آئندہ چند روز بتائیں گے کہ ہماری بہادر افواج کس طرح ملک کا دفاع کرسکتی ہیں: خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
ویب ڈیسک: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ڈرون حملے ہماری لوکیشنز کو جانچنے کیلئے تھے، آئندہ چند روز بتائیں گے کہ ہماری بہادر افواج کس طرح ملک کا دفاع کرسکتی ہیں۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ہمارے رابطے نہیں ہیں۔ ایران، سعودیہ، قطر اور چین کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہیں۔ ایک دو ملکوں نے ہلکی پھلکی بھارت کی حمایت کی ہے باقی سارے یا ہمارے ساتھ کھڑے ہیں یا پھر نیوٹرل ہیں۔
پنجاب بھر کے سکولوں میں تعطیلات کا اعلان
انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ان کے قریب ترین حلیف بھی نہیں کھڑے، ہم نے بھارت کے 5 جہاز گرائے ہیں جو جنگی تاریخ میں سنگ میل ہے۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان کی فوج جوابی پوزیشن میں ہے، ہماری افواج کی جوابی کارروائی دن رات جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی افواج بہادری سے ملک کا دفاع کررہی ہیں، پاکستانی قوم کو اطمینان ہونا چاہئے کہ انڈیا کے عزائم کو ملیا میٹ کیا جاچکا ہے، انڈیا کے عوام اور سیاست کے حوصلے پست ہوئے ہیں، پوری قوم افواج کے پیچھے کھڑی ہے۔
علی امین گنڈا پور کا اڈیالہ جیل کی جانب پیدل مارچ، پولیس سے تلخ کلامی
Ansa Awais Content Writer.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: نے کہا
پڑھیں:
مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین کے مطابق ہم بغیر محسوس کیے مسلسل مائیکرو پلاسٹکس کا استعمال بھی کر رہے ہیں اور انہیں نگل بھی رہے ہیں۔ یہ باریک ذرات کھانے، پانی اور سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں جبکہ عام استعمال کی متعدد مصنوعات میں بھی ان چھوٹے ذرات کی موجودگی پائی گئی ہے۔
مائیکرو پلاسٹک اصل میں وہ پلاسٹک ہے جو وقت کے ساتھ ٹوٹ کر اتنے چھوٹے ٹکڑوں میں بدل جاتا ہے کہ وہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروگرام باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ہماری روزمرہ استعمال کی بے شمار چیزوں میں یہ پلاسٹک شامل ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کی معلومات نہیں دی جاتیں۔ خواتین کے استعمال میں آنے والے فیس واش میں استعمال ہونے والے ذرات بھی دراصل مائیکرو پلاسٹکس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ہر ہفتے انسان تقریباً پانچ گرام تک پلاسٹک اپنے جسم میں لے جاتا ہے جو ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔ جو پانی ہم پیتے ہیں، جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو ہوا ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں لے جاتے ہیں، ان سب میں مائیکرو پلاسٹکس شامل ہیں۔ مختلف سائنسی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر بوتل بند پانی میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہیں جبکہ ان میں پوشیدہ کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو امراض قلب، ہارمون عدم توازن اور حتیٰ کہ کینسر کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پلاسٹک ہی نہیں بلکہ ڈسپوزیبل مصنوعات جیسے ماسک، سرنجز، دستانے اور سرجیکل آلات بھی صحت کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک بار استعمال کے بعد پلاسٹک کچرے میں اضافہ کرتے ہیں اور بالآخر ماحول میں ہی واپس شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان اب یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ باریک ذرات انسانی خون اور پھیپھڑوں تک کیسے پہنچتے ہیں اور ان سے بچاؤ کے مؤثر طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