Islam Times:
2025-05-05@02:58:05 GMT

لیبیا، یوکرین اور شام

اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT

لیبیا، یوکرین اور شام

اسلام ٹائمز: لیبیا اور یوکرین میں ہونیوالی پیشرفت کا شام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اسکرپٹ رائیٹروں نے زیلنسکی کو "میدان میں ہیرو" کے طور پر متعارف کرایا اور قذافی کے بعد کے لیبیا کے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی۔ یہی تاریخ شام میں دہرائی جا رہی ہے۔ لیبیا، یوکرین اور شام میں ہونیوالی پیشرفت اور اس منصوبے کو بے نقاب کرنے کیلئے کافی ثبوت موجود ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار وہ ہیں، جو برسوں سے "جمہوریت"، "انسانی حقوق" اور "عوام کی مرضی" جیسے ناموں سے اقوام پر مسلط ہیں۔ یہ طاقتیں عملی طور پر عدم استحکام، تقسیم اور امریکی تسلط کے سوا کچھ نہیں چاہتیں۔۔ تحریر: ڈاکٹر راشد نقوی

مشرق وسطیٰ سے لیکر یورپ تک ایک ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے جس کے تانے بانے استعماری نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ لیبیا سے مختلف نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوکرین یورپی اور امریکہ کا اتحادی ہے۔ شام میں بھی وہی کچھ ہونے والا ہے، جو ان دو ممالک میں ہوچکا ہے۔ اس سارے کھیل کا اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار ایک ہی ہے۔ 2011ء میں لیبیا کے ڈکٹیٹر کے زوال کے تقریباً ایک سال بعد ایک  یونیورسٹی پروفیسر کا انٹرویو نظروں سے گزرا۔ انہوں نے قذافی کے بعد لیبیا کے حالات کے بارے میں کہا تھا کہ قذافی کے دور میں ملک پر ایک آمریت کی حکومت تھی اور لوگ حالات سے خوش نہیں تھے، لیکن  یورپی اتحادیوں کے ہاتھوں قذافی کے قتل کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے۔

قذافی جیسا بھی تھا، نوجوانوں اور لیبیائی خاندانوں کے لیے کچھ خصوصی اقتصادی مراعات اس کے مدنظر تھیں اور سکیورٹی بھی اپنی جگہ مستحکم تھی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب یہ حالات موجود نہیں ہیں اور لیبیا کے عوام اب ان حالات کا خواب ہی دیکھیں گے۔ ان کے زوال کے بعد جو چیز ابھری، وہ نہ جمہوریت تھی اور نہ سیاسی استحکام، بلکہ  افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ کا بازار گرم تھا۔ جب یہ انٹرویو لیا گیا، اس وقت ملک میں طاقت کا خلا تھا اور مغربی ممالک لیبیا کا تیل لوٹنے کے لیے یلغار کرچکے تھے۔ اس ملک کے ہر کونے میں ایک فوجی افسر نے آزادی اور علیحدگی کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔ گویا لیبیا بنیادی انتشار کا شکار ہوچکا تھا۔

قذافی کے زوال کے دس سال بعد، یورو نیوز نے لکھا تھا، اگرچہ لیبیا کا ڈکٹیٹر مارا گیا، لیکن اس کی موت کے بعد اس ملک میں جمہوریت یا استحکام قائم نہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس، ملک ایک دہائی سے اندرونی تنازعات، غیر ملکی دشمنیوں کے ساتھ ساتھ مافیا ملیشیاؤں کے درمیان تناؤ میں گھرا ہوا ہے۔ فوجی جرنیلوں کی مسابقت نے تیل سے مالا مال اس ملک کے عوام کو امن سے خالی اور تیل کے وسائل سے محروم کر دیا ہے۔ لیبیا میں اب بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس کا تیل لوٹا جا رہا ہے اور ہر کونے میں ایک شخص اقتدار پر قابض ہے اور ان میں سے ہر ایک کو غیر ملکی طاقت کی حمایت حاصل ہے۔ جب قذافی کا تختہ الٹ دیا گیا تو مغربی رہنماؤں نے کہا: "لیبیا کے لوگ بہتر زندگی کے مستحق ہیں۔۔۔ ہم انہیں جمہوریت تحفے کے طور پر دیں گے۔"

