Express News:
2025-05-25@05:06:50 GMT

وٹامن ڈی اور دھوپ

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

’’ اگر آپ اسے دودھ پلانا چاہتی ہیں تو رات کے بجائے دن کی روشنی میں پلائیں وہ زیادہ فائدہ مند رہے گا اس کے لیے۔ ویسے بھی قدرت کی طرف سے بچوں کے لیے سورج کی روشنی بہترین ہے جو ان کی ہڈیوں کو مضبوط بناتی ہے، یہ ایک آٹومیٹک سسٹم ہے کہ جن بچوں کو بچپن سے دودھ بھی نہیں ملتا دیکھیں وہ کتنے طاقتور ہوتے ہیں، غریبوں کے بچے کیا سارے کمزور خدانخواستہ ان کی ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں؟‘‘

بہت سال پہلے ایک سینئر فزیشن کی یہ رائے مستند تھی اور آج کل جب کہ وٹامن ڈی کے حوالے سے بہت کچھ سننے کو مل رہا ہے اس اہم قدرتی نعمت کو انسانی صحت کے لیے کس قدر ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ہر ایک دن نئی نئی ریسرچ نظروں کے سامنے آتی جاتی ہیں جو ہمارے سامنے قدرت کی نعمتوں کو کھول کھول کر بیان کرتی ہیں۔

وٹامن ڈی ایک ایسا ہی اہم عنصر ہے جو بھاگتی دوڑتی زندگی میں انسان کو باور کراتا ہے کہ یہ ہر انسان کے لیے کس قدر ضروری ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس اہم عنصر کو ہم وٹامن ڈی کے نام سے جانتے ہیں اور وٹامن کے حوالے سے ذہن میں وٹامن کی کوئی قسم ہی محسوس ہوتا ہے لیکن یہ وٹامن نہیں بلکہ ایک ہارمون ہے۔

تقریباً سو سال قبل ایک امریکی بائیوکیمسٹ ایلمر میک کولم کی ایک ٹیم جس کی سربراہی ایلمرکر رہا تھا، ایک وٹامن کی دریافت کی، یہ وہ زمانہ تھا جب وٹامن کو انسانی صحت کے حوالے سے سب سے اہم اور شناخت کے کئی دَر کھلنا باقی تھے، لہٰذا اس کو بھی وٹامن ہی شناخت کیا گیا تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ تحقیقات کے عمل نے باورکرایا کہ یہ ایک ہارمون ہے جس کی وجہ اس کی مالیکیولر ساخت ہے۔

وٹامن ڈی انسانی ہڈیوں کو مضبوط رکھنے اور مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی کمی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم میں اس کی مقررہ مقدار یعنی دس مائیکرو گرام سے کم یا بہت کم ہو، ایسا عام طور پرگھر میں رہنے والی خواتین اور خاص کر بڑی عمر کے ان لوگوں میں بھی ہو سکتا ہے جو اپنی غذا پر توجہ نہیں دیتے اور خاص کر دھوپ میں نکلنے سے کتراتے ہیں۔

آج بھی بہت سی خواتین گھر سے باہر نکلنے مثلاً خریداری کرنے یا دیگر کاموں کے لیے شام کا انتخاب کرتی ہیں جو دھوپ کے ڈھلنے کے بعد ٹھنڈا ٹائم کہلاتا ہے لیکن ہم اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ قدرت کی عطا کردہ یہ نعمت چمکتی سنہری دھوپ انسانوں کے لیے کس قدر اہم ہے۔

یہ اہم ہارمون ہمارے جسم میں کیلشیم کو جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہمارے جسم میں کیلشیم اور فاسفیٹ کی مقدار کو برقرار رکھنے میں وٹامن ڈی ہی کام کرتا ہے۔پرانے زمانے میں خواتین بچوں کے جسم پر تیل کی مالش کرکے انھیں دھوپ میں لٹایا کرتی تھیں، اس عمل میں ان کی معلومات کس حد تک تھیں، اس بارے میں کچھ کہنا تو مشکل ہے لیکن تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسانی جسم میں وٹامن ڈی اس وقت بنتا ہے جب جلد پر دھوپ کی روشنی پڑتی ہے۔ 

