Express News:
2025-07-09@19:32:00 GMT

ٹرمپ اور عرب ممالک کا دورہ :کامیابی یا شکست

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں عرب ممالک بشمول سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے کیے۔ اس دورے کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق بات کرنے سے قبل ٹرمپ کے اس دورہ کے چیدہ چیدہ مقاصد کو سمجھنا ہوگا۔

1۔ ٹرمپ کا حالیہ عرب ممالک کے دورے کا پہلا مقصد امریکا کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا تھا تاکہ امریکا میں بڑھتی ہوئے بے روزگاری کی شرح کو بھی کم کیا جاسکے اور امریکی شہریوں کے غم و غصہ کوکم کیا جائے۔ اس عنوان سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے تین عرب ممالک کے ساتھ لگ بھگ ساڑھے تین کھرب ڈالر کے معاہدے کیے جو یہ عرب ممالک امریکا میں سرمایہ کاری کریں گے۔

2۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ عرب ممالک میں روس اور چین سمیت ایران کے اثر و نفوذ کے سامنے بند باندھا جائے، یہ بات خود ٹرمپ کی تقریروں میں واضح طور پر جھلک رہی تھی۔ اس عنوان سے انھوں نے ایران کو بھی ہمیشہ کی طرح اپنے بے بنیادی الزامات سے نوازا۔

3۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا تیسرا مقصد غزہ کے منصوبہ پر عمل کرنا تھا، امریکا غزہ کو خالی کرنا چاہتا ہے، تاہم عرب ممالک کی حکومتوں کو یہ سمجھانا تھا کہ غزہ کے معاملے پر امریکی حکومت کا ساتھ دیں۔4۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا چوتھا مقصد ابراہیمی معاہدے کو آگے بڑھانا تھا کہ جس میں عرب ممالک کی حکومتوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی ہے۔

اس بات کا اظہار بھی امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کیا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ 5۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا پانچواں مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت 2001 سے نیا مشرق وسطیٰ بنانے کے جس خواب کی تکمیل میں ناکام رہی ہے اس کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔

یعنی شام کے عبوری صدر احمد الشرع جولانی کو بھی خصوصی طور پر بلایا گیا اور ٹرمپ نے جولانی کو بغلگیرکیا۔ بعد ازاں ایک تصویر جاری کی گئی جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ اب مشرق وسطیٰ امریکا کا نئے مشرق وسطیٰ بن چکا ہے، یعنی اس کام کے لیے امریکا نے 25 سال کا عرصہ لگایا، کھربوں ڈالر خرچ کیے، کئی حکومتوں کو گرایا۔

افغانستان، عراق، پاکستان، فلسطین اور لبنان و شام میں لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا، یعنی لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ آخر میں ایک ایسے شخص کے ساتھ تصویر بنوائی جسے کل تک امریکی حکومت خود دہشت گرد قرار دیتی رہی اور اس کے سر پر دس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا۔

یہ یقینی طور پر امریکی سیاست اور امریکی صدر کی کھلی ہوئی شکست کا اعتراف ہے۔ امریکا واضح طور پر نیا مشرق وسطیٰ بنانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ شام کے جولانی سے بھی امریکی صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس کا جواب ہاں میں دیا گیا ہے۔

بہرحال درج بالا مقاصد کو اگر دیکھا جائے تو امریکی صدر صرف اور صرف عرب حکومتوں سے کھربوں ڈالر ہی لینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور شاید کسی حد تک وہ اسرائیل کے لیے نرم گوشہ قائم کر لیں۔ باقی تمام مقاصد میں امریکی حکومت کی واضح شکست نظر آ رہی ہے وہ غزہ کو خالی کروانا چاہتی ہے اور حماس کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلح کرنے کا اعلان کر رہی ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے بر خلاف ہیں۔

