بھارت سے مذاکرات پر تیار ‘ سندھ ظاس معاہدے سے چھیڑچھاڑ اقدام جنگ : اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + این این آئی+ آئی این پی) نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کی بھارت کیخلاف جوابی کارروائی کے بعد امریکا متحرک ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔ معاہدے سے چھیڑ چھاڑ پر انڈیا کو خبردار کر دیا اور کہا پانی روکنے کی کوشش اقدام جنگ ہو گا۔ اسحاق ڈار نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ ہمارے جوابی حملوں کے بعد امریکہ کو احساس ہوا کہ کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہفتے کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی وزیر خارجہ اور مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ بھارت نے عملی طور پر دیکھا کہ پاک بھارت فضائیہ کے درمیان کیا ہوا اور ہم پہلی بار بھارتی جارحیت کا رد عمل دے رہے تھے۔ بھارت کو احساس ہوا کہ ان کا اندازہ غلط تھا اور انہیں کتنا نقصان ہوا۔ بات چیت کے لیے دونوں فریقین کو متفق ہونا ہو گا۔ تاہم ہم بات چیت کے ذریعے خطے کے معاملات کا حل چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنی برابری اور دفاعی توازن ثابت کیا‘ بھارت کیساتھ جامع مذاکرات پر تیار لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ ٹرمپ کا کردار بہت اہم‘ خطے میں خطرات کا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ ادھر اسحاق ڈار نے گزشتہ روز یہاں اشیائے ضروریہ سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں فوڈ سکیورٹی کے وزیر‘ وزیراعظم کے معاون خصوصی‘ متعلقہ سیکرٹریز اور متعلقہ محکموں کے سینئر حکام اور نجی شعبے کے نمائندوں نے شرکت کی۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو ضروری اشیائے خوردونوش کی فراہمی اور دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے صارفین کے تحفظ اور پائیدار اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کے لئے مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی فراہمی اور استحکام کو یقینی بنانے کے حکومت کے عزم پر زور دیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اسحاق ڈار
پڑھیں:
ایرانی وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی کا اہم انٹرویو(2)
اسلام ٹائمز: اپنی خصوصی گفتگو میں ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ صیہونی حکومت نے لاچار ہونے کے بعد جارحیت بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جسکے بعد ہم نے بھی جب دیکھا کہ انھوں نے جارحیت بند کر دی ہے تو اپنے آپریشن روک دیئے، لیکن ایران لبنان نہیں ہے، اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم فوراً ٹھوس جواب دینگے۔ انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے کہا کہ ہم امریکا کیساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرینگے یا نہیں، ہم اسکا جائزہ لے رہے ہیں اور اسکا انحصار ہمارے ملی مفادات پر ہے۔ انھوں نے صراحت کیساتھ کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنا طے نہیں پایا ہے۔ نہ کوئی اتفاق رائے ہوا ہے، نہ وعدہ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بات کی گئی ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ہر جنگ تبدیلیاں لاتی ہے اور یہ تبدیلیاں ڈپلومیسی میں بھی نظر آتی ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ہم اپنی ڈپلومیسی کی تنظیم نو کر رہے ہیں اور یقیناً ہماری ڈپلومیسی میں کچھ تبدیلیاں ہوں گی۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے جمعرات کی رات ایران ٹی وی کے نیوز ٹاک پروگرام میں مزید کہا کہ جب فریق مقابل مذاکرات کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے میں نا امید ہوگیا تو اس نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ جرائم پیشہ جعلی حکومت کو ایران پر حملے کی کھلی چھوٹ دی۔ اس کے باوجود ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے یہ راستہ طے کیا، کیونکہ ہم نے دنیا والوں پر حجت تمام کر دی کہ ایران نے پرامن راہ حل تک پہنچنے کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ یہ مقابل فریق تھا، جس نے مذاکرات کے راستے کو جنگ کے راستے سے تبدیل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی وزیر خارجہ ایسا نہیں ہے، جس سے میں نے گفتگو کی ہو اور اس نے ہمیں حق پر نہ مانا ہو یا کم سے کم خاموش نہ ہوگیا ہو۔ عراقچی نے کہا کہ اس بار ماضی کے برخلاف علاقائی ملکوں نے ایسی حمایت کی، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ او آئی سی کے رکن 57 ملکوں نے قرارداد پاس کرکے، صیہونی حکومت کے حملوں کی مذمت اور ایران کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا۔ یہ قرارداد اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ او آئی اسی وزرائے خارجہ کے دوسرے دن کے اجلاس میں آخری لمحات میں ایران پر امریکی حملے کے بعد دو شقوں کا اضافہ کیا گیا، جن میں امریکی جارحیت کی مذمت کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ خلیج فارس تعاون کونسل نے شروع میں ہی ان حملوں کی مذمت کی۔ شنگھائی اور برکس جیسی تنظیموں نے بھی ان حملوں کی مذمت اور ہماری حمایت کی۔ یہ حمایتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ایرانی عوام کی حقانیت عالمی سطح پر ثابت ہوچکی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ صیہونی حکومت تھی، جس نے آپریشن بند کرنے کی درخواست کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی پالیسیوں کے مطابق اعلان کیا کہ اگر حملے بند ہو جائیں تو ہم بھی اپنے آپریشن روک دیں گے۔ نتیجے میں کارروائياں رک گئيں، لیکن ہمارے آخری وار جو آخری لمحات میں لگائے گئے، بہت موثر واقع ہوئے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ صیہونی حکومت نے لاچار ہونے کے بعد جارحیت بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بعد ہم نے بھی جب دیکھا کہ انھوں نے جارحیت بند کر دی ہے تو اپنے آپریشن روک دیئے، لیکن ایران لبنان نہیں ہے، اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم فوراً ٹھوس جواب دیں گے۔ انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے یا نہیں، ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس کا انحصار ہمارے ملی مفادات پر ہے۔ انھوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنا طے نہیں پایا ہے۔ نہ کوئی اتفاق رائے ہوا ہے، نہ وعدہ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بات کی گئی ہے۔