غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، مزید بائیس افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2025ء) غزہ پٹی میں ریسکیو عملے نے بتایا کہ پیر کے دن وہاں تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید کم از کم بائیس افراد مارے گئے۔ یہ تازہ کارروائی ایک ایسے وقت پر کی گئی ہے، جب اسرائیل نے اس جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں قحط کی صورتحال سے بچنے کے لیے ''ضرورت کے مطابق‘‘ خوراک کی ترسیل کی اجازت دینے کا وعدہ کیا ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج نے بتایا کہ غزہ پٹی میں فلسطینی جنگجو تنظیم حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف ایک نئی شدت کے ساتھ ''وسیع زمینی کارروائیاں‘‘ شروع کر دی گئی ہیں جبکہ ساتھ ہی اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات بھی جاری ہیں۔
اسرائیل نے دو ماہ سے زائد عرصے سے غزہ پٹی کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے، جس کے باعث اسرائیلی حکومت کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والوں میں اسرائیل کا قریبی اتحادی ملک امریکہ بھی شامل ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجمین نیتن یاہو کے دفتر نے اتوار کو کہا کہ فوج کی سفارش پر ''اسرائیل (غزہ پٹی کی) آبادی کے لیے ایک بنیادی مقدار میں خوراک کی فراہمی کی اجازت دے دے گا تاکہ غزہ پٹی میں قحط کی صورتحال پیدا نہ ہو۔‘‘
اس بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل ''حماس کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مہیا کی جانے والی اس امداد پر قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے گا۔
‘‘ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ تازہ حملوں میں مزید ہلاکتیںحماس کے زیر انتظام غزہ پٹی کے ریسکیو اہلکاروں نے خان یونس اور اس کے آس پاس شدید فضائی حملوں کی اطلاع دی ہے۔ غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود باصل نے بتایا کہ ان تازہ کارروائیوں کے نتیجے میں گیارہ افراد مارے گئے اور کئی دیگر زخمی ہوئے۔
خان یونس کے دیگر حصوں میں ہوئے حملوں میں گیارہ دیگر افراد کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ان میں ایک ہی خاندان کے تین افراد بھی شامل ہیں۔
ناکہ بندی کا مقصد کیا؟اسرائیل نے کہا ہے کہ دو مارچ سے جاری غزہ پٹی کی ناکہ بندی کا مقصد فلسطینی عسکری گروہ حماس پر دباؤ بڑھانا ہے لیکن اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے خوراک، صاف پانی، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت سے خبردار کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ '(غزہ میں) بہت سے لوگ بھوک کا شکار ہیں،‘ کہا تھا، ''ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
عالمی رہنما کیا کہتے ہیں؟فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امداد کی ''فوری، بڑی اور بلا رکاوٹ‘‘ فراہمی بحال کرے۔
پوپ لیو چہار دہم نے اپنے کلیسائی منصب سنبھالتے ہوئے افتتاحی اجتماع میں کہا، ''ہم اپنے ان بھائی بہنوں کو نہ بھولیں جو جنگ کی وجہ سے تکلیف میں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''غزہ میں بچے، خاندان اور بزرگ فاقوں پر مجبور ہیں۔‘‘
اسرائیلی فوج نے اتوار کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے ''شمالی اور جنوبی غزہ پٹی میں وسیع زمینی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔
‘‘ اس عسکری مہم کا مقصد اسرائیل کے مطابق یرغمالیوں کو بازیاب کرانا اور حماس کو شکست دینا ہے۔ تازہ کارروائی کب شروع ہوئی؟یہ کارروائی اس وقت تیز ہوئی جب دونوں فریق قطر میں بالواسطہ مذاکرات میں مصروف ہیں تاکہ جنگ بندی کی کوئی نئی ڈیل ممکن ہو سکے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ کسی بھی نئے معاہدے میں ''تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کے دہشت گردوں کی جلاوطنی اور غزہ کی پٹی کا غیر مسلح ہونا‘‘ شامل ہوں گے۔
مارچ میں دو ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں مذاکرات کسی پیش رفت میں ناکام رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے حماس کی مکمل شکست کے بغیر جنگ ختم کرنے کی مخالفت کی ہے جبکہ حماس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا ہے۔
