خوارج اور انکے سہولت کاروں سے حکومتی سطح پر بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سیکیورٹی ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
خوارج اور انکے سہولت کاروں سے حکومتی سطح پر بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سیکیورٹی ذرائع WhatsAppFacebookTwitter 0 8 August, 2025 سب نیوز
راولپنڈی (سب نیوز)باجوڑ میں خارجیوں کا جھوٹ بے نقاب ہوگیا، سیکیورٹی ذرائع کے مطابق باجوڑ میں قبائل اور خارجیوں کے درمیان بات چیت میں جان بوجھ کر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق زمینی حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ خوارج باجوڑ میں آبادی کے درمیان رہ کر دہشت گردانہ اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔خیبرپختونخوا کی حکومت بشمول وزیر اعلی اور سیکیورٹی حکام نے وہاں کے قبائل کے سامنے 3 نکات رکھے، پہلا نکتہ یہ تھا کہ افغانیوں کی اکثریت پر مشتمل خارجیوں کو باہر نکالا جائے، دوسرا یہ کہ اگر قبائل خوارج کو خود نہیں نکال سکتے تو ایک یا دو دن کے لیے علاقہ خالی کردیں تاکہ سیکیورٹی فورسز ان خوارج کو ان کے انجام تک پہنچا سکیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق تیسرا یہ کہ اگر یہ دونوں کام نہیں کیے جاسکتے تو حتی الامکان حد تک غیر ارادی نقصان سے بچیں کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہر صورت جاری رہے گی۔سیکیورٹی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ خوارج اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ حکومتی سطح پر کوئی بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرحکومت عمران خان کے بیٹوں کو پاکستان آنے سے نہیں روک سکتی، علیمہ خان حکومت عمران خان کے بیٹوں کو پاکستان آنے سے نہیں روک سکتی، علیمہ خان حکومت پاکستان نے غزہ کیلئے 200ٹن امدادی سامان کی 18ویں کھیپ روانہ کردی الیکشن کمیشن نے مشعال یوسفزئی کے سینیٹر بننے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ٹرمپ کے 50فیصد ٹیرف نے بھارتی اسٹاک مارکیٹ کو ہلا دیا، سرمایہ کاروں کے 50ارب ڈالر ڈوب گئے بنوں میں آپریشن، کئی مشتبہ افراد زیر حراست، دہشتگردوں کے دو سہولت کاروں کے گھر مسمار روس کیساتھ جنگ میں پاکستانی جنگجوئوں کی مدد کا الزام، پاکستان کا معاملہ یوکرین کے سامنے اٹھانے کا فیصلہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سیکیورٹی ذرائع سہولت کاروں بات چیت
پڑھیں:
نیپال کی بغاوت اور جمہوریت کا سوال
جنوبی ایشیا کے پہاڑوں کے درمیان چھپا ہوا چھوٹا سا ملک نیپال آج ایک بار پھر سیاسی بحران کی زد میں ہے۔ چند دہائیاں پہلے تک یہ بادشاہت کے سائے میں سانس لینے والا سماج تھا، پھر عوامی تحریکوں نے اس بادشاہت کے پرخچے اڑائے اور جمہوریت کے خواب نے وہاں کے عوام کی آنکھوں میں چمک پیدا کی لیکن اب چند ہی برسوں میں وہی خواب بکھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ فوجی مداخلت اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی نے اس بات کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ جمہوریت صرف انتخابی کھیل یا ناموں کی شعبدہ بازی نہیں۔
نیپال کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ کو اشرافیہ کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو جمہوریت اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔ یہ کُو یا بغاوت دراصل اسی مایوسی اور محرومی کی پیداوار ہے جو عوام برسوں سے جھیلتے آ رہے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کو سب سے زیادہ غلط سمجھا اور غلط استعمال کیا گیا ہے۔ اکثر حکمران سمجھتے ہیں چونکہ عوام نے انھیں ووٹ دے دیا ہے، اس لیے اب وہ عوام پر حکومت کرنے کے مجاز ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا مفہوم کبھی بھی صرف اقتدار حاصل کرنے تک محدود نہیں رہا۔ جمہوریت کا اصل مقصد یہ ہے کہ اکثریت کے خواب، اکثریت کی ضرورتیں اور اکثریت کی محرومیاں حکومتی پالیسی کا مرکز ہوں، اگر کسان اب بھی زمین سے محروم ہے، مزدور اب بھی بھوک اور بیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہے۔ عورت اب بھی سماجی ناانصافی اور ریاستی بے حسی کا شکار ہے تو ایسی جمہوریت کاغذ پر موجود ہو سکتی ہے لیکن عوام کے دل میں اس کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔
