پہلگام حملے سے سیز فائر تک کرگل طرز کی جائزہ کمیٹی قائم کی جائے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
جے رام رمیش نے کہا کہ سرحدوں پر ہنوز کشیدگی ہے اور مودی حکومت مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، تو کیا ملک کے عوام اور پارلیمنٹ کو حق نہیں کہ انہیں سچائی معلوم ہو۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس پارٹی نے موجودہ قومی سلامتی کی صورتحال، جس میں پہلگام دہشت گردانہ حملہ، آپریشن سندور، ہند و پاک سرحدی کشیدگی، سیز فائر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے شامل ہیں، ان تمام پہلوؤں کا غیر جانبدار تجزیہ کرنے کے لئے ایک کرگل طرز کی جائزہ کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر جے رام رمیش نے کہا کہ پارٹی نے ابتداء سے ہی حکومت اور فوج کے اقدامات کی حمایت کی، خاص طور پر پہلگام حملے کے بعد شروع کئے گئے آپریشن سندور کو مکمل تائید حاصل رہی لیکن حالیہ بین الاقوامی اور سفارتی پیشرفت نے کئی سوالات کھڑے کئے ہیں، جن کا حکومت کو جواب دینا ہوگا۔
انہوں نے خاص طور پر امریکی صدر ٹرمپ کے اس دعوے پر تشویش ظاہر کی کہ انہوں نے واشنگٹن میں بیٹھ کر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکا۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ اس سنجیدہ بیان کے بعد بھی بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، جو تشویشناک ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب کرگل جنگ ختم ہوئی تو اس کے صرف تین دن بعد 29 جولائی 1999ء کو اس وقت کی واجپئی حکومت نے ایک آزاد کرگل جائزہ کمیٹی قائم کی تھی، جس نے انٹیلی جنس ناکامیوں، فوجی تیاریوں اور سفارتی حکمت عملی پر گہرائی سے تجزیہ کر کے رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ کو بعد میں پارلیمنٹ میں بھی رکھا گیا، تاہم اس کے کچھ حصے خفیہ رکھے گئے۔
جے رام رمیش نے کہا کہ موجودہ حالات میں بھی ایسا ہی ایک تفصیلی اور آزاد تجزیہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اتنے سنگین معاملات میں بین الاقوامی طاقتیں دعوے کر رہی ہیں، سرحدوں پر کشیدگی ہے اور حکومت مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، تو کیا ملک کے عوام اور پارلیمنٹ کو حق نہیں کہ انہیں سچائی معلوم ہو۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پچھلے دو ہفتوں میں دو آل پارٹی میٹنگز ہوچکی ہیں، مگر وزیر اعظم ان میں شریک نہیں ہوئے، جس سے حزبِ اختلاف کو اعتماد میں لینے کا عمل شدید متاثر ہوا ہے۔
کانگریس نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم فوری طور پر آل پارٹی اجلاس بلائیں، تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیں اور یہ واضح کریں کہ امریکی قیادت کے بار بار "نیوٹرل سائٹ" (غیر جانبدار مقام) پر بات چیت کے دعووں کی حقیقت کیا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ، قومی سلامتی کے مشیر اور خود وزیر اعظم کی مسلسل خاموشی عوام کو غیر یقینی کیفیت میں مبتلا کر رہی ہے اور یہی وقت ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہو اور تمام صورتحال پر ایک غیر جانب دار کمیٹی کے ذریعے تفصیلی تجزیہ کروایا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کا بجٹ میں متنازع شقوں میں ترمیم کا مطالبہ، کابینہ آج نظر ثانی شدہ بجٹ کی منظوری دے گی
اسلام آباد:پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بدھ کے روز آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں شامل کچھ سیاسی طور پر غیر مقبول شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت پر زور دیا کہ قومی اسمبلی میں آج (جمعرات) متوقع منظوری سے قبل ان متنازع شقوں میں ترمیم کرے۔
تفصیلات کے سابق وزیر خزانہ اور پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر (جو اس وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی ہیں) نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی تاکہ فنانس بل 2025 کی اہم شقوں پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
فنانس بل پر قومی اسمبلی کے فیصلہ کن ووٹ سے قبل وقت کم رہ گیا ہے، اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اس دوران ارکان قومی اسمبلی سے انفرادی ملاقاتیں تیز کر دی ہیں، تاکہ بل کی منظوری سے قبل ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ایک ذرائع کے مطابق، بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے وزیراعظم روزانہ 5 سے 6 ارکان اسمبلی سے ملاقات کر رہے ہیں ، ان دنوں کو چھوڑ کر جب وہ بیرون ملک ہوتے ہیں۔
