بھارتی جنگی جنون ، خطے کا امن خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی کے لیے امریکی حکومت سرگرم ہوگئی ہے، امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کو فون کیا، پھر بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے رابطہ کیا۔ بھارت کے بڑھتے ہوئے اشتعال انگیز رویے کو انتہائی مایوس کن اور تشویش ناک قرار دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام واقعے سے پاکستان کو جوڑنے کی بھارتی کوششوں کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کیا اور حقائق سامنے لانے کے لیے شفاف، قابل اعتماد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے کا اعادہ کیا۔
اس حقیقت سے انکار تو ممکن ہی نہیں کہ دو ایٹمی ممالک ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے میدان میں اتریں گے تو ان دونوں ممالک کا مقدر ہی انسانی اور جنگلی حیات سمیت مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹنا نہیں بنے گا بلکہ یہ جنگ پورے کرہ ارض کی تباہی پر منتج ہوسکتی ہے کیونکہ دنیا کے ہر کونے پر آج ایٹم بم کی شکل میں قیامت توڑنے کے اسباب موجود ہیں جو انسانی ذہنِ رسا کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔
بھارت کی ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے پہلگام واقعے کی آڑ میں پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے لیے اب تک پورا زور لگا لیا ہے اور اس وقت بھی پورے بھارت میں جنگی جنونیت کی فضا طاری ہے۔ مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا عندیہ دے کر بھارتی افواج کو فری ہینڈ بھی دے دیا ہے۔ جنوبی ایشیائی خطے سے متعلق بھارتی مقاصد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ علاقائی خود ساختہ کردار کی وجہ سے بین الریاستی تعلقات کی اخلاقی اور قانونی رکاوٹوں سے آزاد، بھارت بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے میں اخلاقی کمزوری کا مظاہرہ کررہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے چھین لیا تھا۔ اس حکمت عملی کے پیچھے بھارت کے مقاصد میں غیر قانونی طور پر الحاق شدہ علاقے پر اپنی کمزور گرفت کو مضبوط کرنا، جائیداد کی ملکیت کو تبدیل کرنا اور ریاستی آبادی تبدیل کرنا شامل ہے۔ پہلگام حملے کے بعد بھارتی حکام نے کشمیریوں کی متعدد املاک کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھارت ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے پراکسی گروپوں کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ تیسرا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں رکاوٹ ڈالنا ہے، یہ کام بھارت نے چین پر قابو پانے کی وسیع تر حکمت عملی کے طور پر کیا ہے۔
بھارت کے جنگی جنون نے خطے میں ایک غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ اس سے نہ صرف خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہوئی ہے بلکہ اقتصادی ترقی اور باہمی تعاون کے مواقع بھی متاثر ہوئے ہیں۔ انڈیا کے اندر اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد ایک انسانی المیہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں جیسے کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹس میں بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک اور تشدد کو فروغ دے رہی ہے۔ انڈیا کی جانب سے کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں سکھ رہنماؤں اور دیگر شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کے الزامات نے عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو مزید مجروح کیا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم کرتے ہیں۔
