مذاکرات جب بھی ہوں گے کشمیر پر بات ہوگی، پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
پاکستان ایک پر امن اور امن پسند ملک ہے ، ہماری امن سے محبت کو ہماری کمزوری ہر گز نہ سمجھا جائے
چین کے اورناچل پردیش پر اقدامات کی رپورٹس دیکھی ہیں،چین کی خومختاری کی حمایت کرتے ہیں
ہمارے پاس بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی سرپرستی کے شواہد موجود ہیں
بھارت خود دہشت گردی کی پشت پناہی کررہا ہے، ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کی ہفتہ وار بریفنگ
پاکستان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی مذاکرات ہوں گے کشمیر پر بات چیت ہوگی، ترجمان دفتر خارجہ نے عالمی برداری پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کو جارحیت سے روکے ، بھارت کا پہلگام واقعے کی تحقیقات جاری ہونے کا اعتراف اس حوالے سے پاکستانی بیانات پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے ۔اسلام آباد میں صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ بھارت کی جارحیت کی وجہ سے خطے میں امن کی صورتحال میں بگاڑ پیدا ہوا، مسلح افواج نے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے لیے جوابی کارروائی کی اور آپریشن بنیان مرصوص کا انعقاد کیا، ہمارے جواب کے پیچھے محرکات سب کے سامنے واضح تھے ۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بھارت کے درمیان سیز فائر کا معاہدہ خوش آئند ہے ، پاکستان دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کے معاہدے کی خیر مقدم کرتا ہے ، انہوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی بہت سارے دوست ممالک کی کوششوں سے کامیاب ہوئی، پاکستان امید کرتا ہے کہ بھارت اس سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔شفقت علی خان نے کہاکہ پاکستان نے بھارت کی جارحیت سے متعلق اپنے تمام دوست ممالک کو آگاہ کیا، پاکستان ایک پر امن اور امن پسند ملک ہے ، ہماری امن سے محبت کو ہماری کمزوری ہر گز نہ سمجھا جائے ، پاک بھارت جنگ بندی خطے میں امن کے لیے ضروری تھا۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاک بھارت جنگ بندی پر امریکی صدر اور ثالثی میں کردار ادا کرنے والے ممالک کا شکریہ کرتے ہیں، ہم نے جموں و کشمیر پر امریکی صدر کے حالیہ بیان کا خیر مقدم کیا ہے ۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ڈی جی ایم آوز کی ملاقاتوں میں بھی جنگ بندی اور امن پر زور دیا گیا جبکہ پاکستان نے امن کی خاطر گرفتار بھارتی فوجی اہلکار واپس کردیا۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم عالمی برادری سے پھر کہتے ہیں کہ بھارت کو کسی بھی جارحیت سے روکا جائے ، پاکستانی مسلح افواج ہمیشہ تیار ہیں اور کسی بھی جارحیت کا جواب دیں گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ مذاکرات اور امن کی بحالی پر یقین رکھتا ہے ، پاکستان مذاکرات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر سمیت تمام معاملات کا حل چاہتا ہے ، ہم مل جل کر رہنے پر یقین رکھتے ہیں، جموں و کشمیر کے مسئلے کا حل اس خطے کے پرامن مستقبل کے لیے ضروری ہے ۔شفقت علی خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاک بھارت جھڑپوں میں جوہری تابکاری کے حوالے سے بھارتی رپورٹس بے بنیاد ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاک بھارت جنگ بندی اس وقت قائم ہے ، دونوں ڈی جی ایم اوز مرحلہ وار تناؤ میں کمی کے طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں اور 10 مئی سے وقتاً فوقتاً رابطے میں ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ چین کی جانب سے اورناچل پردیش پر کیے گئے اقدامات کی رپورٹس دیکھی ہیں، ہم چین کی خومختاری اور سالمیت کی حمایت کرتے ہیں۔ترجمان نے کہاکہ پاکستان دہشت گردی پر بات چیت سے ہچکچاتا نہیں ہے ، پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے ، ہم دہشت گردی کے مسئلے کا خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ بھارت خود دہشت گردی کی پشت پناہی کررہا ہے اور ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کرتا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی سرپرستی کے شواہد موجود ہیں، پاکستان نے پہلگام واقعے کی مذمت کی ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان میں دہشتگردی کی مذمت نہیں کی۔