پاکستان کی حمایت پر ترکی کو بھارتی بائیکاٹ کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 مئی 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں سیاحوں پر حملے، جس میں چھبیس افراد ہلاک ہوئے، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے، جس سے مزید ہلاکتیں اور تباہیاں ہوئیں۔ اس دوران مسلم اکثریتی ممالک ترکی اور آذربائیجان 'برادر ملک' پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
دونوں نے تنازع میں اسلام آباد کی حمایت کرنے والے بیانات جاری کیے۔بھارت نے چینی، ترک خبر رساں ایجنسیوں کو بلاک کر دیا
بھارت میں اس کے خلاف شدید عوامی جذبات سامنے آئے اور سوشل میڈیا پر بالخصوص ترکی کا کثیر الجہتی بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی، جس کے اقتصادی اور سفارتی اثرات نظر آرہے ہیں۔
(جاری ہے)
ترکی اور آذربائیجان، بھارتیوں کے لیے کم بجٹ میں چھٹیوں کے دوران مقبول تریں غیرملکی سیاحتی مقامات ہیں۔
سیاحت، تجارت اور تعلیم کو نقصانسوشل میڈیا مہمات اور عوامی غم وغصے کو "بائیکاٹ ترکی" جیسے ہیش ٹیگز نے بائیکاٹ کی اپیلوں کو مزید ہوا دی۔
ترکی نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو پھر اٹھایا
ٹریول ایجنسیوں کے مطابق، ترکی جانے والے بھارتی سیاحوں، جن کی تعداد گزشتہ سال کم از کم 274,000 تھی، میں کمی آئی ہے۔ بکنگ میں 60 فیصد کمی اور منسوخیوں میں 250 فیصد اضافہ ہوا۔
'ایز مائی ٹرپ'، 'میک مائی ٹرپ' اور 'ایگزیگو، جیسے مشہور ٹریول پلیٹ فارمز نے بکنگ کو معطل کر دیا ہے، پروموشنز روک دی ہیں، اور غیر ضروری سفر کے خلاف ایڈوائزری جاری کر دی ہیں۔
کیرالہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر راجیو چندر شیکھر نے نامہ نگاروں کو بتایا، "ہر محنتی بھارتی جو سیاح کے طور پر بیرون ملک سفر کرتا ہے، آج یہ سمجھتا ہے کہ ان کی محنت سے کمایا ہوا روپیہ ان لوگوں پر خرچ نہیں ہونا چاہیے جو ہمارے ملک کے دشمنوں کی مدد کرتے ہیں۔
"گزشتہ ہفتے، بھارت کی شہری ہوا بازی کی وزارت نے بھی "قومی سلامتی" سے متعلق بنیادوں پر، ترکی کی ہوابازی کمپنی "چلیبی"، جو بھارت کے بڑے ہوائی اڈوں پر گراونڈ سروسزفراہم کرتی ہے، کی سکیورٹی کلیئرنس کو فوری طور پر منسوخ کر دیا تھا۔ سلیبی نے اس فیصلے کو قانونی طور پرچیلنج کیا ہے۔
بھارت: ترک شہری ایئر انڈیا کا سی ای او، آر ایس ایس ناراض کیوں؟
چلیبی کی کلیئرنس منسوخ کرتے ہوئے، بھارت کے ہوابازی کے جونیئر وزیر، مرلی دھر موہول نے ایکس پر لکھا کہ حکومت کو سیلبی پر پابندی لگانے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
موہول نے کہا، "مسئلہ کی سنگینی اور قومی مفادات کے تحفظ کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم نے ان درخواستوں کا نوٹس لیا ہے۔"
تاجروں نے ترکی سے درآمد سیب اور ماربل سے لے کر چاکلیٹ، کافی اور جیم تک کو بھی مسترد کرنا شروع کر دیا ہے۔ کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز کے زیر اہتمام نئی دہلی میں ایک قومی بزنس کانفرنس میں، 125 سے زیادہ اعلیٰ تجارتی رہنماؤں نے ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ تمام تجارتی معاملات کا بائیکاٹ کرنے پر اتفاق کیا۔