مذاکرات سے واقف حماس کے ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ یہ تحریک ''تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو ایک ہی بار رہا کرنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ مستقل اور جامع جنگ بندی معاہدہ طے پا جائے۔
‘‘ لیکن ان ذرائع نے مزید کہنا تھا کہ اسرائیل ''یرغمالیوں کو ایک یا دو مراحل میں رہائی کے بدلے عارضی جنگ بندی چاہتا ہے۔‘‘ تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیل میں داخل ہو کر اچانک ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے۔
یہ فلسطینی جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔ ان میں سے 57 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 34 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا خیال ہے کہ وہ مارے جا چکے ہیں۔
اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی عسکری آپریشن شروع کیا تھا، جو گزشتہ سیزفائر تک جاری رہا تھا۔
غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع کے مطابق جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اٹھارہ مارچ سے دوبارہ شروع ہونے والی اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں اب تک کم از کم 3193 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سات اکتوبر سن 2023 سے شروع ہونے اس مسلح تصادم کے دوران غز پٹی میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد بھی اب 53339 ہو چکی ہے۔
ادارت: عاطف توقیر، مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غزہ پٹی میں اسرائیل نے ناکہ بندی حماس کے کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
اسرائیل 60 دن کی جنگ بندی کی شرائط ماننے پر آمادہ ہو گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جس نئی جنگ بندی کی پیشکش کو منظوری دی گئی ہے، اس میں غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز شامل ہے، معاہدے میں حماس کے تحفظات کو بھی پیش ِ نظر رکھا گیا ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق یہ مجوزہ معاہدہ حالیہ دنوں میں حتمی شکل اختیار کر گیا، جو کہ کئی ماہ کی پس پردہ کوششوں کا نتیجہ ہے، ان کوششوں کی قیادت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے کی۔
ایک امریکی عہدیدار نے سی این این کو بتایا کہ اس نئی پیشکش میں قطری ثالثوں نے اہم کردار ادا کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ حماس کے پہلے معاہدے سے متعلق تحفظات کا ازالہ کیا جائے، اس معاہدے کے تحت جنگ بندی کے دوران اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ میرے نمائندوں نے آج غزہ کے معاملے پر اسرائیلی حکام کے ساتھ ایک تفصیلی اور بامقصد ملاقات کی، اسرائیل 60 دن کی جنگ بندی کی شرائط ماننے پر آمادہ ہو گیا ہے، قطر اور مصر کے حکام اس حوالے سے حتمی تجاویز پیش کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ امید ہے حماس اس معاہدے کو قبول کرے گی، اگر حماس نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں، اس سے بہتر موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔
یاد رہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو 7 جولائی کو امریکا کا دورہ کریں گے جہاں ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات بھی کریں گے۔
گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا تھا کہ وہ آئندہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران غزہ اور ایران کی صورتحال پر گفتگو کریں گے۔
، سی این این کے مطابق نیتن یاہو اس وقت دو ممکنہ راستوں پر غور کر رہے ہیں، یا تو جنگ بندی کی کوشش کی جائے یا پھر غزہ پر حملوں میں شدت لائی جائے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوجی عہدیدار نے سی این این کو بتایا ہے کہ اسرائیل تاحال اپنے تمام جنگی اہداف حاصل نہیں کر سکا، لیکن چونکہ حماس کی قوت کمزور پڑ چکی ہے اور وہ زیرِ زمین چھپ چکی ہے، اس لیے باقی ماندہ گروہ کو مؤثر انداز میں نشانہ بنانا مشکل ہو رہا ہے۔