’’صحابی‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اوریہ’’صحبت‘‘ سے مشتق ہے،صحابی کا مطلب ہے نبی اکرم ﷺ کا صحبت یافتہ،اصطلاح شریعت میں ’’صحابی‘‘سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے، جس نے ایمان کے ساتھ آپ کی مجلس کو پایا، اگرچہ چند لمحات ہی اللہ کے نبیﷺ کے ساتھ گزارے ہوں،پھر ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ اور لقب رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ خاص ہے۔صحابہ کرامؓ اور صحابیات کی مقدس جماعت سے محبت اورنبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے اس کو تسلیم کرناایمان کاحصہ ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مہاجرین اور انصار کا مرتبہ باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ ہے اور مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اہلِ حدیبیہ کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے اور اہلِ حدیبیہ میں اہلِ بدرکا، اور اہلِ بدر میں چاروں خلفائے راشدین کا مرتبہ سب سے زیادہ ہے۔ چاروں خلفائے راشدین میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا، پھر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا مرتبہ سب سے فائق ہے، مولانا محمد جہان یعقوب لکھتے ہیں کہ صحابہ کے حوالے سے درج ذیل عقائد رکھنا ضروری ہیں۔
صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میںہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے۔(الفتح : ۲۹) صحبت رسول ﷺ اگر چہ ایک لحظہ کے لئے ہی کیوں نہ ہو، اس کی فضیلت کے برابرکوئی عمل نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی اس مرتبہ تک کسی چیز کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔امام ا حمد بن حنبل فرماتے ہیں، ادنیٰ صحابی افضل ہے اس صدی کے لوگوں سے، جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو نہیں دیکھا،اگر چہ ان لوگوں نے تمام عمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کی ہو۔(شرح ا صول اعتقادا ہل السنۃ)تمام صحابہ عادل ہیں۔(شرح فقہ الاکبرص۸۶،۸۵) تمام صحابہ معیارِ ایمان ہیں۔ تمام صحابہ جنتی ہیں(الحدید:۱۰)
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے ظاہر و باطن کا تزکیہ کر دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی سچائی کی گواہی دی ہے، ان کے جذبہ ایثار کی تعریف کی ہے۔(سورئہ حشر:) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشاجرات یعنی ان کے باہمی جھگڑوں کا بیان کرنا حرام ہے، جن صحابہ کرام میں باہم کوئی جھگڑا ہوا ہو، ہمیں دونوں فریق سے حسنِ ظن رکھنا اور دونوں کا ادب کرنا لازم ہے۔ان میں باہم رنجش وعداوت بیان کرنا افترا اور بے دینی ،ان میں سے کسی سے بدگمانی رکھنا اور کو برا کہنا قرآن مجید کی صریح مخالفت،شریعتِ الہیہ کی کھلی ہوئی بغاوت ہے۔خلاصہ یہ کہ :صحابہ کرام امت کے امین تھے، امت پر ان کی اقتدا واجب ہے۔(شرح عقائد النسفیۃ ص:۱۶۱) اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نجی چینلز کے بعض اینکرز اور بعض یو ٹیوبرز، مشاجرات صحابہ پر جو گفتگو کرواتے ہیں یہ کس کے ایجنڈے کو پروان چڑھاتے ہیں؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشاجرات یعنی ان کے باہمی جھگڑوں کا چسکے لے لے کر ذکر کرنا اور مختلف الخیال لوگوں کو اسٹوڈیو میں بٹھا کر مشاجرات صحابہ پر رائے طلب کرنا اور صحابہ کرام کی کسی نہ کسی درجے میں توہین تنقید اور تنقیص کے راستے کھول دینا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیا کوئی یوٹیوبر یا نجی چینل کا فسادی اینکر یہ بتا سکتا ہے کہ قبر کے اندر اس سے مشاجرات صحابہ کے حوالے سے سوال کیا جائے گا؟ قبر کا امتحان تو ہر انسان کا اور ہے وہاں کے سوالات اور ہیں ، لیکن اپنی پیٹ پوجا اور دشمن سے لئے ہوئے راتب کو حلال کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کی مقدس ترین جماعت صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؓ کے حوالے سے مسلمانوں میں شکوک و شبہات پھیلانا اور انہیں گستاخیوں کے لئے اکسانا ،اگر یہ دجل اور گمراہی نہیں تو پھر کیا ہے؟ ان دجالی یوٹیوبرز کو قانون کی لگام ڈالنا کس کی ذمہ داری ہے ؟یاد رکھئے صحابہ کرام ؓاور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم تاریخی نہیں بلکہ قرآنی شخصیات ہیں،ان کی عظمت،پاک دامنی اور فضیلت تاریخ کے چیتھڑوں کی بجائے قرآن کے سیپارں میں تلاش کرنا پڑے گی،اور قرآن مجید نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کو کھول کھول کر بیان کیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ’’جو لوگ ایمان لائے اور گھر چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے، اللہ کے ہاں ان کے لئے بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہیں انہیں ان کا رب اپنی طرف سے مہربانی اور رضا مندی اور باغوں کی خوشخبری دیتا ہے ، جن میں انہیں ہمیشہ کا آرام ہوگا، اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یقینی طور پر اللہ کے ہاں ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔‘‘ (پارہ نمبر10سورہ توبہ)
حضرت اقدس مولانا احمد علی لاہوری لکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو رحمت، رضا مندی اور جنت کی مبارکبادیاں مل رہی ہیں، مندرجہ بالا آیات مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چند انعامات سے نوازا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا بڑا درجہ ہے،یہ لوگ کامیاب ہیں دنیا اور آخرت میں،صحابہ کرام پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہے،صحابہ کرام جنتی ہیں، ان انعامات میں صحابہ کرام ؓہمیشہ رہیں گے۔اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لئے اجرعظیم ہے۔سورہ توبہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ترجمہ ’’اور وہ لوگ جو ہیں پہلے ہجرت کرنے والوں اور مدد دینے والوں میں سے اور وہ لوگ جو نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے، ان کے لئے ایسے باغ تیار کئے ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ حضرت مولانا احمد علی لاہوری نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار، بارگاہ الٰہی کی مقبول جماعت ہیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو معیار حق قرار دیا، جس طرح صحابہ کرام سے اللہ تعالیٰ راضی ہے، اسی طرح صحابہ کرام کی جو تابعداری کرے گا اللہ تعالیٰ ان سے بھی راضی ہوگا۔خاتم النبیین محمد کریمﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’جب ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرامؓ پر گالم گلوچ وطعن و تشنیع کرتے ہیں تو تم کہو،اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، تمہاری بری گفتگو پر(ترمذی، مشکوہ شریف) جس بدنسل گروہ پر خاتم النبیین محمد کریمﷺ خود لعنت بھیجیں اس گروہ کی بدنسلی، گمراہی اور بدبختی میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’میری امت میں سب سے بہتر میری جماعت ہے(یعنی صحابہ کرام) پھر وہ لوگ جو ان کے پیچھے آئیں(یعنی تابعین عظام) پھر وہ لوگ جو ان کے پیچھے آئیں (یعنی تبع تابعین) حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو، میرے صحابہ کرام ؓکے بارے میں ان کو میرے بعد اعتراض و طعن کا نشانہ نہ بنایا کیونکہ جس نے ان کے ساتھ محبت کی تو حقیقتاً میرے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے محبت رکھی، جس نے ان کے ساتھ بغض رکھا اور میرے ساتھ بعض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا جس نے ان کو تکلیف پہنچائی، تو گویا اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی، گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی، پس قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو پکڑے گا۔‘‘ (مشکوۃ شریف جلد 2)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالی فرماتے ہیں کے ہاں ان ان کے لئے وہ لوگ جو کا مرتبہ اور اہل اللہ کے کے ساتھ اور وہ ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