ہر ملاقات تقریباً 10 منٹ کی ہوتی ہے، جس کا مقصد پارلیمنٹ میں حاضری کو یقینی بنانا اور ارکان کے انفرادی تحفظات کو دور کرنا ہوتا ہے، یہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ایک ترغیب ہے، اس عمل کی بدولت ارکان بجٹ سیشنز میں بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے اس معاملے پر پیغامات یا کالز کا جواب نہیں دیا۔
نوید قمر نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ فنانس بل کا حتمی مسودہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کی عکاسی کرتا ہے، ان ترامیم کو حتمی ووٹنگ سے قبل کمیٹی کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس افسران کے لیے گرفتاری کے مجوزہ اختیارات پر پی پی پی کے تحفظات تسلیم کیے، اور کہا کہ یہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ زیر بحث ہے اور حتمی ووٹ سے قبل اسے حل کر لیا جائے گا۔
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت آج کابینہ کا اجلاس بلا رہی ہے، تاکہ نظر ثانی شدہ فنانس بل کی منظوری دی جا سکے، یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے قائمہ کمیٹی کی تقریباً نصف سفارشات کو حتمی مسودے میں شامل کیا ہے، کابینہ اس ترمیم شدہ بل کی منظوری دے گی اور پھر اسے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔
سب سے متنازع شق ایف بی آر کو توسیعی اختیارات دینے سے متعلق ہے، خاص طور پر سیلز ٹیکس فراڈ کے مقدمات میں گرفتاری اور قانونی کارروائی کے اختیارات، اس پر پی پی پی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی تجویز پر مفاہمت ہوئی، اور ترمیم شدہ شقیں اب حتمی مسودے میں شامل کیے جانے کی توقع ہے۔
ایک اور متنازع اقدام میں جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری کو فرد کے آمدنی گوشوارے سے منسلک کیا گیا ہے، حکومت نے اس کی حد بڑھا دی ہے، تاہم پی پی پی کا مؤقف ہے کہ یہ شق سیاسی طور پر غیر مقبول ہے، اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
تیسرا تنازع سیلز ٹیکس رجیم کے تحت کاروباری رجسٹریشن سے متعلق ہے، ابتدائی طور پر تجویز دی گئی تھی کہ غیر رجسٹرڈ کاروباروں کی یوٹیلیٹی سروسز منقطع یا ان کے کاروبار بند کر دیے جائیں گے، تاہم، حکومت نے اب اس تجویز کا ترمیم شدہ ورژن پیش کر دیا ہے۔
بجٹ منظوری میں ایوان زیریں کے اختیارات میں اضافہ
ماضی کی روایت سے ہٹتے ہوئے، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی چیئرمین شپ اب حکومت کے بجائے، اتحادی جماعت کے رکن کے پاس ہے، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کمیٹی نے فنانس بل کا شق وار جائزہ لیا ہے۔
نوید قمر (جو قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں) نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ یہ تبدیلی قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط 2007 کے قاعدہ 122 میں ستمبر 2024 میں ان کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم کے ذریعے ممکن ہوئی۔
یہ ترمیم، جسے قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاق نے متفقہ طور پر منظور کیا، لازمی قرار دیتی ہے کہ فنانس بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو منظوری سے قبل بھیجا جائے، اور کمیٹی کو 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنا لازم ہے۔
ماضی میں، فنانس بل کو سینیٹ میں پیش کیا جاتا تھا، جہاں چیئرمین اسے سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے سپرد کرتا تھا۔
ادھر، قومی اسمبلی عموماً بجٹ کو 28 دن بعد منظور کرتی تھی، جس سے قبل طویل بحث و مباحثہ ہوتا تھا، تاہم، سینیٹ کی سفارشات محض مشاورتی حیثیت رکھتی تھیں اور اکثر اوقات انہیں حتمی بل میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔
اس کے برعکس، قومی اسمبلی کی سفارشات اب لازمی حیثیت رکھتی ہیں، جو بجٹ سازی کے عمل میں ایوانِ زیریں کے اختیارات میں اضافے کی عکاسی کرتی ہیں، فی الوقت، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سلیم مانڈوی والا ہیں۔
اس ترمیم کے نتیجے میں، قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس 2025 کے دوران نوید قمر نے فنانس بل پر کمیٹی کی پہلی تفصیلی رپورٹ پیش کی، جس کا مقصد وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو یکم جولائی سے نافذ کرنا ہے۔
نوید قمر نے اس پیش رفت کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کو بجٹ پر مائیکرو سطح پر غور کرنے کا اختیار حاصل ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے اراکین باقاعدگی سے اجلاسوں میں شریک رہے، اور فنانس بل پر تفصیلی مباحثوں میں بھرپور حصہ لیا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی پابندیوں کے باوجود کمیٹی کی بیشتر سفارشات تسلیم کیں۔
نوید قمر نے کہا کہ یہ عمل اب محض رسمی منظوری تک محدود نہیں رہا، بجٹ سازی کا اختیار بیوروکریسی سے نکل کر عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔
Post Views: 4