جنگی صورتحال میں عوام اپنا اور دوسروں کا تحفظ کیسے کریں؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو نامعلوم افراد کے حملہ کے نتیجے میں 27 افراد کی ہلاکت کے بعد بھارتی میڈیا کی جانب سے حملے کے فوراً ہی پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی اور ہندوستانی میڈیا اور بالخصوص ’را‘ سے جڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ، پاک فوج کا منہ توڑ جواب، دشمن کی چیک پوسٹس تباہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاک بھارت کشیدگی بڑھنے لگی اور گزشتہ شب وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللّٰہ تارڑ نے مستند انٹیلیجنس اطلاعات بتادیں کہ بھارت آئندہ 24 سے 36 گھنٹوں میں پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے، دشمن کی کسی بھی مہم جوئی کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔
وی نیوز نے سول ڈیفینس افسران سے گفتگو کرکے یہ جاننے کی کوشش کی جنگ کی صورت میں عوام کو اپنا تحفظ کیسے کرنا چاہیے اور کن اقدامات کے ذریعے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
سول ڈیفینس افسر شاہد رحمان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سول ڈیفینس کا ادارہ یونین کونسل کی سطح تک کسی بھی جنگی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہما وقت تیار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونین کونسل میں 30 سے 60 رضاکار ہوتے ہیں جنہیں پوسٹ وارڈن اور وارڈن کا درجہ دیا جاتا ہے اور ان رضاکاروں کو جنگی صورتحال سے قبل، اس کے دوران اور اس کے بعد کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
شاہد رحمان نے کہا کہ یہ رضاکار کسی بھی جنگی صورتحال پر تمام یونین کونسل کے شہریوں کو جان و مال کے تحفظ اور جنگی صورتحال میں محفوظ رہنے کے طریقہ کار سکھاتے ہیں جبکہ یہ رضاکار اس موقع پر دیگر افراد کو بھی ٹریننگ دیتے ہیں کہ کیسے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
سول ڈیفینس افسر نے کہا کہ سول ڈیفینس ہر گھر کی ضرورت ہے اور ہر گھر میں تربیت یافتہ رضاکار کا ہونا لازمی ہے، اس کے لیے سول ڈیفینس نے لوگوں کو ٹریننگ دی ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سول ڈیفینس کی ٹریننگ بآسانی عام لوگوں کو بھی دی جا سکتی ہے جس کے دوران رضاکاروں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کو ان کے حلقے کی تمام گلی محلوں اور بازاروں کا معلوم ہو تاکہ اگر کبھی رات کے وقت حملہ ہوجائے تو ان کو کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے جبکہ رضاکار اس حلقے کے عوام کو جانتے ہو اور عوام کو بھی پتا ہو کہ یہ ان کے حلقے کا سول ڈیفینس کا رضاکار ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں رائے عامہ نے پہلگام حملے کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیدیا
شاہد رحمان نے کہا کہ رضاکار کے لیے ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو کہ فرسٹ ایڈ باکس کہاں رکھا ہے، پانی کے ذخائر کہاں موجود ہیں، آگ بجھانے کے لیے فائر فائٹرز کہاں سے آتے ہیں، فائر اسٹیشن کتنا دور ہے اور ڈاکٹرز اور نرسز اس علاقے میں کہاں کہاں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہدایات رضاکاروں کو حملہ ہونے سے قبل دی جانے والی تربیت کے وقت بتائی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگی صورتحال میں حملے کے دوران الگ سے تربیت دی جاتی ہے، خطرے کی اطلاع سنتے ہی وارڈن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پوسٹ یا مقررہ جگہ یا کسی ایسی جگہ پر پہنچے جہاں پر لوگ موجود ہوں، ان لوگوں کو حملے کی اطلاع کرے اور ان لوگوں سے کہے کہ وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال اور مال مویشی اگر ہیں تو ان کو لے کر اپنے گھروں کو چلے جائیں، اگر جنگ کے دوران بمباری ہو رہی ہے تو رضاکار جگہ جگہ جا کر دیکھیں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں اور لوگوں کو زیادہ خوف و حراس میں مبتلا نہ ہونے دیں۔
