Daily Ausaf:
2025-10-05@05:32:10 GMT

اسرائیل کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

اسرائیلی میڈیا کے مطابق لعنۃ الثمانین (آٹھویں دہائی کی نحوست) یہودیوں کے اذہان میں رچا بسا ایک نظریہ ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر یقین رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی تاریخ اسے تسلیم کرنے پر انہیں مجبور کرتی ہے۔ حالیہ غزہ جنگ کے بعد لعنۃ الثمانین کے نظریئے نے اپنی جڑیں مزید گہری کرلی ہیں۔ صہیونی ریاست میں بڑی تیزی سے یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ اسرائیل کو آٹھویں دہائی کی نحوست نے گھیر لیا ہے اور صہیونی ریاست عنقریب اپنے فنا کے گھاٹ اور تاریخ کے کوڑے دان میں گرنے والی ہے۔ جنگ کے دوران ہونے والے حملوں، اندرونی سیاسی اختلافات اور حالیہ تباہ کن آگ نے اس بحث کو مزید ہوا دے دی ہے۔ واضح رہے کہ تاریخ میں یہودیوں کی کسی ریاست نے 80 برس پورے نہیں کئے۔ آٹھ دہائیاں مکمل کرنے سے قبل ہی ہر یہودی ریاست کو زوال سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ تاہم تاریخی طور پر صرف دو حکومتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک حضرت دادئو علیہ السلام کی حکومت اور دوسری حشمو نائیم کی حکومت۔ جو 80 برس کو کراس کر گئی تھیں۔ اسرائیل کے ناپاک وجود کو 77برس ہو چکے ہیں۔ یعنی لعنۃ الثمانین کو صرف 3سال باقی ہیں۔ شہید احمد یاسین نے بھی یہی پیشین گوئی کی تھی، جبکہ متعدد یہودی ماہرین بھی اسی خدشے کا اظہار کررہے ہیں اور اس وقت صورتحال کو سامنے رکھ کر عبرانی میڈیا بھی اسی خدشے کا اظہار کررہا ہے۔ یہاں تک کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے بھی ملکی اخبارات میں لکھے اپنے ایک مشہور کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اس وقت غزہ جنگ، جنگی قیدیوں کی رہائی،ملکی معاشی مسائل اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر اسرائیلی معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک نے نیتن یاہو کےخلاف سول نافرمانی کی اپیل کرتے ہوئے قیدیوں کو ہر صورت رہائی کو ضروری قرار دیا ہے۔ خواہ اس کے بدلے میں جنگ بند کیوں نہ کروانی پڑے۔
اسرائیلی اخبار ہآرٹس نے یکم مئی 2025 ء کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل اپنی 77ویں یومِ تاسیس (جسے وہ ’’یومِ آزادی‘‘کہتا ہے)مناتے ہوئے اندرونی طور پر بکھر رہا ہے۔ اخبارکا کہنا ہےکہ اس بار کی تقریبات پر ایک گہرا سایہ چھایا ہوا ہے، کیونکہ حماس کی قید میں اب بھی کئی اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں۔ اخبار کے افتتاحیہ میں کہا گیا ہےکہ یہ دوسرا مسلسل سال ہے جب اسرائیل ’’یومِ آزادی‘‘کے موقع پر غزہ کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ اس وقت بھی 59 اسرائیلی قیدی حماس کے پاس ہیں، جن میں سے 21 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اخبار کے مطابق، یہ ایک ’’کڑوی حقیقت‘‘ہے کہ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی قیادت میں موجود حکومتی اتحاد کےلئےاقتدار میں رہنا یرغمالیوں کی زندگیوں سے زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ہآرٹس لکھتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اپنی ناکامیوں کی قیمت ادا نہ کرنا اور ان قیدیوں کو واپس لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ کرنا، حکومتی اتحاد خصوصاً وزیراعظم کے لیےایک ’’کلنک کا ٹیکہ’’ (عار کادھبہ) ہے۔ مزید کہا گیاکہ ان قیدیوں کو نظرانداز کرنا نہ صرف یومِ تاسیس کی تقریبات پراثر ڈال رہا ہے، بلکہ اسرائیلی ریاست پر عوام کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچارہا ہے، ایک ایسی ریاست جو خود کو یہودیوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ قرار دیتی ہے، مگر وہ انہیں بچانے میں ناکام ہے۔ آخر میں اخبار کہتا ہے کہ اسرائیلی عوام راہ بھٹک اور منزل کھو چکے ہیں اور اس کا واضح اظہار غزہ پر مسلسل جاری اس جنگ سے ہوتا ہے، جو اب عملی طور پر پورے غزہ کے عوام کو نشانہ بنا رہی ہے۔اخبار ہآرٹس نے اپنی یکم مئی 2025 ء کی اشاعت میں اسرائیل کے موجودہ سیاسی، عسکری اور سماجی حالات پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اب ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جو جنگ اور جنگی جرائم اور لڑاکوں و عام شہریوں کے درمیان فرق کرنا بھول چکی ہے۔
اخبار کے مطابق، جب کوئی ریاست اپنی اخلاقی و انسانی سمت نمایاں کرنے والی ’’قطب نما‘‘کھو دیتی ہے، تو اس کے لیے اندرونی خطرات، بیرونی خطرات سے کسی صورت کم نہیں ہوتے۔ہآرٹس نے وزیراعظم نیتن یاہو پر الزامات لگاتے ہوئےکہا ہے کہ وہ مسلسل ریاستی اداروں پر حملے کررہے ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل غالی بہاراو میارا کےخلاف نفرت انگیزی کی، اسحاق عمیت کو سپریم کورٹ کے سربراہ کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کیا، سابق آرمی چیف ہرتسی ہالیفی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور اب شاباک (اسرائیلی خفیہ ادارے)کے سربراہ رونن بارکو برطرف کرنےکی کوششیں کررہے ہیں۔قیادت کی ناکامی اور بین الاقوامی تنہائی اخبار نے اسرائیلی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس نہ کوئی وژن ہے، نہ کوئی امید افزا مستقبل کا منصوبہ۔ ان کی پالیسیوں نے نہ صرف اسرائیل کو دنیا میں تنہا کردیا ہے، بلکہ یہودی قوم کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔اخبار نے لکھا کہ اسرائیل اندر سے بکھر رہا ہے، حریدی (انتہاپسند مذہبی یہودیوں) کا طبقہ لازمی فوجی سروس سے راہ فرار اختیار کررہاہےاور اظہارِ رائے کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے۔سماجی جمود اور میڈیا کا کردار، ہآرٹس کے مطابق پارلیمنٹ کے ارکان،وزراء،فنکار، صحافی سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، نفرت انگیز اور نسل پرستانہ بیانات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آ رہا۔ اخبار نے کہا کہ پولیس کو وزیر قومی سلامتی ایتمار بن گویر کے انتہا پسند نظریات کے مطابق دوبارہ منظم کیاجارہا ہے، جبکہ حکومت مخالف احتجاجی تحریک کو ریاستی اداروں کی جانب سےنشانہ بنایاجارہا ہے۔ہآرٹس کااختتامی جملہ یہی ہے۔’’اسرائیل اندرسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور یہ صرف جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ قیادت کی اخلاقی، سیاسی اور سماجی ناکامیوں کا مجموعہ ہے۔‘‘
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہے کہ اسرائیل کے مطابق رہا ہے

