وکلا کے مسائل کا حل لاہور ہائیکورٹ کی اولین ترجیح ہے، مس عالیہ نیلم
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور دیگر عہداروں سے ملاقات میں چیف جسٹس نے یقین دہانی کرائی کہ صوبے کے عوام کو جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں، بروقت اور معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے بار اور بنچ کے مابین قریبی اور مؤثر تعاون ناگزیر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہا ہے کہ بار ایسوسی ایشنز اور وکلا کے مسائل کا حل لاہور ہائی کورٹ کی اولین ترجیح ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم سے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک آصف احمد نسوانہ نے ملاقات کی۔
ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے صدر محمد اظہر خان مغل، لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر مبشر رحمان، ضلعی بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے صدر سردار منظر بشیر خان، ضلعی بار ایسوسی ایشن بہاولپور کے صدر ملک محمد عامر اور ضلعی بار ایسوسی ایشن ملتان کے صدر جاوید علی ڈوگر بھی ملاقات میں شامل تھے۔
ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، اس موقع پر رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ امجد اقبال رانجھا بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے یقین دہانی کرائی کہ صوبے کے عوام کو جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں، بروقت اور معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے بار اور بنچ کے مابین قریبی اور مؤثر تعاون ناگزیر ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے بار ایسوسی ایشن لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم چیف جسٹس کے صدر
پڑھیں:
ججز ٹرانسفرز کیس: ججز کا تبادلہ صدر مملکت کا آئینی اختیار ہے، جسٹس محمد علی مظہر
سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ ججز ٹرانسفرز کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں ججز سے ٹرانسفر پر رضامندی نہیں پوچھی جاتی، انڈیا میں اس لیے ججز سنیارٹی کیساتھ ٹرانسفر ہوتا ہے۔
انہوں نے دلائل دیے کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے ججز کی تقرری لازمی ہے، صدر پاکستان کے لیے جج کا تبادلہ کرنا لازمی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے جواب جمع
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کے پاس تبادلے کا آئینی اختیار ہے، صدر مملکت کو تبادلے کے لیے کوئی کیسے انفورس کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ دلائل ججز کے ٹرانسفر تک محدود رکھیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے دلائل کے آغاز میں کہا تھا کہ ججز ٹرانسفر پر صدر کے اختیار کو نفی نہیں کرتے۔
دوران سماعت جسٹس صلاح الدین پنور نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنا تھا دلائل میں سنیارٹی کے ایشو کو فوکس کروں گا۔
جس فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرا نقطہ جج کا تبادلہ ٹائم باؤنڈ ہے، فیڈرل شریعت کورٹ میں ہائیکورٹس سے ججز تعینات ہوتے ہیں۔ان ججز کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تعیناتی کا تبادلہ کے ایشو سے کیا تعلق ہے؟ ہائیکورٹ سے جج کی شریعت کورٹ میں تعیناتی کا درجہ اوپر ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں جج کا تبادلے کا اسٹیٹس برابر ہوتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ جسٹس آصف ایڈیںشنل جج تھے، ایڈیشنل جج کی تبادلہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کیسے تقرری ہو سکتی ہے؟ کیا جوڈیشل کمیشن جسٹس آصف کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارکردگی کی بنا پر مستقل کرنے کا فیصلہ کرے گا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے تو جسٹس آصف کی بلوچستان ہائیکورٹ میں بطور ایڈیںشنل جج کارکردگی کا دیکھنا ہوگا۔ چیف جسٹس کی ٹرانسفر نہیں ہو سکتی لیکن قائم مقام چیف جسٹس کی ٹرانسفر ہو سکتی ہے۔
انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں الجہاد کیس کا حوالہ دیا تھا۔
جس پر جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ منیر صاحب نے تو اس پوائنٹ کا پورا آپریشن کیا تھا۔ جب کہ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ نے ٹائم باؤنڈ کی بات کی کوئی وجہ تو دیں کہ کیوں ٹائم باؤنڈ ہوتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی کا جواب تھا کہ میں آپ کو وجوہات بیان کروں گا کہ ٹائم باؤنڈ کیوں ضروری ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا بھارت میں بھی ٹائم باؤنڈ کا کونسیپٹ ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا آرٹیکل 200 اور انکا بھی آرٹیکل ہے کہیں ٹائم باؤنڈ کے حوالے سے نہیں لکھا۔
جس پر فیصل صدیقی کا جواب تھا کہ ججز کی مستقل ٹرانسفر نہیں ہو سکتی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کہتے ہیں ان ججز کی ٹرانسفر ٹائم باؤنڈ نہیں ہے، فرض کریں اگر انہی ججز کو دوبارہ سے ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو ان کی پھر وہاں پر کیا سنیارٹی ہوگی؟
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جب ججز دوبارہ سے اپنی ہائیکورٹ میں جائیں گے تو پھر یہ سنیارٹی کا مسئلہ ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں ٹرانسفر ججز کی سنیارٹی طے ہے، ہمارے پاس مسئلہ ہے۔ اس پر جسٹس شکیل احمد نے اضافہ کیا کہ بھارت میں سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ انڈیا میں ٹرانسفر ججز حلف لیتے ہیں، آپ کا جو پوائنٹ ہے کہ یہاں پر حلف نہیں لیا جاتا تو یہ کہیں پر نہیں لکھا۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ شریعت کورٹ اور ہائیکورٹ میں جب قائمقام چیف جسٹس بنتے ہیں تو حلف لیا جاتا ہے۔ ٹرانسفر جج کے واپس جانے پر ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ دوبارہ سے ان کی سنیارٹی نیچے سے شروع ہوں۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جج ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ قائمقام جج کے طور پر آتا ہے تو ہائیکورٹ میں اس کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، اس طرح ہائیکورٹ سے ٹرانسفر جج واپس پرنسپل سیٹ پر جائے گا تو سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔
فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ٹرانسفر جج کے دوبارہ سے حلف لینے سے پرانی والی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، اگر جج جہاں پر ٹرانسفر ہوا ہے تو وہاں کا حلف لینے سے فرق نہیں پڑتا۔
بعد ازاں ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔ کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ججز ٹرانسفر کیس جسٹس شکیل احمد جسٹس صلاح الدین پنور جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ صدر مملکت وکیل فیصل صدیقی