ہم غزہ میں بچوں کو شوقیہ قتل کرنیوالی پاگل ریاست بن چکے ہیں، سابق سربراہ صیہونی فوج
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
صیہونی فوج کے سابق نائب سربراہ یائیر گولان نے کہا ہے کہ اسرائیل ایک پاگل ریاست بن رہا ہے اگر اب بھی ہوش نہ آیا تو دنیا ہمارا جنوبی افریقا جیسا بائیکاٹ کرے گی۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کے سابق نائب سربراہ اور دی ڈیموکریٹس پارٹی کے موجودہ قائد یائیر گولان نے وزیراعظم نیتن یاہو کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صیہونی فوج کے سابق نائب سربراہ یائیر گولان نے کہا ہے کہ اسرائیل ایک پاگل ریاست بن رہا ہے اگر اب بھی ہوش نہ آیا تو دنیا ہمارا جنوبی افریقا جیسا بائیکاٹ کرے گی۔ اپنی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ عقل مندانہ طرزِ عمل اختیار نہ کیا گیا تو عالمی برادری میں ایک ایسی ریاست بن جائیں گے جیسا کہ ماضی میں جنوبی افریقا نسل پرستانہ پالیسیوں کے سبب بن چکا تھا۔
سرکاری نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں یائیر گولان نے مزید کہا کہ ایک سمجھدار ملک نہ تو نہتے شہریوں سے جنگ کرتا ہے اور نہ ہی بچوں کو مارنا اس کا مشغلہ ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اور نہ ہی ایک اچھی ریاست آبادیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالنے کو اپنا مقصد نہیں بناتی ہے۔ یہ بیانات اسرائیلی حکومت کی غزہ میں فوجی کارروائیوں پر عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کے پس منظر میں دیے گئے ہیں۔ تاہم ان کے بیانات پر اسرائیل کے اندر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا جس پر یائیر گولان کو وضاحت پیش کرنا پڑی کہ ان کا مقصد فوجی جوانوں کی نہیں بلکہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریاست بن
پڑھیں:
مسلم لیگ (ن) کی سیاست
برسوں بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ماضی کے مسلم لیگ (ن) کے سابق اہم رہنما چوہدری نثار علی خان سے ان کے گھر جا کر ملاقات کی۔ چوہدری نثار ، نواز شریف کابینہ کے اہم ترین، مضبوط و بااختیار وزیر کے طور پر وزیر اعظم کی کچن کابینہ کا حصہ ہوتے تھے۔ چوہدری نثار اپنے علاقے کی اہم سیاسی شخصیت اور قدآور وفاقی وزیر شمار ہوتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے چوہدری نثارکی بات نہیں مانی تھی اور اسی وجہ سے بالاتروں کی مخالفت مول لینا پڑی تھی جس کے نتیجے میں دو تہائی اکثریت کے حامی وزیر اعظم کو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل قرار دیا گیا اور وہ سڑکوں پر آکر مظاہرے کرتے رہے اور قید میں بھی رہے۔
اس موقع پر نواز شریف اور چوہدری نثار علی کے راستے الگ ہوگئے تھے مگر بانی پی ٹی آئی کی پوری کوشش کے باوجود وہ پی ٹی آئی میں اس لیے شامل نہیں ہوئے تھے کہ اس طرح انھیں پی ٹی آئی کے جلسوں میں نواز شریف کے خلاف تقریریں سننا پڑتیں اور کرنا بھی پڑتیں۔ مسلم لیگ ن سے الگ ہوکر وہ آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لیتے رہے اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اس ظرف کا مظاہرہ نہیں کیا تھا کہ وہ 2018 کے الیکشن میں اپنے سابق اہم رہنما کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا نہ کرتی جس کے نتیجے میں (ن) لیگ اور چوہدری نثار دونوں ہارے اور پی ٹی آئی کا غلام سرور خان جیتا تھا جس نے پی ٹی آئی حکومت میں وزیر ہوا بازی بن کر پی آئی اے کے پائلٹس کے بارے متنازعہ بیان دیا تھا۔
نااہلی کے بعد نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا تھا تاہم چوہدری نثار ان کی کابینہ میں شامل نہیں ہوئے تھے، اگر چوہدری نثار کو وزیر اعظم بنایا جاتا تو نواز شریف اور بالاتروں کی دوریاں ختم ہو سکتی تھیں اور بالاتروں کو نیا وزیر اعظم لانے کا تجربہ نہ کرنا پڑتا ۔
ویسے مسلم لیگ (ن) میں اپنوں کے لیے پالیسی بھی عجیب ہے یا وہاں بھی حال بانی پی ٹی آئی والا ہے اور مختلف بھی ہے۔ (ن) لیگ کے الیکشن ہارے ہوئے پرانے (ن) لیگی غلام دستگیر کے صاحبزادے کو (ن) لیگی حکومت میں وزارت بھی دی گئی پھر خرم دستگیر کو بھارت سے جنگ کے بعد بلاول بھٹو کی زیر قیادت وفد میں شامل کرکے باہر جانے کا موقعہ دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما سعید کرمانی، میاں جاوید لطیف، نواز شریف کی حمایت میں اپنی سینیٹر شپ عدالتی فیصلے سے گنوانے والے نہال ہاشمی، سابق وزیر اعلیٰ کے پی مہتاب عباسی، سابق گورنر سندھ زبیر عمر اور بہت سے سینئر کہاں ہیں؟ انھیں (ن) لیگ نہیں پوچھ رہی۔ کسی وجہ سے (ن) لیگ سے ناراض سابق وزرائے اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ، لیاقت جتوئی، ارباب غلام رحیم، سابق وزیر اعلیٰ و سابق گورنر بلوچستان نواب ثنااللہ رئیسانی اور جنرل عبدالقادرکیوں (ن) لیگ سے الگ ہوئے تھے۔
کیوں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں جانے پر مجبور ہوئے تھے، انھیں (ن) لیگ بھول گئی اور پوچھا تک نہیں گیا کہ انھیں کیا شکایات تھیں۔ سندھ سے (ن) لیگ چھوڑ کر پی پی میں جانے والوں کو اہمیت نہ دے کر سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا خاتمہ کرایا گیا مگر ناراض رہنماؤں کو منانے کی روایت مسلم لیگ (ن) میں ہے ہی نہیں جب کہ سیاست سے غیر متعلق ہو جانے والے سابق اسپیکر الٰہی بخش سومرو یا (ن) لیگی پالیسی سے خفا ہو جانے والے ایسے نظرانداز کیے گئے جیسے ان کی (ن) لیگ کے لیے خدمات تھی ہی نہیں۔
ایبٹ آباد جیسے (ن) لیگی گڑھ سے (ن) لیگ کی شکست پر سوچنا چاہیے تھا کہ ایسا کیوں ہوا۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) ایک صوبائی نشست بھی جیت نہ سکی تھی یہ شکست لمحہ فکریہ ہونی چاہیے تھی مگر پرواہ تک نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں (ن) لیگ خود کو پنجاب تک محدود کر چکی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کہیں بہتر ہے جس کی پنجاب میں قابل ذکر عوامی نمایندگی ہے۔ اپنے پرانے رہنماؤں کو نظرانداز رکھنا بھی (ن) لیگی ہمدردوں کی مایوسی کا سبب ہے مگر (ن) لیگی قیادت کو اپنوں کے ساتھ اس سلوک کی کوئی فکر نہیں جس کی وجہ سے (ن) لیگ پنجاب تک محدود ہوگئی ہے۔