Islam Times:
2025-06-20@19:39:00 GMT

لیبیا، یوکرین اور شام

اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT

لیبیا، یوکرین اور شام

اسلام ٹائمز: لیبیا اور یوکرین میں ہونیوالی پیشرفت کا شام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اسکرپٹ رائیٹروں نے زیلنسکی کو "میدان میں ہیرو" کے طور پر متعارف کرایا اور قذافی کے بعد کے لیبیا کے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی۔ یہی تاریخ شام میں دہرائی جا رہی ہے۔ لیبیا، یوکرین اور شام میں ہونیوالی پیشرفت اور اس منصوبے کو بے نقاب کرنے کیلئے کافی ثبوت موجود ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار وہ ہیں، جو برسوں سے "جمہوریت"، "انسانی حقوق" اور "عوام کی مرضی" جیسے ناموں سے اقوام پر مسلط ہیں۔ یہ طاقتیں عملی طور پر عدم استحکام، تقسیم اور امریکی تسلط کے سوا کچھ نہیں چاہتیں۔۔ تحریر: ڈاکٹر راشد نقوی

مشرق وسطیٰ سے لیکر یورپ تک ایک ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے جس کے تانے بانے استعماری نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ لیبیا سے مختلف نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوکرین یورپی اور امریکہ کا اتحادی ہے۔ شام میں بھی وہی کچھ ہونے والا ہے، جو ان دو ممالک میں ہوچکا ہے۔ اس سارے کھیل کا اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار ایک ہی ہے۔ 2011ء میں لیبیا کے ڈکٹیٹر کے زوال کے تقریباً ایک سال بعد ایک  یونیورسٹی پروفیسر کا انٹرویو نظروں سے گزرا۔ انہوں نے قذافی کے بعد لیبیا کے حالات کے بارے میں کہا تھا کہ قذافی کے دور میں ملک پر ایک آمریت کی حکومت تھی اور لوگ حالات سے خوش نہیں تھے، لیکن  یورپی اتحادیوں کے ہاتھوں قذافی کے قتل کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے۔

قذافی جیسا بھی تھا، نوجوانوں اور لیبیائی خاندانوں کے لیے کچھ خصوصی اقتصادی مراعات اس کے مدنظر تھیں اور سکیورٹی بھی اپنی جگہ مستحکم تھی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب یہ حالات موجود نہیں ہیں اور لیبیا کے عوام اب ان حالات کا خواب ہی دیکھیں گے۔ ان کے زوال کے بعد جو چیز ابھری، وہ نہ جمہوریت تھی اور نہ سیاسی استحکام، بلکہ  افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ کا بازار گرم تھا۔ جب یہ انٹرویو لیا گیا، اس وقت ملک میں طاقت کا خلا تھا اور مغربی ممالک لیبیا کا تیل لوٹنے کے لیے یلغار کرچکے تھے۔ اس ملک کے ہر کونے میں ایک فوجی افسر نے آزادی اور علیحدگی کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔ گویا لیبیا بنیادی انتشار کا شکار ہوچکا تھا۔

قذافی کے زوال کے دس سال بعد، یورو نیوز نے لکھا تھا، اگرچہ لیبیا کا ڈکٹیٹر مارا گیا، لیکن اس کی موت کے بعد اس ملک میں جمہوریت یا استحکام قائم نہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس، ملک ایک دہائی سے اندرونی تنازعات، غیر ملکی دشمنیوں کے ساتھ ساتھ مافیا ملیشیاؤں کے درمیان تناؤ میں گھرا ہوا ہے۔ فوجی جرنیلوں کی مسابقت نے تیل سے مالا مال اس ملک کے عوام کو امن سے خالی اور تیل کے وسائل سے محروم کر دیا ہے۔ لیبیا میں اب بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس کا تیل لوٹا جا رہا ہے اور ہر کونے میں ایک شخص اقتدار پر قابض ہے اور ان میں سے ہر ایک کو غیر ملکی طاقت کی حمایت حاصل ہے۔ جب قذافی کا تختہ الٹ دیا گیا تو مغربی رہنماؤں نے کہا: "لیبیا کے لوگ بہتر زندگی کے مستحق ہیں۔۔۔ ہم انہیں جمہوریت تحفے کے طور پر دیں گے۔"

