سلام اُنہیں، جو ہنسی کو بھی ذمہ داری سے برتتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
یہ دنیا الفاظ کی بازی گری سے آگے نکل چکی ہے۔ اب اصل وقار اُس سکوت میں ہے جو بولنے سے پہلے لمحہ بھر ٹھہرتا ہے۔ یہی وقار ہم نے دیکھا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی آنکھوں میں، اُن کے لہجے میں، اُن کی باڈی لینگوئج میں دیکھا، جب پاک بھارت کشیدگی اپنے عروج پر تھی، جب لفظ تلوار بن چکے تھے اور بیانات گولہ بارود بن کر برسے جا رہے تھے، تب یہ شخص خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ نہ اشتعال، نہ نمائشی دبدبہ۔ بس ذمہ داری، سنجیدگی اور کردار کی چٹان۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے ہمیں یہ سکھایا کہ اصل بہادری محاذ پر ہی نہیں، مائیک کے سامنے بھی ثابت کرنی پڑتی ہے۔ جہاں ہر سوال ایک جال ہوتا ہے، وہاں الفاظ کو توازن سے تھامنا، جذبات کو قومی مفاد میں ڈھالنا، اور خود کو ادارے کی شناخت بنانا، کسی عام شخص کا کام نہیں۔ میجر جنرل احمد شریف نے یہ سب کچھ ایسی سادگی اور مہارت سے کیا کہ اُن کے نقاد بھی تعریف پر مجبور ہوئے۔
اور پھر، وہ لمحہ آیا جب وہ مسکرائے۔ ایک عرصے بعد اُن کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ دیکھی گئی۔ نہ وہ مسکراہٹ تمسخر تھی، نہ غرور۔ وہ ایک سپاہی کی مسکراہٹ تھی، جو کئی محاذ عبور کر کے اب اعتماد کی ایک نرم چمک بن چکی تھی۔
قوم نے اسے محسوس کیا، اسے سراہا اور اپنے جذبات کو شعر و شاعری میں ڈھال کر اُنہیں سلام پیش کیا۔ کیونکہ کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں، جو صرف وردی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کردار کی شفافیت سے دلوں میں اُترتی ہیں۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری صرف ایک ترجمان نہیں، ایک روایت ہیں۔ وہ روایت جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وقار کبھی بلند آواز میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ اُس خموشی میں چھپا ہوتا ہے جو پورے ادارے کی حرمت کا خیال رکھے۔ وہ شخص جو دشمن کو للکارنے سے پہلے اپنے الفاظ کا وزن دیکھتا ہے، درحقیقت وہی اصل ترجمانِ وطن ہے۔
آج جب ہم انہیں دیکھتے ہیں، تو دل سے ایک دعا نکلتی ہے:
‘سلام اُس پر کہ جو لمحہ لمحہ، فرض کی معراج لکھتا ہے
نہ ہنسی بے جا، نہ غصہ بے محل — ہر جذبہ اعتدال لکھتا ہے
جب للکارا دشمن نے سرحد کو ہماری
فوجِ پاک نے دکھائی بہادری ساری،
احمد شریف، تیری آواز تھی وہ طوفان،
جس نے بھارت کی چالوں کو کیا نیست و نابود ہر آن۔’
یہ کالم اُن کے لیے ایک خاموش سلام ہے۔ ایک سپاہی کو، جس نے زبان کو بھی وردی کی طرح سنبھال کر پہنا۔ جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ اصل اثر دلیل میں ہے، چیخ و پکار میں نہیں۔ اور یہی انداز ہمیں آپ کے شایانِ شان لگا، ڈی جی صاحب
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احمد شریف
پڑھیں:
سینیٹر مشتاق احمد، اسیرِ راہِ حق
اسلام ٹائمز: مشتاق احمد کا نام اب اس فہرست میں شامل ہے جہاں ہر اُس مجاہد کا ذکر ہے جو ظالم کے خلاف ڈٹا رہتا ہے، یہ لمحہ ہمیں بتا رہا ہے کہ حق کی راہ آسان نہیں، لیکن یہ راہ وہی ہے جو تاریخ میں امر کر دیتی ہے، مشتاق احمد آج پابند سلاسل ہے مگر دراصل وہ آزاد ترین انسان ہے اور اسرائیل آج ظاہری طور پر طاقتور ہے مگر دراصل وہ اپنی شکست کے قریب ہے۔ تحریر و تجزیہ: اے محمد
دنیا کے ظالم ایوانوں میں فلسطینی خون کی چیخیں دبائی جا رہی ہیں، اور انہی لمحوں میں ایک مردِ مومن اپنی آواز بلند کر رہا ہے، یہ مردِ حق، سابقہ سینیٹر مشتاق احمد ہے، جو آج اسرائیلی نیوی کی قید میں ہے مگر دراصل وہ آزادی کے آسمان پر سرخرو ہے، مشتاق احمد کا جرم یہ ہے کہ وہ ظالم کے سامنے کلمۂ حق بلند کرتا ہے، وہ فلسطین کے یتیم بچوں اور غزہ کی زخمی ماؤں کے آنسو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے، وہ جانتا ہے کہ ظالم کے خلاف کھڑا ہونا آسان نہیں۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ خاموشی ظلم کی طاقت کو بڑھاتی ہے، اسی لئے وہ اپنی آواز کو صدائے احتجاج بناتا ہے اور اپنی گرفتاری کو عزیمت کا نشان۔
اسرائیل کے زنداں میں اگر مشتاق احمد مقید ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اُس کی زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں، قید خانہ اُس کے جسم کو روک سکتا ہے مگر اُس کی فکر، اُس کی دعا اور اُس کی مزاحمت کو کوئی طاقت قید نہیں کر سکتی، وہ اُس قافلے کا سپاہی ہے جس کے قدموں کو کبھی طاغوت روک نہیں سکا اور نہ روک سکے گا، پاکستانی عوام اور امت مسلمہ کے دل اس وقت زخمی ہیں، لیکن یہ زخم بیداری کے چراغ بن رہے ہیں، یہ گرفتاری ایک صدا ہے کہ ہم سب اُٹھیں، ہم سب بولیں، ہم سب فلسطین اور اپنے اسیر بھائیوں کے لئے میدان میں آئیں۔
سینیٹر مشتاق احمد کا نام اب اس فہرست میں شامل ہے جہاں ہر اُس مجاہد کا ذکر ہے جو ظالم کے خلاف ڈٹا رہتا ہے، یہ لمحہ ہمیں بتا رہا ہے کہ حق کی راہ آسان نہیں، لیکن یہ راہ وہی ہے جو تاریخ میں امر کر دیتی ہے، مشتاق احمد آج پابند سلاسل ہے مگر دراصل وہ آزاد ترین انسان ہے اور اسرائیل آج ظاہری طور پر طاقتور ہے مگر دراصل وہ اپنی شکست کے قریب ہے۔ ہم پر قرض ہے کہ ہم اُس کی حمایت کریں، اُس کی آزادی کے لئے دعا اور جدوجہد کریں اور اُس مشن کو آگے بڑھائیں جو وہ اپنے لہجے اور اپنے عمل سے اُمت کے دلوں میں روشن کرتا ہے، کیونکہ یہ صرف ایک شخص کی گرفتاری نہیں، یہ دراصل حق کے پرچم کا بلند ہونا ہے، اور حق کبھی شکست نہیں کھاتا۔