 آج یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ لیبیا کے برعکس نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوکرین یورپی اور امریکہ کا اتحادی ہے۔ امریکہ کو روس پر قابو پانے اور اس روایتی اور طاقتور اتحادی کو کمزور کرنے کے لیے یوکرین کی ضرورت تھی۔ جان میئر شیمر جیسے دانشوروں کے مطابق نیٹو کی روس کی طرف توسیع یوکرائنی جنگ کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ امریکہ اور کئی یورپی ممالک نے زیلنسکی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ روس پر پابندیاں لگا کر اور یوکرین کو مسلح کرکے روس کو جیتنے سے روکیں گے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جنگ کے آغاز کے 3 سال، 2 ماہ اور 9 دن بعد امریکہ نے روس کے ساتھ کھڑے ہو کر یوکرین کو جنگ کے ذمہ دار کے طور پر متعارف کرایا۔ اس نے کریمیا کا جزیرہ نما علاقہ پوتن کو دے دیا اور ملک کی کانوں اور قدرتی وسائل کو اپنے لیے لے لیا۔ یوکرین اب ایک ذلیل لیڈر اور تباہ حال ملک کے ساتھ باقی رہ گیا ہے۔

نیلی آنکھوں والے گورے مفادات کے لیے اپنے تعلقات نہ صرف آمروں بلکہ داعش اور تکفیری دہشت گردوں سے بھی استوار کرتے ہیں۔ کیا انہوں نے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس دہشت گرد اور تکفیری گروہ تحریر الشام کے سرغنہ ابو محمد الجولانی کو (جو چند سال پہلے تک بین الاقوامی طور پر مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھا) شام میں اقتدار میں نہیں لایا؟! شام کے بارے میں کیا خبر ہے۔؟ کیا بشار الاسد کے جانے اور امریکہ، صیہونی حکومت اور ترکی کے آنے سے اس ملک کے حالات بہتر ہوئے ہیں؟! تقریبا 5 ماہ قبل، شام کے صدر بشار الاسد ایک پیچیدہ منصوبے کے ساتھ روس فرار ہوئے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اوباما کے دور میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ امریکہ، صیہونی حکومت اور ترکی کی کوششوں سے اس منصوبے نے عملی جامہ پہنا۔ ان تینوں نے شام کا اقتدار دہشت گرد گروہ تحریر الشام کے حوالے کر دیا۔

ایک عجیب اور ناقابل یقین رفتار کے ساتھ یہ تینوں اپنی پوری صلاحیتیں میدان میں لے آئے اور جولانی حکومت کو دنیا بھر میں سرکاری سطح پر تسلیم کروانے کی بھرپور کوشش کی۔ بین الاقوامی وفود کے پے در پے دورے اور عجلت میں مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا اور انہوں نے صدارت کا تاج ایک تکفیری دہشت گرد کے سر پر رکھ دیا۔ ایک ایسا تاج جو جولانی کے سر کے لیے فٹ نہیں ہے۔ اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب صیہونی حکومت شام پر حملہ نہ کرتی ہو۔ تقریباً کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب اس ملک کے لوگ جولانی حکومت یا دیگر سلفی تکفیری گروہوں کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے ہوں۔ ملک پر سرکاری طور پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں ہمیں اس کی تقسیم کی خبریں سننے کو ملیں گی اور تینوں ترکیہ، امریکہ اور اسرائیل ان میں سے ہر ایک شام کے قدرتی وسائل اور تیل کو لوٹنے میں مصروف ہے۔

بشار الاسد کے جانے کے بعد ہزاروں مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں، شام میں تقریباً کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں بچا ہے۔ گولان کی پہاڑیاں اور جس معاہدے کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ بظاہر ختم ہو رہی ہے۔ اس پر اسرائیل کا قبضہ پہلے سے مضبوط ہے اور اس نے مقامی دروزیوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ جولانی کے حواری  ہر روز کسی نہ کسی طریقے سے اس مسئلے میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ تین دن پہلے صیہونیوں نے چند میٹر کے فاصلے پر شام کے صدارتی محل کو ذلت آمیز طریقے سے نشانہ بنایا اور کل یہ خبریں بریک ہوئیں کہ  اسرائیل نے شام کے مختلف شہروں پر بمباری کی۔ جولانی کے ساتھ اس ٹشو پیپر جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، جسے استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ وہ صیہونی حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے کی ہمت نہیں رکھتا! اگر آج شامی عوام سے پوچھا جائے کہ کیا بشار الاسد کا دور ان تمام مسائل کے ساتھ بہتر تھا یا اب؟ وہ کیا جواب دیں گے۔؟