تعلیمی محاذ پر، ممبئی میں معروف تعلیمی ادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے ترکی کی یونیورسٹیوں کے ساتھ معاہدوں کو منسوخ کردیا۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے کئی دیگر ممتاز تعلیمی اداروں نے بھی اسی طرح کے فیصلے کیے ہیں۔
ایردوآن پر تنقیدترک صدر رجب طیب اردوآن طویل عرصے سے تنازعہ کشمیر کے "کثیرطرفہ" حل کی وکالت کرتے رہے ہیں، جس کی بھارت نے ہمیشہ مخالفت کی ہے۔
ایردوآن کئی بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان کا تازہ ترین دورہ فروری میں ہوا تھا، جب وہ اسلام آباد کے ساتھ تجارتی اور فوجی تعلقات کو بڑھانے کے لیے ایک وفد کے ساتھ پہنچے تھے۔
سن دو ہزار سترہ میں، ایردوآن نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اقتصادی تعاون اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر بات چیت کی تھی۔
سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مدثر قمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے بارے میں ترکی کے مؤقف کو بھارت میں سراہا نہیں جاتا کیونکہ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ انقرہ اس معاملے کو غیرجانبداری اور انصاف پسندی سے دیکھنے کے لیے تیار یا رضامند نہیں ہے۔
قمر نے کہا، "نئی دہلی میں انقرہ سے یہ توقع ہے کہ وہ صورتحال کو پاکستان کے نظریے سے نہیں دیکھے، جو کہ اس وقت ہے۔ جب تک ترکی کے موقف میں تبدیلی نہیں آتی، تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں ہے۔"
منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسس میں ریسرچ فیلو اور ویسٹ ایشیا سینٹر کے کوآرڈینیٹر پرسنتا کمار پردھان نے بھی کہا کہ بھارت اور ترکی کے درمیان تال میل میں وقت لگ سکتا ہے۔
پردھان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بائیکاٹ کا "محدود اثر" پڑے گا یہ "دوطرفہ تجارت کو شدید متاثر کرنے کے لیے زیادہ اہم نہیں ہے۔"
تاہم، اگر بائیکاٹ ایک طویل مدت تک جاری رہتا ہے، تو "یہ ممکنہ طور پر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات پر زیادہ منفی اثر ڈال سکتا ہے۔"
مستقبل کے تعلقات غیر یقینیحکومت ہند کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت نے اپریل 2024 سے فروری 2025 کے درمیان ترکی کو 5.
ہندو قوم پرست، بالی وڈ کے اداکار عامر خان سے ناراض کیوں ہیں؟
اور اسی مدت کے دوران، بھارت نے ترکی سے 2.84 بلین ڈالر کا سامان درآمد کیا، جس میں ماربل اور دیگر قدرتی پتھر، سیب اور دیگر پھل، سونا اور قیمتی دھاتیں، معدنی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات شامل ہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ بائیکاٹ کا انجام کیا ہو گا اور آنے والے ہفتوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کس رفتار سے آگے بڑھیں گے۔
