Daily Sub News:
2025-07-02@11:02:05 GMT

قصابوں کا اتحاد

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

قصابوں کا اتحاد

قصابوں کا اتحاد WhatsAppFacebookTwitter 0 17 May, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

تاریخ نے کئی جابر حکمران دیکھے ہیں جن کے نام ظلم، خون اور تباہی کی علامت بن چکے ہیں — ایڈولف ہٹلر، بینیٹو مسولینی، جوزف اسٹالن اور دیگر، جنہوں نے پورے بر اعظموں کو خون اور آنسوؤں میں نہلا دیا۔ ہٹلر کے دورِ حکومت میں ہونے والا ہولوکاسٹ لاکھوں یہودیوں کے قتلِ عام کا باعث بنا، جب کہ اس کی جارحانہ جنگوں میں عالمی جنگ دوم کے دوران 7 سے 8 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ مسولینی، اٹلی کا فاشسٹ آمر، 1935 میں ایتھوپیا پر حملہ آور ہوا اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ وہ نازی مظالم میں برابر کا شریک تھا۔ اسٹالن، اگرچہ سوویت یونین کی صنعتی ترقی کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن اس نے ’گریٹ پرج‘ اور ریاستی قحط جیسے جرائم کیے، خصوصاً یوکرین میں، جہاں دو کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ان تمام شخصیات کو تاریخ نے متفقہ طور پر ظالم قرار دیا ہے — ان کے جرائم ناقابلِ فراموش ہیں۔ وقت کے گزرنے اور دنیا میں نئے اصولوں کے رائج ہونے کے باوجود، ان نظریات کے وارث آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔

آج کے دور میں اسرائیل کے بنیامین نیتن یاہو اور بھارت کے نریندر مودی ان پرانے ظالموں کے جدید روپ بن چکے ہیں۔ دونوں عالمی سطح پر جمہوری رہنماؤں کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے خوشنما چہروں کے پیچھے انسانی حقوق کی پامالی اور نسلی و مذہبی ظلم کی ایک ہولناک داستان چھپی ہوئی ہے۔ نیتن یاہو نے غزہ میں متعدد فوجی آپریشنز کی نگرانی کی ۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان حملوں میں اب تک 35,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 14,000 سے زائد بچے شامل ہیں۔ لاکھوں افراد زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔ پورے محلے اور بستیاں ، محض شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے بہانے سے  صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں ۔

مودی کا سیاسی عروج 2002 کے گجرات فسادات سے جڑا ہوا ہے، جو ان کے دورِ وزارت اعلیٰ میں ہوئے۔ ان فسادات میں 2,000 سے زائد مسلمان شہید اور ہزاروں زخمی و بے گھر ہوئے۔ قانونی طور پر وہ بری ہو چکے، لیکن ان کا کردار آج بھی متنازع ہے۔ مودی کے دور میں بھارت میں مذہبی انتہا پسندی، ہجومی تشدد، اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں خوفناک اضافہ ہوا۔ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، 9 لاکھ سے زائد فوجیوں کی تعیناتی، کرفیو، اور مواصلاتی بلیک آؤٹ جیسے اقدامات کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1989 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں 100,000 سے زائد کشمیری شہید، 10,000 سے زائد خواتین کی عصمت دری، اور ہزاروں افراد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے۔

نیتن یاہو اور مودی صرف سٹریٹیجک اتحادی نہیں، بلکہ فکری طور پر بھی ہم آہنگ ہیں۔ ان کی دوستی انسانیت، رواداری، اور عالمی انسانی قوانین سے نفرت پر قائم ہے۔ اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں سے لے کر مشترکہ انسداد دہشت گردی اقدامات تک، اسرائیل اور بھارت نے اپنے فوجی تعلقات کو بہت مضبوط کر لیا ہے۔ اسرائیل اب بھارت کے بڑے اسلحہ فراہم کنندگان میں شامل ہے، اور اطلاعات کے مطابق اسرائیل بھارت کو اس کے سٹریٹیجک اہداف میں، خاص طور پر پاکستان کے خلاف، بھرپور معاونت فراہم کر رہا ہے۔

حالیہ تجزیوں کے مطابق اسرائیلی فوجی ماہرین اور مشیر بھارتی عسکری اداروں میں موجود ہیں، جہاں وہ انسداد بغاوت فورسز کو تربیت دے رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف الیکٹرانک نگرانی کو بہتر بنا رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر اور حساس پاکستانی تنصیبات کے قریب ہونے والے بعض ڈرون حملے اسرائیلی حربی حکمتِ عملی کی جھلک دکھاتے ہیں۔ یہ تعاون اب محض سفارت یا تجارت کی حد تک نہیں، بلکہ ایک عملی اتحاد بن چکا ہے جو پاکستان اور خطے کے مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہے۔

