WE News:
2025-07-28@07:37:21 GMT

بزمِ طارق عزیز

اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT

’ابتدا ہے ربِ جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے، دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔‘

مذکورہ جملہ یقیناً طارق عزیز کے عہد میں موجود ہر پاکستانی کی سماعتوں میں محفوظ ہوگا۔ طارق عزیز کا اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوگا کہ وہ سرکاری ٹی وی ’پی ٹی وی‘ کا پہلا مرد چہرہ تھے جس نے 1964 میں اولین نشریات میں کہا تھا کہ خواتین و حضرات آپ پاکستان ٹیلی وژن دیکھ رہے ہیں۔

طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد انہوں نے خاندان کے ہمراہ ساہیوال میں نئی زندگی شروع کی۔ ابتدائی اور سیکنڈری تعلیم ساہیوال سے حاصل کی، پھر تلاش روزگار میں لاہور میں پڑاؤ ڈالا۔

یہ وہی لاہور تھا جس کی فٹ پاتھوں پہ سونے والا طارق عزیز اسی شہر کے باسیوں کی بے لوث محبت کے طفیل ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوا، یہ بات تو طے ہے کہ وہ پہلے پاکستانی آرٹسٹ تھے جو رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، لیکن ان کا ایک اور اعزاز یہ بھی تھا کہ انہوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 46 ہزار ووٹوں کے بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔

1997 کے عام انتخابات میں عمران خان کو 4 ہزار ووٹ جبکہ طارق عزیز کو 50 ہزار سے زائد ووٹ ملے تھے۔ طارق عزیز کو لاہور سے مسلم لیگ ن کے روحِ رواں نواز شریف نے ٹکٹ دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ حملہ کیس میں سزا کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انہیں اس حملے کا قطعی کوئی علم نہ تھا۔

طارق عزیز بطور شاعر، کالم نگار، اداکار، میزبان اور سیاست دان ہماری یادداشتوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی دائمی وجہ شہرت پی ٹی وی پر ان کا منفرد شو ’نیلام گھر‘ تھا جو پہلے پہل 1975 میں آن ائیر ہوا، پھر ’طارق عزیز شو‘ اور بعد ازاں ’بزمِ طارق عزیز‘ کے نام سے لگ بھگ 41 برس تک پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوتا رہا۔

ضیائی آمریت میں جب پیپلز پارٹی اور ان کے ہمدرد زیرِ عتاب تھے اور ملازمتوں سے بھی چُن چُن کر نکالے جا رہے تھے، طارق عزیز پی ٹی وی پر اسی سج دھج سے کام کرتے رہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ ’اینکر اور آمر کا تعلق جالندھر سے تھا۔‘

طارق عزیز ’کہنے والوں‘ سے اتفاق نہیں کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیا نے انہیں دس سے زائد خط لکھے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن پی ٹی وی کی جانب سے انہیں صدرِ پاکستان کا انٹرویو کرنا تھا جو مجبوری تھی اور ان کی جانب سے ہی دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا تھا۔

طارق عزیز کالم نگار اور شاعر بھی تھے ان کے کالموں کا مجموعہ ’داستان‘ اور پنجابی شاعری ’ہمزاد دا دکھ‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ شاعری سے گہری رغبت رکھتے تھے، کسی بھی قابل ذکر شاعر کا کوئی ایسا شعر نہ تھا جو انہیں ازبر نہیں تھا۔ طارق عزیز آخری ایام میں آپ بیتی بھی لکھ رہے تھے، جس کا نام انہوں نے خود اناؤنس بھی کیا تھا ’فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک۔‘

طارق عزیز کے پسندیدہ لکھاری ابوالکلام آزاد اور من پسند شاعر مجید امجد تھے، جن سے ان کی کئی ملاقاتیں رہیں، وہ منیر نیازی کی بیباکی کو بھی پسند کرتے تھے۔ اعتراف کرتے تھے کہ مجید امجد اور منیر نیازی کی قربت نے ان میں ادبی ذوق پیدا کیا۔ ان کا ایک شعر زبانِ زد خاص و عام ہے:

ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

طارق عزیز نے 25 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ محمد علی اور زیبا کے ساتھ پہلی فلم ’انسانیت‘ میں کام کیا جو سُپر ہٹ ثابت ہوئی۔ ’سالگرہ‘ بھی ان کی بہترین فلموں میں سے ہے۔ انہوں نے کمپیئرنگ کی دنیا میں اپنا منفرد مقام بنایا جو آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہے۔ انہوں نے میزبانی کا منہ مانگا معاوضہ حاصل کیا، وہ اس دور میں 10 لاکھ روپے فی گھنٹا بھی وصول کرتے رہے، جب ان کی برادری کے لوگ ہزاروں میں عافیت سمجھتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ بے اولاد تھے لیکن حقیقت ہے کہ خالق کائنات نے انہیں ایک بیٹے سے نوازا تھا جو شیر خواری میں ہی انتقال کر گیا تھا۔ طارق عزیز اللہ کی رضا پر ہر حال میں خوش رہے۔ ان کی وصیت کے مطابق مرنے کے بعد ان کی تمام جائیداد کو پاکستان کے نام کردیا تھا۔

طارق عزیز کو مطالعے کا شوق ازحد عزیز تھا، ان کا گھر بھی لائیبریری کا منظر پیش کرتا تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ بدنصیب ہے۔ ان کا دوسرا شوق جرمن شیفرڈ تھا، جس کا انہوں نے ایک جوڑا پال رکھا تھا اور انتہائی مصروفیت سے بھی وقت نکال کر ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ افسوس، صد افسوس کہ زندگی بھر کی خدمات کے صلے میں 1992 میں انہیں محض تمغہ حسنِ کارکردگی کا حقدار جانا گیا۔

طارق عزیز کے والد میاں عبدالعزیز نے ان کی پیدائش سے قبل 1936 میں ہی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھنا شروع کردیا تھا۔ اسکول میں طارق عزیز کے ساتھی انہیں چھیڑتے تھے کہ تمہارا باپ ’میاں عبدالعزیز پاکستانی‘ انوکھا پاکستانی ہے؟ ایک روز روتے ہوئے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ’دوستوں کو بتاؤ میرا باپ 1936 کا پاکستانی ہے اور تم لوگ 1947 کے پاکستانی ہو۔‘

ہر دل عزیز طارق عزیز 84 برس کی عمر میں 17 جون 2020 کو دل کی حرکتیں بے قرار ہونے سے لاہور میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے، وہیں آسودہ خاک ہیں۔ طارق عزیز اپنے پروگرام کے اختتام پر کہا کرتے تھے کہ:
’وطن عزیز کو دعا ،،، پاکستان زندہ باد۔‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

طارق عزیز طارق عزیز شو طارق عزیز کا سلام پہنچے مشکورعلی نیلام گھر وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: طارق عزیز کا سلام پہنچے مشکورعلی نیلام گھر وی نیوز طارق عزیز کا طارق عزیز کے انہوں نے عزیز کو کے ساتھ تھا جو تھا کہ

پڑھیں:

جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں

جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 26 July, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

مون سون کی آمد سے پہلے ہی پاکستان کے مختلف علاقے تباہی کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ بے موسمی اور نہ تھمنے والی بارشیں اس سرزمین پر اس شدت سے برسیں کہ سیلابی ریلوں نے گھروں، سڑکوں، فصلوں اور قیمتی جانوں تک کو بہا لے گیا۔ ان مہینوں میں بارش اجنبی نہیں ہوا کرتی، مگر اس تباہی کی وسعت ماضی کے موسمی برساتی نظم سے بالکل مختلف ہے۔ جو سیلاب کبھی پیشگی تنبیہ اور کسی نہ کسی ترتیب کے ساتھ آیا کرتے تھے، اب ایک ناگہانی عذاب کی طرح اچانک اور بے رحم ہو کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ قوم ایک کڑے سوال کے سامنے کھڑی ہے؛ کیا یہ سب کچھ بدلتے موسموں کا شاخسانہ ہے، انسانی کوتاہی کا نتیجہ ہے یا پھر ربّ کی ناراضی کا اظہار؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اس صورتحال میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان، اگرچہ عالمی کاربن اخراج میں سب سے کم حصہ ڈالنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، مگر ماحولیاتی بگاڑ کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار ملکوں میں شامل ہے۔ غیر متوقع موسمی رویے، طویل خشک سالی کے بعد اچانک موسلا دھار بارشیں، شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشیئرز اور جنوب میں بلند ہوتے سمندری سطح کے پانی—یہ تمام عناصر مل کر ایک بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ تاہم، اگر اس تمام تباہی کا الزام صرف قدرت پر دھر دیا جائے تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہوگا۔

