عمران خان بمقابلہ شہباز شریف: کس دور میں کتنی یونیورسٹیاں بنائی گئیں؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
دنیا کے مقابلے میں پاکستان تعلیم کے شعبے میں بہت پیچھے ہے، تاہم ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ تعلیم کے شعبے میں بہت سے وسائل کا خرچ کرتی ہے، اور ان کے دور میں ملک میں متعدد یونیورسٹیوں اور کالجوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:القادر یونیورسٹی کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
وی نیوز کو دستیاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی دستاویز کے مطابق عمران خان کے دور حکومت میں 2019-2921 کے دوران ملک بھر میں 28 یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ جبکہ شہباز شریف کے دور حکومت میں سال 2022 اور 2023 میں 19 یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 5 سالوں میں بلوچستان میں صرف ایک ہی یونیورسٹی قائم کی گئی، بلکہ وہ بھی یونیورسٹی آف تربت کے کیمپس کو یونیورسٹی آف مکران کا نام دے دیا گیا۔
صوبہ سندھ میں سال 2019-20 میں ایک بھی یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی، جبکہ سال 2022-23 میں 9 یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔
عمران خان کے دور حکومت میں سال 2019 میں خیبرپختونخوا میں 3 جبکہ پنجاب میں 4 یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔
سال 2020 میں صرف پنجاب میں 5 یونیورسٹیاں قائم کی گئیں، سال 2021 میں خیبر پختونخوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک، ایک، پنجاب میں 10 جبکہ سندھ میں 4 یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں:لاہور میں چین کے تعاون سے گوادر یونیورسٹی کا قیام، معاملہ کیا ہے؟
عمران خان کے دور حکومت میں مجموعی طور پر 16 پبلک یعنی سرکاری یونیورسٹیوں اور 12 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔
شہباز شریف اور نگراں دور حکومت میں سال 2022 اور 2023 کے دوران مجموعی طور پر 9 پبلک، جبکہ 10 پرائیویٹ یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، 2022 میں 2 پنجاب اور 4 سندھ جبکہ ایک یونیورسٹی بلوچستان میں قیام ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:القادر کی 500 کنال زمین عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ملکیت ہے، عرفان صدیقی
سال 2023 میں خیبر پختونخوا میں 2، آزاد کشمیر میں ایک، پنجاب میں 4، اور سندھ میں 5 یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
شہباز شریف عمران خان وزیراعظم یونیورسٹیز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: شہباز شریف یونیورسٹیز کا قیام عمل میں ا کے دور حکومت میں شہباز شریف میں سال
پڑھیں:
نئی شوگر ملز کے قیام کی اجازت، ٹیکسٹائل برآمدات و خوردنی تیل کی درآمدات پر خدشات بڑھ گئے
کراچی:وفاقی حکومت نے ٹیکسٹائل برآمدات متاثر ہونے کے باوجود ملک بھر میں نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس اقدام سے گنے کی کاشت میں مزید اضافے سے اربوں ڈالر مالیت کی معیاری روئی اور خوردنی تیل کی درآمدات بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے شوگر انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وفاقی وزارت غذائی تحفظ آئندہ روز میں ایک سمری بھی وزیر اعظم کو ارسال کر دے گی جس میں نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی ختم کرنے کی تجویز دی جائے گی۔
احسان الحق نے بتایا کہ حکومت کے اس مجوزہ فیصلے سے گنے کی کاشت میں اضافہ ریکارڈ سطح پر آجائے گا جبکہ کپاس کی کاشت میں مزید نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غیر دوستانہ حکومتی پالیسیوں کے باعث پہلے ہی 300 سے زائد جننگ فیکٹریاں اور 150 سے زائد ٹیکسٹائل ملز غیر فعال ہو چکی ہیں جن میں بڑے بڑے ٹیکسٹائل گروپس کی ملز بھی شامل ہیں۔ ان عوامل کے باعث کپاس کی کھپت میں مزید کمی کے خطرات سامنے آرہے ہیں۔
احسان الحق نے پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پی سی جی اے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 15نومبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں ایک فیصد کی کمی سے مجموعی طور پر 48لاکھ 57ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ زیر تبصرہ مدت میں پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں 3فیصد کی کمی سے 21لاکھ 68ہزار جبکہ سندھ میں 2 فیصد کے اضافے سے 26لاکھ 89ہزار روئی کی گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے، اس عرصے میں ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے 39لاکھ 92ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہے جبکہ برآمد کنندگان نے ایک لاکھ 67ہزار گانٹھیں خریدی ہیں۔
احسان الحق نے بتایا کہ 31 اکتوبر 2025 تک ٹیکسٹائل ملز نے جننگ فیکٹریوں سے 35لاکھ 90ہزار گانٹھوں کی خریداری کی تھی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 55ہزار گانٹھ زائد تھیں جبکہ 15 نومبر تک یہ خریداری گزشتہ سال کے اسی عرصے کی نسبت ایک لاکھ 48ہزار گانٹھ کم ہیں جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں جاری معاشی بحران کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پی سی جی اے کی رپورٹ کے مطابق 15 نومبر تک پنجاب میں کپاس کی پیداوار 21 لاکھ 68ہزار گانٹھ رہی ہے جبکہ کراپ رپورٹنگ سروسز پنجاب کے مطابق 17نومبر تک پنجاب میں کپاس کی پیداوار کا حجم 38لاکھ 10ہزار گانٹھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی اداروں کی پاکستان کے لیے برآمد ہونے والی امریکی روئی کو فیومیگیشن سے مستثنا قرار دینے کی درخواست پر وزارت فوڈ سیکیورٹی نے وفاقی وزیر رانا تنویر کی سربراہی میں ایک 6رکنی کمیٹی قائم کی جس نے 7یوم میں اپنی سفارشات پیش کرنی تھی لیکن تاحال کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