Daily Ausaf:
2025-06-30@08:41:09 GMT

جوہری حدود اور امن کی نازک نوعیت

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
یادرہے کہ 2019ء میں بالاکوٹ سٹرائیک میں انڈیا کے نہ صرف دوطیارے تباہ کردیئے تھے بلکہ ان کاپائلٹ بھی زندہ گرفتارکرلیاتھا جو بعدازاں پاکستانی کی چائے کاساری دنیاکے سامنے اعتراف کررہاتھالیکن یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ ایسی چائے کابندوبست انڈیا کے رافیل طیاروں سمیت دوسرے طیاروں کوتباہ کرکے چائے کابندوبست وہی کردیاگیا تھا ۔ پاکستان نے آپریشن سراب کے تحت انڈین فضائی حدودمیں داخل ہوکرنشانہ بازی کی،جس میں انڈیا کاایک مگ21طیارہ تباہ کردیاگیاتھا۔
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے خبردارکیاکہ بھارت کے حالیہ حملے’’جنگ کا اعلان‘‘ ہیں اوراگربھارت نے مزیدکارروائی کی توپاکستان بھرپورجواب دے گا۔بین الاقوامی برادری نے اس صورتحال پرتشویش کا اظہار کیا ہے اوردونوں ممالک سے تحمل کامظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔پاکستان اوربھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے خطے میں امن و استحکام کیلئے خطرات پیداکردیے ہیں۔دونوں ممالک کے پاس جدید ہتھیاراوردفاعی نظام موجودہیں،تاہم کسی بھی غلط فہمی یااشتعال انگیزی سے مکمل جنگ کا خطرہ بڑھ سکتاہے۔
عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں ممالک کومذاکرات کی میز پرلائے تاکہ خطے میں امن قائم رکھاجاسکے۔اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان سخت بیانات کے ساتھ کشیدگی عروج پرہے،لیکن بین الاقوامی دبااورممکنہ جوہری تصادم کے خطرے کے پیش نظر،دونوں ممالک سفارتی ذرائع سے مسئلے کے حل کی کوشش کرسکتے ہیں۔تاہم عالمی برادری کی جانب سے ثالثی کی کوششیں جاری ہیں۔ماضی میں بھی دونوں ممالک کشیدگی کے باوجودمکمل جنگ سے گریزکرتے رہے ہیں۔موجودہ صورت حال میں سفارتی کوششوں اورعالمی دباکے باعث مکمل جنگ سے بچنے کاامکان موجودہے،تاہم حالات کی نزاکت کے پیش نظرکسی بھی وقت صورتحال بگڑسکتی ہے۔
اگرحالات کوکنٹرول نہ کیاگیاتویہ جاری صورتحال مکمل جنگ کی طرف جاسکتی ہے فی الحال،واقعات2019ء کی سطح سے زیادہ سنگین نہیں ہیں،لیکن کشیدگی میں مسلسل اضافہ تشویش ناک ہے۔اگرحالیہ ہائپرسونک میزائلوں یا سائبر جنگ تک جاپہنچیں تویہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیارہیں،جوکسی بھی بڑی متبادل تباہی یعنی ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ 2023ء میں،پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی کی بنیادی وجوہات کشمیر تنازعہ، سرحدی خلاف ورزیوں،اوردونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پرتناؤہیں۔کشمیرجیسے عالمی تنازعہ کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بجائے پچھلی سات دہائیوں سے انڈیاراہِ فرار حاصل کررہاہے جبکہ ان قراردادوں پرعالمی طاقتیں ضامن بھی ہیں۔ اس پرمستزادیہ کہ انڈیا کی جانب سے5 اگست2019ء میں آرٹیکل370 کے خاتمے کے بعدسے کشمیرکواس نے ہندوستان کاحصہ قراردے دیا ہے جوصریحاًعالمی قراردادوں کی خاف ورزی ہے۔اس صورتحال پرپاکستان کی طرف سے سفارتی احتجاج جاری ہے اوراب ایک مرتبہ پھرلائن آف کنٹرول پرگولہ باری اور فائرنگ کے واقعات شروع ہوگئے ہیں جو کبھی بھی کسی بڑی جنگ کاپیش خیمہ بن سکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ایک مرتبہ پھر تشددکی بہیمانہ کاروائیوں کاآغازہوگیاہے۔
پاکستان اورانڈیاکے درمیان کشیدگی ایک پیچیدہ اورتاریخی مسئلہ ہے،جوجوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں محدودجنگ تک ہی رہنے کاامکان رکھتاہے۔دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے کے حملوں کوروکنے کی صلاحیت موجودہے،لیکن مکمل جنگ سے گریزان کی پالیسی کاحصہ ہے۔بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسلسل نگرانی اورثالثی اس تناؤ کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اہم ہے۔
کیادونوں ممالک جنگ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟اس کیلئے ہمیں ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔2019 ء کی پلوامہ۔بالاکوٹ کشیدگی کے بعددونوں ممالک سفارتی ذرائع سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن بیک ڈورچینل پرکئی ممالک امن کی کوششوں کوبڑھا رہے تھے اوراس وقت بھی بیک ڈورچینلز کی وجہ سے جنگ کے خطرات ٹل گئے تھے۔اب ایک مرتبہ پھرچین، امریکا،سعودی عرب اوریواین سفارتی مداخلت کیلئے متحرک ہوچکے ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے یہ خبرملی کہ بالآخر امریکی صدرجواس جنگ سے خودکوالگ کئے بیٹھے تھے،انہوں نے چندلمحے پہلے اپنے ٹوئیٹرمیں دونوں ملکوں میں سیزفائرکا اعلان کیاہے جویقیناپاکستان کی فتح کااعلان ہے۔اگرکوئی بھی فریق ایک قدم پیچھے ہٹنے کوتیارہو،توکشیدگی کم ہوسکتی ہے۔ دونوں ممالک کوبڑی جنگ سے روکنے کاسب سے بڑاعنصر جوہری ہتھیاروں کاہے،جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں مذاکرات کی گنجائش باقی ہے۔لیکن فی الحال دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ مذاکرات کافقدان ہے لیکن غیررسمی چینلزجیسے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو فعال کرنی ضرورت ہے۔دونوں ممالک خاص طور پرحالیہ کووڈ19کے اثرات نے ان کی معیشت پرخاصادباؤڈالاہے اور دونوں ملکوں کے عوام کیلئے سب سے بڑاچیلنج ان کے ہاں غربت اورمہنگائی کا ابھی تک چل رہا ہے۔ اس پرمزیدجنگ کے اقتصادی اثرات ان کودہائیوں پیچھے کی طرف دھکیل دیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے کے درمیان ہے لیکن کی طرف

