Islam Times:
2025-09-19@21:48:01 GMT

لیبیا، یوکرین اور شام

اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT

لیبیا، یوکرین اور شام

اسلام ٹائمز: لیبیا اور یوکرین میں ہونیوالی پیشرفت کا شام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اسکرپٹ رائیٹروں نے زیلنسکی کو "میدان میں ہیرو" کے طور پر متعارف کرایا اور قذافی کے بعد کے لیبیا کے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی۔ یہی تاریخ شام میں دہرائی جا رہی ہے۔ لیبیا، یوکرین اور شام میں ہونیوالی پیشرفت اور اس منصوبے کو بے نقاب کرنے کیلئے کافی ثبوت موجود ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار وہ ہیں، جو برسوں سے "جمہوریت"، "انسانی حقوق" اور "عوام کی مرضی" جیسے ناموں سے اقوام پر مسلط ہیں۔ یہ طاقتیں عملی طور پر عدم استحکام، تقسیم اور امریکی تسلط کے سوا کچھ نہیں چاہتیں۔۔ تحریر: ڈاکٹر راشد نقوی

مشرق وسطیٰ سے لیکر یورپ تک ایک ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے جس کے تانے بانے استعماری نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ لیبیا سے مختلف نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوکرین یورپی اور امریکہ کا اتحادی ہے۔ شام میں بھی وہی کچھ ہونے والا ہے، جو ان دو ممالک میں ہوچکا ہے۔ اس سارے کھیل کا اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار ایک ہی ہے۔ 2011ء میں لیبیا کے ڈکٹیٹر کے زوال کے تقریباً ایک سال بعد ایک  یونیورسٹی پروفیسر کا انٹرویو نظروں سے گزرا۔ انہوں نے قذافی کے بعد لیبیا کے حالات کے بارے میں کہا تھا کہ قذافی کے دور میں ملک پر ایک آمریت کی حکومت تھی اور لوگ حالات سے خوش نہیں تھے، لیکن  یورپی اتحادیوں کے ہاتھوں قذافی کے قتل کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے۔

قذافی جیسا بھی تھا، نوجوانوں اور لیبیائی خاندانوں کے لیے کچھ خصوصی اقتصادی مراعات اس کے مدنظر تھیں اور سکیورٹی بھی اپنی جگہ مستحکم تھی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب یہ حالات موجود نہیں ہیں اور لیبیا کے عوام اب ان حالات کا خواب ہی دیکھیں گے۔ ان کے زوال کے بعد جو چیز ابھری، وہ نہ جمہوریت تھی اور نہ سیاسی استحکام، بلکہ  افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ کا بازار گرم تھا۔ جب یہ انٹرویو لیا گیا، اس وقت ملک میں طاقت کا خلا تھا اور مغربی ممالک لیبیا کا تیل لوٹنے کے لیے یلغار کرچکے تھے۔ اس ملک کے ہر کونے میں ایک فوجی افسر نے آزادی اور علیحدگی کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔ گویا لیبیا بنیادی انتشار کا شکار ہوچکا تھا۔

قذافی کے زوال کے دس سال بعد، یورو نیوز نے لکھا تھا، اگرچہ لیبیا کا ڈکٹیٹر مارا گیا، لیکن اس کی موت کے بعد اس ملک میں جمہوریت یا استحکام قائم نہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس، ملک ایک دہائی سے اندرونی تنازعات، غیر ملکی دشمنیوں کے ساتھ ساتھ مافیا ملیشیاؤں کے درمیان تناؤ میں گھرا ہوا ہے۔ فوجی جرنیلوں کی مسابقت نے تیل سے مالا مال اس ملک کے عوام کو امن سے خالی اور تیل کے وسائل سے محروم کر دیا ہے۔ لیبیا میں اب بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس کا تیل لوٹا جا رہا ہے اور ہر کونے میں ایک شخص اقتدار پر قابض ہے اور ان میں سے ہر ایک کو غیر ملکی طاقت کی حمایت حاصل ہے۔ جب قذافی کا تختہ الٹ دیا گیا تو مغربی رہنماؤں نے کہا: "لیبیا کے لوگ بہتر زندگی کے مستحق ہیں۔۔۔ ہم انہیں جمہوریت تحفے کے طور پر دیں گے۔"

 آج یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، وہ لیبیا کے برعکس نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوکرین یورپی اور امریکہ کا اتحادی ہے۔ امریکہ کو روس پر قابو پانے اور اس روایتی اور طاقتور اتحادی کو کمزور کرنے کے لیے یوکرین کی ضرورت تھی۔ جان میئر شیمر جیسے دانشوروں کے مطابق نیٹو کی روس کی طرف توسیع یوکرائنی جنگ کی تشکیل کی بنیاد ہے۔ امریکہ اور کئی یورپی ممالک نے زیلنسکی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ روس پر پابندیاں لگا کر اور یوکرین کو مسلح کرکے روس کو جیتنے سے روکیں گے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جنگ کے آغاز کے 3 سال، 2 ماہ اور 9 دن بعد امریکہ نے روس کے ساتھ کھڑے ہو کر یوکرین کو جنگ کے ذمہ دار کے طور پر متعارف کرایا۔ اس نے کریمیا کا جزیرہ نما علاقہ پوتن کو دے دیا اور ملک کی کانوں اور قدرتی وسائل کو اپنے لیے لے لیا۔ یوکرین اب ایک ذلیل لیڈر اور تباہ حال ملک کے ساتھ باقی رہ گیا ہے۔

