Daily Ausaf:
2025-11-19@04:12:01 GMT

جوہری حدود اور امن کی نازک نوعیت

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
یادرہے کہ 2019ء میں بالاکوٹ سٹرائیک میں انڈیا کے نہ صرف دوطیارے تباہ کردیئے تھے بلکہ ان کاپائلٹ بھی زندہ گرفتارکرلیاتھا جو بعدازاں پاکستانی کی چائے کاساری دنیاکے سامنے اعتراف کررہاتھالیکن یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ ایسی چائے کابندوبست انڈیا کے رافیل طیاروں سمیت دوسرے طیاروں کوتباہ کرکے چائے کابندوبست وہی کردیاگیا تھا ۔ پاکستان نے آپریشن سراب کے تحت انڈین فضائی حدودمیں داخل ہوکرنشانہ بازی کی،جس میں انڈیا کاایک مگ21طیارہ تباہ کردیاگیاتھا۔
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے خبردارکیاکہ بھارت کے حالیہ حملے’’جنگ کا اعلان‘‘ ہیں اوراگربھارت نے مزیدکارروائی کی توپاکستان بھرپورجواب دے گا۔بین الاقوامی برادری نے اس صورتحال پرتشویش کا اظہار کیا ہے اوردونوں ممالک سے تحمل کامظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔پاکستان اوربھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے خطے میں امن و استحکام کیلئے خطرات پیداکردیے ہیں۔دونوں ممالک کے پاس جدید ہتھیاراوردفاعی نظام موجودہیں،تاہم کسی بھی غلط فہمی یااشتعال انگیزی سے مکمل جنگ کا خطرہ بڑھ سکتاہے۔
عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں ممالک کومذاکرات کی میز پرلائے تاکہ خطے میں امن قائم رکھاجاسکے۔اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان سخت بیانات کے ساتھ کشیدگی عروج پرہے،لیکن بین الاقوامی دبااورممکنہ جوہری تصادم کے خطرے کے پیش نظر،دونوں ممالک سفارتی ذرائع سے مسئلے کے حل کی کوشش کرسکتے ہیں۔تاہم عالمی برادری کی جانب سے ثالثی کی کوششیں جاری ہیں۔ماضی میں بھی دونوں ممالک کشیدگی کے باوجودمکمل جنگ سے گریزکرتے رہے ہیں۔موجودہ صورت حال میں سفارتی کوششوں اورعالمی دباکے باعث مکمل جنگ سے بچنے کاامکان موجودہے،تاہم حالات کی نزاکت کے پیش نظرکسی بھی وقت صورتحال بگڑسکتی ہے۔
اگرحالات کوکنٹرول نہ کیاگیاتویہ جاری صورتحال مکمل جنگ کی طرف جاسکتی ہے فی الحال،واقعات2019ء کی سطح سے زیادہ سنگین نہیں ہیں،لیکن کشیدگی میں مسلسل اضافہ تشویش ناک ہے۔اگرحالیہ ہائپرسونک میزائلوں یا سائبر جنگ تک جاپہنچیں تویہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیارہیں،جوکسی بھی بڑی متبادل تباہی یعنی ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ 2023ء میں،پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی کی بنیادی وجوہات کشمیر تنازعہ، سرحدی خلاف ورزیوں،اوردونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پرتناؤہیں۔