یہ حقیقت ہے کہ اقتدار سے پہلے اور بعد میں بانی پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کا جس طرح کامیابی سے استعمال کیا وہ کوئی اور سیاسی جماعت ماضی میں کر سکی اور نہ ہی اب کر رہی ہے۔ بانی نے موجودہ حکمرانوں کے خلاف جو بیانیہ بنایا تھا وہ ان کی حکومت ختم ہونے کے تین سال بعد بھی نہ صرف کامیاب ہے بلکہ اس کا اب بھی طوطی بول رہا ہے۔ جن کے خلاف بانی نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور اپنے حامی اینکروں، تجزیہ کاروں اور وی لاگرز کے ذریعے بیانیے بنائے وہ سب اب بھی کامیاب ہیں۔
ان کے حامی کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود ان جھوٹے اور بے بنیاد بیانیوں پر اب بھی مکمل یقین رکھتے ہیں حالانکہ اس وقت عدلیہ میں ان کے حق میں فیصلے ہو رہے تھے مگر ججز کی نوازشات کے باوجود کسی عدالت میں بانی کے سیاسی مخالفین کے خلاف خود ان کے پونے چار سالہ دور میں انھیں سزائیں نہیں دلا سکا تھا اور پی ٹی آئی حکومت میں ہی بانی کے تمام مخالفین ثبوت نہ ہونے پر بری یا ضمانت پر رہا ہو گئے تھے ۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم ہوئے تین سال ہو چکے مگر موجودہ حکمرانوں پر بانی پی ٹی آئی کے لگائے گئے مبینہ الزامات کا ڈھائی سال سے حکومت کرنے والے (ن) لیگ اور پی پی کے قائدین ان کا توڑ نہیں کر سکے اور نہ ہی انھوں نے اپنے خلاف لگائے گئے مبینہ الزامات کو ازخود عدالتوں میں چیلنج کیا۔ جو ججز بانی کو اقتدار سے قبل ہی صادق و امین قرار دے چکے تھے۔
اس کو بھی موجودہ حکمران غلط قرار دے کر سپریم کورٹ سے صادق و امین کے ریمارکس حذف کرا سکتے تھے۔ سپریم کورٹ نے 45 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو بھی تو غلط قرار دیا تو صادق و امین پر بھی نیا عدالتی فیصلہ لیا جاسکتا تھا۔ موجودہ حکمرانوں نے بانی کے بیانیے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور جس طرح ان کی حکومت کے دور میں ان کے حق میں جو فیصلے آ رہے ہیں ان فیصلوں کو پی ٹی آئی تسلیم نہیں کر رہی۔
حکومتی دور میں آنے والے فیصلوں کو بے نظیر بھٹو چمک کے فیصلے قرار دیا کرتی تھیں۔ پی ٹی آئی نے ملک میں اپنے خلاف آنے والے درست فیصلوں کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے اور منصفانہ فیصلے دینے والے ججز بھی پی ٹی آئی کی ٹرولنگ اور سوشل میڈیا کے مذموم پروپیگنڈے سے محفوظ نہیں رہے۔
فروری 2024 کے انتخابات بھی 2018 جیسے ہی تھے مگر اس بار پی ٹی آئی نے حکمرانوں کو فارم 47 کی جیت قرار دینے کا جو نیا بیانیہ بنایا وہ انتہائی کامیاب رہا اور سوا سال گزرنے کے بعد بھی حکومت، الیکشن کمیشن اس کا توڑ نہیں کر سکے اور لوگ سات سال پرانے آر ٹی ایس سسٹم کو بھول گئے جس کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومتیں بنوائی گئی تھیں جس پر موجودہ حکمران الزامات لگاتے تھے اور پھر 2018 کی قومی اسمبلی کے ذریعے ہی موجودہ حکمران 16 ماہ تک حکومت کرتے اور پی ٹی آئی کے بیانیے سے شکست کھاتے رہے۔
ہمارے موجودہ حکمران بیرون ملک بھی حقائق ظاہر کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہیں، بھارت بھی خارجہ پالیسی کی کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اور دہشت گردی اور جارحیت خود کراتا ہے اور فوراً الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے جس پر دنیا فوراً یقین کر لیتی ہے اور بے گناہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان منہ دیکھتا رہ جاتا ہے اور دنیا بھارت کے جھوٹے بیانیے کو بھی درست مان لیتی ہے اور امریکی صدر بھارت کے ساتھ ہونے کا بیان دے دیتا ہے اور عرب اور مسلم ممالک بھی حق پر ہوتے ہوئے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیتے اور بھارت کی مذمت نہیں کرتے جو سالوں سے ’’را‘‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے جس کا ایک واضح ثبوت جعفر ایکسپریس سے ہونے والی کھلی دہشت گردی ہے جس میں بھی ہمارا اتنا ہی جانی نقصان ہوا تھا جتنا بھارت پہلگام کا بتا تو رہا ہے مگر ثبوت نہیں دے رہا۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ اور یرغمال بنائے جانے کا معاملہ پہلگام سے زیادہ اہم اور خطرناک تھا جس میں تمام مسافروں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ بلوچستان میں بھی بی ایل اے نے وہی امریکی ہتھیار استعمال کیے جو اب پہلگام میں استعمال ہوئے، یہ بڑا اہم پہلو ہوسکتا ہے۔ سانحہ جعفر ایکسپریس پر بھارتی میڈیا کا کردار دنیا نے دیکھا اور اب پہلگام واقعہ میں بھی اس کا کردار خود دہشت گردانہ ہے مگر ہماری حکومت دنیا کو اس سلسلے میں حقائق سے آگاہ نہیں کر سکی۔ کیونکہ ہمارے میڈیا میں موجودہ حکومت کے مخالف پی ٹی آئی کے حامی موجود ہیں جو اپنے ہی ملک کے بارے میں ذومعنی پراپگینڈا کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لیڈروں اور ان کے حامی میڈیا پرسنز کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ ایسے حالات میں جب بھارت پاکستان پر جارحیت کے موڈ میں ہے، انھیں اپنے ملک کی نہیں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی فکر زیادہ ہے۔ ہمارے وزیر اعظم آئے دن بیرونی دوروں پر ہوتے ہیں مگر وہاں کشمیر میں بھارتی مظالم اور پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جب کہ بھارت دنیا بھر میں پاکستان پر جھوٹے الزامات لگا کر ہمیں بدنام کر رہا ہے اس لیے حکومت پہلے اس پر توجہ دے اور دنیا کو حقائق بتائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کی حکومت کے ذریعے نہیں کر رہا ہے کو بھی ہے اور
پڑھیں:
سندھ میں پانی کا موجودہ بحران
پانی کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے زندگی کی بنیاد ہے اور پاکستان بالخصوص سندھ جیسے زرعی صوبے کے لیے پانی کا تحفظ زندگی اور معیشت کا سوال ہے، پنجاب ‘ بلوچستان ‘ خیبر پختون خواہ سمیت ملک بھر میں پانی کا بحران شدت سے سر اٹھا رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں سندھ کو پانی کے جس شدید بحران کا سامناکرنا پڑ رہا ہے، اس کے اثرات زراعت، ماحول، صحت‘ معیشت اور سماجی نظام تک پھیل چکے ہیں۔
دریائے سندھ صدیوں سے سندھ کی تہذیب اور تمدن کا مرکز رہا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب اسی دریا کے کنارے پروان چڑھی۔ یہ دریا نہ صرف پینے کے پانی، زراعت اور روزگار کا ذریعہ ہے، بلکہ ایک ثقافتی اور روحانی اہمیت بھی رکھتا ہے۔
دریائے سندھ دھرتی کی روح ہے اور صدیوں سے یہاں کے لوگوں کا اس کے ساتھ ایک گہرا روحانی تعلق رہا ہے۔ یہ صرف پانی کی ایک دھارا نہیں بلکہ زندگی، تہذیب اور شناخت کا مظہر ہے۔ سندھ کے لوگ اسے ’’ اُتم ماتا ‘‘ یعنی عظیم ماں کا درجہ دیتے ہیں،کیونکہ یہی دریا ان کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، ان کی معیشت کو سہارا دیتا ہے،اور ان کی ثقافت کو جنم دیتا ہے۔
دریائے سندھ کو صوفی شاعروں جیسے شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور دیگر نے اپنی شاعری میں روحانیت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے کلام میں سندھُو ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو فطرت سے جوڑتی ہے، دلوں کو پاک کرتی ہے اور خدا کی قربت کا وسیلہ بنتی ہے۔ سندھُو کی روانی صوفیانہ وحدت الوجود کی علامت سمجھی جاتی ہے، جو ظاہر و باطن کو ملا دیتی ہے۔ تاہم، آج یہ دریا اپنی قدرتی عظمت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے دریائے سندھ پر ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر، پانی کے غیر منصفانہ بٹوارے اور موسمیاتی تبدیلیوں نے اس کی قدرتی روانی کو متاثر کیا ہے۔ سندھ کے عوام اور ماہرین اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ سندھ کے آخری علاقوں، خاص طور پر ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں دریا کا پانی پہنچنا بند ہوگیا ہے۔
سندھ ڈیلٹا، جو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہے، دریائے سندھ کے پانی کے بغیر صحرا میں بدل رہا ہے۔ میٹھے پانی کی کمی کے باعث سمندر آگے بڑھ رہا ہے اورکھارے پانی کی یلغار نے ہزاروں ایکڑ زرخیز زمینوں کو بنجرکردیا ہے۔
سندھ کی معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے اور زراعت کا انحصار مکمل طور پر پانی پر ہوتا ہے۔ گندم، چاول، کپاس، گنا اور سبزیاں سندھ کی بڑی فصلیں ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں پانی کی کمی کے باعث یہ فصلیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
