پی آئی اے کی نجکاری،اس بار کم سے کم بولی کیا ہوگی؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کی کوششوں میں متعدد رکاوٹیں اور ناکامیاں سامنے آئیں، تاہم حالیہ پیشرفت سے عمل میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی علاقہ جات کے لیے پی آئی اے کی پروازویں منسوخ، مسافروں کو پریشانی کا سامنا
پی آئی اے کی نجکاری کے لئے سرمایہ کاروں کو درخواست 3 جون تک نجکاری کمیشن کو ارسال کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کی دوسری بار کوششیں تیز کردی گئیں ہیں اس حوالے سے سرمایہ کاروں کو بریفنگ بھی دی جا چکی ہے۔
اس بار الگ کیا ہے؟ذرائع نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ مقررہ تاریخ کو نامزد بڈرز یا خریدار جو پی آئی اے کو خریدنے کے قابل ہوں گے وہ اپنی دستاویزات جمع کرائیں گے، یہ وہ لوگ یا کمپنیاں ہوں گی جو پی آئی اے خریدنے کے قابل ہوں، جن کے پاس اتنا سرمایہ ہو کہ وہ پی آئی اے خرید سکیں، ایسا نہیں کہ ہر کوئی اس بولی میں حصہ لے سکے۔
ذرائع کے مطابق اس کے بعد خریدار کمپنیوں کو وہ دستاویزات فراہم کی جائیں گی جس میں پی آئی اے کے اثاثہ جات کی تمام تفصیلات ہوں گی، جس کے بعد پی آئی اے کی قیمت لگائی جائے گی اور اس قیمت لگانے کے لیے الگ دن مختص کیا جائے گا جس کو کہا جاتا ہے ٹینڈر اوپننگ ڈیٹ۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے کی پرواز پر سگریٹ پینے سے روکنے پر مسافر کا ایئرہوسٹس پر حملہ، ملزم گرفتار
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بار مختلف یہ ہے کہ پی آئی اے کو منافع بخش ادارے کے طور پر ظاہر کیا گیا، اس منافع کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ کم و بیش 4 ارب روپے کا منافع ظاہر کیا گیا ہے، جو پی آئی اے کے اثاثوں سے ہٹ کر ہے، وہ اس لیے کہ پی آئی اے کے بہت سارے قرضے ہولڈنگ کمپنیوں پر ڈال دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے پی آئی اے کو آپریشنل منافع میں ظاہر کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے قیمت بڑھ گئی ہے اور اگر پچھلی بار ریزرو پرائز 85 ارب تھی تو اس بار 100 ارب سے زیادہ ہوگی۔
پہلی بولی کی ناکامیاکتوبر 2024 میں حکومت پاکستان نے PIA کے 60 فیصد حصص کی فروخت کے لیے نجکاری کا عمل شروع کیا، جس میں صرف ایک بولی موصول ہوئی۔ ریئل اسٹیٹ کمپنی ’بلو ورلڈ سٹی‘ نے 10 ارب روپے کی پیشکش کی، جو حکومت کی مقرر کردہ کم از کم قیمت 85 ارب روپے سے کہیں کم تھی۔ اس پیشکش کو مسترد کر دیا گیا، اور نجکاری کا عمل روک دیا گیا۔
2024 میں پی آئی اے نے 21 سال بعد پہلی بار 26.
دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کے لیے 3 جون 2025 تک کی آخری تاریخ مقرر کی گئی۔
یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA) نے نومبر 2024 میں پی آئی اے پر عائد پابندی ختم کر دی، جس سے یورپی پروازوں کی بحالی ممکن ہوئی، اس پیشرفت سے پی آئی اے کی ساکھ میں بہتری آئی اور نجکاری کے عمل میں مدد ملی۔
نئی بولیوں کی امیدحکومت کو توقع ہے کہ مالیاتی بہتری اور بین الاقوامی پروازوں کی بحالی کے بعد پی آئی اے کے لیے بہتر اور مسابقتی بولیاں موصول ہوں گی، نجکاری کا عمل سال 2025 کے اختتام تک مکمل کرنے کا منصوبہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بولی پی آئی اے نجکاری یورپی پروازیںذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بولی پی ا ئی اے نجکاری یورپی پروازیں نجکاری کا عمل کی نجکاری پی ا ئی اے پی آئی اے ارب روپے ئی اے کے ئی اے کی کے بعد کے لیے
پڑھیں:
کیا پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملانے پر بھارتی ٹیم کو سزا ہوگی، قوانین کیا کہتے ہیں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دبئی: اتوار کو دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایشیا کپ کا اہم میچ کھیلا گیا، جس میں بھارت نے 7 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ تاہم، بھارتی ٹیم کے رویے نے اسپورٹس مین اسپرٹ کے اصولوں کو نظر انداز کر دیا۔
میچ سے قبل ٹاس کے موقع پر بھارتی کپتان سوریا کمار یادو نے پاکستانی کپتان سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا، جبکہ میچ کے اختتام پر بھارتی کھلاڑیوں نے روایت کے برعکس پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے کے بجائے سیدھا ڈریسنگ روم کا رخ کیا۔
واقعہ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چند روز قبل اسی اسٹیڈیم میں بھارتی کپتان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی سے مصافحہ کیا تھا، جس پر بھارت میں انہیں شدید تنقید اور سوشل میڈیا ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دباؤ کے تحت سوریا کمار نے ٹاس کے دوران ہاتھ ملانے سے اجتناب کیا۔
میچ کے بعد پاکستانی کپتان سلمان علی آغا اور کوچ مائیک ہیسن بھارتی کیمپ تک گئے مگر کوئی بھارتی کھلاڑی باہر نہ آیا۔ اس رویے پر بھارتی ٹیم کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور شائقین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ “اسپرٹ آف کرکٹ” کی خلاف ورزی ہے اور اس پر سزا دی جا سکتی ہے؟
بھارتی میڈیا کے مطابق، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے قوانین میں “اسپرٹ آف کرکٹ” شامل ہے جس کے تحت مخالف ٹیم کی کامیابی پر مبارکباد دینا اور میچ کے اختتام پر امپائروں اور کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔
آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل 2.1.1 کے مطابق ایسا رویہ جو “اسپرٹ آف گیم” کے خلاف ہو، لیول 1 کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ آئی سی سی نے تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، تاہم بھارتی کھلاڑیوں کا ہاتھ نہ ملانا اصولی طور پر خلاف ورزی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایسی صورت میں آئی سی سی کپتان پر جرمانہ عائد کر سکتی ہے، البتہ عام طور پر اس نوعیت کی سزائیں زیادہ سنگین نہیں ہوتیں۔