Express News:
2025-09-27@08:12:42 GMT

جان لیوا حملے کے لمحات یاد کرکے سیف علی خان جذباتی ہوگئے

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

بالی ووڈ اداکار سیف علی خان نے اس سال ممبئی میں اپنے ساتھ پیش آنے والے جان لیوا حملے کے دوران اپنے ذہن میں چلنے والے خیالات کو شیئر کیا ہے۔

سیف کا کہنا ہے کہ اس صدمے کے لمحات میں ان کی پوری زندگی ایک فلم کی طرح ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزر گئی۔

سیف علی خان نے ایک انٹرویو میں اس رات کی تفصیلات بیان کیں جب جنوری کے مہینے میں آدھی رات کے وقت ایک ناگہانی حملہ آور نے ان کے گھر میں گھس کر حملہ کیا تھا۔ 55 سالہ اداکار نے نہ صرف اس خطرناک صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اپنے بچوں کی حفاظت بھی یقینی بنائی، جو اس المناک واقعے کے عینی شاہد تھے۔

اس جانی لیوا حملے میں سیف علی خان کو کافی چوٹیں آئیں، جن کی وجہ سے انہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑا اور سرجری کروانی پڑی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وار سے بچ نکلنا ایک قسم کا معجزہ محسوس ہوتا ہے۔ سیف کے مطابق ریڑھ کی ہڈی کے قریب لگنے والا زخم انتہائی خطرناک تھا اور محفوظ رہ جانے پر وہ خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتے ہیں۔

زخمی حالت میں فرش پر پڑے ہوئے، سیف کو اپنی زندگی کے بیش بہا پہلوؤں کا احساس ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے ذہن میں یہ بات گردش کر رہی تھی کہ زندگی کس قدر خوبصورت ہے۔ اپنی دولت اور عیش و آرام سے کہیں زیادہ، ان کے خیالات اپنی اہلیہ، بچوں اور زندگی کے ان قیمتی لمحات پر مرکوز تھے، جو ان کے لیے سب کچھ ہیں۔

یاد رہے کہ یہ واقعہ 16 جنوری کو پیش آیا تھا، جب سیف علی خان نے حملہ آور کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ زخمی ہونے کے بعد انہیں ممبئی کے لیلاوتی اسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کا کامیاب آپریشن ہوا۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیف علی خان

پڑھیں:

تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے، ترجمہ: ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘ (الانعام: 162)۔
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!
قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘ (الانعام :122)۔
اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’اسی طرح (اے نبیؐ)! ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ‘‘ (الشوریٰ: 52)۔

جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرمؐ نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (الزمر: 22)۔ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ! اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری‘‘ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)۔
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا، ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں‘‘ (الحشر: 21)۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے (الجامع لاحکام القرآن)۔

قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جو شخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیر ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں گہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فیصد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قرأت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی، ترجمہ: ’’اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں‘‘ (المائدہ : 118)۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘ (صحیح الجامع الصغیر)۔

جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم—؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!

ارشاد الرحمن گلزار

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • قوم جذباتی ہے، اللہ جنگ کی طرح میچ میں بھی فتح دے: گورنر پنجاب
  • کہانی زندگی کی
  • اسکاٹ لینڈ میں شاہ چارلس کے نئے پورٹریٹ کی نقاب کشائی، ہمشیرہ شہزادی این جذباتی ہو گئیں
  • ہم نے "صمود" امدادی قافلے کی حفاظت کیلئے اپنی بحریہ تعینات کر دی، سپین
  • تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
  • ترک صدر نے امریکی ساختہ ساز و سامان استعمال کرکے اپنی فوج کو طاقتور بنایا؛ ٹرمپ
  • صدرترکیہ نے امریکی ساختہ ساز و سامان استعمال کرکے اپنی فوج کو طاقتور بنایا، ٹرمپ
  • عالمی موسمیاتی ادارہ اور سیلاب سے بچاؤ