نیلی آنکھوں والے گورے مفادات کے لیے اپنے تعلقات نہ صرف آمروں بلکہ داعش اور تکفیری دہشت گردوں سے بھی استوار کرتے ہیں۔ کیا انہوں نے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس دہشت گرد اور تکفیری گروہ تحریر الشام کے سرغنہ ابو محمد الجولانی کو (جو چند سال پہلے تک بین الاقوامی طور پر مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھا) شام میں اقتدار میں نہیں لایا؟! شام کے بارے میں کیا خبر ہے۔؟ کیا بشار الاسد کے جانے اور امریکہ، صیہونی حکومت اور ترکی کے آنے سے اس ملک کے حالات بہتر ہوئے ہیں؟! تقریبا 5 ماہ قبل، شام کے صدر بشار الاسد ایک پیچیدہ منصوبے کے ساتھ روس فرار ہوئے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اوباما کے دور میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ امریکہ، صیہونی حکومت اور ترکی کی کوششوں سے اس منصوبے نے عملی جامہ پہنا۔ ان تینوں نے شام کا اقتدار دہشت گرد گروہ تحریر الشام کے حوالے کر دیا۔

ایک عجیب اور ناقابل یقین رفتار کے ساتھ یہ تینوں اپنی پوری صلاحیتیں میدان میں لے آئے اور جولانی حکومت کو دنیا بھر میں سرکاری سطح پر تسلیم کروانے کی بھرپور کوشش کی۔ بین الاقوامی وفود کے پے در پے دورے اور عجلت میں مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا اور انہوں نے صدارت کا تاج ایک تکفیری دہشت گرد کے سر پر رکھ دیا۔ ایک ایسا تاج جو جولانی کے سر کے لیے فٹ نہیں ہے۔ اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب صیہونی حکومت شام پر حملہ نہ کرتی ہو۔ تقریباً کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب اس ملک کے لوگ جولانی حکومت یا دیگر سلفی تکفیری گروہوں کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے ہوں۔ ملک پر سرکاری طور پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں ہمیں اس کی تقسیم کی خبریں سننے کو ملیں گی اور تینوں ترکیہ، امریکہ اور اسرائیل ان میں سے ہر ایک شام کے قدرتی وسائل اور تیل کو لوٹنے میں مصروف ہے۔

بشار الاسد کے جانے کے بعد ہزاروں مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں، شام میں تقریباً کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں بچا ہے۔ گولان کی پہاڑیاں اور جس معاہدے کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ بظاہر ختم ہو رہی ہے۔ اس پر اسرائیل کا قبضہ پہلے سے مضبوط ہے اور اس نے مقامی دروزیوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ جولانی کے حواری  ہر روز کسی نہ کسی طریقے سے اس مسئلے میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ تین دن پہلے صیہونیوں نے چند میٹر کے فاصلے پر شام کے صدارتی محل کو ذلت آمیز طریقے سے نشانہ بنایا اور کل یہ خبریں بریک ہوئیں کہ  اسرائیل نے شام کے مختلف شہروں پر بمباری کی۔ جولانی کے ساتھ اس ٹشو پیپر جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، جسے استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ وہ صیہونی حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے کی ہمت نہیں رکھتا! اگر آج شامی عوام سے پوچھا جائے کہ کیا بشار الاسد کا دور ان تمام مسائل کے ساتھ بہتر تھا یا اب؟ وہ کیا جواب دیں گے۔؟

لیبیا اور یوکرین میں ہونے والی پیشرفت کا شام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ اسکرپٹ رائیٹروں نے زیلنسکی کو "میدان میں ہیرو" کے طور پر متعارف کرایا اور قذافی کے بعد کے لیبیا کے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی۔ یہی تاریخ شام میں دہرائی جا رہی ہے۔ لیبیا، یوکرین اور شام میں ہونے والی پیشرفت اور اس منصوبے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں۔ اس صورتحال کے ذمہ دار وہ ہیں، جو برسوں سے "جمہوریت"، "انسانی حقوق" اور "عوام کی مرضی" جیسے ناموں سے اقوام پر مسلط ہیں۔ یہ طاقتیں عملی طور پر عدم استحکام، تقسیم اور امریکی تسلط کے سوا کچھ نہیں چاہتیں۔۔ قذافی، زیلنسکی یا اسد یہ تینوں ایک ایسے منظر نامے کا شکار ہوگئے، جس میں اہم کھلاڑی مغربی طاقتیں تھیں۔ ان واقعات نے ظاہر کیا کہ امریکہ جو چاہتا ہے، وہ نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی ظلم سے آزادی، وہ وسائل پر قبضہ کرنے اور دنیا کے حساس حصوں میں اپنی پوزیشن کو مضبوط  کرنے کے درپے ہے۔