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ کے بعد پہلی ایرانی پرواز کراچی پہنچ گئی

ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد ایران سے پہلی پرواز کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کر گئی۔ پہلی پرواز ایرانی شہر مشہد  سے آئی۔

ایئرپورٹ ذرائع کے مطابق ایران کی سرکاری ایئر لائن کی پہلی پرواز 16 روز بعد مشہد سے کراچی پہنچی۔

ایران کی سرکاری ایئرلائن کی پرواز نے گزشتہ شب 1:13 بجے کراچی لینڈ کیا۔  اس پرواز  کی واپسی کراچی سے تہران کے لیے شیڈول ہے۔

یاد رہے کہ ایران نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بعد جمعرات کو اپنی فضائی حدود جزوی طور پر کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ وزارت مواصلات کے ترجمان مجید اخوان نے ایکس پوسٹ میں بتایا کہ ملک کے مشرقی نصف حصے کی فضائی حدود کو ملکی اور بین الاقوامی پروازوں کے لیے اور ایران کی فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جنگ بندی کے باوجود ایرانی فضائی حدود کی بندش میں توسیع کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ تہران کے مہرآباد ایئرپورٹ اور امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ، جو دارالحکومت سے 40 کلومیٹر واقع ہیں، فی الحال پروازوں کے لیے دستیاب نہیں ہیں، ان کے بارے میں احکامات بعد میں دیے جائیں گے۔

یہ اعلان امریکا کے ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی ہونے کے بعد سامنے آیا ہے، اس سیزفائر کے ساتھ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 دن تک جاری رہنے والی کشیدگی ختم ہوئی جو 13 جون کو اسرائیلی حملوں کے باعث شروع ہوئی تھی، جن میں ایران کے جوہری اور عسکری اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایران ایران ایئر کراچی مشہد

متعلقہ مضامین

  • ایران اسرائیل جنگ کے بعد پہلی ایرانی پرواز کراچی پہنچ گئی
  • کچھ نئے ممالک اسرائیل سے تعلقات معمول میں لانے کے ابراہام معاہدے میں شامل ہوں گے، ٹرمپ کا دعویٰ
  • پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا سربراہ تبدیل
  • اسرائیل اور ایران کشیدگی میں روس کا حیران کن حد تک محتاط کردار کیوں؟
  • دنیا کے سب سے طویل نام والے ملکوں کا انوکھا راز!
  • علاقائی کشیدگی کے باعث سعودی عرب کی فضائی حدود روزانہ 1330 پروازوں کی گزرگاہ بن گئی
  • پاکستانی پاسپورٹ کی عالمی رینکنگ میں بہتری، کتنے ممالک میں بغیر ویزا رسائی ممکن؟
  • پاک افغان بداعتمادی کا خاتمہ دونوں کے مفاد میں ہے،سراج الحق
  • جنرل ساحر شمشاد مرزا کا دورہ آسٹریلیا
  • چین اور ایکواڈور کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانے پر اتفاق