جوہری حدود اور امن کی نازک نوعیت
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
یادرہے کہ 2019ء میں بالاکوٹ سٹرائیک میں انڈیا کے نہ صرف دوطیارے تباہ کردیئے تھے بلکہ ان کاپائلٹ بھی زندہ گرفتارکرلیاتھا جو بعدازاں پاکستانی کی چائے کاساری دنیاکے سامنے اعتراف کررہاتھالیکن یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ ایسی چائے کابندوبست انڈیا کے رافیل طیاروں سمیت دوسرے طیاروں کوتباہ کرکے چائے کابندوبست وہی کردیاگیا تھا ۔ پاکستان نے آپریشن سراب کے تحت انڈین فضائی حدودمیں داخل ہوکرنشانہ بازی کی،جس میں انڈیا کاایک مگ21طیارہ تباہ کردیاگیاتھا۔
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے خبردارکیاکہ بھارت کے حالیہ حملے’’جنگ کا اعلان‘‘ ہیں اوراگربھارت نے مزیدکارروائی کی توپاکستان بھرپورجواب دے گا۔بین الاقوامی برادری نے اس صورتحال پرتشویش کا اظہار کیا ہے اوردونوں ممالک سے تحمل کامظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔پاکستان اوربھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے خطے میں امن و استحکام کیلئے خطرات پیداکردیے ہیں۔دونوں ممالک کے پاس جدید ہتھیاراوردفاعی نظام موجودہیں،تاہم کسی بھی غلط فہمی یااشتعال انگیزی سے مکمل جنگ کا خطرہ بڑھ سکتاہے۔
عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں ممالک کومذاکرات کی میز پرلائے تاکہ خطے میں امن قائم رکھاجاسکے۔اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان سخت بیانات کے ساتھ کشیدگی عروج پرہے،لیکن بین الاقوامی دبااورممکنہ جوہری تصادم کے خطرے کے پیش نظر،دونوں ممالک سفارتی ذرائع سے مسئلے کے حل کی کوشش کرسکتے ہیں۔تاہم عالمی برادری کی جانب سے ثالثی کی کوششیں جاری ہیں۔ماضی میں بھی دونوں ممالک کشیدگی کے باوجودمکمل جنگ سے گریزکرتے رہے ہیں۔موجودہ صورت حال میں سفارتی کوششوں اورعالمی دباکے باعث مکمل جنگ سے بچنے کاامکان موجودہے،تاہم حالات کی نزاکت کے پیش نظرکسی بھی وقت صورتحال بگڑسکتی ہے۔
اگرحالات کوکنٹرول نہ کیاگیاتویہ جاری صورتحال مکمل جنگ کی طرف جاسکتی ہے فی الحال،واقعات2019ء کی سطح سے زیادہ سنگین نہیں ہیں،لیکن کشیدگی میں مسلسل اضافہ تشویش ناک ہے۔اگرحالیہ ہائپرسونک میزائلوں یا سائبر جنگ تک جاپہنچیں تویہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیارہیں،جوکسی بھی بڑی متبادل تباہی یعنی ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ 2023ء میں،پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی کی بنیادی وجوہات کشمیر تنازعہ، سرحدی خلاف ورزیوں،اوردونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پرتناؤہیں۔کشمیرجیسے عالمی تنازعہ کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بجائے پچھلی سات دہائیوں سے انڈیاراہِ فرار حاصل کررہاہے جبکہ ان قراردادوں پرعالمی طاقتیں ضامن بھی ہیں۔ اس پرمستزادیہ کہ انڈیا کی جانب سے5 اگست2019ء میں آرٹیکل370 کے خاتمے کے بعدسے کشمیرکواس نے ہندوستان کاحصہ قراردے دیا ہے جوصریحاًعالمی قراردادوں کی خاف ورزی ہے۔اس صورتحال پرپاکستان کی طرف سے سفارتی احتجاج جاری ہے اوراب ایک مرتبہ پھرلائن آف کنٹرول پرگولہ باری اور فائرنگ کے واقعات شروع ہوگئے ہیں جو کبھی بھی کسی بڑی جنگ کاپیش خیمہ بن سکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ایک مرتبہ پھر تشددکی بہیمانہ کاروائیوں کاآغازہوگیاہے۔
پاکستان اورانڈیاکے درمیان کشیدگی ایک پیچیدہ اورتاریخی مسئلہ ہے،جوجوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں محدودجنگ تک ہی رہنے کاامکان رکھتاہے۔دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے کے حملوں کوروکنے کی صلاحیت موجودہے،لیکن مکمل جنگ سے گریزان کی پالیسی کاحصہ ہے۔بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسلسل نگرانی اورثالثی اس تناؤ کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اہم ہے۔