کشمیرجیسے عالمی تنازعہ کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بجائے پچھلی سات دہائیوں سے انڈیاراہِ فرار حاصل کررہاہے جبکہ ان قراردادوں پرعالمی طاقتیں ضامن بھی ہیں۔ اس پرمستزادیہ کہ انڈیا کی جانب سے5 اگست2019ء میں آرٹیکل370 کے خاتمے کے بعدسے کشمیرکواس نے ہندوستان کاحصہ قراردے دیا ہے جوصریحاًعالمی قراردادوں کی خاف ورزی ہے۔اس صورتحال پرپاکستان کی طرف سے سفارتی احتجاج جاری ہے اوراب ایک مرتبہ پھرلائن آف کنٹرول پرگولہ باری اور فائرنگ کے واقعات شروع ہوگئے ہیں جو کبھی بھی کسی بڑی جنگ کاپیش خیمہ بن سکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ایک مرتبہ پھر تشددکی بہیمانہ کاروائیوں کاآغازہوگیاہے۔
پاکستان اورانڈیاکے درمیان کشیدگی ایک پیچیدہ اورتاریخی مسئلہ ہے،جوجوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں محدودجنگ تک ہی رہنے کاامکان رکھتاہے۔دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے کے حملوں کوروکنے کی صلاحیت موجودہے،لیکن مکمل جنگ سے گریزان کی پالیسی کاحصہ ہے۔بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسلسل نگرانی اورثالثی اس تناؤ کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اہم ہے۔
کیادونوں ممالک جنگ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں؟اس کیلئے ہمیں ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔2019 ء کی پلوامہ۔بالاکوٹ کشیدگی کے بعددونوں ممالک سفارتی ذرائع سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن بیک ڈورچینل پرکئی ممالک امن کی کوششوں کوبڑھا رہے تھے اوراس وقت بھی بیک ڈورچینلز کی وجہ سے جنگ کے خطرات ٹل گئے تھے۔اب ایک مرتبہ پھرچین، امریکا،سعودی عرب اوریواین سفارتی مداخلت کیلئے متحرک ہوچکے ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے یہ خبرملی کہ بالآخر امریکی صدرجواس جنگ سے خودکوالگ کئے بیٹھے تھے،انہوں نے چندلمحے پہلے اپنے ٹوئیٹرمیں دونوں ملکوں میں سیزفائرکا اعلان کیاہے جویقیناپاکستان کی فتح کااعلان ہے۔اگرکوئی بھی فریق ایک قدم پیچھے ہٹنے کوتیارہو،توکشیدگی کم ہوسکتی ہے۔ دونوں ممالک کوبڑی جنگ سے روکنے کاسب سے بڑاعنصر جوہری ہتھیاروں کاہے،جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں مذاکرات کی گنجائش باقی ہے۔لیکن فی الحال دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ مذاکرات کافقدان ہے لیکن غیررسمی چینلزجیسے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو فعال کرنی ضرورت ہے۔دونوں ممالک خاص طور پرحالیہ کووڈ19کے اثرات نے ان کی معیشت پرخاصادباؤڈالاہے اور دونوں ملکوں کے عوام کیلئے سب سے بڑاچیلنج ان کے ہاں غربت اورمہنگائی کا ابھی تک چل رہا ہے۔ اس پرمزیدجنگ کے اقتصادی اثرات ان کودہائیوں پیچھے کی طرف دھکیل دیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے کے درمیان ہے لیکن کی طرف