اس سے عالمی برادری میں انڈیا کے خلاف عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ بھارت کے ان اقدامات کے نتیجے میں خطے میں کئی منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔ سب سے پہلے، ہتھیاروں کی دوڑ اور فوجی کشیدگی نے خطے کے ممالک کو اپنی دفاعی صلاحیتوں پر بھاری اخراجات اٹھانے پر مجبور کیا ہے، جس سے غربت اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے مسائل مزید گمبھیر ہو رہے ہیں۔ دوسرا، مذہبی منافرت اور اقلیتوں کے خلاف تشدد نے خطے کی سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے، جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔ تیسرا، عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی اور ٹارگٹ کلنگز جیسے اقدامات نے خطے کو عالمی تنہائی اور عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔
موجودہ جنگی جنون کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے پاس ہائی مورال رکھنے والی اعلیٰ عسکری تربیت یافتہ فورس کی اتنی تعداد ہے، جس کے بھروسے پر وہ اتنا بڑا رسک لے سکے۔ کیونکہ کسی بھی ملک کے خلاف فوج کشی کا مطلب کھلی جنگ ہے، جب کہ زمینی حقائق یہ ہے کہ بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے 8 لاکھ فوجی و افسران موجود ہیں۔ اسی طرح بھارت کی مختلف ریاستوں میں آزادی کی جومسلح تحریکیں چل رہی ہیں، بغاوتیں و شورشیں برپا ہیں۔
ان کو بھی کچلنے کے لیے 4 لاکھ کے قریب سیکیورٹی اہلکار موجود ہیں، یہ تعداد تقریبا 12 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے، اگر بھارت، پاکستان کے خلاف کھلی جنگ کا آپشن رکھتا ہے، تو اس کو متعلقہ علاقوں سے 12 لاکھ فوجیوں کو ہٹانا پڑے گا۔ نہ صرف فوجیوں کو بلکہ ضروریات زندگی کی ہر چیز سمیت ہلکے بھاری ہتھیاروں، گولہ بارود کو بھی پاکستانی سرحدوں تک پہنچانا پڑے گا۔ جب کسی بھی ملک کی 70 فی صد فورسز آزادی کی تحریکوں، شورشوں و بغاوتوں کو کچلنے میں مصروف ہوں۔ تب ایسے مواقع پر کوئی بھی ملک فوج کشی جیسا احمقانہ قدم اٹھا کر فاش غلطی کا ارتکاب ہر گز نہیں کرتا، جو اس کی تقسیم کا باعث بن جائے۔ بھارت کا یہی وہ بنیادی اسٹرٹیجک کمزور پہلو ہے۔ جن کا اکھنڈ بھارت کے انتہا پسند نیتاؤں، مذہبی پنڈتوں و فوجی قیادتوں کو بہت اچھی طرح ادراک ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایک کھلی جنگ کا مطلب بھارت کی تقسیم نوشتہ دیوار ہے۔
کسی بھی سرجیکل اسٹرائیک کے لیے فیصلہ کن ہتھیار پرعزم، نڈر ایئر فورس قیادت کی موجودگی اولین شرط ہے۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری، رہائی اور ایک جنگی طیارے کے نقصان کے بعد بھارتی فضائیہ فی الحال کسی بھی سرجیکل اسٹرائیک کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا کیا انجام ہونا ہے؟ بھارتی آبی جارحیت کے بعد صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اگر اس دفعہ پائلٹ پکڑا گیا تو نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارت پڑوسی ممالک کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردیوں، تخریب کاریوں کا طویل سلسلہ شروع کر دے۔ سیاسی شدت پسندی، لسانی و فرقہ وارانہ شورشوں کو پروموٹ کرنا شروع کر دے، جس کے امکانات ہیں۔ جو فوج کشی کی بہ نسبت ازلی دشمن کے لیے آسان بھی ہے۔
بی جے پی کے حامی بھارتی میڈیا کی جانب سے چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم سے ہٹ کر یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہاں کے عوام، سول سوسائٹی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی قیادت کیا سوچ رہے ہیں؟ تقسیم ہند سے لے کر اب تک بھارتی عوام کی سوچ میں پہلی بار حیران کن تبدیلی آئی ہے۔ بھارتی عوام کی اکثریت نے مودی سرکار کے اس بیانیے کو سختی سے رد کر دیا ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان ملوث ہے۔