لیکن تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ طاقتور اکثر اپنی قوت کا حد سے زیادہ اندازہ لگا لیتے ہیں اور ان اقوام کی مزاحمت کو کم سمجھتے ہیں جو جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آئی ہوں۔ پاکستان، جو 1947 میں بے شمار قربانیوں سے معرضِ وجود میں آیا، نے کبھی اپنی عزت اور خودمختاری کے دفاع سے پیچھے قدم نہیں ہٹایا۔ 1948، 1965، 1971 کی جنگوں سے لے کر 1999 کی کارگل جھڑپ اور 2019 میں آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ میں بھارت کی جارحیت کا فوری، منظم، اور مؤثر جواب، پاکستان نے بارہا ثابت کیا ہے کہ اس کے پاس حوصلہ بھی ہے اور صلاحیت بھی۔وقت نے ثابت کیا ہے کہ اسرائیلی سرپرستی میں بھارت نے جب جب کسی بھی مہم جوئی کا ارتکاب کیا تو پاکستان نے اس کا متحد ہو کرارا جواب دیا۔

پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کا دفاعی نظام پیشہ ورانہ مہارت سے لیس اور مکمل طور پر منظم ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر، پاکستان کے عوام کا عزم و حوصلہ ہے۔ قبائلی علاقوں سے لے کر کراچی کی گلیوں تک، سکردو کے پہاڑوں سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک، جب بھی پاکستان کی خودمختاری کو خطرہ درپیش ہوتا ہے، پوری قوم یکجا ہو جاتی ہے۔ کوئی طاقت، کوئی اتحاد، اور کوئی سازش اس اتحاد کو توڑ نہیں سکتی۔ پاکستان کو توڑنے یا جھکانے کا خواب، ماضی کی طرح، ایک سراب ہی رہے گا۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی فوجداری عدالت، اور انسانی حقوق کے عالمی نعروں کے باوجود، نیتن یاہو اور مودی جیسے افراد ظلم و جبر کی مہمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں ہٹلر کے گیس چیمبرز اور اسٹالن کے عقوبت خانے آج خوف کی علامت ہیں، وہاں آج جنگی طیارےغزہ پر بم برسا رہے ہیں، کشمیر میں پیلٹ گنوں کا استعمال ہو رہا ہے، ڈیجیٹل نگرانی اور معاشی پابندیاں ظلم کا نیا چہرہ بن چکی ہیں۔ طریقے بدل گئے ہیں، لیکن سوچ وہی ظالمانہ ہے۔

یہ بات واضح ہو جانی چاہیےکہ تاریخ کو وقت لگتا ہے، لیکن وہ بھولتی نہیں۔ آج کے ظالم کل کا حساب ضرور بھگتیں گے۔ جس طرح ہٹلر اور مسولینی کا انجام عبرت بن چکا ہے، نیتن یاہو اور مودی کی یاد بھی سیاست سے زیادہ انسانی دکھ اور مظالم کی علامت بنے گی۔ ان کے نام کبھی بھی عظمت کی یادگاروں پر نہیں کندہ ہوں گے، بلکہ ظلم کے حاشیوں پر درج ہوں گے۔ اور ان کے مقابل کھڑے ہوں گے — غزہ، کشمیر، اور پاکستان کے عوام — ثابت قدم، بے خوف، اور ناقابلِ شکست۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاک بھارت جنگ بندی کروانے پر زندگی میں سب سے زیادہ سراہا گیا، ٹرمپ ہاتھی والے یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا ماں کی محبت امن کیوں ضروری ہے یہ فوج ہماری ہے ترکوں کا ہیرو،  اپنے گھر میں اجنبی! TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

غیبت کا کلچر اور اس کی بنیادیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہماری زندگی کا عام تجربہ ہے کہ جیسے ہی کہیں دوچار لوگ جمع ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے ایک زبردست ’’غیبت کانفرنس‘‘ منعقد ہونے لگتی ہے۔ ایسی غیبت کانفرنسوں کا معاملہ عجیب ہوتا ہے۔ اس میں شریک ہر شخص غیبت کانفرنس کا ’’سامع‘‘ بھی ہوتا ہے اور اس کا ’’صدر‘‘ بھی۔