مقامِ شہادت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جِدّوجُہد کے لیے دو کلمات آئے ہیں: ایک ’’جہاد‘‘ اور دوسرا ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘۔ جہاد میں عموم ہے اور قتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ کے پاس بعض مجاہدین آئے، آپؐ نے اُن سے فرمایا: خوش آمدید! تمہارا آنا باعثِ خیر ہو، اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف آئے ہو، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! جہادِ اکبر کیا ہے، آپؐ نے فرمایا: بندے کا اپنے نفس کی خواہشاتِ (باطلہ) کے خلاف جِدّوجُہد کرنا‘‘۔ (الدررالمنتثرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ) یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، مگر معناً درست ہے۔ الغرض مومن کی زندگی سعیِ پیہم اور جُہدِ مُسلسل کا نام ہے اور قِتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے، قتال فی سبیل اللہ کی تعریف اس حدیث مبارک میں موجود ہے: ’’ایک شخص نے نبیؐ کے پاس حاضر ہوکرعرض کیا: یارسول اللہ! ایک شخص (ذاتی، قبائلی یا گروہی) حمیّت کی خاطر لڑتا ہے، دوسرادادِ شَجاعت پانے کے لیے لڑتا ہے اور تیسرا شان دکھانے کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے اللہ کی راہ میں کون ہے، آپؐ نے فرمایا: جو اللہ کے کلمے (دین) کے غلبے کے لیے لڑے، تو اللہ کی راہ میں ہے‘‘۔ (بخاری) اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کو اپنے ساتھ بیع وشراء سے تعبیر فرمایا: ’’بے شک اللہ نے مؤمنوں سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے، (یہ وہ لوگ ہیں) جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، پس (کبھی دشمن کو) قتل کرتے ہیں اور (کبھی راہِ خدا میں) مارے جاتے ہیں، یہ تورات، انجیل اور قرآن میں اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور کون ہے، پس تم اس سودے پر خوش ہوجائو جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے‘‘، (التوبہ: 111) پس اللہ کی راہ میں مارے جانے والے کو شہید کہتے ہیں۔ علماء نے بتایا: اُسے شہید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ زبانِ قال کے بجائے زبانِ حال سے شہادت دیتا ہے کہ اُس نے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کردی ہے اور اس کی روح موت کے ساتھ ہی جنت میں پہنچ جاتی ہے۔
اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے میں جو روحانی لذت ہے، اُس کے مقابلے میں جنت کی نعمتیں بھی کم ہیں، حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: (۱) ہر وہ شخص جو جنّت میں داخل ہوگا، وہ (دوبارہ) دنیا میں واپس جانا پسند نہیں کرے گا، خواہ اس کو روئے زمین کی تمام چیزیں مل جائیں، البتہ شہید جب آخرت میں اپنی عزت اور وجاہت دیکھے گا تو صرف وہ یہ تمنا کرے گا کہ وہ پھر دنیا میں جائے اور (یکے بعد دیگرے) دس بار راہِ خدا میں قتل کیا جائے‘‘۔ (بخاری)
رسول اللہ ؐ نے مقامِ شہادت کو عظمت عطا کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں گھر سے نکلا، اس کا گھر سے نکلنا صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے تھا کہ میں اس کو اجرِ کثیر یا مالِ غنیمت کے ساتھ لوٹائوں یا اس کو جنت میں داخل کروں، اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں کسی لشکر سے پیچھے بیٹھا نہ رہتا، میں اس کو ضرور پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل کیا جائوں‘‘۔ (بخاری) یقینا آپؐ کو شہادتِ ظاہری نہیں پانا تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا: ’’اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا‘‘، (المائدہ: 67) لیکن اس کے باوجود آپ ؐ نے بار بار شہادت کی تمنا کرکے اس منصب کو عظمت عطا کی۔
