وزیراعظم شہباز شریف کی غزہ پر غیرقانونی قبضے کے اسرائیلی فیصلے کی شدید مذمت، آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف کی غزہ پر غیرقانونی قبضے کے اسرائیلی فیصلے کی شدید مذمت، آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ WhatsAppFacebookTwitter 0 8 August, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ پر فوجی قبضے کے اسرائیلی حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے پر زور دیا جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اسرائیلی کابینہ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ شہر کا غیر قانونی اور ناجائز کنٹرول حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے خلاف پہلے سے جاری تباہ کن جنگ میں خطرناک اضافے کے مترادف ہے، فوجی کارروائیوں کی یہ توسیع پہلے سے موجود انسانی بحران کو مزید بگاڑ دے گی اور خطے میں امن کے کسی بھی امکان کو ختم کردے گی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اس جاری المیے کی اصل وجوہات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا طویل، غیر قانونی قبضہ ہے اور جب تک یہ قبضہ برقرار رہے گا، امن ایک خواب ہی رہے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق جائز حقوق، ان کے حق خود ارادیت اور فلسطین کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتا ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی بلاجواز جارحیت کو فوری طور پر روکنے، بے گناہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور غزہ کے لوگوں تک اشد ضروری انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے فوری مداخلت کرے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت کیساتھ ٹریڈ ڈیل نہیں ہوگی، ٹرمپ نے صاف انکار کردیا بھارت کیساتھ ٹریڈ ڈیل نہیں ہوگی، ٹرمپ نے صاف انکار کردیا سندھ اسمبلی کے اراکین کی تنخواہیں پنجاب کے برابر، بل اتفاق رائے سے منظور ،اب کتنی تنخواہ ملے گی، تفصیلات سب نیوز پر حج درخواستوں کی وصولی، ہفتے کے دن نامزد بینک کھلے رہیں گے چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس، اسلام آباد چیمبر کے اشتراک سے شکرپڑیاں گراونڈ میں انٹرنیشنل انڈسٹریل ایکسپو کے انعقاد کا فیصلہ اسلام آباد میں امن و امان کی مزید بہتری اور سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنانے سے متعلق ایک اعلی سطحی اجلاس... معرکہ حق کے بعد فضائی حدود کی بندش، پاکستان کو 4ارب ، 10کروڑ روپے کا خسارہ
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی شدید مذمت شہباز شریف
پڑھیں:
فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں میں سعودی عرب پیش پیش کیوں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) سعودی اقدامات کے معترف اسے ''سفارتکاری میں ماسٹر کلاس‘‘ قرار دے رہے ہیں، جو مشرق وسطی میں امن کے لیے ایک حقیقی موقع ثابت ہو سکتا ہے، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل اپنے مفادات پر مبنی اقدام ہے، ایک ''پبلسٹی اسٹنٹ‘‘ جس کا مقصد کسی ملک کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر بین الاقوامی امیج خراب کرنے میں مدد کرنا ہے۔
سعودی عرب کی حالیہ مہم کا آغاز ستمبر 2024ء میں ناروے کے ساتھ مل کر ''دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد‘‘ کے آغاز کے ساتھ ہوا تھا، اور اس کے لیے دو اولین ملاقاتیں بھی ریاض میں ہی منعقد ہوئی تھیں
دسمبر میں اقوام متحدہ میں ایک ووٹنگ میں دو ریاستی حل کے لیے عالمی حمایت کا اعادہ کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
سعودی عرب اور فرانس کی زیر صدارت حال ہی میں نیویارک میں ہونے والی کانفرنس میں فرانس، کینیڈا، مالٹا، برطانیہ اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔
عرب لیگ کے ارکان، یورپی یونین اور دیگر ممالک کی جانب سے دستخط کردہ ''نیویارک اعلامیہ‘‘ امن کی جانب اقدامات کی نشاندہی کرتا ہے۔اعلامیے میں دو ریاستی حل کی جانب مرحلہ وار بڑھنے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلح ہو، باقی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے اور غزہ کی حکمرانی چھوڑ دے۔
دستخط کنندگان نے کہا، ''ہم غزہ میں شہریوں اور شہری انفراسٹرکچر پر اسرائیل کے حملوں، محاصرے اور بھوک کی بھی مذمت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں المناک انسانی تباہی ہوئی ہے۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ عرب لیگ کے تمام 22 ارکان نے اعلامیے پر دستخط کیے تھے جسے ایک سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب بہت سے لوگوں نے حماس کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا اور فرانس کے ساتھ مل کر سعودی عرب کو یہ سب کچھ کرنے میں مدد دینے کا سہرا دیا جاتا ہے۔
رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹیٹیوٹ فار پبلک پالیسی میں مشرق وسطیٰ کے فیلو کرسٹیان کوٹس اُلرشسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ''عرب اور اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی حیثیت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس مذہبی مقامات کی دیکھ بھال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب جو کچھ بھی کرتا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے۔‘‘
سعودی اب ایسا کیوں کر رہے ہیں؟اکتوبر 2023 میں حماس کے حملوں سے قبل سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر غور کر رہا تھا۔
اس پر اسے فلسطینی ریاست کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے موجودہ دباؤ محض اس کے امیج کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہے۔تاہم سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ گلف انٹرنیشنل فورم کے عزیز الغشیان کے مطابق، ''اس موضوع پر اہم غلط فہمیوں میں سے ایک یہ خیال بھی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی سعودی خواہش کچھ نئی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ خواہش 1960 کی دہائی کے آخر سے ہے۔
‘‘اُلرشسن نے 2002 کے عرب پیس انیشی ایٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل کے سعودی منصوبے دہائیوں پرانے ہیں: ''لیکن کئی سالوں تک، عرب امن اقدام پہلے سے طے شدہ سعودی موقف تھا۔ اب غزہ کی ہنگامی صورتحال اور مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کا مطلب یہ ہے کہ سعودیوں نے اندازہ لگا لیا ہے کہ وہ اس طرح کی تباہی اور انسانی مصائب کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتے۔
‘‘اُلرشسن نے ''نیو یارک اعلامیہ‘‘ کو 2002ء کے اقدام کا دوبارہ آغاز قرار دیا۔
امن پر زور سعودی عرب کے اپنے مفاد میںماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض دیگر وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے فلسطینی ریاست کی جانب پیش قدمی سے سعودی عرب کو فائدہ ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک واضح علاقائی استحکام ہے، جو سعودی عرب کے لیے ضروری ہے کہ وہ تیل سے ہٹ کر اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے بڑے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے۔
سعودی سفارتکاری خارجہ پالیسی کے دیگر مقاصد کو بھی آگے بڑھاتی ہے۔ عرب زبان کے اخبار 'رسیف 22‘ نے گزشتہ ہفتے ایک مضمون میں لکھا کہ ریاض کی کوششیں سعودی عرب کی سوچی سمجھی تبدیلی کا حصہ ہیں: ''سعودی عرب نے عرب امن اقدام کو بین الاقوامی اہمیت کے ساتھ ایک سیاسی عمل میں تبدیل کر دیا ہے، ایک عرب-اسلامی ووٹنگ بلاک تشکیل دیا ہے، اسے مغرب کے ساتھ توانائی اور سمندری سلامتی کے مذاکرات میں اثر و رسوخ (کے طور پر استعمال کیا ہے) اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ کے بعد کی صورتحال میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔
‘‘ کیا سعودی فرانسیسی اقدام کامیاب ہو سکے گا؟یہ کہنا قبل از وقت ہو گا، لیکن علامات امید افزا ہیں۔ اُلرشسن نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ اور کینیڈا دونوں نے فلسطین کو آئندہ مشروط طور پر تسلیم کرنے کے بیانات جاری کیے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی اور فرانسیسی نقطہ نظر اپنا اثر دکھا رہا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ کے مزید ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ ستمبر میں ہونے والی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل اس اعلامیے کی حمایت کریں۔
عرب نیوز کے ایڈیٹر ان چیف فیصل جے عباس نے لکھا، ''واشنگٹن کے لیے سعودی فرانسیسی سفارتی اقدام امریکی تزویراتی مفادات کے عین مطابق ہے اور یہ دائمی تنازعات سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ اس سے خطے میں استحکام لانے میں مدد مل سکتی ہے اور امریکی فوجی مداخلت کی ضرورت کم ہو سکتی ہے۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں، ''یہ اسرائیل کو طویل المدتی سکیورٹی گارنٹیاں بھی فراہم کرتا ہے، اگر وہ اپنے انتہائی دائیں بازو کے دباؤ پر ویسٹ بینک کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے مطالبات سے پیچھے ہٹتا ہے تو۔
‘‘تاہم اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ کی طرف سے سعودی فرانسیسی سفارتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے ان کوششوں کو ''حقیقت سے منقطع‘‘ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسے 'پبلسٹی اسٹنٹ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ادارت: شکور رحیم، مقبول ملک