پڑھیں:

حماس اور اسرائیل بلاواسطہ مذاکرات اتوار اور پیر کو ہوں گے

مصری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حماس اور اسرائیلی وفود کل مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بلاواسطہ بات چیت شروع کریں گے۔ حماس اور اسرائیلی وفود کے درمیان بات چیت کا یہ سلسلہ پیر کو بھی جاری رہے گا۔ بات چیت میں ٹرمپ منصوبے کے تحت تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے متعلق تفصیلات طے کی جائیں گی۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمت تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان بلاواسطہ مذاکرات اتوار اور پیر کو ہوں گے۔ مصری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حماس اور اسرائیلی وفود کل مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بلاواسطہ بات چیت شروع کریں گے۔ حماس اور اسرائیلی وفود کے درمیان بات چیت کا یہ سلسلہ پیر کو بھی جاری رہے گا۔ بات چیت میں ٹرمپ منصوبے کے تحت تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے متعلق تفصیلات طے کی جائیں گی۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیلی بمباری میں عارضی بندش قابل تعریف ہے، حماس تیزی دکھائے، ورنہ تمام شرائط ختم ہوجائیں گی۔

امریکی صدر کے سوشل میڈیا بیان کو وائٹ ہاؤس نے ری ٹوئٹ کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ امن معاہدے اور قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی بمباری کی عارضی بندش قابل تعریف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ حماس اس معاملے میں تیزی دکھائے، ورنہ تمام شرائط ختم ہوجائیں گی، کیونکہ میں تاخیر برداشت نہیں کروں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حماس کی طرف سے تاخیر کی جائے گی، غزہ کا دوبارہ خطرہ بننا قبول نہیں کروں گا، یہ سب جلدی کیا جائے، سب کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فضائیہ کا یمن سے داغا گیا میزائل مار گرانے کا دعویٰ
  • حماس اور اسرائیل بلاواسطہ مذاکرات اتوار اور پیر کو ہوں گے
  • اعلان بالفور یہودی ریاست کے لیے نہیں، صرف یہودیوں سے ہمدردی کے لیے تھا: روڈرک بالفور
  • بالفور ڈیکلریشن میں اسرائیل جیسی ریاست کا کوئی ذکر نہیں تھا، لارڈ روڈریک بالفور کا انکشاف
  • اسرائیل نے صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی کو بھی روک لیا
  • صمود فلوٹیلا کے امدادی کارکنوں کی عدم رہائی انسانیت سوز ظلم و جبر ہے، شاداب نقشبندی
  • اسرائیل ناجائز ریاست ہے پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا، حاجی حنیف طیب
  • لاہور، پاکستان مرکزی مسلم لیگ کا اسرائیلی جارحیت کیخلاف مظاہرہ
  • غزہ پر اسرائیلی حملے، ایک دن میں 57 فلسطینی جاں بحق
  • پُر امن فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کا حملہ