نیپال کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں جدوجہد اور خوابوں کی ایک طویل داستان ملتی ہے۔ وہاں کے عوام نے بادشاہت کے خلاف قربانیاں دیں شاہی فوج کے تشدد کو برداشت کیا پہاڑوں اور میدانوں میں احتجاجی جلوس نکالے۔ ان سب کا مقصد یہ تھا کہ اقتدار چند ہاتھوں سے نکل کر عوام کی اکثریت کو منتقل ہو لیکن جب وہاں کی جماعتیں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے جمہوریت کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے ذاتی مفاد اور بدعنوانی کی نذر کر دیا۔
وہی سیاست دان جو عوامی نعروں کے سائے میں تختِ اقتدار پر بیٹھے تھے وہ سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے کے خدمت گار بن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ، غربت بڑھی نوجوان بیروزگار ہوئے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام نے لوگوں کے اعتماد کو چکنا چورکر دیا۔ یہ مسئلہ صرف نیپال تک محدود نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا جنوبی ایشیا کا ہر ملک اس سوال سے دوچار ہے۔ جمہوریت کس کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے ہے یا پھر یہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا ایک راستہ ہے؟
مغربی دنیا ہمیں بار بار یہ باور کراتی ہے کہ جمہوریت ان کا تحفہ ہے لیکن خود وہاں بھی جمہوریت امیروں کے کھیل میں بدل چکی ہے۔ فرانس میں مزدور بار بار سڑکوں پر نکلتے ہیں کیونکہ جمہوری حکومتیں بھی ان کی پنشن ان کے اوقاتِ کار اور ان کے مستقبل پر ڈاکا ڈالتی ہیں۔ امریکا میں انتخابات کی اصل طاقت کارپوریشنوں اور ارب پتیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر استحصال کی ایک نئی شکل رائج کی جا رہی ہے۔
سچی جمہوریت وہ ہے جہاں حکومت عوام کی بھلائی کو سب سے مقدم سمجھے جہاں تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف سب کے لیے برابر ہو۔ جہاں کسان اور مزدورکو وہی عزت ملے جو کسی بڑے سرمایہ دار یا جاگیردار کو دی جاتی ہے۔ جہاں ریاست کے فیصلے اقلیت کے مفاد میں نہیں بلکہ اکثریت کے فائدے میں ہوں، اگر عوام کی اکثریت بھوک، بیماری اور ناانصافی کی شکار ہے تو پھر ایسی جمہوریت محض ایک فریب ہے۔ یہ وہی صورتِ حال ہے جو نیپال میں سامنے آئی ہے۔ وہاں کے عوام نے جب دیکھا کہ ان کے ووٹوں سے آنے والی حکومتیں ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کر رہیں تو ان کا اعتماد ٹوٹ گیا اور اسی ٹوٹے ہوئے اعتماد نے ملک کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا۔
نیپال کی بغاوت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم جمہوریت میں واقعی عوام کو مرکز بنا رہے ہیں؟ یا پھر ہماری پارلیمان اور حکومتیں چند خاندانوں، چند سرمایہ داروں اور چند طاقتور اداروں کی گرفت میں ہیں؟ اگر جمہوریت صرف اقتدار کا کھیل ہے تو اس کا انجام ہمیشہ مایوسی اور بغاوت ہی ہوگا۔ عوام بار بار یہ سوال اٹھائیں گے کہ ان کی قربانیوں کا صلہ انھیں کیوں نہیں ملا ؟ وہ کیوں اب بھی اندھیروں میں ہیں جب کہ اقتدار کے ایوان روشنیوں سے جگمگا رہے ہیں؟
میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب کسی غریب کا بچہ اسکول جانے کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہو، جب کسی کسان کی فصل کا سارا نفع بیچولیے اور آڑتی لے جائیں، جب ایک ماں اپنے بچوں کا علاج نہ کرواسکے تو ایسی جمہوریت کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ کیا یہ جمہوریت ہے یا ظلم کے ایک نئے چہرے کا نام؟ یہ سوال صرف نیپال کا نہیں یہ سوال پاکستان کا بھی ہے، بھارت کا بھی، اور دنیا کے ہر اس خطے کا جہاں عوام جمہوریت کے نام پر دھوکا کھا رہے ہیں۔
نیپال کے حالیہ بحران نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے اور حکومت بنانے کا عمل نہیں۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جب تک جمہوریت عوام کی اکثریت کو تعلیم، صحت، روزگار اور وقار نہیں دیتی تب تک یہ جمہوریت نہیں بلکہ اس کا مذاق ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جمہوریت کی اصل روح صرف اس وقت زندہ رہتی ہے جب حکومت اکثریت کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام خواہ وہ نیپال کے ہوں یا پاکستان کے ایک بار پھر اپنی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئیں گے اور ان سے ان کی اصل طاقت چھیننے والوں کو بے نقاب کر دیں گے۔