پردھان نے کہا، "فوری طور پر، ترکی کے ساتھ جلد ہی اعلیٰ سطح کی مصروفیت ایک چیلنج ہو گا۔ اس کے نتیجے میں، مستقبل قریب تک تناؤ برقرار رہنے کی توقع ہے۔"
روئٹرز نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایئر انڈیا نے حال ہی میں ترک ایئر لائنز کے ساتھ بجٹ ایئر لائن انڈیگو کے لیزنگ ٹائی اپ کو روکنے کے لیے بھارتی حکام سے لابنگ کی، جس میں کاروباری اثرات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے استنبول کی حمایت سے پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات کا حوالہ دیا گیا۔
حالیہ کشیدگی سے پہلے ہی، بھارت نے ترکی کے انادولو شپ یارڈ کے ساتھ 2 بلین ڈالر کا جہاز سازی کا کنسلٹنسی معاہدہ ختم کر دیا تھا۔ اس معاہدے میں بھارت کے انڈین شپ یارڈ میں بھارتی بحریہ کے لیے پانچ فلیٹ سپورٹ جہازوں کی تعمیر شامل تھی، جس میں انادولو کی ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی مدد لی گئی تھی۔
بھارت نے ای کامرس پلیٹ فارمز پر پاکستانی قومی پرچم کی فروخت پر پابندی لگا دی
بھارت کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹریٹ کی سابق رکن تارا کارتھا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "گوکہ بھارت نے معاہدہ کو ختم کرنے کی حکومتی وجہ مقامی جہاز سازی کی صلاحیت کو بڑھانے کی اپنی پالیسی بتائی تھی لیکن سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ترکی کے قریبی تعلقات سے بھارت خوش نہیں تھا۔
"ترکی میں سابق بھارتی سفیر سنجے بھٹاچاریہ نے کہا کہ بھارت کو اپنے قومی مفادات اور عالمی موقف کو ترجیح دیتے ہوئے ہوشیار اور اسٹریٹجک ہونے کی ضرورت ہے۔
بھٹاچاریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "مجھے یقین ہے کہ معاملات وقت کے ساتھ ساتھ حل ہو جائیں گے اور دونوں فریق اس کے اختتام پر اصل بات سمجھ جائیں گے۔"
جاوید اختر (مصنف: مرلی کرشنن، نئی دہلی)
ادارت: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان کے کے درمیان بھارت کے بھارت نے نہیں ہے کے ساتھ ترکی کے نے ترکی نے کہا کر دیا کے لیے
پڑھیں:
غزوہ ہند
بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا ہے‘ پاکستان نے تین دنوں میں بھارت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں‘ انڈین ائیرفورس پوری دنیا میں بے عزت ہو کر رہ گئی‘ اس کے تین بڑے عسکری دوست تھے‘ فرانس‘ اسرائیل اور روس‘ فرانس نے بھارت کو رافیل طیارے دیے‘پاکستان نے رافیل گرا کر بھارت کے ساتھ ساتھ فرانس کے منہ پر بھی کالک مل دی‘ روس نے ایس 400 دیا ‘ پاکستان نے دنیا کا مضبوط ترین ائیر ڈیفنس سسٹم تباہ کر کے روس کو بھی بے عزت کر دیا اور اسرائیل نے مودی کو ڈرونز دیے تھے‘ اسرائیلی ماہرین بھی اس جنگ میں شامل تھے۔