شفقت علی خان نے واضح کیا کہ جب بھی باہمی مذاکرات ہوں گے ، کشمیر پر بات چیت ہو گی، جموں و کشمیر اقوام متحدہ قراردادوں کی روشنی میں ایک متنازع و حل طلب مسئلہ ہے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ افغانستان ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے ، دوسرے ممالک سے تعلقات اس کا حق ہے ، ہم اس کے دیگر ممالک سے تعلقات پر بات نہیں کرتے ۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ عالمی بینک کے صدر اجے بنگا کا بیان ریکارڈ پر ہے ، بھارتی دعووں کے برعکس اس کو سن کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے انہوں نے کیا بیان دیا۔شفقت علی خان نے کہا کہ بھارت کی جانب سے دفاعی بجٹ میں کئی گنا اضافے پر تحفظات ہیں، یہ عمل خطے میں عدم استحکام کا باعث ثابت ہو گا، انہوں نے کہا کہ پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے مقام کے تعین پر رپورٹس ابھی انتہائی قبل از وقت ہیں۔ترجمان نے کہا کہ وزیر اعظم نے بھارت کو پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیش کی تھی، اس پیشکش کا مقصد تناؤ میں کمی تھا، بھارت نے اس پیشکش کو مسترد کیا جس پر افسوس ہے ،جب بھی بھارت پاکستان پر کوئی سنجیدہ الزام عائد کرتا ہے ، ہم ایک بین الاقوامی و آزادانہ تحقیق کی بات کرتے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ ہم نے پاک بھارت جھڑپوں میں روس کی جانب سے تحمل سے کام لینے کے بیانات دیکھے ہیں، ہم ان روسی بیانات کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔شفقت علی خان نے وضاحت کی کہ سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ایرانی سرزمین کے پاکستان مخالف استعمال اور کل بھوشن کے بعد ایک اور بھارتی جاسوس کی چاہ بہار سے گرفتاری کے اپنے بیانات کی بھی تردید کی ہے ۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان کہ پہلگام واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں بھارتی قیادت کے بیانات میں تضاد کا عکاس ہے ، یہ بیان پاکستان کے اس حوالے سے بیانات پر مہر ثبت کرتا ہے ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش سے مسئلہ کشمیر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے, مسعود خان
ایک انٹرویو میں سابق صدر آزاد کشمیر کاکہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یہ کہنا درست تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے کیونکہ بھارت خود ہی خون بہا رہا ہے اور پانی روک رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش نے مسئلہ کشمیر کو دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سردار مسعود خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یہ کہنا درست تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے کیونکہ بھارت خود ہی خون بہا رہا ہے اور پانی روک رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم مودی آزاد کشمیر اور دہشت گردی پر مذاکرات کرنے کے خواہشمند ہیں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا تاہم انہیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ آزاد کشمیر ایک آزاد خطہ ہے جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت نے کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دہشت گردی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بھارت کو بلوچستان جیسے خطوں کو غیر مستحکم کرنے اور پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گرد نیٹ ورک چلانے پر جوابدہ ہونا چاہیے۔
مسعود خان نے کہا کہ مودی کے حالیہ بیانات نے پاکستان کے اس دیرینہ موقف کی توثیق کی ہے کہ بھارت پاکستان میں بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی میں سرگرم عمل ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد پاکستان اور آزاد کشمیر میں حالیہ بھارتی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کارروائیوں سے پاکستان کو بھارت کے اندر ان تنصیبات کو نشانہ بنانے کا جواز مل گیا ہے جہاں سے اس کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تنازعہ کشمیر کے حل پر ثالثی کی پیشکش کا ذکر کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے اس طرح کی پیشکش کی ہے۔ اس سے قبل 2016ء اور 2019ء میں بھی امریکہ کی طرف سے اسی طرح کی تجاویز سامنے آ چکی ہیں۔