لیبیا اور یوکرین میں ہونے والی پیشرفت کا شام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اسکرپٹ رائیٹروں نے زیلنسکی کو "میدان میں ہیرو" کے طور پر متعارف کرایا اور قذافی کے بعد کے لیبیا کے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی۔ یہی تاریخ شام میں دہرائی جا رہی ہے۔ لیبیا، یوکرین اور شام میں ہونے والی پیشرفت اور اس منصوبے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار وہ ہیں، جو برسوں سے "جمہوریت"، "انسانی حقوق" اور "عوام کی مرضی" جیسے ناموں سے اقوام پر مسلط ہیں۔ یہ طاقتیں عملی طور پر عدم استحکام، تقسیم اور امریکی تسلط کے سوا کچھ نہیں چاہتیں۔۔ قذافی، زیلنسکی یا اسد یہ تینوں ایک ایسے منظر نامے کا شکار ہوگئے، جس میں اہم کھلاڑی مغربی طاقتیں تھیں۔ ان واقعات نے ظاہر کیا کہ امریکہ جو چاہتا ہے، وہ نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی ظلم سے آزادی، وہ وسائل پر قبضہ کرنے اور دنیا کے حساس حصوں میں اپنی پوزیشن کو مضبوط  کرنے کے درپے ہے۔

ان تینوں ممالک میں ان مداخلتوں کے بعد باقی کیا بچا ہے، سوائے راکھ، ملبے، نقل مکانی، موت اور قومی تذلیل کے! وہ ممالک، شخصیات یا تھنک ٹینک جو اب بھی سرمایہ دارانہ نظام پر مشتمل اس سامراجی نظام سے کوئی خیر کی توقع رکھتے ہیں تو انہیں ماضی قریب بلکہ موجودہ دور کے تین ملکوں لیبیا، یوکرین اور شام کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ ان تینوں ممالک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی طاقتیں خفیہ نہیں، سب کے سامنے ہیں۔ اگر امت مسلمہ نے اس سے سبق نہیں سیکھا تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا، جو آج ہم طرابلس، کیف یا دمشق میں دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔ (اس تحریر کو مرتب کرنے کے لئے جعفر بلوری سمیت مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کی تجزیوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یوکرین اور شام صیہونی حکومت بشار الاسد کے طور پر اس ملک کے لیبیا کے قذافی کے کے ساتھ کرنے کے شام کے ہے اور کے بعد کے لیے اور اس

پڑھیں:

ملتان سلطانز کا مسئلہ کیا ہے؟

کراچی:

یہ 2017 کی بات ہے، پی ایس ایل کی ابتدائی کامیابی کو دیکھ کر اس میں ایک نئی ٹیم شامل کرنے کا فیصلہ ہوا، چھٹی ٹیم کیلیے پی سی بی کا شون گروپ کے ساتھ 5.2 ملین ڈالرز کا معاہدہ ہوا، یہ سابقہ مہنگی ترین ٹیم کراچی کنگز (2.6 ملین) سے دگنی رقم تھی، البتہ اپنے ابتدائی سیزن کے بعد ہی شون گروپ کو اندازہ ہو گیا کہ اس نے غلطی کر لی ہے، جب فیس کی ادائیگی نہیں ہوئی تو پی سی بی نے معاہدہ منسوخ کر دیا.

دسمبر 2018 میں عالمگیر ترین نے اپنے بھتیجے علی ترین کے ساتھ مل کر6.3 ملین ڈالر میں یہ ٹیم خرید لی،اس وقت ان کے ذہن میں یہی تھا کہ ہر حال میں فرنچائز لینی ہے اس لیے شاید یہ بات نہ سوچی کہ جب شون گروپ5.2 ملین فیس دیکھ کر سائیڈ پر ہوگیا تو یہ اس سے زیادہ رقم کیسے کور کریں گے. 

