عالمی عدالت: پاکستان کی فلسطینیوں کے حق میں توانا آواز، اسرائیل کو کٹہرے میں لانے کی استدعا
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
پاکستان نے عالمی عدالت انصاف سے استدعا کی ہے کہ وہ غزہ میں جاری امداد کی رسائی ممکن بنائی جائے اور اسرائیل کو امداد روکنے پر جواب دہ ٹھہراتے ہوئے اس کو احتساب کے کٹہرے میں لائے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کے مسلمانوں کی مصیبتیں عالمی اتحاد کی کھلم کھلا تضحیک ہے، وزیر اعظم شہباز شریف
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں جمعرات کو ہونے والی عوامی سماعت کے دوران نیدرلینڈز میں پاکستان کے سفیر سید حیدر شاہ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں خصوصاً غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری مظالم کو اجاگر کیا۔
عالمی عدالت میں آج مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ، دیگر بین الاقوامی تنظیموں اور تھرڈ اسٹیٹس کی موجودگی اور سرگرمیوں کے حوالے سے اسرائیل کی ذمہ داریوں سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی۔
اپنے بیان میں پاکستانی سفیر نے زور دیا کہ اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این آر ڈبلیو اے اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کو حاصل مراعات اور استثنیٰ کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کی مثال اقوام متحدہ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
مزید پڑھیے: غزہ کے نہتے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف کی پذیرائی
اسرائیل کی مذکورہ کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہوں نے اسے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی اور ایک منظم مہم کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد لاکھوں ضرورت مند فلسطینیوں تک انسانی امداد کی رسائی کو روکنا ہے۔
سید حیدر شاہ نے غزہ تک بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا اور اسرائیل کو اجتماعی سزا کے نفاذ اور انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنے پر جواب دہ ٹھہرانے کی ضرورت پر زور دیا۔
مزید پڑھیں: غزہ کی صورتحال انتہائی تشویشناک، عالمی طاقتیں مظلوم فلسطینی اور کشمیری عوام کو حق دلائیں، شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے رواں سال کے آغاز میں اس مقدمے میں عالمی عدالت انصاف کو اپنا تفصیلی تحریری بیان جمع کروایا تھا۔ اس مقدمے کی زبانی کارروائیاں 28 اپریل سے دو مئی 2025 تک جاری رہیں گی جن میں 40 سے زائد ممالک اور تنظیموں کی شرکت متوقع ہے۔
پاکستانی سفیر کا اپنے بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور سنہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر قائم ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ان کے جائز موقف کی حمایت کرتا آیا ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی جے پاکستان اور غزہ عالمی عدالت انصاف فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان اور غزہ عالمی عدالت انصاف فلسطین عالمی عدالت انصاف اسرائیل کی امداد کی
پڑھیں:
اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت تمام ممالک کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قتل عام کو روکنے اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے اقدامات کریں۔
کمیشن نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکام اور سکیورٹی فورسز نے 1948 کے 'کنونشن برائے انسدادِ نسل کشی' میں بیان کردہ پانچ میں سے چار ایسے افعال کا ارتکاب کیا ہے جو نسل کشی کی ذیل میں آتے ہیں۔
Tweet URLان میں مخصوص انسانی گروہ کا قتل، اس کے ارکان کو شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانا، ان پر مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بننے والے حالات زندگی مسلط کرنا اور ان کے تولیدی حقوق کو غصب کرنا یا نقصان پہنچانا شامل ہیں۔
(جاری ہے)
یہ تمام افعال اقوام متحدہ کے انسداد نسل کشی کنونشن کے تحت نسل کشی کے واضح اور سنگین مظاہر تسلیم کیے گئے ہیں۔
کمیشن کی سربراہ نوی پِلے نے کہا ہے کہ ان ہولناک جرائم کی ذمہ داری اسرائیلی کے اعلیٰ ترین حکام پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے تقریباً دو سال سے فلسطینیوں کو غزہ میں تباہ کرنے کی مخصوص نیت کے ساتھ ایک منظم نسل کشی کی مہم چلائی۔
اس کمیشن کا قیام اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی جانب سے 2021 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس نے 7 اکتوبر 2023 اور اس کے بعد دو سال کے دوران غزہ میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ایسے تمام اقدامات کی تفصیلات بیان کی ہیں جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔
نسل کشی کی منظم مہمکمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نہ صرف نسل کشی کو روکنے بلکہ ان افعال کی تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں بھی ناکام رہا۔
کمیشن نے نسل کشی کی نیت ثابت کرنے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے مقدمے 'بوسنیا بنام سربیا' میں طے کیے گئے معیار یعنی 'واحد معقول نتیجہ' کو اپنایا اور اس معاملے میں اسرائیلی حکام کے بیانات کا جائزہ لیا جو نسل کشی کی نیت کا براہ راست ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
کمیشن نے غزہ میں اسرائیلی حکام اور سیکیورٹی فورسز کے عملی رویے کا تجزیہ بھی کیا جس میں فلسطینیوں کو فاقہ کشی پر مجبور کرنا اور غزہ میں ان پر غیر انسانی حالاتِ مسلط کرنا شامل ہے۔
ان شواہد کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایسی کارروائیوں میں نسل کشی کی نیت شامل تھی۔رپورٹ میں کہا کیا گیا ہے کہ یہ نسل کشی ایک منظم اور طویل المدتی مہم کا حصہ تھی۔ اسرائیل نے نہ صرف نسل کشی کی نیت سے کارروائیاں کیں بلکہ اسے روکنے یا مجرموں کو سزا دینے میں بھی ناکام رہا۔ یہ نتائج بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق، اور عالمی ضمیر کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ مسئلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کمیشن نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں پر فوری عمل کرے جن میں غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا خاتمہ اور 'آئی سی جے' کی جانب سے جاری کردہ عبوری اقدامات پر مکمل عملدرآمد بھی شامل ہے۔
تحقیقاتی کمیشن نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ بھوک کا بطور ہتھیار استعمال فوری بند کرے، غزہ کا محاصرہ اٹھائے اور انسانی امداد تک وسیع، محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائے۔ اس میں اقوام متحدہ کے تمام عملے، بشمول فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اس کے امدادی ادارے (انروا)، انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر اور تمام تسلیم شدہ بین الاقوامی انسانی امدادی اداروں کو رسائی دینا بھی شامل ہے۔
کمیشن نے نے اسرائیل سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' کی سرگرمیوں کو فوراً بند کرے۔
کمیشن نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں اور ایسے دیگر سازوسامان کی منتقلی کو روکیں جو نسل کشی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں، یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ ان کے دائرہ اختیار میں موجود افراد اور کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ کسی بھی صورت نسل کشی میں ملوث نہ ہوں اور ایسے افراد یا کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی کے ذریعے جوابدہی کو یقینی بنایا جائے جو نسل کشی میں کسی بھی طور پر شریک پائے جائیں۔نوی پِلے نے کہا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش نہیں رہ سکتی۔
جب نسل کشی کی واضح علامات اور ثبوت سامنے آ جائیں تو اسے روکنے میں ناکامی، خود اس جرم میں شراکت کے مترادف ہے۔اس معاملے میں ہر روز کی بے عملی مزید انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہی ہے اور اس سے عالمی برادری کی ساکھ کو شدید نقصان ہو رہا ہے جبکہ تمام ممالک پر اس نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنے اختیار میں موجود تمام ذرائع بروئے کار لانے کی قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