غزہ میں کوئی بھی امریکی منصوبوں کا حامی نہیں ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ جس وقت سعودی عرب میں اسرائیل کے لیے سعودی عرب اور ترکیہ سمیت شام کے ساتھ بات کر رہے تھے عین اسی وقت ٹرمپ کے سر کے اوپر سے یمن کی مسلح افواج کے میزائل گزر کر تل ابیب کے بن گوریون ایئر پورٹ کو نشانہ بنا رہے تھے۔

یہ واضح طور پر پیغام تھاکہ یمن فلسطین کے ساتھ ہے اور اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کو نہیں روکا جائے گا۔ امریکی صدر کے اس دورے سے متعلق امریکا میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا یہ دورہ اسلحے کی تجارت ہے، جو ٹرمپ نے عرب حکومتوں کے ساتھ انجام دی ہے۔

اس تجارت کا مقصد دراصل عرب حکومتوں کو ڈرا کر رکھنا ہے ۔ یہاں امریکا نہ تو جمہوریت کی بات کرے گا اور نہ ہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھائے گا، کیونکہ امریکی حکومت نیتمام حکومتوں کو بتا دیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ساتھ مل کر امریکی حکومت نے ہزاروں بے گناہوں کو قتل کیا ہے لیکن پھر بھی امریکی حکومت نے بتایا ہے کہ دہشت گرد فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ خود کو امن کا علمبردار بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ دنیا میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ دورہ صرف اس حد تک تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب حکومتوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ امریکی صدر کے اقدامات سے واضح طور پر امریکی حکومت اور امریکی سیاست کی کمزوری جھلک رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی حکومت عرب حکومتوں واضح طور پر بھی امریکی امریکی صدر حکومتوں کو اسرائیل کے کے ساتھ کو بھی تھا کہ

پڑھیں:

امریکی صدر کاایران سے پابندیاں ہٹانے کاعندیہ ،بڑااعلان کردیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی میزبانی کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک اہم ملاقات میں اعلان کیا ہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ مذاکرات طے کر لیے ہیں اور کسی مناسب وقت پر ایران پر عائد پابندیاں بھی اٹھائی جا سکتی ہیں۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے غزہ کے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے اسرائیلی منصوبے میں پیش رفت کا عندیہ بھی دیا، جس نے خطے میں ایک نئے بحران کے خدشات کو جنم دے دیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس میں امریکی و اسرائیلی حکام کے درمیان ہونے والے عشائیے کے دوران نیتن یاہو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکا اور اسرائیل مل کر ان ممالک سے بات چیت کر رہے ہیں جو مبینہ طور پر فلسطینیوں کو ”بہتر مستقبل“ دینا چاہتے ہیں۔ ان کا واضح اشارہ غزہ کے رہائشیوں کو ہمسایہ عرب ممالک میں منتقل کرنے کے منصوبے کی طرف تھا۔

نیتن یاہو نے کہا، ’اگر فلسطینی یہاں (غزہ) رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں، لیکن اگر وہ جانا چاہیں تو انہیں جانے دیا جانا چاہیے۔ ہم امریکا کے ساتھ قریبی تعاون میں ہیں تاکہ ایسے ممالک تلاش کیے جا سکیں جو فلسطینیوں کو مستقبل دینے کی بات کرتے رہے ہیں، اور ہم ایسے کئی ممالک کے قریب پہنچ چکے ہیں۔“

ابتدائی طور پر امریکی صدر ٹرمپ نے ان بیانات پر خاموشی اختیار کی، تاہم بعد ازاں کہا کہ اردگرد کے ممالک اس منصوبے میں تعاون کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا، ’ہمیں خطے کے تمام ممالک سے شاندار تعاون حاصل ہوا ہے، ہر کسی نے مثبت کردار ادا کیا ہے، لہٰذا کچھ بڑا اور اچھا ہونے والا ہے۔‘

یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب غزہ پہلے ہی اسرائیلی بمباری سے تباہ حال ہے اور لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ نیتن یاہو کے اس بیان نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے کہ اسرائیل، امریکا کی حمایت سے فلسطینیوں کی ایک اور جبری نقل مکانی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے — جو تاریخ میں ”نکبہ دوم“ (Second Nakba) کے طور پر یاد رکھی جا سکتی ہے۔