دوسرا اس سے بھی زیادہ حیران کن امر واقع یہ ہوا کہ وہاں پر جو معتدل ہندو، کرسچن کمیونٹی، مسلمان، سکھ اور دلت شامل ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ مودی سرکار اس حملے کو جواز بنا کر کسی اور کی جنگ لڑنا چاہ رہی ہے۔ ہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ بھارت کی اپوزیشن بھی جنگ کے حق میں نہیں ہے البتہ مودی و اسرائیلی حمایت یافتہ میڈیا جنگی ماحول بنانے کے لیے تمام ذرائع استعمال کر رہا ہے، لیکن یہ صرف ایک کھوکھلا ماحول ہے، حقائق نہیں ہیں۔ بھارتی عوام اور سول سوسائٹی کی سوچ کی اس حیران کن تبدیلی نے مودی اور اس کے نظریاتی اتحادیوں کے سارے منصوبوں کی قلعی کھول دی ہے۔
انڈیا کے جنگی جنون، عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی، اقلیتوں پر مظالم، ٹارگٹ کلنگز اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ خراب تعلقات نے خطے کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر انڈیا نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی اور سفارتی مذاکرات کے ذریعے خطے میں اعتماد بحال نہ کیا، تو جنوبی ایشیا عدم استحکام، معاشی زوال اور سماجی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔پاکستان کا رویہ ہمیشہ ذمے دار، صبر اور تحمل پر مبنی رہا ہے جب کہ بھارت کی طرف سے جارحیت اور الزام تراشی کا سلسلہ بڑھ رہا ہے پاکستان نے عالمی سطح پر اپنے موقف کو واضح کیا ہے اور امن کے قیام کے لیے اپنی خواہش کا بار بار اظہار کر رہا ہے لیکن بھارت کی طرف سے ہٹ دھرمی اور بے بنیاد الزامات خطے میں مزید کشیدگی کا سبب بن رہے ہیں اس صورت حال میں ضروری ہے کہ عالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنے غیر ذمے دارانہ رویے کو ترک کرے اور خطے میں دیرپا امن کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے مودی سرکار جنگی جنون بھارت کی کہ بھارت کے لیے ا کے خلاف رہے ہیں کسی بھی رہا ہے کیا ہے دیا ہے
پڑھیں:
مودی سرکارکی رسوائی
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ شکست خوردہ بھارت کو اقوام عالم میں ذلت آمیز رسوائی کا سامنا ہے، امریکی صدر جب کہتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ ہم نے رکوائی تو مودی کے زخم دوبارہ تازہ ہوجاتے ہیں۔ ‘‘
دوسری جانب بھارتی پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے دوران بی جے پی کو اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید اور سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اجلاس میں پہلگام حملے، رافیل طیاروں کے گرنے اور متنازعہ ’آپریشن مہادیو‘ جیسے اہم امور نمایاں رہے، مودی حکومت کٹہرے میں کھڑی نظر آئی۔ بھارتی وزیراعظم طیارے گرنے پر ایک لفظ نہ بول سکے۔
آپریشن سندور میں بھارت کی شکست پر لوک سبھا میں جو سوالات اٹھائے گئے، ان کا وزیراعظم مودی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ بلاشبہ بھارتی لوک سبھا میں آپریشن سندور کے نقصانات پر سوالات پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ بھارتی بیانیے کو پوری دنیا میں سبکی کا سامنا ہے اور اس جنگ کے بعد بھارتی عوام کی مودی سرکار سے ناراضی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کو اس جنگ میں ناکامی حاصل ہوئی ہے۔