پڑھیں:

ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوہرے معیار!

اسلام ٹائمز: جب تک دوہرا معیار بین الاقوامی سیاست پر حاوی رہے گا، عالمی امن خطرے میں رہے گا۔ عالمی سلامتی کا مستقبل اس دوہرے انداز کو ختم کرنے اور ایک سادہ سچائی کو قبول کرنے پر منحصر ہے۔ حقیقی سلامتی اور امن صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے، جب بڑی طاقتیں جوہری ہتھیاروں پر اپنی اجارہ داری ترک کر دیں اور مشترکہ اصولوں پر عمل کریں۔ ایران، اپنی قانونی اور اخلاقی منطق پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس نقطہ نظر کے خلاف کھڑا ہوا ہے اور اس نے دکھایا ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر انحصار کیے بغیر قومی سلامتی، آزادی اور علاقائی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ آج بہت سی قوموں نے محسوس کیا ہے کہ دنیا کو سب سے بڑا خطرہ پرامن جوہری پروگرام والے ممالک سے نہیں، بلکہ ان ہتھیاروں سے ہے، جن کے مالکان جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تحریر: محمد کاظم انبارلوئی

امریکہ کی طرف سے تھرمونیوکلیئر بم کا حالیہ تجربہ اگرچہ جوہری وار ہیڈ کے بغیر تھا، لیکن اس تجربے نے ایک بار پھر واشنگٹن کے رویئے میں "خفیہ ترقی اور کھلی ممانعت" کی سرکاری پالیسی کو اجاگر کر دیا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کا حامل ہونے والے ملک کے باوجود، امریکا نئے ہتھیاروں کی جانچ، اپ گریڈیشن اور تیاری جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ دوسری طرف، وہ ایران جیسے ممالک کو سیاسی، میڈیا اور پابندیوں کے دباؤ کے ذریعے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی سے روکتا ہے۔ یہ تضاد بین الاقوامی تعلقات بالخصوص ایرانی جوہری معاملے میں اعتماد کے بحران کی بنیادی وجہ بنا ہے۔ دوسری طرف، ٹرمپ کا حالیہ بیان جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس "کرہ ارض کو 150 بار سے زیادہ تباہ کرنے کے لیے کافی جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ یہ دعویٰ واشنگٹن میں جنگی دھڑوں کی خطرناک سوچ کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس طرح کے دعووں میں نہ صرف تزویراتی منطق کا فقدان ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بعض امریکی سیاست دان اب بھی جوہری جنگ کے عالمی نتائج کی بنیادی سوچ سمجھ سے بھی عاری ہیں۔ کرہ ارض کی پہلی تباہی کا مطلب خود امریکہ کی تباہی بھی ہے۔ لیکن اس تحریک کی گفتگو میں ایسا لگتا ہے کہ امریکی لوگ زمین سے باہر کہیں رہتے ہیں۔ یہ سادہ لوحانہ نظریہ ہے، جو دنیا کے بارے میں امریکی جوئیانہ فیصلوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ نیوکلیئر ڈیٹرنس کے اصول، جسے اسٹریٹجک لٹریچر میں "دہشت گردی کے توازن" کے نام سے جانا جاتا ہے، انہوں نے کئی دہائیوں سے ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہ راست تصادم کو روکا ہے۔ درحقیقت جوہری ہتھیار ایک بہت بڑی چٹان ہے، جسے ہدف بنائے بغیر نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس قاعدے کی ایک واضح مثال شمالی کوریا کے ساتھ امریکہ کے معاملات ہیں۔ ایک ایسا ملک جس نے ایٹم بم حاصل کرنے کے بعد واشنگٹن کے براہ راست خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ کر دیا ہے۔

ایک موضوع جس کے بارے میں کم بات کی جاتی ہے، وہ ان ہتھیاروں کو برقرار رکھنے کے بھاری اخراجات ہیں۔ درجنوں اور سیکڑوں جوہری وار ہیڈز کا ذخیرہ کسی بھی وقت کسی ناپسندیدہ واقعے کا سبب بن سکتا ہے۔ فرسودہ گودام، فرسودہ نظام، انسانی غلطیاں اور دیکھ بھال کے خطرناک طریقے، یہ سب دنیا کے لیے خطرناک منظرنامے ہیں، لیکن جوہری طاقتیں اس حقیقت کو رائے عامہ سے پوشیدہ رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ دوسری طرف، ایران ایک ایسا ملک جو مغربی تصورات کے برخلاف، اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی اصول اور فقہ کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کا مخالف رہا ہے اور انہیں ممنوع قرار دیتا ہے۔ ایران نہ صرف علاقائی تخفیف اسلحہ کا علمبردار ہے بلکہ تمام سرکاری دستاویزات میں اس نے اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر پرامن قرار دیا ہے اور اس پروگرام کی افادیت طب، زراعت، صاف توانائی اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو پورا کرنے کے شعبوں میں کی گئی ہے۔

اس کے باوجود، 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، امریکہ، تین یورپی ممالک، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ مل کر "ایٹم بم کی تیاری کو روکنے" کے بہانے ایران کی پیش رفت کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مغرب کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے بجائے ایران کی قومی طاقت کو محدود کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کی وجہ سے مغربی فریقین نے جوہری مذاکرات کے دوران اچانک غیر متعلقہ مطالبات کیے؛ ایران کی میزائل صلاحیتوں کو محدود کرنے سے لے کر مزاحمتی محاذ کی حمایت ختم کرنے اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے جیسے  مطالبات ظاہر کرتے ہیں کہ جوہری مسئلہ مغرب کے لیے صرف دباؤ کا آلہ ہے، حقیقی تشویش نہیں۔ کہانی کا دوسرا رخ صیہونی حکومت ہے۔ ایک ایسی حکومت جس کے پاس بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق درجنوں جوہری وار ہیڈز موجود ہیں، لیکن وہ نہ تو NPT کا رکن ہے اور نہ ہی بین الاقوامی معائنے کی اجازت دیتا ہے۔