ایران کے ساتھ مذاکرات اور پابندیاں اٹھانے کا اعلان اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکا اسرائیل کو فلسطینی بے دخلی میں حمایت دے کر ایران کے معاملے پر رعایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ٹرمپ کی اسرائیل سے بھی نوبیل انعام نامزدگی، پاک بھارت جنگ بندی پر اپنے دعوے دہرا دئے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک اہم عشایئے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو سے ملاقات کی، جس میں انہوں نے کئی اہم عالمی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے بڑے انکشافات اور دعوے کیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنا دعویٰ دہرایا کہ ’میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ نیوکلیئر جنگ کو روکا۔ دونوں ممالک ایٹمی تصادم کے دہانے پر تھے، لیکن میں انہیں تجارت اور مذاکرات کی راہ پر واپس لایا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پاک بھارت کشیدگی کو ہم نے سفارتی حکمت عملی اور تجارتی تعاون سے کم کیا۔‘

عالمی سطح پر ایک اور دعویٰ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ’ایران کی ایٹمی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔ اب ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے اور ہمیں امید ہے کہ ایران پر مزید کسی حملے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘

دوسری جانب، یوکرین جنگ کے حوالے سے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ یوکرین کو مزید جنگی ہتھیار فراہم کرے گا تاکہ وہ روسی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع جاری رکھ سکے۔

اس عشایئے میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے باقاعدہ نامزد کیا اور انہیں نامزدگی کا خط پیش کیا۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’صدر ٹرمپ کی قیادت میں مشرق وسطیٰ میں امن کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ ہم فلسطینیوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں ہیں۔‘

پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو نوبیل انعام کیلئے نامزدگی پر وائٹ ہاؤس کا خیرمقدم
دوسری جانب امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیوٹ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نامزدگی صدر ٹرمپ کی فیصلہ کن سفارتی کوششوں کا عالمی سطح پر اعتراف ہے۔

کیرولائن لیوٹ نے کہا کہ پاکستان کا یہ اقدام بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ ایٹمی تصادم کو روکنے کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کا اعتراف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ نے جنوبی افریقہ کے دو دشمن ممالک، روانڈا اور کانگو، کے درمیان ایک تاریخی امن معاہدہ کرایا، جو خطے میں دیرپا استحکام کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔

کیرولائن لیوٹ نے مزید بتایا کہ آج صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے دوبارہ ملاقات کریں گے۔ ملاقات میں مشرق وسطیٰ کی موجودہ کشیدہ صورتحال، ایران کے ساتھ تعلقات، اور فلسطینیوں کے مستقبل سے متعلق اہم نکات زیر غور آئیں گے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت جنگ بندی میں ٹرمپ کا کردار نہ ہونے کے بھارتی دعوے کو امریکا نے جھوٹا قرار دے دیا
  • پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے امریکا نے بھارتی بیانیہ مسترد کردیا
  • غزہ کے معاملے پر امریکی اور مغربی رویے منافقانہ ہیں؛ وزیراعظم ملائیشیا
  • ایلون مسک کی ’امریکا پارٹی‘ ٹرمپ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، ماہرین کا انتباہ
  • مناسب وقت پر ایران پر عائد پابندیاں بھی اٹھائی جا سکتی ہیں‘ایران کے ساتھ مذاکرات طے کر لیے ہیں.ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر کاایران سے پابندیاں ہٹانے کاعندیہ ،بڑااعلان کردیا
  • امریکا نے ہیئت تحریر الشام کو دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا، شام پر پابندیاں بھی ختم
  • ٹرمپ کا 14 ممالک پر بھاری ٹیرف کا اعلان، کون کون سے ممالک زد میں؟
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برکس کو دھمکی دے دی
  • برکس کے حامی ممالک تیار رہیں، 10 فیصد اضافی ٹیکس لاگو ہوگا، صدر ٹرمپ کا انتباہ