نہری نظام کی زبوں حالی، پانی کی چوری، غیر مؤثر انتظام اور پرانے انفرا اسٹرکچر کے باعث کئی علاقوں کو ان کا حصہ کا پانی نہیں مل پاتا۔ چھوٹے کسان سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں،کیونکہ وہ نہ تو ٹیوب ویل لگا سکتے ہیں اور نہ ہی مہنگی ٹیکنالوجی استعمال کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً، ان کی زمینیں بنجر ہوتی جا رہی ہیں، فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور غربت بڑھ رہی ہے۔
مزید برآں، پانی کی غیر موجودگی یا قلت نے مال مویشی پالنے والے افراد کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جانوروں کے لیے چارہ اگانے میں دشواری، پینے کے پانی کی قلت اورگرمیوں میں پانی کا بحران ان کے لیے ایک مسلسل چیلنج ہے۔پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ پانی کی آلودگی بھی ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔
دریائے سندھ اور اس سے جڑی نہریں صنعتی فضلہ، زرعی کیمیکل، سیوریج اورگھریلو کوڑا کرکٹ سے آلودہ ہو رہی ہیں۔ کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ جیسے بڑے شہروں میں پانی کی صفائی کا مؤثر نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے آلودہ پانی نہ صرف فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ انسانوں میں جلدی، معدے، گردے اور جگر کی بیماریاں بڑھا رہا ہے۔
پینے کا صاف پانی اکثر دیہی علاقوں میں نایاب ہو چکا ہے۔ لوگ جوہڑوں، تالابوں یا آلودہ نہری پانی پر انحصارکرتے ہیں، جس سے ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور دیگر وبائیں عام ہو چکی ہیں۔
سندھ میں خشک سالی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی نہ ہونے سے نہ صرف ماحولیاتی بحران پیدا ہوچکا ہے، جس کا اثر سندھ کے کئی اضلاع پر بھی پڑ رہا ہے۔ سمندر کے بڑھتے ہوئے پانی نے سجاول، ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع کی زرعی زمینوں کو شدید متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 50 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندرکی نذر ہو چکی ہے۔
حال ہی میں وفاقی سطح پر چولستان کے ریگستانی علاقے میں دریائے سندھ سے نہر نکالنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے، جس کا مقصد مبینہ طور پر بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانا ہے۔ سب سے پہلا اور بڑا نقصان سندھ کو اس پانی کی مزید کمی کی صورت میں ہوگا، جو پہلے ہی ضرورت سے کم مقدار میں اسے مل رہا ہے۔
سندھ کے بیشتر اضلاع، خاص طور پر زیریں سندھ کے علاقے پہلے ہی پانی کی قلت سے شدید متاثر ہیں، اگر چولستان کے لیے الگ سے نہر نکالی جاتی ہے تو مزید پانی اوپر ہی روک لیا جائے گا اور سندھ کے جنوبی اضلاع جیسے ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور تھرپارکر کو دریا کا پانی شاید مزید کم ملے گا۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس منصوبے پر سندھ کی قیادت اور ماہرین کو اعتماد میں لیے بغیر کام شروع کیا جا رہا ہے، جو آئینی اور بین الصوبائی اتفاق رائے کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ماہرین کے مطابق دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم ایک نازک توازن پر قائم ہے اور اس میں کسی بھی نئی نہر کا اضافہ اس توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
مزید یہ کہ چولستان میں نہر نکالنے سے ماحولیاتی اثرات بھی پیدا ہوں گے۔ پانی کی سطح میں کمی، ڈیلٹا کی مزید تباہی اور سمندرکے کھارے پانی کی پیش قدمی جیسے اثرات مزید شدید ہو سکت ے ہیں۔ ساتھ ہی یہ اقدام سندھ کے لوگوں میں احساسِ محرومی اور بین الصوبائی اختلافات کو بڑھا رہا ہے۔
چولستان میں دریائے سندھ سے نہر نکالنے کا منصوبہ، موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ کر سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک بھر میں پانی کے بٹوارے پر شفاف، منصفانہ اور آئینی اصولوں کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ سندھ کے بنیادی حقِ پانی کو محفوظ بنائے بغیر معیشت نہیں سنور سکتی ہے۔