عوام، خصوصاً سیاحوں اور سنسنی کے متلاشی افراد کی غفلت اور لاپروائی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہر سال جب محکمہ موسمیات کی جانب سے وارننگز جاری کی جاتی ہیں، تب بھی کئی لوگ خطرناک علاقوں کا رخ کرتے ہیں، دریاؤں کے کنارے کیمپ لگاتے ہیں یا ان پہاڑی راستوں پر چڑھائی کرتے ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کے لیے مشہور ہوتے ہیں۔ ایسی لاپروائی بارہا قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی ہے—نہ صرف ان افراد کی، جو خود خطرہ مول لیتے ہیں، بلکہ ان امدادی کارکنوں کی بھی، جو انہیں بچانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔

لیکن اصل اور زیادہ خطرناک مسئلہ انفرادی غلط فیصلوں میں نہیں، بلکہ نظامی ناکامی اور بے لگام شہری لالچ میں پوشیدہ ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا بے قابو پھیلاؤ—جو اکثر بااثر افراد کی سرپرستی کے سائے میں اور ماحولیاتی قوانین کو پس پشت ڈال کر کام کرتا ہے—نے وسیع زرعی زمینوں اور قدرتی آبی گزرگاہوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ یہ سوسائٹیاں، منافع اور سیمنٹ کے جنون میں، صدیوں پرانے دریاؤں اور بارش کے پانی کے بہاؤ کے راستوں کو بند یا موڑ دیتی ہیں۔ نتیجتاً جب بارش ہوتی ہے تو پانی کے نکلنے کے قدرتی راستے باقی نہیں رہتے؛ وہ رہائشی علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے، سڑکوں کو ڈبو دیتا ہے، اور ہر اُس چیز کو تباہ کر دیتا ہے جو اس کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔

زرعی میدان، جو کبھی بارش کے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اب کنکریٹ اور تارکول میں بدل چکے ہیں۔ نہریں اور ذیلی نالے یا تو تنگ کر دیے گئے ہیں یا ان کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ بعض صورتوں میں ہاؤسنگ ڈیویلپرز نے خشک دریا کے کناروں پر تعمیرات کر ڈالیں، اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے یا جان بوجھ کر بھلا کر کہ یہ خشک راستے مردہ نہیں بلکہ خاموش ہیں۔ جب قدرت اپنا حق واپس لیتی ہے تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان کبھی زرخیز رہنے والا علاقہ، اسلام آباد کے گرد و نواح، اور کراچی کی مضافاتی بستیاں اس بات کی تلخ مثالیں ہیں کہ کس طرح بے لگام تعمیر و ترقی نے ماحولیاتی توازن بگاڑا اور انسانی مصائب کو جنم دیا۔

اس دکھ میں مزید اضافہ نکاسی آب کے نظام کی مجرمانہ غفلت سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر ہر سال بند گٹروں اور صاف نہ کیے جانے والے نالوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بارہا حادثات کے باوجود مقامی انتظامیہ شاذ و نادر ہی بروقت صفائی مہمات کا آغاز کرتی ہے۔ چنانچہ معمولی بارش بھی پورے علاقوں کو زیرِ آب کر دیتی ہے، شہری آمد و رفت مفلوج ہو جاتی ہے، اور عوامی و نجی املاک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔

کچھ لوگ ان واقعات کو روحانی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں خدائی ناراضی کی علامات کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ ایک ایسی معاشرت میں، جو ناانصافی، بدعنوانی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکی ہو، ایسی آفات کو محض قدرتی حادثہ نہیں بلکہ تنبیہ سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اس نقطۂ نظر سے اتفاق کرے یا نہ کرے، مگر خوداحتسابی کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ اب صرف آسمان ہی نہیں بدلا، زمین بھی—سماجی، اخلاقی اور حقیقی معنوں میں—ہمارے قدموں کے نیچے سے کھسک چکی ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی   کے مطابق، اس سال بارشوں سے متعلقہ حادثات کے نتیجے میں اب تک 180 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جبکہ املاک اور بنیادی ڈھانچے کو ہونے والا نقصان 60 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں کئی دیہات یا تو زیرِ آب آ گئے ہیں یا مکمل طور پر منقطع ہو گئے ہیں۔ فصلیں، جو کٹائی سے محض چند ہفتے دور تھیں، بہہ گئی ہیں، جس سے پہلے ہی مشکلات کا شکار دیہی آبادی پر مزید بوجھ پڑا ہے۔