کیادونوں ممالک جنگ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟اس کیلئے ہمیں ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔2019 ء کی پلوامہ۔بالاکوٹ کشیدگی کے بعددونوں ممالک سفارتی ذرائع سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن بیک ڈورچینل پرکئی ممالک امن کی کوششوں کوبڑھا رہے تھے اوراس وقت بھی بیک ڈورچینلز کی وجہ سے جنگ کے خطرات ٹل گئے تھے۔اب ایک مرتبہ پھرچین، امریکا،سعودی عرب اوریواین سفارتی مداخلت کیلئے متحرک ہوچکے ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے یہ خبرملی کہ بالآخر امریکی صدرجواس جنگ سے خودکوالگ کئے بیٹھے تھے،انہوں نے چندلمحے پہلے اپنے ٹوئیٹرمیں دونوں ملکوں میں سیزفائرکا اعلان کیاہے جویقیناپاکستان کی فتح کااعلان ہے۔اگرکوئی بھی فریق ایک قدم پیچھے ہٹنے کوتیارہو،توکشیدگی کم ہوسکتی ہے۔ دونوں ممالک کوبڑی جنگ سے روکنے کاسب سے بڑاعنصر جوہری ہتھیاروں کاہے،جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں مذاکرات کی گنجائش باقی ہے۔لیکن فی الحال دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ مذاکرات کافقدان ہے لیکن غیررسمی چینلزجیسے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو فعال کرنی ضرورت ہے۔دونوں ممالک خاص طور پرحالیہ کووڈ19کے اثرات نے ان کی معیشت پرخاصادباؤڈالاہے اور دونوں ملکوں کے عوام کیلئے سب سے بڑاچیلنج ان کے ہاں غربت اورمہنگائی کا ابھی تک چل رہا ہے۔ اس پرمزیدجنگ کے اقتصادی اثرات ان کودہائیوں پیچھے کی طرف دھکیل دیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے کے درمیان ہے لیکن کی طرف
پڑھیں:
ڈی جی ایم اوز کا تیسرا ہاٹ لائن رابطہ، جنگ بندی برقرار رہے گی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان بدھ کی دوپہر ہاٹ لائن کے ذریعے رابطہ ہوا، جو دونوں ممالک کے درمیان سیزفائر کے بعد تیسرا رابطہ ہے۔
یہ سیزفائر امریکہ اور دیگر دوستانہ ممالک کی کوششوں سے ممکن ہوا تھا۔ دونوں افسران نے زمینی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
اگرچہ اس رابطے کی تفصیلات کسی بھی جانب سے منظرعام پر نہیں آئیں، تاہم باخبر ذرائع نے روزنامہ جنگ اور دی نیوز کو بدھ کی شام بتایا کہ دونوں ممالک نے سیزفائر برقرار رکھنے اور سابقہ رابطے (جو پیر کو ہوا تھا) میں طے شدہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری اور ترجمان، سفیر شفقات علی خان، کل (جمعہ کو) میڈیا کو بریفنگ دیں گےدریں اثناء سفارتی ذرائع نے اس نمائندے کو بتایا کہ دنیا کے کئی اہم دارالحکومت دونوں ممالک سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کو بڑھانے سے گریز کریں اور جلد از جلد اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs) کریں تاکہ باضابطہ اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کئی تجاویز زیر غور ہیں۔
پاکستان کے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اور بھارت کے اجیت ڈوول پر مشتمل نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز (NSAs) کی سطح پر ملاقات متوقع ہے، کیونکہ دونوں کے درمیان ابتدائی بات چیت ہو چکی ہے۔
یہ دونوں شخصیات ایک ایسی حکمت عملی طے کر سکتے ہیں جو سیاسی سطح پر “کمپوزٹ ڈائیلاگ” (مربوط مذاکرات) کی بحالی کا ذریعہ بنے، جیسا کہ ماضی میں کئی سالوں تک اسلام آباد اور نئی دہلی میں سیکریٹری خارجہ سطح پر ہوتا رہا۔
Post Views: 2