پورا حق ہے، میڈیا میں مقبولیت کے لیے شہریوں کی عزت اور وقار کو داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شہرت کی خواہش بذات خود قابل اعتراض نہیں ہے۔

مذکورہ مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کی اور زیر حراست ملزمان کی میڈیا کے ذریعے کردار کشی اور عزت نفس مجروح کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جبکہ پولیس، ایکسائز، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ جمع کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ زیر حراست ملزمان کے انٹرویو سے نہ صرف ملزم کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ پراسیکیوشن کا کیس بھی کمزور ہوتا ہے، ایسے اقدامات سے نہ صرف قانونی اور اخلاقی سوالات جنم لیتے ہیں بلکہ فوجداری نظام انصاف کے لیے بھی تشویش ناک ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ کسی بھی فرد کا وقار ناقابل تسخیرہے جو پولیس کے دروازے پر ختم نہیں ہوسکتا، کسی ملزم کی قانونی گرفتاری اس کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتی، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کہتا ہے ہر شہری کو عزت اور قانون کے مطابق دیکھا جائے، ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھیں۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ دوران حراست ملزمان کے انٹرویو میڈیا ٹرائل کی ایک شکل ہے، میڈیا ٹرائل کا مطلب ہے کہ کسی عدالتی فیصلے سے پہلے ملزم کو بے گناہ یا قصور وار ڈکلیئر کرنے کے لیے عوامی رائے قائم کی جائے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ میڈیا معاشرے کی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور لائن کراس نہ کرے، میڈیا کو عدلیہ اور تفتیشی کی ڈومین سے تجاوز کر کے اوپر نہیں جانا چاہیے، میڈیا کے ذریعے ٹرائل سے نہ صرف کام خراب ہوتا ہے بلکہ ملزم کے فئیر ٹرائل پرائیویسی بھی کمپرومائز ہوتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی زیر حراست ملزم کو میڈیا تک رسائی دینے اور انٹرویو کرانے پر تفتیشی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوگا، اس کیس میں ایک طرف آئین میں دی گئی میڈیا کی آزادی اظہار اور دوسری طرف ملزم کے فئیر ٹرائل اور بنیادی حقوق کو بیلنس کرنا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں واضح کیا کہ میڈیا کو زیر التوا ٹرائل اور تحقیقات کی درست رپورٹنگ کرنے کی آزادی ہے مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہے، میڈیا کو غلط، ہتک آمیز، غیر پیشہ وارنہ رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

مزید کہا گیا ہے کہ زیر حراست کا مطلب کسی بھی فرد کو قانونی طور پر گرفتار کرنا ہے، موجودہ کیس میں زیر حراست کا دائرہ وسیع کرتےہوئے ناکوں اور چیک پوسٹوں پر روکنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل، غزہ سے جزوی انخلا اور حملوں میں کمی پر رضامند، جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگئی، صدر ٹرمپ
  • گوادر، پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلیے فوج اور ضلعی انتظامیہ سرگرم
  • ایف آئی اے کی کارروائی، حوالہ ہنڈی میں ملوث 2 ملزمان گرفتار
  • زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور اعترافی بیان میڈیا پر جاری کرنے پرپابندی عائد
  • ٹرمپ انتظامیہ کا دباؤ‘ امیگریشن ایپس ایپل اسٹور سے ہٹادی گئیں
  • ہم فلسطین کے حوالے سے قائداعظم کے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایم ڈبلیو ایم 
  • داؤد یونیورسٹی انتظامیہ کا آمرانہ رویہ قبول نہیں،  اسلامی جمعیت طلبہ کا پٹیشن دائر کرنے کا اعلان
  • امریکا میں شٹ ڈاؤن، ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیموکریٹک ریاستوں کے اربوں ڈالر کے فنڈز منجمد کردیے
  • حکومتی شٹ ڈاؤن، ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیموکریٹس ریاستوں کے ترقیاتی فنڈز منجمد کر دیے
  • ایلون مسک کا منفرد اعزاز؛ 500 ارب ڈالر کی ارننگ سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا، نیا ریکارڈ قائم