Express News:
2025-09-18@00:11:57 GMT

بھارتی جنگی جنون ، خطے کا امن خطرے میں

اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT

پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی کے لیے امریکی حکومت سرگرم ہوگئی ہے، امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کو فون کیا، پھر بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے رابطہ کیا۔ بھارت کے بڑھتے ہوئے اشتعال انگیز رویے کو انتہائی مایوس کن اور تشویش ناک قرار دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام واقعے سے پاکستان کو جوڑنے کی بھارتی کوششوں کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کیا اور حقائق سامنے لانے کے لیے شفاف، قابل اعتماد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے کا اعادہ کیا۔

 اس حقیقت سے انکار تو ممکن ہی نہیں کہ دو ایٹمی ممالک ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے میدان میں اتریں گے تو ان دونوں ممالک کا مقدر ہی انسانی اور جنگلی حیات سمیت مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹنا نہیں بنے گا بلکہ یہ جنگ پورے کرہ ارض کی تباہی پر منتج ہوسکتی ہے کیونکہ دنیا کے ہر کونے پر آج ایٹم بم کی شکل میں قیامت توڑنے کے اسباب موجود ہیں جو انسانی ذہنِ رسا کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔

بھارت کی ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے پہلگام واقعے کی آڑ میں پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے لیے اب تک پورا زور لگا لیا ہے اور اس وقت بھی پورے بھارت میں جنگی جنونیت کی فضا طاری ہے۔ مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا عندیہ دے کر بھارتی افواج کو فری ہینڈ بھی دے دیا ہے۔ جنوبی ایشیائی خطے سے متعلق بھارتی مقاصد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ علاقائی خود ساختہ کردار کی وجہ سے بین الریاستی تعلقات کی اخلاقی اور قانونی رکاوٹوں سے آزاد، بھارت بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے میں اخلاقی کمزوری کا مظاہرہ کررہا ہے۔

 مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ذریعے چھین لیا تھا۔ اس حکمت عملی کے پیچھے بھارت کے مقاصد میں غیر قانونی طور پر الحاق شدہ علاقے پر اپنی کمزور گرفت کو مضبوط کرنا، جائیداد کی ملکیت کو تبدیل کرنا اور ریاستی آبادی تبدیل کرنا شامل ہے۔ پہلگام حملے کے بعد بھارتی حکام نے کشمیریوں کی متعدد املاک کو مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھارت ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے پراکسی گروپوں کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ تیسرا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں رکاوٹ ڈالنا ہے، یہ کام بھارت نے چین پر قابو پانے کی وسیع تر حکمت عملی کے طور پر کیا ہے۔

 بھارت کے جنگی جنون نے خطے میں ایک غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ اس سے نہ صرف خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہوئی ہے بلکہ اقتصادی ترقی اور باہمی تعاون کے مواقع بھی متاثر ہوئے ہیں۔ انڈیا کے اندر اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد ایک انسانی المیہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں جیسے کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹس میں بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک اور تشدد کو فروغ دے رہی ہے۔ انڈیا کی جانب سے کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں سکھ رہنماؤں اور دیگر شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کے الزامات نے عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو مزید مجروح کیا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک خطرناک مثال قائم کرتے ہیں۔

اس سے عالمی برادری میں انڈیا کے خلاف عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔ بھارت کے ان اقدامات کے نتیجے میں خطے میں کئی منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔ سب سے پہلے، ہتھیاروں کی دوڑ اور فوجی کشیدگی نے خطے کے ممالک کو اپنی دفاعی صلاحیتوں پر بھاری اخراجات اٹھانے پر مجبور کیا ہے، جس سے غربت اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے مسائل مزید گمبھیر ہو رہے ہیں۔ دوسرا، مذہبی منافرت اور اقلیتوں کے خلاف تشدد نے خطے کی سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے، جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔ تیسرا، عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی اور ٹارگٹ کلنگز جیسے اقدامات نے خطے کو عالمی تنہائی اور عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔

موجودہ جنگی جنون کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے پاس ہائی مورال رکھنے والی اعلیٰ عسکری تربیت یافتہ فورس کی اتنی تعداد ہے، جس کے بھروسے پر وہ اتنا بڑا رسک لے سکے۔ کیونکہ کسی بھی ملک کے خلاف فوج کشی کا مطلب کھلی جنگ ہے، جب کہ زمینی حقائق یہ ہے کہ بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے 8 لاکھ فوجی و افسران موجود ہیں۔ اسی طرح بھارت کی مختلف ریاستوں میں آزادی کی جومسلح تحریکیں چل رہی ہیں، بغاوتیں و شورشیں برپا ہیں۔

ان کو بھی کچلنے کے لیے 4 لاکھ کے قریب سیکیورٹی اہلکار موجود ہیں، یہ تعداد تقریبا 12 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے، اگر بھارت، پاکستان کے خلاف کھلی جنگ کا آپشن رکھتا ہے، تو اس کو متعلقہ علاقوں سے 12 لاکھ فوجیوں کو ہٹانا پڑے گا۔ نہ صرف فوجیوں کو بلکہ ضروریات زندگی کی ہر چیز سمیت ہلکے بھاری ہتھیاروں، گولہ بارود کو بھی پاکستانی سرحدوں تک پہنچانا پڑے گا۔ جب کسی بھی ملک کی 70 فی صد فورسز آزادی کی تحریکوں، شورشوں و بغاوتوں کو کچلنے میں مصروف ہوں۔ تب ایسے مواقع پر کوئی بھی ملک فوج کشی جیسا احمقانہ قدم اٹھا کر فاش غلطی کا ارتکاب ہر گز نہیں کرتا، جو اس کی تقسیم کا باعث بن جائے۔ بھارت کا یہی وہ بنیادی اسٹرٹیجک کمزور پہلو ہے۔ جن کا اکھنڈ بھارت کے انتہا پسند نیتاؤں، مذہبی پنڈتوں و فوجی قیادتوں کو بہت اچھی طرح ادراک ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایک کھلی جنگ کا مطلب بھارت کی تقسیم نوشتہ دیوار ہے۔

کسی بھی سرجیکل اسٹرائیک کے لیے فیصلہ کن ہتھیار پرعزم، نڈر ایئر فورس قیادت کی موجودگی اولین شرط ہے۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری، رہائی اور ایک جنگی طیارے کے نقصان کے بعد بھارتی فضائیہ فی الحال کسی بھی سرجیکل اسٹرائیک کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا کیا انجام ہونا ہے؟ بھارتی آبی جارحیت کے بعد صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اگر اس دفعہ پائلٹ پکڑا گیا تو نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارت پڑوسی ممالک کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردیوں، تخریب کاریوں کا طویل سلسلہ شروع کر دے۔ سیاسی شدت پسندی، لسانی و فرقہ وارانہ شورشوں کو پروموٹ کرنا شروع کر دے، جس کے امکانات ہیں۔ جو فوج کشی کی بہ نسبت ازلی دشمن کے لیے آسان بھی ہے۔

 بی جے پی کے حامی بھارتی میڈیا کی جانب سے چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم سے ہٹ کر یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہاں کے عوام، سول سوسائٹی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی قیادت کیا سوچ رہے ہیں؟ تقسیم ہند سے لے کر اب تک بھارتی عوام کی سوچ میں پہلی بار حیران کن تبدیلی آئی ہے۔ بھارتی عوام کی اکثریت نے مودی سرکار کے اس بیانیے کو سختی سے رد کر دیا ہے کہ پہلگام حملے میں پاکستان ملوث ہے۔

دوسرا اس سے بھی زیادہ حیران کن امر واقع یہ ہوا کہ وہاں پر جو معتدل ہندو، کرسچن کمیونٹی، مسلمان، سکھ اور دلت شامل ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ مودی سرکار اس حملے کو جواز بنا کر کسی اور کی جنگ لڑنا چاہ رہی ہے۔ ہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ بھارت کی اپوزیشن بھی جنگ کے حق میں نہیں ہے البتہ مودی و اسرائیلی حمایت یافتہ میڈیا جنگی ماحول بنانے کے لیے تمام ذرائع استعمال کر رہا ہے، لیکن یہ صرف ایک کھوکھلا ماحول ہے، حقائق نہیں ہیں۔ بھارتی عوام اور سول سوسائٹی کی سوچ کی اس حیران کن تبدیلی نے مودی اور اس کے نظریاتی اتحادیوں کے سارے منصوبوں کی قلعی کھول دی ہے۔

