اور ابابیل واپس آ گئے WhatsAppFacebookTwitter 0 20 May, 2025 سب نیوز
بیجنگ شہر کے مرکز میں ابابیل کی ایک خاص قسم رہتی ہے جسے بیجنگ سوئفٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ابابیل ہر موسم بہار میں دور دراز افریقہ سے ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں، اور مئی کے آس پاس بیجنگ پہنچتے ہیں۔ جہاں یہ قدیم عمارتوں میں رہتے ہیں اور یہیں نشو ونما پاتے ہیں۔ شہر کے نام سے منسوب بہت کم جنگلی پرندوں میں سے ایک کے طور پر ، ان کا بیجنگ شہر سے گہرا تعلق ہے۔کچھ دن پہلے، شام کے وقت، میں بیجنگ کی ایک قدیم عمارت زینگ یانگ مین کے پاس سے گزر رہی تھی،جس کی تاریخ 600 سال سے زائد ہے۔یہ عمارت اس وقت باڑ سے گھری ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ اس کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے۔یہ دیکھ کر ہمیں تجسس ہوا کہ تعمیراتی کام کے دوران تو بہت شور ہوگا اور بیجنگ سوئفٹ نہیں آئیں گے۔ اس وقت آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے،اور اچانک میری نظر اُن پر پڑی –
پہلے ایک ، پھر ایک غول۔ قدیم عمارتوں کے آس پاس اڑتے ہوئے یہ ابابیل بہت پرسکون لگتے ہیں ، اور انسانی سرگرمیوں نے ان کی آزاد زندگی کو بالکل متاثر نہیں کیا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے ؟بعد میں، مجھے پتہ چلا کہ یہ ہم آہنگ منظرنامہ اتفاقاً نہیں تھا.
حالیہ دنوں ،لوگوں کو باغات میں جھاڑیوں اور شاخوں کے کچھ ڈھیرنظر آ سکتے ہیں۔ باغبان کی غفلت کے بارے میں شکایت کرنے کی جلدی نہ کریں ،کیونکہ یہ ڈھیر جانوروں کے لئے “بینجیس کا ڈھیر یا محفوظ مساکن” ہیں،جس کی تجویز 20 ویں صدی کی 50 کی دہائی میں جرمن گارڈن مینیجر بینجیس برادران نے پیش کی تھی ۔ یہ نہ صرف کیڑے مکوڑوں ، پرندوں اور چھوٹے ممالیہ جانوروں (جیسے ہیج ہوگ ، خرگوش) کو پناہ گاہ فراہم کرسکتے ہیں ، بلکہ شاخیں اور پتے بھی گلنے سڑ نے کے بعد مٹی کی پرورش کرسکتے ہیں اور پودوں کی نشوونما کو فروغ دیتے ہوئے شہر کے ماحولیاتی توازن کو بتدریج برقرار رکھ سکتے ہیں۔”صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں” کے تصور کی رہنمائی میں، لوگوں نے ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے معاشی فوائد اور ماحولیاتی بہتری سے فائدہ اٹھایا ہے. اس عمل میں، ماحولیاتی تحفظ کے امور پیشہ ورانہ اور سائنسی طریقہ کارکی رہنمائی میں مسلسل ارتقاءپذیر ہیں. اب،ماحولیاتی تحفظ صرف پانڈا، سائبیرین شیر اور چیتے جیسے مشہور انواع کا تحفظ نہیں، بلکہ لوگوں کے قریبی ماحولیاتی توازن کا تحفظ بھی لازمی ہے. بینجیس کے ڈھیروں کے علاوہ، لوگوں نے پرندوں کے لئے گھونسلے، کیڑوں کے لئے مساکن بھی بنائے ہیں، اور چھوٹے چھوٹے ویٹ لینڈز ، حیاتیاتی تنوع کے
تحفظ کی کمیونٹیز کی تعمیر جیسے جامع اقدامات کیے ہیں، جس سے لوگوں کے آس پاس شہروں میں حیاتیاتی تنوع کو نمایاں طور پر بہتر بنایا گیا ہے. اب ہمیں خوبصورت پرندے دیکھنے کے لیے چڑیا گھر جانے کی ضرورت نہیں ہے،سڑک کنارے ایک چھوٹے سے گرین لینڈ پر بھی ہمیں پرندوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔اور یہ صرف جانوروں کی انواع میں اضافہ نہیں ، بلکہ پودوں کی اقسام میں اضافے ، زمین کے معیار میں بہتری اور ماحولیاتی توازن کی ترقی کا جامع اظہار بھی ہے۔
آج کل ، لوگ آہستہ آہستہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ترقی صرف مواد کا لامحدود مجموعہ نہیں ، بلکہ زندگیوں کے مابین ہم آہنگ نظم ونسق کا قیام بھی ہے۔ یہ نظم و نسق صرف انسانیت کے درمیان تعلقات کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ تمام حیات کے مابین ہم آہنگی کے بارے میں بھی ہے. ہر سال فروری میں بیجنگ سوئفٹ افریقہ سے پہاڑوں ، سمندروں، ریگستانوں کو عبور کرتے ہوئے بالآخر شمال میں واقع قدیم شہر بیجنگ پہنچتے ہیں۔ ان کی ہجرت کے راستے درجنوں ممالک پر محیط ہیں، جو ہمیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کوئی الگ تھلگ عمل نہیں ہے، بلکہ ایک عالمی باہم مربوط تعاون کا کام ہے۔سال بہ سال ،بیجنگ سوئفٹ کی واپسی طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوتی ہے، جو ان کے اپنے پرانے گھونسلوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فطرت اور انسانوں کے درمیان ایک معاہدہ بھی عیاں ہوتا ہے: جب تہذیب ہر زندگی کی حفاظت کرتی ہے، تو انسان حیاتیاتی تنوع سے زیادہ دیرپا طاقت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبر’چین پاکستان کا آئرن برادر‘: اسحاق ڈار سے ملاقات میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے وزیر کا عزم ڈوبتی انسانیت: مودی حکومت کے ظلم و بربریت کا ایک اور داستان قصابوں کا اتحاد یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا ماں کی محبت یہ فوج ہماری ہے ترکوں کا ہیرو، اپنے گھر میں اجنبی!Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کوئی تحقیقی منصوبہ شامل نہ ہونے کے باعث عملی طور پر ’غیر فعال‘
پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پارک) عملی طور پر غیر فعال ہو چکی ہے، کیونکہ 26-2025 کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں ایک بھی تحقیقی منصوبہ شامل نہیں کیا گیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی، زراعت کو اولین ترجیح دینے کے بار بار حکومتی دعوؤں کے باوجود نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر (نارک) میں تحقیقی کام اب ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
پارک مالی سال 2026 میں جنوبی کوریا کے تعاون سے آلو کے تصدیق شدہ بیج کی پیداوار کے صرف ایک پروجیکٹ پر کام کرے گی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت نے دو جاری منصوبوں کو معطل کر دیا ہے جن میں ایک دالوں کی پیداوار بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا اور دوسرا گلگت بلتستان میں ماؤنٹین ریسرچ سینٹر کو اپ گریڈ کرنا شامل ہیں۔
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ایک سینئر عہدیدار کی جانب سے شیئر کی گئی معلومات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ وزارت کے تحت پانچ نئی اسکیمیں پی ایس ڈی پی میں شامل کی گئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی پارک سے متعلق نہیں ہے۔
رابطہ کرنے پر پارک کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی نے تصدیق کی کہ منظور شدہ اسکیموں میں 26-2025 کے دوران نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر میں تحقیقی سرگرمیاں شامل نہیں ہیں۔
ان پانچ منصوبوں میں سے ایک وزیر غذائی تحفظ رانا تنویر حسین کا حلقہ شیخوپورہ میں ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے متعلق ہے۔ وزارت نے گندم کی پٹی اور باسمتی چاول کے برآمدی زون میں واقع کثیر الضابطہ زرعی تحقیقی ادارے کے لیے پانچ سال کے لیے 380 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
وزارت غذائی تحفظ کے سیکریٹری وسیم اجمل چوہدری نے جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو اپنی ذمہ داریوں کے تحت عائد کردہ مالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے وزارت کا ترقیاتی بجٹ 24 ارب روپے سے کم کر کے 4.7 ارب روپے کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف منصوبہ بند پروجیکٹس میں کمی واقع ہوئی ہے۔
کمیٹی نے وزارت کے ساتھ پہلے سے زیر بحث اور سفارش کردہ متعدد اسکیموں کے اخراج پر تشویش کا اظہار کیا، خاص طور پر خیرپور میں مجوزہ ڈیٹس ریسرچ سینٹر کے اخراج پر۔
شیخوپورہ پروجیکٹ کے علاوہ، وزارت نے پاکستان نیشنل شوگر اینڈ شوگر کین مانیٹرنگ سسٹم، پائیدار زرعی کاروبار اور آبی زراعت کی ترقی کے لیے مالی ترغیبی پروگرام، پاکستان میں کپاس کی بحالی اور پاک سرزمین کارڈ پروجیکٹ کی منظوری دی تھی۔
پارک کا قیام 1981 میں دیگر وفاقی اور صوبائی اداروں کے ساتھ مل کر تحقیق کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا تھا جبکہ نارک اس کے اہم تحقیقی بازو کے طور پر کام کرتا ہے۔
سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارک انتظامیہ نے 26-2025 کے لیے پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کے لیے 15 منصوبوں کو حتمی شکل دی تھی۔ تاہم وزارت غذائی تحفظ نے ابتدائی طور پر ان میں سے 7 کو شارٹ لسٹ کیا، لیکن آخر کار ان سب کو چھوڑ دیا، جن کی لاگت کا تخمینہ 24 ارب روپے سے زیادہ تھا۔
وزارت غذائی تحفظ نے زرعی تحقیق کے فروغ کے لیے 10 ارب روپے کی سیڈ منی کے ساتھ انڈوومنٹ فنڈ بنانے کی تجویز کو مسترد دیا۔
زراعت میں تحقیق و ترقی کو مالی وسائل کی کمی اور بے ترتیب فنڈنگ کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
Post Views: 5