پاکستان میں خاندانی شادیاں: موروثی بیماریوں کا اندیشہ زیادہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2025ء) بیس سالہ عظمیٰ چند برس قبل بالکل صحت مند تھیں لیکن اب ان کے اعضا جواب دیتے جا رہے ہیں۔ کمیاب جینیاتی مرض 'بیکر مسکولر ڈسٹرافی‘ کی شکار اس لڑکی کا سانس اکثر اکھڑنے لگتا ہے کیونکہ اس مرض کی وجہ سے ان کے جسمانی اعضا شدید دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔
عظمیٰ کے خاندان کا ڈی این اے تجزیہ بتاتا ہے ان کی چھوٹی بہن میں بھی یہ 'بیکر مسکولر ڈسٹرافی‘ نامی بیماری کی پوشیدہ مگر ابتدائی علامات پائی جاتی ہیں، جو کسی وقت بھی جسمانی طور پر ظاہر ہونا شروع ہو سکتی ہیں۔
ان کے خاندان میں نسل در نسل کزن میریجز کا رواج عام ہے۔مختلف تحقیقات کے مطابق پاکستان میں عزیزوں کے درمیاں باہمی شادیوں کی شرح کم از کم بھی 63 فیصد تک ہے، یعنی ہر دوسری شادی کزن میرج ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
کزن میرج کی وجہ سے جینیاتی امراض اور لاعلاج بیماریاں کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ایسی کچھ بیماریاں تو صرف پاکستان میں ہی دریافت ہوئی ہیں۔
مارچ 2024 میں جرنل 'انفیکشن، جینیٹکس اینڈ ایوولوشن' میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی ایل ون ٹو آر ون نامی جین میں تبدیلی کسی بھی شخص کو بار بار ٹی بی کی شکار بنا سکتی ہے۔ یہ جینیاتی تبدیلی والدین کی جانب سے ملتی ہے، جس کی وجہ خاندانی شادیاں ہیں۔ اس رپورٹ میں کئی پاکستانیوں نے کہا کہ ان کے خاندان میں کزن میرج عام ہیں۔
صوبہ خیبربختوانخواہ میں چار سدہ میں 'میاں کلی' میں شاید پاکستان میں سب سے زیادہ کزن میریجز ہوئی ہیں۔ یہاں ہر تیسرے گھر میں کم ازکم ایک بچہ پیدائشی جسمانی نقائص کا شکار ہے، جن میں دماغی امراض،تھیلسیمیا، سننے اور بولنے میں مشکلات، جسمانی بگاڑ، سیریبرل پیلسی اور یہاں تک کہ مکمل اندھا پن بھی شامل ہے۔
میاں کلی میں 350 سے 400 دیہات ہیں، جہاں صرف دو قبیلے ایک عرصے سے وٹہ سٹہ کی بنیاد پر شادیاں کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں بچوں میں جینیاتی امراض و جسمانی نقائص عام ہیں۔
چوہوں پر تحقیق، پاکستان میں تصدیقدس برس قبل چوہوں میں متاثرہ ' اے ڈی سی وائے' جین کے ثبوت پاکستان میں ملے ہیں۔ یہ کیفیت ایک خاندان میں دیکھی گئی، جس میں نسل درنسل کزن میریجز عام تھیں۔ اس گھرانے کے بچے غیر معمولی طور پر موٹے تھے۔ ان میں سونگھنے کی حس نہ ہونے کے برابر تھی اور لڑکیوں کے ماہانہ ایام میں بے قاعدگی نوٹ کی گئی۔
فرانس کی یونیورسٹی آف لیل سے وابستہ ڈاکٹر سعدیہ سعید کہتی ہیں کہ پاکستان میں کزن میریجز کا ہوش ربا گراف اس کی وجہ ہے۔ اس سے اے ڈی سی وائے تھری جین بگڑتا ہے اور لاعلاج مرض، عمر بھر کا روگ بن جاتا ہے۔
2020ء میں صوبہ پنجاب کے دو بھائیوں اور ان کے چچا کے بارے میں علم ہوا تھا، جو ہر قسم کے درد سے بالکل عاری تھے۔
ان کے ڈی این اے میں ایک خاص جین WNK1 نارمل نہیں تھا اور اسی نقص کی وجہ سے وہ درد محسوس کرنے سے قاصر ہو گئے تھے۔ یہاں بھی خاندانی شادیوں کا رواج ہے۔ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف الاباما کے شعبہ کیمیا کے پروفیسر جان ونسنٹ نے کہا کہ یہ متاثرہ جین پاؤں اور ہاتھوں کے کناروں کو درد سے آزاد کردیتا ہے لیکن جسم کے اندرونی بڑے اعضا کا درد بہرحال محسوس ہوتا ہے۔