اہم بات یہ ہے کہ غیبت کانفرنس میں شریک لوگوںکے لیے غیبت کرنے میں بھی لطف ہوتا ہے اور اس کی سماعت میں بھی۔ اکثر لوگ غیبت میں اس شدت اور گہرائی سے شریک ہوتے ہیں کہ ان کی غیبت میں ایک ’’عالمانہ شان‘‘ پیدا ہوجاتی ہے اور اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ غیبت کرنے والا ابھی ابھی اوکسفرڈ یا ہارورڈ سے غیبت میں پی ایچ ڈی کرکے لوٹا ہے۔ بعض رجحانات ’’طبقاتی‘‘ ہوتے ہیں یعنی ان کا اثر کسی خاص طبقے میں زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن غیبت کے دائرے میں سب ’’مساوی‘‘ ہیں۔ اس سلسلے میں امیر غریب، متوسط اور زیریں متوسط طبقے کی کوئی تخصیص نہیں۔ عالم جاہل میں کوئی فرق نہیں۔ مذہبی اور غیر مذہبی کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں تک کہ مرد اور عورت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ بلاشبہ خواتین غیبت میں زیادہ ملوث ہوتی ہیں لیکن مرد بھی غیبت کے ’’فن‘‘ میں اتنی اہلیت پیدا کرچکے ہیں کہ غیبت کے شعبے میں خواتین کے ’’شانہ بشانہ‘‘ جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ منظرنامہ کئی اعتبار سے حیران کن ہے۔ آپ کسی مسلمان کے سامنے خنزیز کے گوشت کا ذکر بھی کردیں گے تو اس کی طبیعت متلانے لگتی ہے۔ لیکن قرآن نے کہا ہے کہ غیبت کا عمل میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح ہے۔ تاہم مسلمانوں کی طبیعت جس طرح خنزیر کے گوشت سے ابا کرتی ہے اس طرح مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے ابا نہیں کرتی۔ آپ کسی مسلمان سے زنا کا ذکر کریں تو وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا لیکن رسول اکرمؐ نے غیبت کو زنا سے زیادہ اشد یا شدید کہا ہے تاہم ہم غیبت اور اس کے مضمرات پر چونکتے تک نہیں۔ اس صورت حال نے غیبت کو ہمارا ’’کلچر‘‘ بنادیا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے غیبت کو زنا سے زیادہ شدید کیوں فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ کیوں دی ہے۔
غور کیا جائے تو زنا صرف عصمت کی پامالی ہے لیکن غیبت پورے انسانی وجود کی پامالی ہے۔

تاہم ہم زنا کو شدید سمجھتے ہیں اور غیبت پر چونکتے تک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ زنا ایک خارجی عمل ہے اور غیبت ایک باطنی عمل۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہے؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم مذہب کو خارج میں تو پہچانتے ہیں لیکن باطن میں نہیں پہچانتے۔ یہ صورت حال ہماری ظاہر پرستی اور باطن سے غفلت کا ایک مظہر ہے۔ قرآن مجید میں غیبت کی ہولناکی کو نمایاں کرنے کے لیے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ غیبت ایک یک سطحی ایک جہتی یا Single Dimensional عمل نہیں ہے۔ غیبت میں جھوٹ، بہتان، عیاری، مکاری، بے حسی، غرضیکہ بہت سی برائیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ کہنے کو غیبت ایک لفظی عمل ہے۔ لیکن یہ نفسیاتی قتل ہے۔ جذباتی قتل ہے۔ ذہنی قتل ہے لیکن قتل کی عام واردات میں مقتول قاتل کی مزاحمت کرسکتا ہے۔ اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ لیکن غیبت کے عمل میں مقتول اپنے قتل سے لاعلم ہوتا ہے۔ وہ اپنے دفاع کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ یہ چیزیں غیبت کی ہولناکی کو بہت بڑھادیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید نے غیبت کی کراہت کو شدت سے بیان کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ہم غیبت کرتے ہی کیوں ہیں اور غیبت کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