اگر ہم نے مستقبل میں ایسے نقصانات کو روکنا ہے تو فوری اور طویل المدتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک جامع، تکنیکی طور پر جدید ابتدائی وارننگ سسٹم کا قیام ناگزیر ہے۔ مقامی حکومتوں کو ایسے انتباہات پر تیزی سے عمل کرنے کے لیے لیس اور بااختیار ہونا چاہیے۔ شہری منصوبہ بندی میں مناسب نکاسی آب اور پانی کے بہاؤ کے تحفظات کو شامل کیا جانا چاہیے، اور سیلابی میدانوں پر غیر قانونی تعمیرات کو بغیر کسی استثنا کے ہٹایا جانا چاہیے۔ طوفانی نالوں کی سالانہ صفائی شفافیت اور باقاعدہ نگرانی کے ساتھ کی جائے۔

علاوہ ازیں، زرعی زمینوں اور قدرتی آبی گزرگاہوں کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیز کی منظوری پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ زمین کی ترقی سے متعلقہ اداروں کو از سر نو منظم کیا جائے تاکہ وہ قلیل مدتی آمدن کے بجائے ماحولیاتی پائیداری کو ترجیح دیں۔ ملک بھر میں ایک مضبوط اور جدید ابتدائی انتباہی نظام نافذ کیا جانا چاہیے، جس میں حقیقی وقت پر الرٹس اور مقامی سطح پر فوری ردعمل کے مؤثر طریقہ کار شامل ہوں۔ شہروں کو دوبارہ درست شہری منصوبہ بندی کی طرف لوٹنا ہوگا، جس میں نکاسی آب کے نظام، سبز جگہوں، اور پانی جذب کرنے والے علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔

اس کے علاوہ، نالوں اور نالیوں کی سالانہ صفائی کو ریاستی ذمہ داری قرار دینا چاہیے، نہ کہ صرف بارش سے چند دن قبل کی جانے والی رسمی کارروائی۔ آگاہی مہمات، اسکولوں کے نصابات، اور عوامی پیغام رسانی کے ذریعے بارش کے موسم میں غیر ذمہ دارانہ رویوں کے خطرات کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔ آخر میں، پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر ماحولیاتی انصاف کی بھرپور وکالت کرنی چاہیے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی، مالی معاونت اور شراکت داری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ملک ماحولیاتی خطرات کے خلاف مضبوط مدافعت پیدا کر سکے۔

ہمارے سامنے چیلنج بہت بڑا ہے، لیکن ناقابل تسخیر نہیں۔ اگر ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، حکمت کو سائنس کے ساتھ جوڑتے ہیں، اور اپنے اعمال کو عقل اور راستبازی دونوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں، تو ہمیں ابھی تک حفاظت کا راستہ مل سکتا ہے۔ ورنہ اگلے سال بارشیں لوٹ کر  آئیں گی اور ان کے ساتھ دکھ کا ایک اور باب بھی لائیں گی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان، اسرائیلی وزیر نے میکرون کی اہلیہ سے تھپڑ کھانے کی ویڈیو شیئر کردی گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟ عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی غیرت کے نام پر ظلم — بلوچستان کے المیے پر خاموشی جرم ہے آبادی پر کنٹرول عالمی تجربات اور پاکستان کے لیے سبق حلف، کورم اور آئینی انکار: سینیٹ انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا اسمبلی کا بحران اور اس کا حل TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • کسی کی ضد تھی کہ مراد سعید مائنس ہے، ہم نے انہیں سینیٹر بنا دیا، علی امین گنڈا پور
  • خبردار! کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے گہرے راز شیئر کرتے ہیں؟
  • عمران خان کے عزیزوں سے خطرات، جمائمہ نے قاسم اور سلیمان کو ایک مرتبہ پھر پاکستان جانے سے روک دیا
  • اسلام آباد، عدالت نے پی ٹی آئی کارکنان کی سزا معطل کر دی
  • جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
  • جمائما نے بیٹوں کو پاکستان جانے سے روک دیا ، امریکہ سے سیدھا لندن واپس بلا لیا ، نجی ٹی وی کا دعویٰ
  • جگن کاظم نے علیزے شاہ سے معافی مانگ لی، ویڈیو بیان وائرل
  • انتظامیہ کو نظر بندیوں، پابندیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، میر واعظ
  • 9 مئی اتفاق نہیں سوچا سمجھا پلان تھا، طارق فضل چودھری
  • بار بار کی پابندیاں تاریخی حقائق نہیں بدل سکتیں ہیں، میرواعظ کشمیر