شاہد رحمان نے کہا کہ رضاکاروں کو حملے کی بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی الگ سے تربیت دی جاتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ جن عمارتوں کو حملے کے دوران زیادہ نقصان پہنچا ہے ان عمارتوں کو فوری خالی کرانا ہے، جبکہ جو بے گھر افراد جن کے گھروں کو نقصان پہنچا ہو ان کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا ہے اور ان کے کھانے پینے کا بھی بندوبست کرنا ہے جبکہ نقصان شدہ عمارتوں کی مرمت اور بحالی کے لیے متعلقہ اداروں سے فوری رجوع کرنا ہے جبکہ جتنے بھی جانی و مالی نقصان ہوا ہو اس سے متعلقہ فہرست تیار کر کے پولیس اسٹیشن کو پہنچانی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت24 سے 36 گھنٹوں میں پاکستان کیخلاف فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے، فیصلہ کن جواب دیا جائےگا، وزیر اطلاعات
سول ڈیفینس افسر نے بتایا کہ رضاکاروں کو بتایا جاتا ہے کہ جب بھی کبھی کسی حادثے کے بعد یا جنگی صورتحال کے لوگوں کی بڑی تعداد زخمی ہوئے تو ان سب کو کسی ایک خاص مقام پر لایا جائے اور وہاں سے آگے مختلف ایمبولینس یا گاڑیوں میں ان کو قریبی اسپتال پہنچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی ایک گھر میں ایک شخص زخمی ہے، کسی دوسرے گھر میں 3 زخمی ہیں اور کسی دوسری گلی میں اس سے زیادہ زخمی ہوں تو ان سب کو قریب سے قریب تر جمع کیا جائے تاکہ اسپتال منتقل کرنے میں آسانی ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جنگی صورتحال جنگی صورتحال اور اپنا دفاع سول ڈیفینس عوام دفاع کیسے کریں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جنگی صورتحال عوام دفاع کیسے کریں شاہد رحمان نے جنگی صورتحال رضاکاروں کو صورتحال سے کہ رضاکار نے کہا کہ انہوں نے کے دوران لوگوں کو کسی بھی جاتا ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور بھارت ذمہ دارانہ حل نکالیں اور صورتحال مزید خراب نہ کریں، امریکا
اپنی ایک پریس بریفنگ میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستان اور بھارت دونوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ کشیدگی میں اضافہ نہ کریں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد دنوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران صورتحال مزید خراب نہ کی جائے۔ ترجمان محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے پریس بریفنگ میں کہا کہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستان اور بھارت دونوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ کشیدگی میں اضافہ نہ کریں۔ ایک سوال پر ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ سے آج یا کل بات کریں گے، وہ دیگر قومی رہنماؤں اور وزراء خارجہ کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ بھی اس مسئلہ پر پاکستان اور بھارت سے رابطہ کریں۔ ترجمان محکمہ خارجہ نے مزید کہا کہ اس معاملے پر روزانہ کی بنیاد پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، پاکستان اور بھارت میں اپنے ہم منصب سے وزیر براہِ راست بات کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ یقیناً اس کا ویسا ہی اثر ہوگا، جیسا کہ وزیر دیگر لوگوں سے بات کرتے ہیں۔
ٹیمی بروس نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت کی موجودگی میں یقیناً پاکستان اور بھارت کے لیے وہ بات چیت اہم ہے۔ ایک اور سوال پر ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ امریکا صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے، دونوں فریقوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ذمہ دارانہ حل نکالیں، کیونکہ دنیا یہ صورتحال دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لمحہ سب سے اہم یہ ہے کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو کی بات چیت کا نتیجہ نکلے۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشتگرد حملے میں 26 بھارتی سیاحوں کو قتل کیا گیا تھا، جس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ بڑھ گیا ہے۔