اسلام ٹائمز: ساوتھ افریقہ کے لوگوں نے اپنے سینے کے زور پر آزادی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا، انکے ملک پر انہی سفید فام قوتوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ یہ تو نیلسن منڈیلا کی زبردست پالیسی تھی کہ انہوں نے سب کو معاف کر دیا اور سفید فام لوگوں کو ساوتھ افریقہ میں احترام سے رہنے کی اجازت دی۔ ابھی روئٹر پر ایک ساوتھ افریقن شہری کا انٹرویو سن رہا تھا، اس نے کہا: ساوتھ افریقہ ہمارا ملک ہے اور ہمیں کسی قسم کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم امریکہ کو وضاحتیں دیتے پھریں۔ یہ ایک آزادی پسند اور قومی غیرت کے حامل نوجوان کا خوبصورت اظہار رائے ہے۔ آزادی قومیں اسی طرح ردعمل دیتی ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

جب سے امریکہ میں دوبارہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے ہیں، امریکی برتری کا احساس دلانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ وہ امریکہ ہی کے قائم کردہ بین الاقوامی سفارتی، سیاسی اور اقتصادی نظام کی چولیں ہلا رہے ہیں۔ وہ بار بار سفارتی نزاکتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکی عوام کے سامنے اپنے طاقتور ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔ امریکہ کی خاطر اپنا ملک تباہ برباد کروانے والے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی سے جس کام کا آغاز ہوا تھا، اب بڑی سازش کے ساتھ ساوتھ افریقہ کے صدر رامافوسا کو گھیرا گیا۔ ساوتھ افریقہ کے صدر کو گھیرنے کی ایک جنوئن وجہ موجود تھی کہ انہوں نے اسرائیل کو فلسطین میں نسل کشی کا ذمے دار قرار دینے کی پہلی درخواست دائر کی تھی اور اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں رسوا کیا تھا۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے، امریکہ اپنے قاتلوں کو معاف کرسکتا ہے اور اپنے خلاف رائے رکھنے والوں کو آزادی اظہار کی سپیس دے سکتا ہے، مگر صیہونی ریاست کے خلاف بولنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔

امریکہ اور ساوتھ افریقہ کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے۔ امریکہ نے 59 سفید فام جنوبی افریقیوں کو ایک ہفتہ پہلے ہی پناہ دی ہے۔ ساوتھ افریقہ کے صدر رامافوسا اس ارادے سے وائٹ ہاوس پہنچے تھے کہ اس سے پہلے کہ تعلقات میں خرابی پیدا ہو، امریکی صدر سے براہ راست بات کر لی جائے۔ اس کے برعکس ہوا، ٹرمپ نے رامافوسا کو لائیو نیوز کانفرنس کے دوران اس وقت چونکا دیا، جب اس نے جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کی نسل کشی کا الزام لگا دیا۔ ٹرمپ نے ایک ویڈیو چلائی، جس میں اس نے سڑک کے کنارے پر ہزاروں صلیبیں دکھائیں، جن کے قریب مظاہرہ کیا جا رہا تھا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ دراصل ہلاک کیے گئے سفید فاموں کی آخری آرام گاہیں ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ یہ جنوبی افریقہ میں کس جگہ فلمائی گئی، مگر یہ اس نسل کشی میں مارے گئے لوگوں کی قبریں ہیں۔

آپ اندازہ لگائیں کہ دنیا کی سب سے بڑی پاور ہونے کی دعویدار ریاست کا سب سے طاقتور آدمی اتنے بڑے پیمانے پر گمراہ کن پروپیگنڈا کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صلیبیں دراصل قبریں نہیں بلکہ ایک احتجاج کا حصہ تھیں، جس میں ہلاک ہونے والے کسانوں کے ورثاء اور دیگر تنظیموں کی جانب سے مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ ساوتھ افریقہ کے صدر پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے، گالفرز ایرنی ایلس، ریٹیف گوسن اور جنوبی افریقہ کے امیر ترین شخص جوہان روپرٹ جو سب کے سب سفید فام ہیں، ساتھ لائے تھے۔ ساوتھ افریقہ کے صدر رامافوسا نے کہا کہ اگر وہاں نسل کشی ہوتی تو یہ تینوں افراد آج یہاں نہ ہوتے۔ ٹرمپ نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ آپ انھیں زمین خریدنے کی اجازت دیتے ہیں اور جب وہ زمین خریدتے ہیں تو سفید فام کسانوں کو ہلاک کرتے ہیں۔؟