پاکستان نے ڈرونز کا کمیونی کیشن سسٹم بریک کر دیا جس کے بعد یہ اندھی چڑیوں کی طرح پاکستان کی فضا میں ڈولنے لگے اور عام شہری انھیں اپنی رائفلوں سے شکار کرتے رہے لہٰذا اسرائیل بھی بے عزت ہو گیا‘ اس کے برعکس پوری دنیا میں پاکستان کا ڈنکا بج گیا‘ وہ برادر اسلامی ملک جو ہمیں بھکاری سمجھتے تھے وہ بانہیں کھول کر ہماری طرف چل پڑے‘ امریکا ہمیں اہمیت نہیں دے رہا تھا‘ ڈونلڈ ٹرمپ 10 مئی کے بعد اپنی ہر تقریر میں پاکستان اور کشمیر کا حوالہ دینے لگا‘ فرانس سوچ رہا ہے کاش ہم نے رافیل پاکستان کو دیے ہوتے اور چین ہمیں اس وقت اپنا بڑا محسن قرار دے رہا ہے‘ پاکستان نے چین کو وار انڈسٹری کا چیمپیئن بنا دیا اور دنیا نے پہلی مرتبہ چین کے ہتھیاروں کو سیریس لینا شروع کیا۔
پاکستان کی وجہ سے جے ٹین اور جے ایف 17 کے شیئرز میں بھی اضافہ ہو گیا‘ دوسری طرف پاکستان میں 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پہلی مرتبہ اتنا اتحاد نظر آیا اور پوری قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو گئی‘ پی ٹی آئی کی وجہ سے فوج کا امیج بہت خراب ہو گیا تھا‘ نو مئی 2023 کے واقعات نے فوج کا خوف تک ختم کر دیا لیکن 10مئی نے نہ صرف فوج کا امیج بحال کر دیا بلکہ قوم کو یہ تک سمجھا دیا ہم اگر آج اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں اور ہماری مسجدوں میں اذانیں اور نمازیں ہو رہی ہیں تو اس کی واحد وجہ اللہ کی ذات اور پاک فوج ہے‘ جنرل عاصم منیر بھی 10مئی سے ہیرو بن کر ابھرے‘ پاکستان میں آج دو درجن لوگوں کو چھوڑ کر 24 کروڑ لوگ جنرل عاصم منیر کے ہاتھ چومنا چاہتے ہیں۔
لوگ انھیں فیلڈ مارشل بھی بنانا چاہتے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور عمران خان کا بیانیہ بھی ’’وڑ‘‘ گیا‘ قدرت نے عمران خان کو 22 اپریل کے بعد قوم کے ساتھ کھڑا ہونے کا آخری موقع دیا تھا‘ عمران خان اگر پہلگام کے واقعے کو بنیاد بنا کر فوج اور جنرل عاصم منیر کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیتے‘ پارٹی بریفنگ میں شامل ہو جاتی اور فوج کی غیر مشروط حمایت کر دیتی تو آج عمران خان کی رہائی کا عمل شروع ہو چکا ہوتا اور فوج کے دل میں ان کی قدر بھی بڑھ چکی ہوتی لیکن عمران خان دھوکے میں مارے گئے‘ ان کا خیال تھا فوج بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور یہ عوام کو ایک بار پھر فوج کے خلاف سڑکوں پرلے آئیں گے۔
علم جوتش کے مطابق بھی اپریل کا آخری اور مئی کا پہلا ہفتہ پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک تھا‘ پروفیسر غنی جاوید میرے پرانے کولیگ اور مہربان ہیں‘ یہ بہت بڑے آسٹرالوجر ہیں‘ یہ اپریل کے شروع میں میرے پاس تشریف لائے‘ بہت متفکر تھے‘ ان کا کہنا تھا پاکستان کے برے دن شروع ہو گئے ہیں‘ اپریل کا آخری اور مئی کا پہلا ہفتہ پاکستان کے لیے بہت خطرناک ہے‘ ہم اگر اس کی نحوست سے بچ گئے تو بھی یہ سلسلہ 2027تک چلتا رہے گا‘ یہ اڑھائی سال پاکستان کی تاریخ کا مشکل ترین دور ہو گا‘ پوری قوم دعا اور اتحاد سے ہی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا اللہ سے دعا کرو یہ جنرل عاصم منیر‘ عمران خان‘ آصف علی زرداری‘ نواز شریف اور شہباز شریف کو لمبی زندگی دے‘ ان میں سے کسی کا حادثہ ملک کے اندر خوف ناک بحران پیدا کر دے گا اور بھارت اس کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا‘ ان کا کہنا تھا بھارتی جوتشی