مغربی ایشیا کے قلب میں ایسے ہتھیاروں کا وجود علاقائی امن کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔ لیکن امریکہ اور یورپ برسوں سے معنی خیز خاموشی کے ساتھ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ خاموشی، کسی بھی چیز سے بڑھ کر، مغرب کی جوہری پالیسی کی دوہری نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان پالیسیوں کے خلاف، ایران ایک ٹھوس قانونی اور اخلاقی فریم ورک پر کھڑا ہے: جنگ کی مخالفت، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مخالفت، قوموں کے حقوق کا دفاع اور قبضے اور جبر کے خلاف کھڑا ہونا ایران کی بنیادی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ فلسطینی عوام اور مزاحمتی محاذ کی حمایت بھی اس فریم ورک میں بیان کی گئی ہے۔ ایران فلسطینی جدوجہد کو ایک صدی کے جبر اور قبضے کے خاتمے کے لیے ایک جائز جدوجہد قرار دیتا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں بڑی طاقتیں ہزاروں جوہری ہتھیاروں کے ساتھ پرامن ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، ایران، بین الاقوامی نگرانی میں ایک شفاف، پرامن پروگرام کے ساتھ، الزامات کی زد میں ہے۔

یہ تضاد نہ صرف قوموں کے لیے قابل فہم ہے بلکہ ایک منصفانہ اور پرامن اداکار کے طور پر ایران کی پوزیشن کو بتدریج مضبوط کر رہا ہے۔ جب تک دوہرا معیار بین الاقوامی سیاست پر حاوی رہے گا، عالمی امن خطرے میں رہے گا۔ عالمی سلامتی کا مستقبل اس دوہرے انداز کو ختم کرنے اور ایک سادہ سچائی کو قبول کرنے پر منحصر ہے۔ حقیقی سلامتی اور امن صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے، جب بڑی طاقتیں جوہری ہتھیاروں پر اپنی اجارہ داری ترک کر دیں اور مشترکہ اصولوں پر عمل کریں۔ ایران، اپنی قانونی اور اخلاقی منطق پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس نقطہ نظر کے خلاف کھڑا ہوا ہے اور اس نے دکھایا ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر انحصار کیے بغیر قومی سلامتی، آزادی اور علاقائی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ آج بہت سی قوموں نے محسوس کیا ہے کہ دنیا کو سب سے بڑا خطرہ پرامن جوہری پروگرام والے ممالک سے نہیں، بلکہ ان ہتھیاروں سے ہے، جن کے مالکان جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوہرے معیار!
  • سفارتی  سطح  پر بڑی  کامیابیاں ‘ وزیراعظم  ‘ فیلڈ  مارشل  کا اہم  کردار : عطاتارڑ
  • سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تاریخی دورہ پر واشنگٹن روانہ
  • سعودی ولی عہد امریکا کے دورے پر روانہ؛ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدوں کا امکان
  • پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایئر لائنز میں تاریخی معاہدہ، دونوں ممالک میں جدہ، مدینہ اور ریاض کے راستے تجارت ہوگی
  • اردن و پاکستان کا تعاون، اعتماد کا روشن سفر
  • پاکستان اور قطرکے درمیان اقتصادی، دفاعی تعاون کے نئے دور کا آغاز
  • صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن
  • اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوم کا دورہ پاکستان، فضائی حدود میں داخلے پر پاک فضائیہ کے جنگی جہازوں کی جانب سے پرتپاک استقبال ،سلامی دی
  • پاکستان اور قطر کے تعلقات میں اقتصادی و دفاعی تعاون کا نیا دور