بلا شک و شبہ حالیہ پاک، بھارت جنگ نے بھارتی ریاست کے علاقائی حاکمیت کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔ بھارت شاید اس حملے سے دنیا خصوصاً ہمسایہ ممالک کو باورکرانا چاہتا تھا کہ وہ بلا شرکت غیرے اس خطے کی سپر پاور ہے، لیکن پاک، بھارت جنگ میں 10 مئی کو بھارت کی فرضی برتری کا خود ساختہ بت پاش پاش ہوا اور غرور خاک میں مل گیا۔
اس شکست کے بعد بھارت بخوبی جانتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ طاقت۔ بھارت اب نئے محاذ پر متحرک ہے۔ بھارت کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس کا تقاضا تھا کہ وہ فرضی برتری کے خول سے باہر نکل کر حقیقت کا سامنا کرتا، اپنی ناکام جنگی حکمت عملی اور پالیسیوں کا جائزہ لیتا مگر بھارت دو محاذوں پر متحرک ہوا ہے۔ ایک طرف سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کی خلاف اپنے مذموم ایجنڈے کو پھیلانے میں مصروف ہے، دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔
بھارت نے سفارتی محاذ پر اپنا بیانیہ پیش کرنے کے لیے بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے 45 پارلیمانی اراکین پر مشتمل سات مختلف وفود تشکیل دیے ہیں۔ ان وفود کو دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ان وفود کی اہم ذمے داریوں میں پاکستان کے خلاف بھارتی نقطہ نظر کو عالمی سطح پر پیش کرنا شامل تھا خصوصاً 10 مئی کے واقعات کے تناظر میں پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کے الزامات کو اُجاگر کرنا۔ یہ وفود بھارت کے آپریشن سندور کے بارے میں عالمی برادری کو بریفنگ دیتے رہے تاکہ بھارتی اقدامات کو جائز ثابت کیا جا سکے۔
ان کا مقصد مختلف ممالک کی حکومتوں، تھنک ٹینکس اور میڈیا کے ساتھ ملاقاتیں کر کے بھارتی نقطہ نظر پر عالمی حمایت حاصل کرنا تھا جس میں پاکستان پر مزید پابندیاں لگوانے کی کوشش بھی شامل تھی، بالخصوص فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذریعے پاکستان کا نام دوبارہ گرے لسٹ میں ڈلوانا۔ یہ وفود امریکا، یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سمیت تقریباً 32ممالک کے دورے پر گئے تھے۔ اس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین بھی شامل تھے جب کہ 70 ممالک کے اتاشیوں کے سامنے بھی اپنی صفائی پیش کی گئی تاکہ جنگی محاذ پر ہونے والے نقصانات کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان کو تنہا کیا جا سکے اور اس پر دباؤ بڑھایا جا سکے، لیکن بھارت عالمی برادری میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جدید دور کی جنگیں صرف میدان میں نہیں، بلکہ دماغوں میں بھی لڑی جاتی ہیں۔ اس بار جنگ صرف سرحدوں تک محدود نہ رہی بلکہ ایک نیا محاذ کھلا جو اطلاعات، بیانیے اور سچ و جھوٹ کی جنگ کا محاذ تھا۔ اس میدان میں پاکستان نے نہایت مہارت، سنجیدگی اور پیشہ ورانہ تدبر کے ساتھ جو معرکہ سر کیا، وہ کسی بھی جدید ریاست کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاک، بھارت حالیہ جارحیت سے متعلق دنیا اعتراف کر چکی ہے کہ یہ جنگ پاکستان واضح برتری سے جیتا، چاہے فضائی محاذ ہو یا الیکٹرانک وار فئیر، چاہے سائبر وار فئیر ہو یا انفارمیشن وار فیئر یا پھر سفارتی محاذ پاکستان نے تمام محاذوں پر بھارت کو شکست دی۔ پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز گرائے جن میں رافیل جیسے دور حاضر کے بہترین جنگی طیارے بھی شامل تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بار محض روایتی میڈیا ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی میدانِ جنگ بن چکا تھا۔