’’رسول اللہؐ نے صحابہ کرام میں کھڑے ہوکر فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال میں افضل ہے، ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! بتلائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، آپؐ نے فرمایا: ہاں! اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کیے جائو درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو، پھر آپ ؐ نے فرمایا: تم نے کیا کہا تھا؟، اس نے عرض کیا: میں نے کہا تھا: اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کی معافی ہوجائے گی، آپؐ نے فرمایا: ہاں! درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو تو قرض کے سوا تمہارے باقی گناہ معاف کردیے جائیں گے، کیونکہ جبریل امین نے مجھے یہ ابھی بتایا ہے‘‘۔ (مسلم)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کے لیے حیاتِ جاودانی کی بشارت دی ہے: (۱) ’’اور جو اللہ کی راہ میں مارا جائے، اُسے مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘، (البقرہ: 154) (۲) ’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، تم انہیں ہرگزمُردہ گمان نہ کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے ربّ کے پاس رزق پاتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 169) جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے، وہ طبّی اور ظاہری اعتبار سے فوت ہوجاتا ہے اور اس پر موت کے احکام جاری ہوتے ہیں، اس کی بیوی بیوہ قرار پاتی ہے، اس کی وراثت تقسیم ہوجاتی ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں مردہ کہنے کی ممانعت فرمائی اور یہ بھی کہ اپنے ذہن میں بھی انہیں مردہ گمان نہ کرو۔ اُن کی حیات بعد الموت کی کیفیت کیا ہے، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ بہتر جانتا ہے، ہم غیر مشروط طور پر اس پر ایمان لانے کے پابند ہیں۔
شہید کا مقام اتنا بلند اس لیے ہے کہ وہ رضا ورغبت سے اپنی سب سے قیمتی متاعِ حیات کو اللہ کی راہ میں قربان کردیتا ہے، مذکورہ احادیثِ مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ وہ جنت کی ابدی اور دائمی نعمتوں کو پاکر بھی تمنائے شہادت کرے گا، جبکہ حدیث مبارک کی شہادت کے مطابق کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں جانے کی تمنا نہیں کرے گا، جبکہ شہید زبانِ حال سے کہتا ہے:
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی بندۂ مومن نے اگر اللہ کی راہ میں جان دی ہے، تو یہ اُسی کی عطا تھی، اپنے پاس سے کیا دیا، ہاں! ایک جان کے بدلے میں سوجانیں قربان کرتا تو یہ اُس کا کمال ہوتا، مگر یہ اُس کے بس کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ امام عالی مقام حسینؓ نے شبِ عاشور اپنے اہلِ بیت اور جاں نثاروں سے فرمایا: ’’جو آج کی رات اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہے تو میں اُسے اجازت دیتا ہوں، کیونکہ قوم میرے خون کی پیاسی ہے، جب وہ مجھے شہید کردیں گے، تو دوسروں سے بے نیاز ہوجائیں گے، آپ نے اپنے چچازادوں بنو عقیل سے کہا: تمہارے حصے کی قربانی مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے دیدی ہے، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں: تم چلے جائو، سب نے یک زبان ہوکر کہا: آپ کے بعد جینا کس کام کا، لوگ کیا کہیں گے: ہم نے اپنے بزرگ، اپنے سردار، اپنے چچازاد کو مشکل وقت میں چھوڑ دیا، ہم نے دنیا کی زندگی کی محبت میں ان کے ساتھ مل کر دشمن پر تیر چلایا، نہ نیزہ گھونپا اور نہ تلوار چلائی، واللہ! ہم ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، بلکہ ہم اپنی جانوں، مالوں اور اہل سمیت اپنا سب کچھ آپ پر قربان کردیں گے اور اُس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک آپ کے انجام کو نہ پہنچیں۔ مسلم بن عوسجہ اسدی اور سعید بن عبداللہ حنفی نے کہا: واللہ! ہم آپ کو مشکل وقت میں ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے حتیٰ کہ اللہ دیکھ لے کہ ہم نے رسول اللہ ؐ کے غیاب میں اپنی بساط کے مطابق آپ کی حفاظت کی، واللہ! یہ تو ایک جان ہے، اگر ہمیں ہزار جانیں بھی ملیں تو ہم ایک ایک کر کے سب آپ پر قربان کردیں گے۔ ہم تب تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم اپنا سب کچھ آپ پر قربان نہ کردیں اور جب ہم شہید کردیے جائیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے حق ادا کردیا۔