رامافوسا نے جواب دیا: ایسا نہیں ہے، ہمارے ملک میں جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ جو لوگ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں، وہ صرف سفید فام نہیں، ان کی اکثریت سیاہ فاموں کی ہوتی ہے۔ ٹرمپ نے صلیبوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسان سیاہ فام نہیں۔ امریکی صدر ساوتھ افریقہ کے صدر کو ٹریپ کر رہے تھے، جب بات یہاں پہنچی تو رامافوسا نے مسکراتے ہوئے کہا: میں معذرت خواہ ہوں، آپ کو جہاز تحفے میں نہیں دے سکتا۔ اس جملے کے سنتے ہی کمرے میں موجود سارے لوگ بلند آواز سے ہنسنے لگے۔ اس طرح رامافوسا بات کو پھیرنے میں کامیاب رہے۔ افریقی صدر رامافوسا کا یہ جملہ "میں معذرت خواہ ہوں، آپ کو جہاز تحفے میں نہیں دے سکتا" تاریخی جملہ ہے، اس کی گونج ملکوں کے تعلقات میں کافی عرصے تک رہے گی۔ یہ دراصل سفارتی رشوت اور اپنی دولت کے زور پر کامیابی کو خریدنے والی بات ہے۔

ملکوں اور قوموں کے تعلقات میں مفادات اہم ترین پہلو ضرور ہے، مگر سب کچھ نہیں ہے۔ جب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ مہنگے ترین تحفے دے کر دراصل خوشامد کی تمام حدود پار کی جا رہی ہیں۔ عرب ممالک نے ایک دوسرے سے زیادہ چاپلوسی کی دوڑ میں تعلقات مستحکم نہیں کیے، بلکہ دنیا کی اقوام میں اپنا یہ تاثر بنایا ہے کہ ہم پیسے کے ذریعے سب کچھ کرتے ہیں۔ یاد رکھیں، اقوام باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات رکھتی ہیں اور آگے بڑھاتی ہیں۔ کسی وقتی مفاد میں تو پیسے کا بے تحاشہ استعمال کام آسکتا ہو، مگر بہرحال دنیا اسے قبول نہیں کرتی۔ صحافی اویس حمید نے خوبصورت تجزیہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: یہ طنز دنیا میں رائج قبیح نظام کا مرثیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ صدر ٹرمپ کو جہاز تحفے میں دے پاتے تو ٹرمپ کی زبان بند رہتی، جیسے سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے حالیہ دورے پر بند رہی۔ نہ ان ملکوں میں جمہوریت ہے، نہ شخصی آزادیاں اور انسانی حقوق کا ریکارڈ بھی قابلِ رشک نہیں۔

یہ ممالک آمرانہ بادشاہت کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ ان میں "آزاد دنیا" کی ہر وہ خرابی موجود ہے، جن کی بنیاد پر شمالی کوریا کو پابندیوں کے شکنجے میں جکڑا گیا۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے نہ وہاں جمہوریت کی بات کی، نہ انسانی حقوق کی۔ یمن میں سعودی عرب اور سوڈان میں یو اے ای کے تباہ کن کردار سے ہزاروں افراد شہید ہوچکے، لیکن یہ تمام داغ کھربوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نے دھو ڈالے۔ ساوتھ افریقہ کے لوگوں نے اپنے سینے کے زور پر آزادی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا، ان کے ملک پر انہی سفید فام قوتوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ یہ تو نیلسن منڈیلا کی زبردست پالیسی تھی کہ انہوں نے سب کو معاف کر دیا اور سفید فام لوگوں کو ساوتھ افریقہ میں احترام سے رہنے کی اجازت دی۔ ابھی روئٹر پر ایک ساوتھ افریقن شہری کا انٹرویو سن رہا تھا، اس نے کہا: ساوتھ افریقہ ہمارا ملک ہے اور ہمیں کسی قسم کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم امریکہ کو وضاحتیں دیتے پھریں۔ یہ ایک آزادی پسند اور قومی غیرت کے حامل نوجوان کا خوبصورت اظہار رائے ہے۔ آزادی قومیں اسی طرح ردعمل دیتی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کو جہاز تحفے میں صدر رامافوسا افریقہ میں سفید فام دے سکتا رہا تھا نہیں ہے سکتا ہے ملک پر