کیا پاکستان جینیاتی امراض کا گڑھ ہے؟جامعہ کوہاٹ کے ماہرین نے جینیاتی ڈس آرڈرکا ایک ڈیٹا تیار کیا ہے، جس میں سے کچھ امراض صرف پاکستان میں ہی دریافت ہوئے ہیں۔ اب تک اسی ڈیٹا بیس میں ہزار سے زائد جینیاتی خرابیاں اور امراض شامل کئے گئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں تھیلیسیما اور ہیموفیلیا کی وبا بھی عام ہے، جس میں کزن میرج کا کردار اہم ہے۔
فاطمید فاؤنڈیشن کے کنسلٹنٹ ہیماٹولوجسٹ ڈاکٹر روح القدوس نے بتایا کہ ملک کی عام آبادی کا پانچ سے آٹھ فیصد تھیلیسیمیا مائنر کا شکار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف پیتھالوجی کی تحقیق کے مطابق تھیلیسیمیا کے مریضوں کے اہلِ خانہ اور اقربا میں یہ تناسب 25 فیصد تک نوٹ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں بھی معالجین زور دینے لگے ہیں کہ اگر کزن میرج کرنا ہے تو پہلے جینیاتی مشاورت ضرور کی جائے۔
جامعہ کراچی میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیا و حیاتیاتی علوم سے وابستہ اور بی ٹا تھیلیسیمیا کے محقق ڈاکٹر سید غلام مشرف نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں شادی سے قبل وسیع پیمانے پر 'جینیٹک کنسلٹنسی' ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا، ''اگرمستقبل کے شوہر اور بیوی، تھیلیسیمیا مائنر کے شکار ہیں تو اولاد میں تھیلیسیمیا میجر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جس کے بعد بچے کو پوری زندگی خون کے عطیے کی ضرورت رہتی ہے۔
اسی لیے کزن میرج میں اس کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے۔‘‘ پاکستان میں خاندانی شادیاں، وجہ کیا ہے؟اب سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی اپنے ہی خاندان میں شادیاں کیوں کررہے ہیں اور پوری دنیا کے مقابلے یہ چلن اتنا عام کیوں ہے؟َ
کئی سروے اور مطالعے سے کزن میریجز کی بنیادی وجہ یہ ہیں کہ لوگ باہم آشنا ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ جہیز اور دیگر معاملات اتفاق رائے سے حل ہوجاتے ہیں۔
پھر برادری، ذات اور قبائل میں تقسیم قوم اپنی ہے حلقے میں شادی کرنا پسند کرتے ہیں۔ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ بایوٹیکنالوجی کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق حسین کہتے ہیں کہ پاکستان میں کزن میرج کے رحجان کے منفی اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے کردار، قانون سازی، شادی سے قبل اسکریننگ اور مزید تحقیق پر زور دیا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان میں کی وجہ سے ہیں کہ
پڑھیں:
عربوں کا شر
اسلام ٹائمز: مہمان نوازی عربوں کا کلچر رہا ہے۔ کل تک جو عرب اپنے مہمانوں کی خاطر مدارت کھجوروں سے کرتے تھے آج پیٹرو ڈالر سے حاصل ہونے والی ترقی کی وجہ سے وہ اپنے خاص مہمانوں کی مہمان نوازی کھجوروں سے زیادہ ”حوروں“ سے کرتے ہیں۔ عربوں کے مہمان خانے اب مہمانوں سے زیادہ صنم خانے بن گئے ہیں۔ جہاں ان کے ”صنم“ سمندر پار سے بھی آ کر ٹھہرتے ہیں۔ کعبے میں کبھی جو صنم ہوا کرتے تھے وہ اب اپنے نئے رنگ روپ کے ساتھ عربوں کی دعوت پر ان کے گھروں میں بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر
صدر ٹرمپ کے خلیج فارس کے دورے پر شیخان عرب نے اپنے اس مہمان کی میزبانی کے جو مظاہر دکھائے ہیں اس نے عربوں کی غیرت کو بھرے دربار میں محو رقص دختران عرب کے بکھرے ہوئے گیسووں کی طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس مقام پر اکبر الہ آبادی کا ایک قطعہ کچھ ترمیم کے ساتھ اس شکل میں نوک قلم تک آیا :
کل سامنے ٹرمپ کے ناچیں جو بیبیاں
کعبہ بھی پھر زمین میں غیرت سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ عربوں کی پڑ گیا
عربوں کے حرام ریال، حلال کرنے والے ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ان ریالوں کے ساتھ اگر امریکی ڈالر بھی شامل کر لیے جائیں تو کیا بات ہے! عرب حکمرانوں کے کاسہ لیس، ہمارے کچھ لبرل صحافی ان دختران بے حجاب کے رقص کو بے حیائی کے ایک نمونے کی بجائے اسے محض ثقافت کا رنگ دینے کی کوشش میں ہیں۔ اقبال نے ایک صدی پہلے مغرب کی ترقی کا اصل راز ان کی رقص و سرود کی محفلوں کو قرار نہیں دیا تھا بلکہ ان کے نزدیک مغرب کی ترقی ان کے علم کے میدان میں ترقی کی مرہون منت ہے۔ اقبال اس حوالے سے ایک مقام پر یوں گویا ہیں:
قوت مغرب نہ از چنگ و رباب
نی ز رقص دختران بی حجاب
قوت افرنگ از علم و فن است
از ہمین آتش چراغش روشن است
مہمان نوازی عربوں کا کلچر رہا ہے۔ کل تک جو عرب اپنے مہمانوں کی خاطر مدارت کھجوروں سے کرتے تھے آج پیٹرو ڈالر سے حاصل ہونے والی ترقی کی وجہ سے وہ اپنے خاص مہمانوں کی مہمان نوازی کھجوروں سے زیادہ ”حوروں“ سے کرتے ہیں۔ عربوں کے مہمان خانے اب مہمانوں سے زیادہ صنم خانے بن گئے ہیں۔ جہاں ان کے ”صنم“ سمندر پار سے بھی آ کر ٹھہرتے ہیں۔ کعبے میں کبھی جو صنم ہوا کرتے تھے وہ اب اپنے نئے رنگ روپ کے ساتھ عربوں کی دعوت پر ان کے گھروں میں بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں۔
اس حوالے سے عربوں کی ” قوت ضیافت“ کافی زیادہ ہے۔ البتہ گوشت پوست کے یہ صنم آتے اپنی مرضی سے ہیں اور جاتے بھی اپنی مرضی سے ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کر دیا جائے کہ جو ”مجسمہء آزادی“ امریکہ میں نصب ہے اس کا مقصد راستہ دکھانا ہے اور نہ ہی کسی کی دعوت پر کہیں جانا ہے۔ وہ محض سیاحوں سے پیسے بٹورنے کے لیے ہے۔
امریکہ سے بھی اپنے صنم کو بلانا حقیقت میں ” آ بیل مجھے مار“ والی بات ہے (البتہ طاقت کے توازن میں تبدیلی کے بعد محاورے میں بھی تبدیلی کرکے بیل کی جگہ ہاتھی کر دینا چاہیئے)۔ عربوں کے ان اصنام کے ماضی کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے بلکہ بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔ یہ ایسے منحوس ہیں کہ جس گھر میں داخل ہوتے ہیں وہ گھر ہی اجاڑ دیتے ہیں۔ گھر کے مالک کو یہ بات اس وقت پتہ چلتی ہے جب اس پر اس کا گھر اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ پھر اسے اپنے بھی پناہ نہیں دیتے۔
ان کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ کہیں پھر انہیں قذافی کی طرح زمیں پر گھسیٹا جاتا ہے، کہیں حسنی مبارک کی طرح پنجرے میں جانوروں کی طرح بند رکھا جاتا ہے اور کہیں صدام حسین کی طرح آخر کار زیر زمین کسی مین ہول سے برآمد کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کو جس دولت سے مرغوب کیا گیا ہے وہ دولت حقیقت میں ان بدو نسل کے سادہ لوح عربوں کی سیکیورٹی کے لیے سب سے بڑا رسک ہے۔ سفاک قسم کے لٹیرے ہاتھ سے کنگن اتارنے کی بھی زحمت نہیں کرتے بلکہ ہاتھ ہی کاٹ کر لے جاتے ہیں۔
”تباہی ہے عربوں کے شر کی وجہ سے جو بہت قریب ہے“ (حدیث مبارکہ)