اسرائیل کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
اسرائیلی میڈیا کے مطابق لعنۃ الثمانین (آٹھویں دہائی کی نحوست) یہودیوں کے اذہان میں رچا بسا ایک نظریہ ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر یقین رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی تاریخ اسے تسلیم کرنے پر انہیں مجبور کرتی ہے۔ حالیہ غزہ جنگ کے بعد لعنۃ الثمانین کے نظریئے نے اپنی جڑیں مزید گہری کرلی ہیں۔ صہیونی ریاست میں بڑی تیزی سے یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ اسرائیل کو آٹھویں دہائی کی نحوست نے گھیر لیا ہے اور صہیونی ریاست عنقریب اپنے فنا کے گھاٹ اور تاریخ کے کوڑے دان میں گرنے والی ہے۔ جنگ کے دوران ہونے والے حملوں، اندرونی سیاسی اختلافات اور حالیہ تباہ کن آگ نے اس بحث کو مزید ہوا دے دی ہے۔ واضح رہے کہ تاریخ میں یہودیوں کی کسی ریاست نے 80 برس پورے نہیں کئے۔ آٹھ دہائیاں مکمل کرنے سے قبل ہی ہر یہودی ریاست کو زوال سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ تاہم تاریخی طور پر صرف دو حکومتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک حضرت دادئو علیہ السلام کی حکومت اور دوسری حشمو نائیم کی حکومت۔ جو 80 برس کو کراس کر گئی تھیں۔ اسرائیل کے ناپاک وجود کو 77برس ہو چکے ہیں۔ یعنی لعنۃ الثمانین کو صرف 3سال باقی ہیں۔ شہید احمد یاسین نے بھی یہی پیشین گوئی کی تھی، جبکہ متعدد یہودی ماہرین بھی اسی خدشے کا اظہار کررہے ہیں اور اس وقت صورتحال کو سامنے رکھ کر عبرانی میڈیا بھی اسی خدشے کا اظہار کررہا ہے۔ یہاں تک کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے بھی ملکی اخبارات میں لکھے اپنے ایک مشہور کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔ اس وقت غزہ جنگ، جنگی قیدیوں کی رہائی،ملکی معاشی مسائل اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر اسرائیلی معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک نے نیتن یاہو کےخلاف سول نافرمانی کی اپیل کرتے ہوئے قیدیوں کو ہر صورت رہائی کو ضروری قرار دیا ہے۔ خواہ اس کے بدلے میں جنگ بند کیوں نہ کروانی پڑے۔
اسرائیلی اخبار ہآرٹس نے یکم مئی 2025 ء کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل اپنی 77ویں یومِ تاسیس (جسے وہ ’’یومِ آزادی‘‘کہتا ہے)مناتے ہوئے اندرونی طور پر بکھر رہا ہے۔ اخبارکا کہنا ہےکہ اس بار کی تقریبات پر ایک گہرا سایہ چھایا ہوا ہے، کیونکہ حماس کی قید میں اب بھی کئی اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں۔ اخبار کے افتتاحیہ میں کہا گیا ہےکہ یہ دوسرا مسلسل سال ہے جب اسرائیل ’’یومِ آزادی‘‘کے موقع پر غزہ کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ اس وقت بھی 59 اسرائیلی قیدی حماس کے پاس ہیں، جن میں سے 21 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اخبار کے مطابق، یہ ایک ’’کڑوی حقیقت‘‘ہے کہ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی قیادت میں موجود حکومتی اتحاد کےلئےاقتدار میں رہنا یرغمالیوں کی زندگیوں سے زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ہآرٹس لکھتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اپنی ناکامیوں کی قیمت ادا نہ کرنا اور ان قیدیوں کو واپس لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ کرنا، حکومتی اتحاد خصوصاً وزیراعظم کے لیےایک ’’کلنک کا ٹیکہ’’ (عار کادھبہ) ہے۔ مزید کہا گیاکہ ان قیدیوں کو نظرانداز کرنا نہ صرف یومِ تاسیس کی تقریبات پراثر ڈال رہا ہے، بلکہ اسرائیلی ریاست پر عوام کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچارہا ہے، ایک ایسی ریاست جو خود کو یہودیوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ قرار دیتی ہے، مگر وہ انہیں بچانے میں ناکام ہے۔ آخر میں اخبار کہتا ہے کہ اسرائیلی عوام راہ بھٹک اور منزل کھو چکے ہیں اور اس کا واضح اظہار غزہ پر مسلسل جاری اس جنگ سے ہوتا ہے، جو اب عملی طور پر پورے غزہ کے عوام کو نشانہ بنا رہی ہے۔اخبار ہآرٹس نے اپنی یکم مئی 2025 ء کی اشاعت میں اسرائیل کے موجودہ سیاسی، عسکری اور سماجی حالات پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اب ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جو جنگ اور جنگی جرائم اور لڑاکوں و عام شہریوں کے درمیان فرق کرنا بھول چکی ہے۔