غیبت کا انسان کے ’’تصورات‘‘ سے گہرا تعلق ہے۔ انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے لیکن وہ صرف اپنی برتری کے احساس پر قانع نہیں ہوجاتا۔ وہ اپنی برتری کو دوسروںکی کمتری سے ظاہر اور ثابت کرتا ہے۔ یہی چیز اسے دوسروں کی برائی پر اکساتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان دوسروں کی غیبت کرکے اپنا قد بلند کرتا ہے۔ یہ عمل غیبت کو انسان کے لیے لذیذ اور مرغوب بناتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیبت انسان کی خود پسندی کا شاخسانہ ہے۔ اور خود پسندی شیطان کا ورثہ ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو غیبت کے رجحان میں اس لیے اضافہ ہورہا ہے کہ ہمارے ماحول میں خود پسندی کو فروغ دینے والے عوامل بڑھ رہے ہیں۔ جو عالمی کلچر ہم پر مسلط ہے اس میں انفرادیت پسندی بڑھ رہی ہے۔ نفس کے تزکیے کے امکانات معدوم تو نہیں ہوئے مگر محدود ضرور ہوگئے ہیں۔ اب ’’دوسرا‘‘ ہمارے وجود کی توسیع نہیں اس کی ضد ہے۔ ’’دوسرا‘‘ ہمارا حریف ہے بلکہ ہمارا دشمن ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان خود کو دوسروں سے کمتر سمجھے۔ نظری طور پر نہیں عملاً۔ تصوراتی سطح پر نہیں وجودی سطح پر۔ انسان اگر خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنے لگے تو وہ پھر دوسروں کی تعریف کرے گا ان کی مذمت نہیں۔ ان میں کمال تلاش کرے گا زوال نہیں۔

اسلام انسان کی تکریم کی ایک ایسی بلند سطح متعین کرتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسلام انسان کو اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ انسان زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ انسانی جان کی حرمت سب سے بڑھ کر ہے۔ یہاں تک کہ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ انسان خانہ کعبہ سے بھی زیادہ محترم ہے۔ مولانا رومؒ نے فرمایا ہے کہ انسانی تہذیب کی اصل احترام آدمیت ہے۔ ہمارے صوفیا کہتے ہیں کہ انسان کائنات اصغر یعنی ایک چھوٹی کائنات ہے۔ یعنی وہ اس وسیع و عریض کائنات کا خلاصہ ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کائنات کتنی وسیع ہے؟ ایک سائنسی اندازے کے مطابق اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اسے کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کے لیے 25 ارب نوری سال درکار ہوں گے۔ انسان اتنی بڑی کائنات کا خلاصہ ہے۔ انسانی تہذیب کا یہ تصور انسان اگر کسی کے دل و دماغ پر رتی برابر بھی اثر انداز ہو تو وہ کسی دوسرے انسان کی عدم موجودگی میں اس کی برائی نہیں کرے گا۔ اس کی غیبت نہیں کرے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیبت کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کا غماز ہے کہ ہم اسلام کے تصورِ انسان کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ ہماری نظر میں اپنی کوئی تکریم ہے نہ دوسروں کی۔ ہمارے ذہنوں پر انسان کا یہ تصور غالب آگیا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور بس۔ چوں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ ہم ایک سماجی حیوان ہیں اس لیے ہمارے معاملات میں حیوانیت بڑھتی جارہی ہے۔
غیبت کے مزید تین محرکات کو خواتین کے حوالے سے سمجھا اور بیان کیا جاسکتا ہے۔ جن میں غیبت کا رجحان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

کائنات کے بنیادی اصول دو ہیں۔ وحدت اور کثرت۔ مرد وحدت کی علامت ہے اور عورت کثرت کی علامت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی میں مرد کی دلچسپی کلیّات یا Fundamentals سے ہوتی ہے اور عورت کی فطرت جزیات کی طرف زیادہ راغب ہوتی ہے۔ لیکن جب جزیات پسندی منفی قوت بن جاتی ہے تو وہ آسانی کے ساتھ غیبت میں ڈھل جاتی ہے۔ کیوں کہ غیبت نفسیاتی سطح پر بال کی کھال اُتارنے، گڑے مردے اکھاڑنے اور ایک برائی کو ہزار برائیوں میں تبدیل کرنے کا عمل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مردوں میں غیبت کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کا ثبوت ہے کہ مردوں کی فطرت میں جزیات پسندی در آئی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کی بہت بڑی تعداد پر نسائیت یا نسائی رجحان کا غلبہ ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مغرب میں اور اس کے زیر اثر ہمارے یہاں بھی عورتیں مرد بنتی جارہی ہیں اس طرح مردوں میں ایک طرح کا زنانہ پن نمودار ہورہا ہے۔ کہیں یہ زنانہ پن خود کو نفسیات کے دائرے میں ظاہر کررہا ہے اور کہیں یہ زنانہ پن جسمانی ساخت میں بھی در آیا ہے۔