اس پر یقین رکھتے ہیں‘ یہ پاکستان کے خراب ہوتے ستاروں سے واقف ہیں چناں چہ یہ اڑھائی سال پاکستان کو سانس نہیں لینے دے گا‘ یہ بریک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا حملہ کرتا چلا جائے گا‘ میں نے ان کے انکشافات کو سیریس نہیںلیا لیکن جب22 اپریل کو پہلگام کا واقعہ پیش آیا اور حالات خراب ہوتے چلے گئے تو میں واقعی ڈر گیا اور پروفیسر صاحب سے دوبارہ رابطہ کیا‘ ان کا کہنا تھا 20 مئی کے بعد ایک بار پھر حالات میں ٹرن آئے گا اور 27مئی کا دن ملک کے لیے خطرناک ہو گا اور اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
پروفیسر غنی جاوید کے انکشافات اپنی جگہ لیکن 10مئی کو قوم کو بہت بڑی خوش خبری نصیب ہوئی مگر بھارت ہار کے باوجود باز نہیں آیا اور یہ مستقبل میں بھی باز نہیں آئے گا‘ بی جے پی نے 13 مئی کو ہندوستان میں ’’ترنگا یاترا‘‘ شروع کر دی‘ یہ انڈیا کی تاریخ کی پہلی ایسی یاترا ہے جو پورے ملک میں ہو رہی ہے اور اس کا مقصد بھارت کی فتح کا جشن ہے‘ یہ 23مئی کو ختم ہو گی‘ میرا خدشہ ہے نریندر مودی 23مئی کو خوف ناک تقریر کرے گا اور پاکستان سے سیز فائر توڑنے کا اعلان کر دے گا‘ یہ ترنگا یاترا کے ذریعے اس تقریر کے لیے فضا ہموار کر رہا ہے۔
پوری قوم کو اکٹھا کرے گا‘ کروڑوں لوگوں کو سڑکوں پر لائے گا اور 23یا 24مئی کو اسکرینیں لگا کر تقریر کرے گا اور پھر اعلان جنگ کر دے گا‘ میرے اس موقف کے لیے بطور ثبوت یہ دلیل کافی ہو گی نریندر مودی نے امریکا کے ذریعے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کے درمیان رابطے کے لیے 24 مئی تک وقت مانگا ہے‘ کیوں؟اگر یہ مذاکرات کے لیے مخلص ہے تو پھر نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کے درمیان رابطے کے لیے 24مئی کا انتظار کیوں؟ یہ رابطہ آج کیوں نہیں ہو سکتا؟ دوسرا سیز فائر کے بعد ترنگا یاترا کی کیا ضرورت تھی؟ اور وہ بھی 10 دن طویل‘ یہ یاد رکھیں نریندر مودی ترنگا یاترا کی آڑ میں فوجی اور سفارتی تیاریاں کر رہا ہے‘ یہ عوام کو بھی موبلائز کر رہا ہے چناں چہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘ یہ دوبارہ حملہ کرے گا اور اسی مہینے میں کرے گا اور اس مرتبہ اس کا نشانہ ہماری ائیرفورس اور میزائل سسٹم ہوگا۔
پاکستان نے بھی تیاریاں شروع کر دی ہیں‘ چین نے جے 35 اے کے نام سے جنریشن فائیو طیارے بنا لیے ہیں‘ یہ اسٹیلتھ طیارے ہیں جنھیں ریڈارنہیں پکڑ سکتا‘ چین پاکستان کو یہ طیارے دے رہا ہے‘ہمارے پائلٹ اس وقت چین میں یہ طیارے اڑانے کی ٹریننگ لے رہے ہیں‘ یہ اچھی خبر ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ انڈیا نہیں جانتا؟ بھارت جانتا ہے چناں چہ اس کی کوشش ہو گی یہ جے 35 اے سے پہلے پاکستان سے بدلہ لے لے لہٰذا بھائیو زیادہ خوشیاں نہ مناؤ‘ اللہ سے دعا کرو‘ اتحاد قائم کرو اور تیاریاں جاری رکھو‘ زخمی سانپ مرنے سے پہلے بھرپور حملہ کرتا ہے اور نریندر مودی اس کی تیاری کر رہا ہے‘ یہ اگر اس شکست کو خاموشی سے برداشت کر جائے گا تو بھارت سے بی جے پی‘ آر ایس ایس اور نریندر مودی تینوں ختم ہو جائیں گے‘ کانگریس نے 10 مئی کے بعد انگڑائی لینی شروع کر دی ہے‘ راہول گاندھی سڑکوں پر نکل رہا ہے‘ بی جے پی کا اقتدار ریاستوں میں بھی سمٹ رہا ہے‘ میڈیا نے بھی سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔
نریندر مودی دس برسوں میں زیادہ تر نیوز چینلز اور صحافی اپنی جیب میں ڈال چکا ہے لیکن سوشل میڈیا نے نئی شخصیات کو جنم دے دیا اور ان کی آواز ’’گودی میڈیا‘‘ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے چناں چہ رویش کمار اور پروین سوہائے جیسے لوگ اب سوال اٹھا رہے ہیں اور حکومت کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں‘ امریکا بھی بھارت کو دانت دکھا رہا ہے‘ ایپل کمپنی نے چین میں اپنا بزنس سمیٹ کر بھارت میں سرمایہ کاری شروع کی تھی‘ ٹاٹا کمپنی کے ساتھ مل کر ایپل نے 2017میں آئی فون کی فیکٹریاں لگائیں‘2024 میں بھارت میں 22 بلین ڈالر کے آئی فون بنے اور امریکا اور دوسرے ملکوں میں ایکسپورٹ ہوئے‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے 15مئی کو ایپل کمپنی کے سی ای او ٹم کک کو قطر میں بلا کر بھارت میں فیکٹریاں بند کرنے کا حکم دے دیا‘ یہ مودی سرکار کے لیے معاشی دھچکا ہے لہٰذا نریندرمودی کمرے میں پھنسی بلی بن چکا ہے اور اس کے پاس پاکستان پر حملے یا دونوں ملکوں میں ٹینشن بڑھانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں‘یہ اپنے آپ‘ بی جے پی اور آر ایس ایس کو بچانے کے لیے پاکستان کی طرف پلٹے گا‘ یہ ہم پر حملہ کرے گا‘ ہمیں اپنی کام یابی پر زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے۔
میں پریکٹیکل قسم کا دنیا دار انسان ہوں‘ میرا دماغ غزوہ ہند جیسی اصطلاحات کو قبول نہیں کرتا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے یقین ہوتا جا رہا ہے تیسری عالمی جنگ دنیا کے سر پر منڈلا رہی ہے‘ یہ جنگ ایران سے اسٹارٹ ہو گی یا ہندوستان سے بس یہ فیصلہ باقی ہے‘ یہ اگر ایران سے اسٹارٹ ہو گئی تو یہ پہلے عالم اسلام کو نگلے گی اور اس کے بعد یورپ اور امریکا کو اپنے نرغے میں لے لے گی‘ چین اور روس بھی اس کا رزق بن جائیں گے اور یہ اگر بھارت سے شروع ہوئی تو چین‘ ترکی اور روس کو اس میں کودتے دیر نہیں لگے گی اور اس کے بعد اسرائیل‘ یورپ اور امریکا خود کو اس سے دور نہیں رکھ سکیں گے اور پھر وہ وقت آ جائے گا جب پوری دنیا ملبے اور راکھ کاڈھیر ہوجائے گی۔
مجھے وقت کے ساتھ ساتھ غزوہ ہند حقیقت کا روپ دھارتا ہوا محسوس ہو رہا ہے‘ بھارت نے اگر نریندر مودی‘ بی جے پی اور آر ایس ایس کو کنٹرول نہ کیا اگر جنگ کے جنون کو قابو نہ کیا گیا تو مودی اس خطے اور بعدازاں پوری دنیا کو تنور میں جھونکتے دیر نہیں لگائے گا‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ اس قبیلے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو دل سے سمجھتا ہے ’’اگر مودی نہیں تو انڈیا نہیں‘‘ اور یہ وہ سوچ ہے جس کے ہوتے ہوئے یہ خطہ امن سے زندگی نہیں گزار سکتا چناں چہ غزوہ ہند کی تیاری کر لیں‘ یہ اب زیادہ دور نہیں رہا۔