ٹرمپ اور عرب ممالک کا دورہ :کامیابی یا شکست
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں عرب ممالک بشمول سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے کیے۔ اس دورے کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق بات کرنے سے قبل ٹرمپ کے اس دورہ کے چیدہ چیدہ مقاصد کو سمجھنا ہوگا۔
1۔ ٹرمپ کا حالیہ عرب ممالک کے دورے کا پہلا مقصد امریکا کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا تھا تاکہ امریکا میں بڑھتی ہوئے بے روزگاری کی شرح کو بھی کم کیا جاسکے اور امریکی شہریوں کے غم و غصہ کوکم کیا جائے۔ اس عنوان سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے تین عرب ممالک کے ساتھ لگ بھگ ساڑھے تین کھرب ڈالر کے معاہدے کیے جو یہ عرب ممالک امریکا میں سرمایہ کاری کریں گے۔
2۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ عرب ممالک میں روس اور چین سمیت ایران کے اثر و نفوذ کے سامنے بند باندھا جائے، یہ بات خود ٹرمپ کی تقریروں میں واضح طور پر جھلک رہی تھی۔ اس عنوان سے انھوں نے ایران کو بھی ہمیشہ کی طرح اپنے بے بنیادی الزامات سے نوازا۔
3۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا تیسرا مقصد غزہ کے منصوبہ پر عمل کرنا تھا، امریکا غزہ کو خالی کرنا چاہتا ہے، تاہم عرب ممالک کی حکومتوں کو یہ سمجھانا تھا کہ غزہ کے معاملے پر امریکی حکومت کا ساتھ دیں۔4۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا چوتھا مقصد ابراہیمی معاہدے کو آگے بڑھانا تھا کہ جس میں عرب ممالک کی حکومتوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی ہے۔
اس بات کا اظہار بھی امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کیا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ 5۔ ٹرمپ کے حالیہ عرب ممالک کے دورے کا پانچواں مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت 2001 سے نیا مشرق وسطیٰ بنانے کے جس خواب کی تکمیل میں ناکام رہی ہے اس کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔
یعنی شام کے عبوری صدر احمد الشرع جولانی کو بھی خصوصی طور پر بلایا گیا اور ٹرمپ نے جولانی کو بغلگیرکیا۔ بعد ازاں ایک تصویر جاری کی گئی جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ اب مشرق وسطیٰ امریکا کا نئے مشرق وسطیٰ بن چکا ہے، یعنی اس کام کے لیے امریکا نے 25 سال کا عرصہ لگایا، کھربوں ڈالر خرچ کیے، کئی حکومتوں کو گرایا۔
افغانستان، عراق، پاکستان، فلسطین اور لبنان و شام میں لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا، یعنی لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ آخر میں ایک ایسے شخص کے ساتھ تصویر بنوائی جسے کل تک امریکی حکومت خود دہشت گرد قرار دیتی رہی اور اس کے سر پر دس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا۔
یہ یقینی طور پر امریکی سیاست اور امریکی صدر کی کھلی ہوئی شکست کا اعتراف ہے۔ امریکا واضح طور پر نیا مشرق وسطیٰ بنانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ شام کے جولانی سے بھی امریکی صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس کا جواب ہاں میں دیا گیا ہے۔
بہرحال درج بالا مقاصد کو اگر دیکھا جائے تو امریکی صدر صرف اور صرف عرب حکومتوں سے کھربوں ڈالر ہی لینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور شاید کسی حد تک وہ اسرائیل کے لیے نرم گوشہ قائم کر لیں۔ باقی تمام مقاصد میں امریکی حکومت کی واضح شکست نظر آ رہی ہے وہ غزہ کو خالی کروانا چاہتی ہے اور حماس کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلح کرنے کا اعلان کر رہی ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے بر خلاف ہیں۔
غزہ میں کوئی بھی امریکی منصوبوں کا حامی نہیں ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ جس وقت سعودی عرب میں اسرائیل کے لیے سعودی عرب اور ترکیہ سمیت شام کے ساتھ بات کر رہے تھے عین اسی وقت ٹرمپ کے سر کے اوپر سے یمن کی مسلح افواج کے میزائل گزر کر تل ابیب کے بن گوریون ایئر پورٹ کو نشانہ بنا رہے تھے۔
یہ واضح طور پر پیغام تھاکہ یمن فلسطین کے ساتھ ہے اور اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کو نہیں روکا جائے گا۔ امریکی صدر کے اس دورے سے متعلق امریکا میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا یہ دورہ اسلحے کی تجارت ہے، جو ٹرمپ نے عرب حکومتوں کے ساتھ انجام دی ہے۔
اس تجارت کا مقصد دراصل عرب حکومتوں کو ڈرا کر رکھنا ہے ۔ یہاں امریکا نہ تو جمہوریت کی بات کرے گا اور نہ ہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھائے گا، کیونکہ امریکی حکومت نیتمام حکومتوں کو بتا دیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ساتھ مل کر امریکی حکومت نے ہزاروں بے گناہوں کو قتل کیا ہے لیکن پھر بھی امریکی حکومت نے بتایا ہے کہ دہشت گرد فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ خود کو امن کا علمبردار بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ دنیا میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ دورہ صرف اس حد تک تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب حکومتوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ امریکی صدر کے اقدامات سے واضح طور پر امریکی حکومت اور امریکی سیاست کی کمزوری جھلک رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی حکومت عرب حکومتوں واضح طور پر بھی امریکی امریکی صدر حکومتوں کو اسرائیل کے کے ساتھ کو بھی تھا کہ
پڑھیں:
چین کا امریکی میزائل دفاعی منصوبے ’گولڈن ڈوم‘ پر شدید تحفظات کا اظہار، عالمی استحکام کے لیے خطرہ قرار
چین نے امریکا کے مجوزہ جدید میزائل دفاعی نظام ’گولڈن ڈوم‘ پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے عالمی توازن اور اسٹریٹجک استحکام کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ نینگ نے کہا ہے کہ واشنگٹن فوری طور پر اس منصوبے کو ترک کرے، کیونکہ اس سے عالمی سلامتی کے بنیادی اصول مجروح ہو رہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق اس منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر 25 ارب ڈالر مختص کیے گئے تھے، جو بعد ازاں بڑھا کر 175 ارب ڈالر کر دیے گئے۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے 175 ارب ڈالرز کے ‘گولڈن ڈوم’ دفاعی منصوبے کا اعلان کردیا، یہ منصوبہ مختلف کیوں ہے؟
ماؤ نینگ نے زور دیا کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر میزائل دفاعی نظام کی دوڑ سے گریز کرے، کیونکہ ایسی پیشرفت نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر دفاعی عدم توازن پیدا کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک حالیہ خطاب کے دوران گولڈن ڈوم منصوبے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سسٹم امریکا کو بیرونی میزائل حملوں سے بچانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ نظام طویل فاصلے کے بیلیسٹک میزائلز کے ساتھ ساتھ خلائی حملوں کو بھی روکنے کی صلاحیت رکھے گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ منصوبہ مکمل طور پر امریکا میں تیار کیا جائے گا اور ان کی صدارت کی دوسری مدت کے اختتام تک فعال کر دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا جدید میزائل دفاعی نظام چین صدر ٹرمپ گولڈن ڈوم ماؤ نینگ