خیر یہ پارٹی بہت بڑی ہے، کچھ سیاسی معاملات بھی ذہن میں ہوں گے، اس لیے نقصانات بھی برداشت کیے جاتے رہے،2021 میں بعض وجوہات کی بنا پر عالمگیر ترین اکیلے ہی تمام شیئرز کے مالک بن گئے، چچا بھتیجے کے درمیان کیا بات ہوئی اس کا ہمیں کوئی مطلب نہیں،2023 میں عالمگیر ترین اس دنیا میں نہیں رہے اور علی ترین فرنچائز کے پھر سے مالک بن گئے،ان دنوں لیگ کا دسواں ایڈیشن جاری ہے.

اس سے قبل ہی علی ترین نے فنانشل ماڈل کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، اچانک انھیں لیگ میں بے انتہا خامیاں دکھائی دینے لگیں اور وہ مالی نقصانات کا رونا رونے لگے، حیران کن طور پر پی سی بی اس دوران خاموش تماشائی بنا رہا کیونکہ علی ترین خاصی اثرورسوخ والی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر ویلیویشن کے نتیجے میں فیس بڑھائی تو وہ ری بڈنگ میں جائیں گے. 

ایک اور انٹرویو میں انھوں نے ملتان کی فیس کراچی کے برابر کرنے کا مطالبہ بھی کیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ دسمبر میں جب پی سی بی نے  فرنچائزز سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ملکیت اپنے پاس برقرار رکھنا چاہتی ہیں تو ملتان سمیت سب نے ہاں میں جواب دیا تھا. 

سلمان نصیر اور علی ترین کے تعلقات بھی مثالی نہیں ہیں، وہ اب لیگ کے سی ای او بن چکے لہذا صورتحال تھوڑی پیچیدہ سی ہے،دسویں ایڈیشن کے بعد کرکٹ بورڈ تمام ٹیموں کی ویلیویشن کرائے گا اور اس کے بعد کم ازکم 25 فیصد فیس میں اضافہ ممکن ہے. 

یوں ملتان کی فیس ایک ارب 8 کروڑ روپے سالانہ سے بڑھ کر ایک ارب 35 کروڑ تک ہو سکتی ہے، یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہوگا اور علی کا شکوہ  ممکن طور پر غلط بھی نہیں ہے، البتہ ٹائمنگ اور انداز پر سوال اٹھ سکتے ہیں، ان کی باتوں سے لیگ کو نقصان ہوا، اس کی قدروقیمت کم ہوئی، علی ترین کو یہ باتیں گورننگ کونسل میٹنگ میں کہنی چاہیے تھیں لیکن سنا ہے وہاں وہ اپنا مائیک میوٹ ہی رکھتے ہیں.

ان کے پاس ایک آپشن یہ بھی تھا کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھتے اور کہتے کہ چچا کا انتقال ہو چکا، ٹیم انھوں نے خریدی تھی لیکن اس فیس میں اسے میں نہیں سنبھال سکتا لہذا کچھ نظرثانی کریں، گوکہ معاہدے کی رو سے فیس میں کمی ممکن نہیں لیکن سلمان نصیر ماہر وکیل ہیں، وہ کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے. 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ علی ترین اتنے جارحانہ موڈ میں کیوں ہیں؟ حال ہی میں پی سی بی کے 2  ڈائریکٹرز ندیم خان اور سمیع برنی نے ملتان سلطانز کو جوائن کیا ہے، کیا انھوں نے کچھ ایسے مشورے دیے؟ کیا کسی نے یہ کہا کہ پی سی بی بیانات سے دباؤ میں آ جائے گا ایسا کرو، البتہ لوگ یہ کیوں بھول گئے کہ اس وقت چیئرمین محسن نقوی ہیں، وہ بھلا کسی کے دباؤ میں کیوں آئیں گے. 

ہو سکتا ہے ابھی مروت میں ڈھیل دی ہو لیکن ایسا زیادہ دیر نہیں چل سکتا، اس بار ملتان سلطانز بے دلی سے پی ایس ایل میں شریک ہوئے، اسکواڈ متوازن نہیں ہے، مسلسل شکستوں نے سابقہ کامیابیوں کو بھی گہنا دیا،اگر ٹیم کی برانڈ ویلیو تمام 10 ایڈیشنز کی بنیاد پر نہ بنتی تو ملتان پیچھے رہ جاتا، ویسے یہ بھی عجیب بات ہے جس نے اپنی ٹیم کو بڑا برانڈ بنایا وہ اتنے ہی نقصان میں رہے گا. 