 آج یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ لیبیا کے برعکس نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوکرین یورپی اور امریکہ کا اتحادی ہے۔ امریکہ کو روس پر قابو پانے اور اس روایتی اور طاقتور اتحادی کو کمزور کرنے کے لیے یوکرین کی ضرورت تھی۔ جان میئر شیمر جیسے دانشوروں کے مطابق نیٹو کی روس کی طرف توسیع یوکرائنی جنگ کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ امریکہ اور کئی یورپی ممالک نے زیلنسکی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ روس پر پابندیاں لگا کر اور یوکرین کو مسلح کرکے روس کو جیتنے سے روکیں گے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جنگ کے آغاز کے 3 سال، 2 ماہ اور 9 دن بعد امریکہ نے روس کے ساتھ کھڑے ہو کر یوکرین کو جنگ کے ذمہ دار کے طور پر متعارف کرایا۔ اس نے کریمیا کا جزیرہ نما علاقہ پوتن کو دے دیا اور ملک کی کانوں اور قدرتی وسائل کو اپنے لیے لے لیا۔ یوکرین اب ایک ذلیل لیڈر اور تباہ حال ملک کے ساتھ باقی رہ گیا ہے۔

نیلی آنکھوں والے گورے مفادات کے لیے اپنے تعلقات نہ صرف آمروں بلکہ داعش اور تکفیری دہشت گردوں سے بھی استوار کرتے ہیں۔ کیا انہوں نے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس دہشت گرد اور تکفیری گروہ تحریر الشام کے سرغنہ ابو محمد الجولانی کو (جو چند سال پہلے تک بین الاقوامی طور پر مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھا) شام میں اقتدار میں نہیں لایا؟! شام کے بارے میں کیا خبر ہے۔؟ کیا بشار الاسد کے جانے اور امریکہ، صیہونی حکومت اور ترکی کے آنے سے اس ملک کے حالات بہتر ہوئے ہیں؟! تقریبا 5 ماہ قبل، شام کے صدر بشار الاسد ایک پیچیدہ منصوبے کے ساتھ روس فرار ہوئے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اوباما کے دور میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ امریکہ، صیہونی حکومت اور ترکی کی کوششوں سے اس منصوبے نے عملی جامہ پہنا۔ ان تینوں نے شام کا اقتدار دہشت گرد گروہ تحریر الشام کے حوالے کر دیا۔

ایک عجیب اور ناقابل یقین رفتار کے ساتھ یہ تینوں اپنی پوری صلاحیتیں میدان میں لے آئے اور جولانی حکومت کو دنیا بھر میں سرکاری سطح پر تسلیم کروانے کی بھرپور کوشش کی۔ بین الاقوامی وفود کے پے در پے دورے اور عجلت میں مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا اور انہوں نے صدارت کا تاج ایک تکفیری دہشت گرد کے سر پر رکھ دیا۔ ایک ایسا تاج جو جولانی کے سر کے لیے فٹ نہیں ہے۔ اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب صیہونی حکومت شام پر حملہ نہ کرتی ہو۔ تقریباً کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب اس ملک کے لوگ جولانی حکومت یا دیگر سلفی تکفیری گروہوں کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے ہوں۔ ملک پر سرکاری طور پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں ہمیں اس کی تقسیم کی خبریں سننے کو ملیں گی اور تینوں ترکیہ، امریکہ اور اسرائیل ان میں سے ہر ایک شام کے قدرتی وسائل اور تیل کو لوٹنے میں مصروف ہے۔

بشار الاسد کے جانے کے بعد ہزاروں مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں، شام میں تقریباً کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں بچا ہے۔ گولان کی پہاڑیاں اور جس معاہدے کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ بظاہر ختم ہو رہی ہے۔ اس پر اسرائیل کا قبضہ پہلے سے مضبوط ہے اور اس نے مقامی دروزیوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ جولانی کے حواری  ہر روز کسی نہ کسی طریقے سے اس مسئلے میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ تین دن پہلے صیہونیوں نے چند میٹر کے فاصلے پر شام کے صدارتی محل کو ذلت آمیز طریقے سے نشانہ بنایا اور کل یہ خبریں بریک ہوئیں کہ  اسرائیل نے شام کے مختلف شہروں پر بمباری کی۔ جولانی کے ساتھ اس ٹشو پیپر جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، جسے استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ وہ صیہونی حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے کی ہمت نہیں رکھتا! اگر آج شامی عوام سے پوچھا جائے کہ کیا بشار الاسد کا دور ان تمام مسائل کے ساتھ بہتر تھا یا اب؟ وہ کیا جواب دیں گے۔؟