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ نے 175 ارب ڈالرز کے ‘گولڈن ڈوم’ دفاعی منصوبے کا اعلان کردیا، یہ منصوبہ مختلف کیوں ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ‘گولڈن ڈوم’ نامی نئے دفاعی منصوبے کا افتتاح کردیا ہے جو یزائلوں پر مبنی نظام پر مشتمل ہے۔

اس منصوبے کی لاگت تقریباً 175 ارب ڈالر بتائی گئی ہے اور اس کا مقصد امریکی سرزمین کو خلا میں مصنوعی سیاروں کے ذریعے میزائل حملوں سے محفوظ بنانا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ نظام چین اور روس جیسے ممالک سے ممکنہ خطرات کے خلاف مددگار ثابت ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے: آپریشن ’بنیان مرصوص‘ میں شاہین میزائل استعمال نہیں کیا گیا، پاکستان نے بھارتی دعوؤں کو مسترد کردیا

ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ انہوں نے اس نظام کے لیے ایک ڈیزائن منتخب کیا ہے اور اسپیس فورس کے جنرل مائیکل گیوٹلین، کو اس منصوبے کی قیادت سونپی ہے۔ صدر کا کہنا تھا کہ یہ تقریباً 175 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے اور اسے مکمل کرنے میں کئی سال لگیں گے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ کینیڈا نے اس نظام میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گولڈن ڈوم کا تصور اسرائیل کے ‘آئرن ڈوم’ دفاعی نظام سے متاثر ہے، مگر یہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہوگا۔ اس نظام میں 100 سے زائد مصنوعی سیارے شامل ہوں گے جس کے تحت دشمن ملک سے آنے والے میزائل کی نگرانی، ٹریکنگ اور نشانہ بنانے کے لیے ایک جدید نیٹ ورک تیار کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: امریکی اسلحہ بلوچستان میں استعمال ہورہا ہے، دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز

صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کو سیاسی مخالفین کی طرف سے تنقید اور فنڈنگ کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے، خاص طور پر اس میں ٹرمپ کے دیرینہ ساتھی ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کی شرکت پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔

یہ منصوبہ امریکہ کی فوجی حکمت عملی میں ایک اہم سنگ میل سمجھا جا رہا ہے، اور اس کا مقصد امریکا کو ممکنہ میزائل حملوں سے محفوظ بنانا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا دفاعی منصوبہ ڈونلڈ ٹرمپ گولڈن ڈوم میزائل

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ کی جنوبی افریقہ کے صدر سے ملاقات کے دوران تناو
  • شامی جوڑے کے ہاں بیٹے کی پیدائش، بچے نام ’ٹرمپ‘ رکھ دیا
  • میزائل ڈیفنس شیلڈگولڈن ڈومکے منصوبے کی نئی تفصیلات کا اعلان
  • ہم جلد پاکستان کے ساتھ ایک بڑا تجارتی معاہدہ کرنے جارہے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کی جنوبی افریقی صدر سے ملاقات، نسل کشی کا الزام لگا دیا
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں نے کرائی: ٹرمپ نے اپنا دعویٰ دہرا دیا
  • پاکستان کے لوگ بہترین اور رہنما عظیم ہیں، ٹرمپ
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے 175 ارب ڈالرز کے ‘گولڈن ڈوم’ دفاعی منصوبے کا اعلان کردیا، یہ منصوبہ مختلف کیوں ہے؟
  • پیوٹن نے خاتون اول میلانیا ٹرمپ کو بے حد سراہا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