ویلیویشن میں اس کی فیس زیادہ بڑھ سکتی ہے، جو سارے سال آرام سے بیٹھے رہیں اور لیگ کے وقت جاگیں ان کو فائدہ ہوگا، جتنا علی ترین کے بیانات نے پی ایس ایل کو نقصان پہنچایا اس سے زیادہ ٹیم کی ناقص کارکردگی سے لیگ متاثر ہوئی، آپ نے کبھی آئی پی ایل اونرز کو اس کی برائی کرتے نہیں دیکھا ہوگا. 

سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ نے اتنے مہنگے داموں ٹیم کیوں لی؟ جب مسلسل نقصان برداشت کرتے رہے تو چپ کیوں رہے؟ اب 10 سال پورے ہونے پر خیال آ رہا ہے، پی ایس ایل فرنچائز مالکان کو یہ سوچنا چاہیے کہ دولت تو ان کے پاس پہلے سے تھی، اس لیگ نے سیلیبریٹی اسٹیٹس دیا، آپ جنوبی پنجاب کے کتنے سیاستدانوں کو جانتے ہوں گے؟ کتنے بزنس مینز کے ناموں سے آپ واقف ہوں گے؟

البتہ پی ایس ایل اونرز کی مکمل ہسٹری دنیا جانتی ہے،وہ جہاں جاتے ہیں مداح ساتھ سیلفیز بنواتے ہیں،بیشتر نے یقینی طور پر لیگ سے پیسہ بھی کمایا ہوگا، جس وقت کسی کو علم نہ تھا کہ پی ایس ایل چلے گی یا نہیں تب خطرہ مول لے کر عاطف رانا، ثمین رانا، جاوید آفریدی، ندیم عمر، علی نقوی اور سلمان اقبال نے ٹیمیں خریدیں،اصل کریڈٹ تو انہی کو جاتا ہے.

کامیابی کے بعد آنے والوں کو تو زیادہ فیس دینی ہی تھی، اب پھر آئندہ سال 2 نئی ٹیموں کو شامل کیا جا رہا ہے، علی ترین کے بیانات کے بعد کیا کوئی 6.3 ملین ڈالر میں بھی ٹیم کو خریدے گا؟ وہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ملتان سلطانز جب اتنے نقصان میں ہے تو ہم کیسے ریکور کریں گے.

ایک طریقہ ہے پی سی بی ری بڈنگ میں ملتان کی ٹیم بھاری قیمت میں فروخت کر دے پھر اگلی 2 ٹیموں کے بھی ریٹس بڑھ جائیں گے، اس لیگ کو بڑا اونرز کو ہی بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے چند ایک کے سوا دیگر فعال کردار ادا نہ کر سکے، اب نئے معاہدے ہونا ہیں اس صورتحال کا نقصان ہی ہوگا.

جب تک لیگ بڑی نہیں ہوتی زیادہ آمدنی ہونا ممکن نہیں ہے، اسے بڑا بنانے کیلیے ضروری ہے کہ رونا دھونا چھوڑ کر سب ٹیبل پر بیٹھیں اور نئی راہیں تلاش کریں، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ٹیم کو چھوڑ دیں،یقین مانیے کئی لوگ مالک بننے کیلیے تیار بیٹھے ہیں، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے جو ہے وہ کریں بس لیگ کو برباد نہ کریں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • ملتان سلطانز کا مسئلہ کیا ہے؟
  • لیبیا کشتی حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کی میتیں لاہور پہنچا دی گئیں
  • یوکرین نے روسی Su-30 جنگی طیارے کو سمندری ڈرون سے گرا دیا
  • یوکرین نے روس کا جدید ترین طیارہ تباہ کردیا
  • صرف 3 دن؟ زیلنسکی نے پیوٹن کی امن پیشکش کو مسترد کر دیا
  • یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے امریکا کا روس پر نئی پابندیوں کا منصوبہ
  • ہمیں تو یاد ہے
  • پوٹن کی طرف سے تین روزہ جنگ بندی ایک ’کھیل‘ ہے، زیلنسکی
  • یوکرینی شہر خارکیف پر روسی ڈرون حملے: 50 زخمی، عمارتیں اور شہری انفراسٹرکچر تباہ