لیبیا اور یوکرین میں ہونے والی پیشرفت کا شام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اسکرپٹ رائیٹروں نے زیلنسکی کو "میدان میں ہیرو" کے طور پر متعارف کرایا اور قذافی کے بعد کے لیبیا کے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی۔ یہی تاریخ شام میں دہرائی جا رہی ہے۔ لیبیا، یوکرین اور شام میں ہونے والی پیشرفت اور اس منصوبے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار وہ ہیں، جو برسوں سے "جمہوریت"، "انسانی حقوق" اور "عوام کی مرضی" جیسے ناموں سے اقوام پر مسلط ہیں۔ یہ طاقتیں عملی طور پر عدم استحکام، تقسیم اور امریکی تسلط کے سوا کچھ نہیں چاہتیں۔۔ قذافی، زیلنسکی یا اسد یہ تینوں ایک ایسے منظر نامے کا شکار ہوگئے، جس میں اہم کھلاڑی مغربی طاقتیں تھیں۔ ان واقعات نے ظاہر کیا کہ امریکہ جو چاہتا ہے، وہ نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی ظلم سے آزادی، وہ وسائل پر قبضہ کرنے اور دنیا کے حساس حصوں میں اپنی پوزیشن کو مضبوط  کرنے کے درپے ہے۔

ان تینوں ممالک میں ان مداخلتوں کے بعد باقی کیا بچا ہے، سوائے راکھ، ملبے، نقل مکانی، موت اور قومی تذلیل کے! وہ ممالک، شخصیات یا تھنک ٹینک جو اب بھی سرمایہ دارانہ نظام پر مشتمل اس سامراجی نظام سے کوئی خیر کی توقع رکھتے ہیں تو انہیں ماضی قریب بلکہ موجودہ دور کے تین ملکوں لیبیا، یوکرین اور شام کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ ان تینوں ممالک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی طاقتیں خفیہ نہیں، سب کے سامنے ہیں۔ اگر امت مسلمہ نے اس سے سبق نہیں سیکھا تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا، جو آج ہم طرابلس، کیف یا دمشق میں دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔ (اس تحریر کو مرتب کرنے کے لئے جعفر بلوری سمیت مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کی تجزیوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یوکرین اور شام صیہونی حکومت بشار الاسد کے طور پر اس ملک کے لیبیا کے قذافی کے کے ساتھ کرنے کے شام کے ہے اور کے بعد کے لیے اور اس

پڑھیں:

قرآن پاک کے حقوق ادا کیجئے!