ان تینوں ممالک میں ان مداخلتوں کے بعد باقی کیا بچا ہے، سوائے راکھ، ملبے، نقل مکانی، موت اور قومی تذلیل کے! وہ ممالک، شخصیات یا تھنک ٹینک جو اب بھی سرمایہ دارانہ نظام پر مشتمل اس سامراجی نظام سے کوئی خیر کی توقع رکھتے ہیں تو انہیں ماضی قریب بلکہ موجودہ دور کے تین ملکوں لیبیا، یوکرین اور شام کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔ ان تینوں ممالک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی طاقتیں خفیہ نہیں، سب کے سامنے ہیں۔ اگر امت مسلمہ نے اس سے سبق نہیں سیکھا تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا، جو آج ہم طرابلس، کیف یا دمشق میں دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔ (اس تحریر کو مرتب کرنے کے لئے جعفر بلوری سمیت مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کی تجزیوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یوکرین اور شام صیہونی حکومت بشار الاسد کے طور پر اس ملک کے لیبیا کے قذافی کے کے ساتھ کرنے کے شام کے ہے اور کے بعد کے لیے اور اس

پڑھیں:

لازوال عشق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایک نیا فتنہ “لازوال عشق”کے نام سے ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں زہر کی طرح اتارنے کی پلاننگ کی گئی ہے جو کچھ ہی عرصے میں یو ٹیوب پہ لانچ کیاجانے والا ہے۔۔۔۔پہلے ہی معاشرے میں آئے روز غیر اخلاقی واقعات رونما ہو رہے ہیں جنسی ہیجان بڑھ رہا ہے۔۔آئے روز سوشل میڈیا پہ کم عمر بچے اور بچیوں کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے ۔۔۔والدین سے بغاوت اور پھر انہیں بعد میں اس کے جو برے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں وہ الگ کہانی ہے ۔۔۔نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا پہ بننے والا ہر دوسرا ڈرامہ ایک ہی سبق پڑھاتا نظر آتا ہے کہ زندگی کا مقصد ایک لڑکی یا لڑکے کی محبت میں گرفتار ہونا اور پھر اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں اس کے حصول میں لگانا ہے۔۔۔سوال یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان کی ہماری زندگیاں ایسی بے باکیوں کی متحمل ہیں۔۔؟کیا اسلامی معاشرے کے پنپنے کے یہ ڈھنگ ہوتے ہیں؟؟جونہی ہمارے شاھین بچے کامیابیوں کے آسمان کو چھونے لگتے ہیں مغربی ایجنڈے اور ان ایجنڈوں پہ کام کرنے والے ضمیر فروش جو مسلمان تو ہیں مگر معزرت کے ساتھ وہ مسلمان جنھیں دیکھ کر شرمائیں ہنود ۔۔۔جن کے لیے دنیا کی چمک دھمک اور مال ودولت ہی سب کچھ ہے اور اس کے حصول کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔۔جنہیں آخرت میں جوابدہی کا احساس تک نہیں ۔۔۔جو ہماری نوجوان نسل کو تباہی کے اندھے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔

ہمیں اپنی نوجوان نسل کو مغرب کے ان ہتھکنڈوں سے بچانا ہو گا انہیں تباہی کی س گہری دلدل سے محفوظ رکھنا ہو گا۔۔۔ہم انہیں ان ایلومیناتی مگرمچھوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔یو ٹیوب بچے، بوڑھے جوان،مرد وعورت سب دیکھتے ہیں خدارا اپنے بچوں کو اس فتنے سے بچانے کے لیے اس شیطانی پروگرام کو روکنے کے لیے آواز اٹھائیں ۔۔۔اس کی مذمت کریں ۔۔۔متعلقہ ادروں سے اپیل کریں انھیں بتا دیں کہ ہمیں یہ بے حیائی منظور نہیں ۔۔۔ہم کسی ایسی سرگرمی کو قبول نہیں کریں گے جو ہماری اسلامی اقدار کے منافی ہو۔۔۔عوام۔کی رائے کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔۔۔آئیں ان فتنوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں ۔۔۔اپنی نوجوان نسل کو تحفظ فراہم کرنا ہم سب کا اولین فریضہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا روس-یوکرین جنگ بندی کرانے میں ناکامی کا اعتراف، پیوٹن کو ذمہ دار قرار دے دیا
  • پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟
  • توجہ کا اندھا پن
  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • لیبیا میں تارکینِ وطن کی کشتی الٹنے سے 61 افراد جاں بحق
  • لیبیا میں ساحل کے قریب کشتی الٹ گئی، 61 افراد لاپتہ
  • ڈرون کا مقابلہ کرنے کیلیے ناٹو کا مزید اقدامات پر غور
  • اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
  • لازوال عشق
  • ہمارے منجمد اثاثوں کو یوکرین کی جنگی امداد کیلئے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کریں گے، روس