مردوں کے مقابلے پر عورتیں زیادہ باتونی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں میں زبان سیکھنے کی اہلیت لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکیاں لڑکوں سے بہت پہلے بولنا سیکھ لیتی ہیں۔ لیکن لڑکیوں کی زبان کا سانچہ گہرا نہیں ہوتا۔ لڑکیوں کی زبان جذبات اور احساسات سے بلند نہیں ہوپاتی۔ چناں چہ ان کی زبان میں ایک طرح کی خود کاریت یا Automation پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس لڑکے دیر میں زبان سیکھتے ہیں لیکن ان کی زبان کا سانچہ گہرا ہوتا ہے اور اس میں تفکر اور تعقل کی صلاحیت لڑکیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ چناں چہ لڑکوں کی زبان میں خودکاریت یا Automation کم ہوتی ہے۔ خواتین کی زبان کی یہی خود کاریت انہیں مردوں کے مقابلے میں غیبت کا زیادہ عادی بناتی ہے۔

لیکن فی زمانہ مردوں کا لسانی سانچہ بھی سطحی اور سرسری ہوتا جارہا ہے اور ان کی زبان بھی جذبات اور احساسات سے زیادہ مغلوب ہورہی ہے اور اس پہ شعور کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کی زبان میں بھی خود کاریت درآئی ہے۔ اور وہ بھی غیبت پیدا کرنے والی مشین بن گئے ہیں۔
ہمارے تہذیبی نظام میں مردوں کی فکری اور سماجی کائنات بہت وسیع ہے۔ اس کے مقابلے پر خواتین کی فکری اور سماجی زندگی بہت محدود ہے۔ زندگی کا مشاہدہ، تجربہ اور علم بتاتا ہے کہ فکر و نظر کی وسعت انسانوں کو بہت سے پست رجحانات سے بلند کردیتی ہے۔ غیبت بھی کبھی ایسا رجحان تھا جس میں مرد کم کم ملوث ہوتے تھے۔ اس کے برعکس خواتین کی محدود فکری اور سماجی زندگی کا جبر انہیں غیبت جیسے رجحانات کی طرف دھکیل دیتا تھا اور آج بھی دھکیل دیتا ہے۔

لیکن ہمارے زمانہ تک آتے آتے یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ مردوں کی فکری اور سماجی کائنات کا بھی سکڑ سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ان کے وقت کا بیش تر حصہ معاشی جدوجہد کی نذر ہوجاتا ہے۔ باقی وقت انفرادی یا خاندانی زندگی میں صرف ہوجاتا ہے۔ اس زندگی کی نہ کوئی فکری جہت ہے نہ نظریاتی بنیاد۔ اس زندگی میں نہ کوئی اجتماعیت ہے نہ بین الاقوامیت اور آفاقیت۔ چناں چہ لوگوں کی دلچسپیوں اور ذوق کی سطح بھی پست ہوگئی ہے اور انہیں پست چیزوں ہی میں لطف آنے لگا ہے۔ ایک پست چیز غیبت ہے جس کی ہماری زندگی میں یہ اہمیت ہے کہ وہ ہمیں منفی معنوں میں لوگوں سے جوڑے رکھتی ہے اور اس کے ذریعے ہم یہ محسوس کرتے ہیں ہمارا بھی دوسروں سے تعلق ہے۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • غیبت کا کلچر اور اس کی بنیادیں
  • اسلامی فوجی اتحاد اور او آئی سی ‘ زندہ جسم، مردہ گھوڑے
  • 50 فیصد سے زائد بھارتی ایرانی کسانوں کی اولاد ہیں،جدید تحقیق
  • جتنے بھی پیسے خرچ کر دیں سیلاب نہیں رک سکتے پاکستان میں، فلڈز تو آئیں گے، مفتاح اسماعیل
  • بھارت مانے یا نہ مانے، عالمی برادری پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہی ہے. خواجہ آصف
  • بھارت میں کیمیکل فیکٹری میں آگ لگنے سے 8 افراد ہلاک ‘ 26 سے زائد زخمی
  • پاکستان اور چین کا سارک کی جگہ نیا علاقائی اتحاد بنانے پر غور، بھارتی شمولیت کا امکان کم
  • پاکستان میں جتنے ناجائز کاروبار ہیں سب افغان کرتے ہیں: خواجہ آصف
  • مخصوص نشستوں کا جھگڑا
  • کسان اتحاد کا آئندہ سال گندم اور کپاس کاشت نہ کرنے کا اعلان