حضرت زید بن ثابتؓ روایت کرتے ہیں کہ ’’نبیﷺ اس دار فانی سے رحلت فرماگئے اور اس وقت تک قرآن مجید کسی چیز میں جمع نہیں کیا گیا تھا‘‘۔الخاطبی کا قول ہے کہ جب سرور عالمﷺ کی وفات کے باعث نزول قرآن کا سلسلہ ختم ہو گیا تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس سچے وعدہ کو پورا کرنے کیلئے جواس کی حفاظت کے متعلق فرمایا تھا، خلفائے راشدین کے دل یں قرآن کوجمع کرنے کی خواہش پیدا فرمائی۔ پھر اس عظیم الشان کام کا آغاز حضرت عمرؓ کے مشورہ کے مطابق حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھوں سے ہوا۔ کتابت قرآن کا سلسلہ نبیﷺ کے عہد مبارک میں شروع ہو چکا تھاچنانچہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد کہ’’میری باتوں میں سے قرآن کے سوا اور کسی چیز کو نہ لکھو‘‘۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن رسول اﷲﷺ کے زمانہ میں لکھ لیا گیا تھا، اگرچہ وہ سب ایک جگہ جمع نہ تھا۔
قرآن مجید کو جمع اور مرتب کرنے کا اہم کام حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میںاور ان کے روبرو ہوا۔ اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ ابو بکرؓ کو جنگ یمامہ میں بہت سے صحابہ کرامؓ کے شہید ہونے کی خبر ملی تو اس وقت حضرت عمرؓ آپؓ کے پاس پاس آئے۔ حضرت ابو بکرؓ کہتے ہیں:’’حضرت عمرؓ نے میرے پاس آکر کہا کہ معرکہ یمامۂ میں قرآن پاک کے بہت سے حفاظ و قاری شہید ہوئے اور مجھے ڈر ہے کہ آئندہ معرکوں میں بھی وہ شہید ہوتے جائیں گے اور اس طرح مبادا بہت سا قرآن ہاتھوں سے جاتا رہے گا۔ لہٰذا میری رائے کہ تم قرآن کے جمع کا حکم دو۔ میں نے عمرؓ کو جواب دیا کہ جس کام کو رسول اﷲﷺ نے نہیں کیا میں اسے کس طرح کروں؟ حضرت عمرؓ نے کہا خدا کی قسم یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں بہتر ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں: حضرت عمرؓ بار بار مجھ سے کہتے رہے، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے اس بارے میں وہی رائے قائم کر لی جو حضرت عمرؓ نے قائم کی تھی۔‘‘
زید بن ثابتؓ کہتے ہیں:’’ حضرت ابو بکرؓ نے مجھ سے کہا کہ تم ایک سمجھ دار نوجوان ہو اور ہم تم پر بداعتمادی نہیں کر سکتے اور تم رسول اﷲﷺ کے کاتب وحی بھی تھے۔ اس لئے اب قرآن کی تفتیش اور تحقیق کر کے اسے جمع کرو۔‘‘
زید بن ثابتؓ کہتے ہیں: ’’واﷲ مجھے ایک پہاڑ اس جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دینے کا حکم دیتے تو یہ بات مجھ پر اتنی گراں نہ ہوتی جس قدرقرآن جمع کرنے کا حکم مجھ پر شاق گزرا اور میں نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کہا: آپ دونوں وہ کام کس طرح کرتے ہیں جسے رسول اﷲﷺ نے نہیں کیا؟۔ ابو بکرؓ نے جواب دیا: واﷲ یہ بات بہتر ہے اور پھر وہ برابر مجھ سے اس بارے میں بار بار کہتے رہے حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا دل بھی اسی بات کے لئے کھول دیا جس بات کے واسطے ابو بکرؓ و عمرؓ کا دل کھولا تھا، پھر میں نے قرآن کی تلاش اور جستجو شروع کی اور اسے کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنا شروع کر دیا۔‘‘
زید بن ثابتؓ قرآن کو محض لکھا ہوا پانے ہی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی شہادت ان لوگوں سے بھی بہم پہنچا لیتے جنہوں نے اس سب کر یاد کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ خودبھی حافظ قرآن تھے۔ غرضیکہ قرآن مکتوب کے وجودپانے اور خود حافظ قرآن ہونے کے باوجود حفظ وکتابت کی شہادتوں کو بھی بہم پہنچا کر اسے جمع فرماتے تھے تاکہ قرآن اسی اصل سے لکھا جائے جورسول اﷲﷺ کے روبرو لکھا گیا اور آنحضرتﷺ پر پیش ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ نقل شدہ صحیفے ابو بکرؓ کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کی محافظت کی اور حضرت عمرؓ کا انتقال ہوجانے کے بعد وہ صحائف ام المؤمنین حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ کے پاس محفوظ رہے۔
قارئین محترم! مفسرین اور علمائے کرام نے قرآن مجید کے چھ حقوق بیان کئے ہیں، ذیل میں ان کا مختصر ذکر کیا جارہا ہے۔ تاکہ ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لے سکیں کہ ہم کون ساحق ادا کررہے ہیں اور کون سے حق کی ادائیگی میں ہم سے کوتاہی ہو رہی ہے۔