انڈیا کے جنگی جنون، عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی، اقلیتوں پر مظالم، ٹارگٹ کلنگز اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ خراب تعلقات نے خطے کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر انڈیا نے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی اور سفارتی مذاکرات کے ذریعے خطے میں اعتماد بحال نہ کیا، تو جنوبی ایشیا عدم استحکام، معاشی زوال اور سماجی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔پاکستان کا رویہ ہمیشہ ذمے دار، صبر اور تحمل پر مبنی رہا ہے جب کہ بھارت کی طرف سے جارحیت اور الزام تراشی کا سلسلہ بڑھ رہا ہے پاکستان نے عالمی سطح پر اپنے موقف کو واضح کیا ہے اور امن کے قیام کے لیے اپنی خواہش کا بار بار اظہار کر رہا ہے لیکن بھارت کی طرف سے ہٹ دھرمی اور بے بنیاد الزامات خطے میں مزید کشیدگی کا سبب بن رہے ہیں اس صورت حال میں ضروری ہے کہ عالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنے غیر ذمے دارانہ رویے کو ترک کرے اور خطے میں دیرپا امن کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے مودی سرکار جنگی جنون بھارت کی کہ بھارت کے لیے ا کے خلاف رہے ہیں کسی بھی رہا ہے کیا ہے دیا ہے

پڑھیں:

بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی

بھارت کی مودی حکومت نے ایک بار پھر سکھ برادری کو ان کے بنیادی مذہبی حق سے محروم کرتے ہوئے نومبر میں گرو نانک دیو جی کے پرکاش پورب پر پاکستان جانے والے یاتری جتھے کو سرحد پار کرنے سے روک دیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف دہرا معیار ظاہر کرتا ہے بلکہ سکھوں کے ساتھ دہائیوں سے جاری ریاستی ناانصافی کی ایک تازہ مثال بھی ہے۔

دہرا معیار اور مذہبی آزادی کی پامالی

سکھ برادری کا مؤقف ہے کہ بھارت ہمیشہ ان کے جذبات کو کچلتا آیا ہے، کبھی 1984 کے فسادات میں قتل عام، کبھی پنجاب کے پانیوں پر بندش اور کبھی یاترا پر پابندیوں کی صورت میں۔ اب سیکیورٹی کے نام پر ننکانہ صاحب جانے سے روکنا مذہبی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارتی حکومت ڈالروں کے حصول کے لیے پاکستان کے خلاف کرکٹ کھیلنے پر تیار ہو جاتی ہے مگر جب بات سکھ یاتریوں کی ہو تو سرحدیں بند کر دی جاتی ہیں۔

سیاسی ردعمل

پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے اس اقدام کو دہرا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کرکٹ میچز ممکن ہیں تو یاترا کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ سکھ برادری کے مقدس مواقع پر اس طرح کی رکاوٹیں بھارت کے جمہوری اور سیکولر دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں۔

پاکستان کی فراخدلی اور سکھوں کی عقیدت

پاکستان نے سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور کوریڈور کھول کر وہ سہولت فراہم کی جس کا خواب سکھ دہائیوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہر سال ہزاروں سکھ پاکستان آ کر اپنے مقدس مقامات پر حاضری دیتے ہیں، جہاں انہیں مکمل عزت و احترام دیا جاتا ہے۔

بڑھتی بے چینی اور خالصتان تحریک

ماہرین کے مطابق بھارت کی پالیسیوں سے سکھ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ یہ اقدامات خالصتان تحریک کو مزید توانائی دے رہے ہیں اور سکھ نوجوانوں میں علیحدگی پسندی کے جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔

عالمی برادری کا کردار

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری بھارتی حکومت کے ان امتیازی اقدامات کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور سکھوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت پاکستان سکھ یاتری

متعلقہ مضامین

  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی
  • صیہونی جنگی جنون ختم نہ ہو سکا، یمن کے ساحلی شہر پر پھر بمباری
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • کیا بھارت آپریشن سندور جیت گیا تھا؟ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر برس پڑے
  • جنگی شکست کا بدلہ بھارت کرکٹ کے میدان میں لینے کا سنگین اور اخلاقی جرم کر رہا ہے، ڈاکٹر عشرت العباد
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  • پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ عزائم
  • کیا اب پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ایسے ہی چلے گی؟