وہ کون سا شہر ہے جہاں اونچی ہیل پہننے کے لیے پرمٹ لینا پڑتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
امریکی ریاست کے ایک شہر کارمل بائی دی سی میں 2 انچ سے زیادہ اونچی ایڑی کے پاپوش (جوتے، سینڈل) پہننے کے لیے سرکاری اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اپنے پیاروں کا بدلہ لینے کے لیے خاتون نے 40 گینگسٹرز کیسے قتل کیے؟
کارمل بائی دی سی کا ہائی ہیل پرمٹ ایک فسانہ لگتا ہے لیکن یہ ایک حقیقیت اور سرکار کی جانب سے عائد کی گئی ایک لازمی قانونی ضرورت ہے۔ اگر کسی کی ایڑیوں کی اونچائی 2 انچ سے زیادہ ہے اور اس کی بیئرنگ سطح ایک مربع انچ سے کم ہے تو سٹی ہال سے پہلے اجازت نامہ حاصل کیے بغیر انہیں عوامی مقامات پر پہننا غیر قانونی ہے۔
اجازت نامہ مفت جاری کیا جاتا ہے اور خواہ سیاحوں کا اونچی ہیل والے سینڈل استعمال کرنے کا ارادہ نہ بھی ہو تب بھی بہت سے سیاح اسے صرف ایک یادگار کے طور پر حاصل کرتے ہیں۔
سرٹیفکیٹ درخواست دہندہ کے نام پر جاری کیا جاتا ہے اور اس پر ڈیوٹی پر موجود سٹی کلرک میں سے ایک کے دستخط ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیے: پڑوسن کے بلے کو کھانا کھلانے پر تھانہ کچہری، غیرمعمولی کیس کا عجیب انجام
کارمل بائی دی سی کی سڑکوں پر عوام میں اونچی ہیلز پہننے کو غیر قانونی بنانے کا قانون سٹی اٹارنی کی درخواست پر سنہ 1963 میں منظور کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی یہ ایک عجیب قانون تصور کیا گیا تھا لیکن اس کا ایک خاص مقصد تھا۔
کیلیفورنیا کا یہ شہر صنوبر اور مونٹیری پائنز کی بہتات ہے جن میں سے بہت سے متاثر کن سائز میں بڑھ چکے ہیں۔ تاہم جیسے جیسے درخت بڑھتے ہیں ان کی جڑیں بھی بڑھتی ہیں اور کنکریٹ کے فٹ پاتھوں کو توڑتی ہوئی باہر نکل آتی ہیں جو پیدل چلنے والے کے لیے خطرہ ہوتی ہیں۔
ناہموار فٹ پاتھ اور تنگ اونچی ایڑیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ درحقیقت سٹی اٹارنی نے اس خطرے کو اتنی سنجدیگی سے لیا کہ اس نے ایک پرمٹ نافذ کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ لوگوں کو کسی حادثے کی صورت میں شہر کی میونسپلٹی کے خلاف مقدمہ کرنے سے روکا جا سکے۔ اب اس قانون کے تحت اونچی ہیل استعمال کرنے والا شخص اگر درختوں کی جڑوں کے باعث گر بھی جائے تب بھی وہ میونسپلٹی پر کوئی مقدمہ نہیں کرسکتا۔
شہر کا ایک اور حیرت انگیز قانوندلچسپ بات یہ ہے کہ چند سال پہلے تک کارمل بائی دی سی میں شہر کے راستوں پر آئس کریم کھانے پر بھی پابندی تھی۔
مزید پڑھیں: ’چیز از فنٹاسٹک‘، اضافی پنیر نہ ملنے پر مہمان نے شادی ہال میں بس گھسیڑ دی
تاکہ اس کے نیچے گرنے کی وجہ سے فٹ پاتھ چپچپے نہ ہوجائیں اور کوئی پھسل کر گرنے کے سبب شہر پر مقدمہ دائر نہ کردے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا اونچی ہیل پہننا ممنوع اونچی ہیل کا پرمٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا اونچی ہیل پہننا ممنوع اونچی ہیل کا پرمٹ کارمل بائی دی سی اونچی ہیل کے لیے
پڑھیں:
کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کا بل سینیٹ سے منظور، جے یو آئی کا بائیکاٹ
سینیٹ نے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا، جس پر جے یو آئی کے سینیٹرز نے ایوان کا بائیکاٹ کردیا جبکہ صوبائی موٹر گاڑیاں آرڈیننس 1965 میں ترمیم اور چین پاکستان اقتصادی راہداری اتھارٹی ترمیمی بل بھی منظور کرلیا گیا۔
سینیٹ کا اجلاس قائم مقام چیئرمین سیدال خان کی صدارت میں شروع ہوا جس میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کی جانب سے چائلڈ میرج بل پیش کیا گیا۔
شیری رحمان نے کہا کہ سولہ سولہ سال کی عمر میں بچیاں ماں بن جاتی ہیں، کم عمری میں شادی کے بعد بچیاں دوران زچگی فوت ہوجاتی ہیں، یہ بل 2013ء میں سینیٹ نے متفقہ طور منظور کیا ہوا ہے۔
جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ اسلامی نظام سے متصادم بل ہے اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جائے۔
سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں والدین کی رضامندی کے بغیر آپ بچوں کو اپنی مرضی کی اجازت دے دیں گے تو یہ یورپی معاشرہ بن جائے گا، اسلامی معاشرے میں اگر والدین سے آپ ایک حق لیں گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، جے یوآئی اس بل کی مخالفت کرے گی اور واک آؤٹ کرے گی، اس بل کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔
شبلی فراز کا بیرون ملک دوروں کیلئے پارلیمنٹیرینز کے وفود میں اپوزیشن کو شامل نہ کرنے کا شکوہ
سینیٹر روبینہ قائم خانی نے کہا کہ یہ بل پہلے سندھ اسمبلی میں پیش ہوا یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل سے پاس ہوچکا ہے، یہ لوگ دیہاتوں میں جاتے ہی نہیں، وہاں چھوٹی چھوتی بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے، ہمارے معاشرے میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے معاملات بڑے گھمبیر ہیں اس پر سینیٹر عطا الرحمان نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں جے یو آئی کا کوئی ممبر نہیں ہے۔
سینیٹر دوست محمد نے کہا کہ یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل میں جانا چاہیے۔
سینیٹر خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ سوائے پاکستان کے دنیا کا کوئی ایک مسلم ملک دکھا دیں جہاں شادی کی عمر 18سال سے کم ہو۔
سینیٹر ایمل خان نے کہا کہ ہم جس بحث میں گھس رہے ہیں ہم یورپ اور دین میں انٹر فیئرنس کررہے ہیں، شادی کے لیے طے شدہ وقت سن بلوغت ہے، آپ وہاں قانون لائیں جہاں گن پوائنٹ پر شادیاں ہورہی ہیں، ہمیں مغرب کی تقلید نہیں کرنی چاہیے، اللہ کا دیا ہوا قانون سب سے بہتر ہے، بچی، بچی کے والدین کی مرضی ضروری ہے۔ سینیٹر زرقہ تیمور سہروردی نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور بطور مسلم سوچنا چاہیے۔
مولانا عبدالواسع نے کہا کہ یہ بل کیوں متنازع بنانا چاہتے ہیں؟ نکاح، طلاق وغیرہ کے قوانین بنانا ہمارا اختیار ہی نہیں، ایک آئینی ادارہ موجودہ ہے تو ہم کیوں اس پر قانون سازی کرتے ہیں؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے بغیر اگر یہ بل پاس ہوتا ہے تو ہم اس کی سخت مذمت کریں گے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مولانا بتائیں اسلام میں کہاں لکھا ہوا ہے بلوغت کی عمر کیا ہے؟ ملکی قانون کہتا ہے 18 سال سے کم عمر بچہ ہے۔ سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ چائلڈ میرج ایک گناہ ہے مصر میں کم عمری کی شادیوں کی ممانعت ہے۔
مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ حضرت عائشہؓ کی شادی نوسال کی عمر میں ہوئی، بعض روایات کے مطابق بارہ سال کی عمر میں ہوئی، بعض روایات میں لکھا ہے 14سال کی عمرمیں شادی ہوئی۔
سینیٹر سرمد علی نے کہا کہ یہ دینی نہیں ایک معاشرتی مسئلہ ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی مثال دی گئی ہے لیکن اس وقت سعودی عرب میں بھی شادی کی عمر18سال ہے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ریاست کا حق ہوتا بلوغت کی عمر کا تعین کرنا، سندھ میں یہ قانون گیارہ سال سے رائج ہے، وفاقی شریعت کورٹ نے اس قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا۔
سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ میں مبارک باد پیش کرنا چاہتی ہوں سینیٹر شیری رحمان کو، میری اپنی شادی 13سال کی عمر میں ہوئی، میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی، ہرسسرال میرے سسرال جیسے نہیں ہوتے، آج کل 9، 10 سال کی عمر میں بچی بالغ ہورہی ہے تو کیا ہم اس عمرمیں بچیوں کی شادی کردیں؟
بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے چائلڈ میرج روکنے کے بل پر ایوان میں رائے شماری کی جس پر جے یو آئی کے سینیٹرز نے ایوان کا بائیکاٹ کردیا، ارکان نے بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
سینیٹ کا اجلاس جمعرات کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