بھارت نے فیک نیوز، جعلی وڈیوز اور جھوٹے بیانات کی مدد سے ایک خیالی فتح کا ماحول بنانے کی کوشش کی مگر پاکستانی نوجوانوں، یوٹیوبرز، بلاگرز اور صحافیوں نے اپنی رضا کارانہ کاوشوں سے اس پروپیگنڈے کو ہر محاذ پر چیلنج کیا۔ بغیر کسی رسمی تنظیم کے ان عام پاکستانی نوجوانوں نے ڈیجیٹل دنیا میں ایسا دفاعی مورچہ قائم کیا جو جدید سائبر وار کی عملی تصویر بن گیا۔ ٹوئٹر سے لے کر یوٹیوب تک پاکستانی موقف، دلیل، ثبوت اور زبان و بیان کی طاقت سے غالب رہا۔ قابلِ ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے پہلی بار پرو ایکٹو اسٹرٹیجی اختیار کی۔
دشمن کے دعوؤں کا انتظار کرنے کے بجائے، خود آگے بڑھ کر مستند معلومات، سیٹلائٹ امیجز، جیو لوکیشن وڈیوز اور موقع کی تصاویر پیش کی گئیں جس سے پاکستان کا بیانیہ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی معتبر ٹھہرا۔ بین الاقوامی میڈیا ادارے جیسے فنانشل ٹائمز اور نیویارک میگزین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بھارت کی اطلاعاتی حکمت عملی کئی جگہوں پر کمزور اور ناقابلِ اعتبار ثابت ہوئی۔
اس پوری اطلاعاتی جنگ میں پاکستان نے ایک اور کامیابی ’’ سائبر اسپیس‘‘ میں حاصل کی۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ مستقبل کی جنگیں اسی طرز پر ہوں گی جہاں بندوقوں سے پہلے بیانیے چلیں گے اور گولے داغنے سے پہلے خبریں نشر ہوں گی۔ ایسے میں پاکستان نے جو ماڈل اس بار پیش کیا وہ محض ایک وقتی کامیابی نہیں بلکہ مستقبل کی جنگی حکمت عملی کا بنیادی خاکہ ہے۔ سچائی، بروقت ردعمل، پیشہ ور ترجمان، متحد قوم اور بااعتماد ادارے ہی یہی وہ عناصر ہیں جو ہر جھوٹے پروپیگنڈے کو شکست دے سکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رُکن ہے، بطور رُکن، پاکستان نے ہر اہم موقع پر اپنا کلیدی کردار ادا کیا، چاہے غزہ کا معاملہ ہو یا پھر ایران، اسرائیل جنگ۔ ماہ جون میں پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسدادِ دہشتگردی کمیٹی کا نائب چیئرمین اور طالبان پر پابندیوں کے نفاذ کے لیے قائم نگران کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ بظاہر یہ معمول کی تعیناتیاں ہیں۔ مگر ان تعیناتیوں پر بھارتی ریاست سیخ پا ہے۔ یقینی طور پر یہ تعیناتیاں بھارتی ریاست کی پاکستان کے خلاف دہشگردوں کی سہولت کاری کے الزامات کو مسترد کیا جانا ہے وہیں پر دہشتگردی کے خلاف پاکستانی ریاست کے غیر متزلزل اقدامات کو پوری دنیا کی جانب سے تسلیم کیا جانا بھی ہے۔
عالمی میڈیا میں پاکستان کا بیانیہ چھا گیا ہے اور بھارت کا دہشت گردی کا شور عالمی سطح پر مسترد کر دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے بھارت کو مزید تنہا کر دیا ہے اور دونوں ممالک کو برابر درجہ دے کر دہلی کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ صرف 10 ارب ڈالر کی تجارت کے باوجود اسے عالمی اہمیت دی۔ دنیا نے بھارت کے سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے کو مسترد کر دیا ہے اور پاکستان نے اپنے ٹھوس ثبوتوں سے دنیا کو قائل کر لیا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، پاکستان نے امریکا کی ثالثی کو خوش دلی سے قبول کیا جب کہ بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔ چین، ترکی، ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے جس کے باعث بھارت تنہا ہوگیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت جنگ کے میدان میں بھی ناکام رہا اور سفارتی محاذ پر بھی تنہا دکھائی دے رہا ہے۔
امریکا کی مداخلت نے بھارت کے علاقائی لیڈر بننے کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے جب کہ پاکستان کی پرامن اور ذمے دار سفارت کاری نے عالمی سطح پر ایک مثبت تاثر قائم کیا ہے۔پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھی بے مثال کامیابی حاصل کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی دونوں مشکل میں ہیں۔