اس کا سب سے پہلا حق انسانوں پر یہ ہے کہ وہ اس پر دل سے ایمان لائیں، زبان سے اس کے سرچشمہ ہدایت ہونے اور کتاب الہٰی ہونے کا اقرار کریں اور اس زبانی اقرار کی دل سے تصدیق کریں۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کے اس حق کو ان الفاظ میںبیان فرمایا ہے:’’ میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پرایمان لے آؤ‘‘ اس ایمان کا اہم تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید کے اﷲتعالیٰ کی طرف سے نازل کئے جانے اور ذریعہ ہدایت ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کیا جائے۔ سورۃ البقرہ میں ارشادہے:
’’یہ (اﷲ تعالیٰ کی) کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
ایمان کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ اﷲ کی پوری کتاب پر ایمان لانے اور بلاتفریق اس کے تمام احکام پر عمل کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ان تعلیمات کو تو مان لیا جائے جو دل پسند اور مرضی کے مطابق ہوں اور ان تعلیمات کوچھوڑ دیا جائے جو اپنی مرضی کے خلاف اور ناپسند ہوں یا خاندانی روایات یا قومی دستور سے ٹکراتی ہوں۔ جو لوگ کتاب الہٰی کی تعلیمات اور احکامات میں اس طرح کی تفریق روا رکھتے ہیں ان لوگوں کودنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہو گا۔
قرآن مجیدکا دوسرا حق انسانوں پر یہ ہے کہ اس کی تلاوت کریں، سورۃ البقرہ میں فرمایا:
جن لوگوںکوہم نے کتاب دی ہے ، وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔‘‘
حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے پوچھا: کہ حضور اکرمﷺ کلام شریف کس طرح پڑھتے تھے؟انہوں نے کہا:’’سب حرکتوں(یعنی زبر زیر وغیرہ) کو پورا نکالتے تھے اور ایک ایک حرف الگ الگ ظاہر ہوتا تھا۔‘‘ اسی کوترتیل کہتے ہیں۔ ترتیل سے تلاوت مستحب ہے اگرچہ معنی نہ سمجھتا ہو۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘ پھر حضورﷺنے سمجھانے کے لئے مثال ارشاد فرمائی: میرا یہ مقصد نہیں کہ الم ایک حرف ہے بلکہ اس میں الف ایک الگ حرف، لام علیحدہ حرف اور میم علیحدہ حرف ہے۔‘‘ یعنی لفظ کو حرف نہ سمجھا جائے۔تو جس نے لفظ الم کہا اس کے لئے تیس نیکیاں لکھی گئیں۔
قرآن مجید کا انسانوں پر تیسرا حق یہ ہے کہ وہ اس کو سمجھیں اور اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس لئے کہ یہ کتاب ہدایت ہے اور وہی لوگ اس سے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں جو اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے معنی میں غور فکر کریں۔ پھر یہی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ نے فہم القرآن کے ساتھ ساتھ’’تدبر قرآن‘‘ کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ سورہ ص میں ارشاد ہے:
’’یہ (قرآن) ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اور سمجھدار لوگ نصیحت حاصل کریں۔‘‘
حضور اکرمﷺ نے بھی فہم قرآن اور تدبر قرآن کی تاکید فرمائی ہے۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا:
’’قرآن مجید کو دلچسپی سے اور مزے لے لے کر پڑھو اور اس میں تدبر کرو۔‘‘
آپﷺ نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ کوئی شخص تین دن سے کم مدت میں پورا قرآن مجید پڑھے اوراس کی وجہ یہ بتائی کہ (عام آدمی) اتنی تھوڑی مدت میں قرآن پاک کوسمجھ کر نہیں پڑھ سکتا۔
قرآن مجید کا چوتھا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی تعلمیات پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید صرف کتاب تلاوت علم ہی نہیں ہے کتاب عمل بھی ہے۔ سورۃ الانعام میں ارشاد باری ہے:
’’ ا س کتاب کو ہم نے نازل کیا ہے جو بڑی برکت والی ہے، اس کی تعلیمات پر چلو اورتقویٰ اپناؤ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • اوڈیسا اور خارکییف پر رات گئے روسی ڈرون حملے، جمعے کو جنگی قیدیوں کا تبادلہ
  • فہد شیخ نے فہد مصطفیٰ کی سب سے بڑی خامی بتا دی
  • قرآن پاک کے حقوق ادا کیجئے!
  • ایران اسرائیل جنگ کس طرف جا رہی ہے؟
  • تو ایران کا کیا ہوگا؟
  • پوٹن جرمن چانسلر اور یوکرین کے صدر سے ملاقات کے لیے تیار
  • ایف آئی اے کی کارروائی، لیبیا کشتی حادثہ کا ملزم ضمانت منسوخی پر گرفتار
  • لیبیا کے قریب تارکین وطن کی ایک اور کشتی کو حادثہ، کم از کم پانچ پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ
  • خوف کا بت ٹوٹ چکا
  • قافلہ جو تیونس سے چلا ہے