اخبار کے مطابق، جب کوئی ریاست اپنی اخلاقی و انسانی سمت نمایاں کرنے والی ’’قطب نما‘‘کھو دیتی ہے، تو اس کے لیے اندرونی خطرات، بیرونی خطرات سے کسی صورت کم نہیں ہوتے۔ہآرٹس نے وزیراعظم نیتن یاہو پر الزامات لگاتے ہوئےکہا ہے کہ وہ مسلسل ریاستی اداروں پر حملے کررہے ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل غالی بہاراو میارا کےخلاف نفرت انگیزی کی، اسحاق عمیت کو سپریم کورٹ کے سربراہ کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کیا، سابق آرمی چیف ہرتسی ہالیفی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور اب شاباک (اسرائیلی خفیہ ادارے)کے سربراہ رونن بارکو برطرف کرنےکی کوششیں کررہے ہیں۔قیادت کی ناکامی اور بین الاقوامی تنہائی اخبار نے اسرائیلی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس نہ کوئی وژن ہے، نہ کوئی امید افزا مستقبل کا منصوبہ۔ ان کی پالیسیوں نے نہ صرف اسرائیل کو دنیا میں تنہا کردیا ہے، بلکہ یہودی قوم کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔اخبار نے لکھا کہ اسرائیل اندر سے بکھر رہا ہے، حریدی (انتہاپسند مذہبی یہودیوں) کا طبقہ لازمی فوجی سروس سے راہ فرار اختیار کررہاہےاور اظہارِ رائے کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے۔سماجی جمود اور میڈیا کا کردار، ہآرٹس کے مطابق پارلیمنٹ کے ارکان،وزراء،فنکار، صحافی سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، نفرت انگیز اور نسل پرستانہ بیانات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آ رہا۔ اخبار نے کہا کہ پولیس کو وزیر قومی سلامتی ایتمار بن گویر کے انتہا پسند نظریات کے مطابق دوبارہ منظم کیاجارہا ہے، جبکہ حکومت مخالف احتجاجی تحریک کو ریاستی اداروں کی جانب سےنشانہ بنایاجارہا ہے۔ہآرٹس کااختتامی جملہ یہی ہے۔’’اسرائیل اندرسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور یہ صرف جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ قیادت کی اخلاقی، سیاسی اور سماجی ناکامیوں کا مجموعہ ہے۔‘‘
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہے کہ اسرائیل کے مطابق رہا ہے
پڑھیں:
پولینڈ کا اسرائیل سے تاریخی غلط بیانی پر احتجاج، اسرائیلی سفیر طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وارسا: پولینڈ اور اسرائیل کے درمیان ہولوکاسٹ سے متعلق تاریخی بیانیے کے معاملے پر نیا سفارتی تنازع کھڑا ہوگیا ہے، پولینڈ کے وزیر خارجہ رادوسواف سکوورسکی نے اسرائیلی سفیر کو طلب کرکے اسرائیلی یادگاری ادارے یاد و شیم کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر سخت اعتراض اٹھایا اور باضابطہ تصحیح کا مطالبہ کیا۔
(یاد و شیم ایک اسرائیلی ادارہ ہے جو ہولوکاسٹ کی تاریخ محفوظ کرتا ہے، اس پر تحقیق کرتا ہے اور نازی ظلم میں مارے گئے یہودیوں کی یادگاروں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔)
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق پولش وزارتِ خارجہ نے اسے تاریخی مسخ شدہ تاثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پوسٹ غلط طور پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہودیوں پر پابندی پولینڈ کی ریاست یا معاشرے نے لگائی، حالانکہ 1939 سے 1945 تک پورا پولینڈ نازی جرمنی کے قبضے میں تھا اور تمام سیاسی و سماجی نظام جرمن کنٹرول میں تھا۔
(پولش وزارتِ خارجہ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جو پولینڈ کے دوسرے ممالک سے تعلقات سنبھالتا ہے، سفیروں سے بات کرتا ہے)
تنقید کے بعد یاد و شیم نے پوسٹ کے نیچے ایک وضاحتی پیغام شامل کیا کہ بیج پہننے کا حکم جرمن حکام کے کہنے پر نافذ ہوا تھا بعد ازاں ادارے کے چیئرمین دانی دیان نے مزید وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ یاد و شیم کی تمام تحقیقی دستاویزات میں واضح ہے کہ پولینڈ اُس وقت مکمل طور پر جرمن قبضے میں تھا، کوئی بھی مختلف تاثر درست نہیں۔
خیال رہےکہ معاملہ اُس پوسٹ سے شروع ہوا تھا جو ایکس (سابق ٹوئٹر) پر شائع ہوئی، جس میں لکھا گیا تھا کہ پولینڈ وہ پہلا ملک تھا جہاں یہودیوں کو شناختی بیج پہننے پر مجبور کیا گیا تاکہ انہیں باقی آبادی سے الگ کیا جاسکے، پوسٹ میں نہ تو نازی جرمن قبضے کا ذکر تھا نہ یہ واضح کیا گیا کہ یہ پابندی جرمن حکام نے مسلط کی تھی، جس پر وارسا میں فوری ردعمل سامنے آیا۔
واضح رہےکہ پولینڈ اس موقف پر قائم ہے کہ وہ مکمل طور پر جرمن قبضے میں تھا، بطور ریاست اس نے کبھی نازیوں سے تعاون نہیں کیا اور تین ملین پولش یہودیوں سمیت لاکھوں شہری مارے گئے۔
دوسری جانب اسرائیل کو خدشہ ہے کہ پولینڈ بعض اوقات تاریخ کا مکمل تناظر بیان کرنے سے گریز کرتا ہے اور مقامی سطح پر یہودی دشمنی یا بعض تعاون کے واقعات کا ذکر کم کیا جاتا ہے حالانکہ مورخین ان واقعات پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔
یاد رہےکہ جنگ سے پہلے پولینڈ تین ملین سے زائد یہودیوں کا گھر تھا، جہاں مذہبی، ثقافتی اور علمی سرگرمیوں سے بھرپور زندگی موجود تھی، ہولوکاسٹ نے اس تہذیبی ورثے کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا، جنگ کے بعد صرف ایک چھوٹا یہودی طبقہ باقی بچا جو کمیونسٹ دور میں بھی وقتاً فوقتاً یہودی دشمنی کا شکار ہوتا رہا ۔