یہ قدرت کا ایک نایاب تحفہ ہے جو انسان کو کھانے کی صورت میں بھی ملتا ہے لیکن اس کی مقدار براہ راست دھوپ لگوانے کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔اگر ہم دھوپ لگوانے کے عمل کی گہرائی جانچنا چاہتے ہیں تو ذرا ان خواتین و حضرات سے جنھیں ہڈیوں کی کمزوری اور فریکچرز کا زیادہ سامنا رہا ہے جن کے عضلات میں مسائل اور تکالیف درپیش رہی ہیں، وہ دن کی روشنی میں یعنی سورج کی شعاعوں کو کتنا وقت براہ راست اپنی جلد پر لیتے ہیں۔

ہماری اسکن گہری رنگت کی ہے تو ہمیں زیادہ دیر تک دھوپ لینے کی ضرورت ہوتی ہے، بہ نسبت ہلکی رنگت والے لوگوں کے۔ جرمنی میں دھوپ کم ہی ہوتی ہے اور عام طور پر بادل ہی ہوتے ہیں، تو ہمیں پاکستان کی بہ نسبت جرمنی میں ایسی چمک دار دھوپ نہیں ملتی، تو ڈاکٹر ہمیں کہتا ہے کہ آپ کو تو دو تین مہینے پہلے ہی سے وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ لینے شروع کر دینے چاہئیں۔

ایک معروف لکھاری پچھلے دنوں پاکستان آئیں، تو انھوں نے وٹامن ڈی کے حوالے سے مغربی ممالک کے مسائل بیان کیے۔ دنیا کے کچھ ممالک میں بارہ مہینوں میں سے چند ہی مہینے دھوپ پڑتی ہے جس سے انسان کو جسم کے لیے درکار وٹامن ڈی حاصل ہو سکتا ہے۔دراصل گہری رنگت کی وجہ جلد میں میلانن کی زیادہ مقدار ہے جو قدرتی طور پر سن اسکرین کا کام کرتا ہے، تابکاری کے اثرات کو جذب کرنے اور جلد کو نقصان پہنچنے سے بچاتا ہے، جس کی وجہ سے وٹامن ڈی آسانی سے پیدا نہیں ہوتا جب کہ ہلکی رنگت والے لوگوں میں میلانن کی مقدار کم ہوتی ہے اس لیے اگر گہری رنگت والے فرد کو تیس منٹ دھوپ لینا درکار ہے تو ہلکی رنگت والے کو پندرہ منٹ میں ہی وٹامن ڈی کی مقررہ مقدار حاصل ہو جائے گی۔

پرانی ریسرچ کے مطابق سورج کی شعاعوں سے انسانی جلد کا کینسر پیدا ہو سکتا ہے جب کہ آج کی ریسرچ کے مطابق سورج سے وٹامن ڈی حاصل کرنے کا وقت دوپہر کا ہے جو بہترین ہے۔ مانچسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر این ویب نے اپنی تحقیقات میں بتایا کہ اس طرح کینسرکا خطرہ بھی کم ہوتا ہے، البتہ تیز دھوپ پڑنے والے ممالک پر یہ بات لاگو نہیں ہوتی۔

دھوپ میں اپنے آپ کو بلاوجہ جھلسانا تو یقینا حماقت ہے لیکن چمکتی سنہری دھوپ انسان کے لیے صحت ، اپنی ہڈیوں کو مضبوط اور عضلات کو متحرک رکھنے میں بہترین ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ بہت سی بیماریوں سے لڑنے اور ان کو ختم کرنے میں وٹامن ڈی نہایت اہم ہے۔

لہٰذا ضروری ہے کہ ہمیں قدرت کے اس بے بہا عطیے کو بیش قیمت سمجھتے ہوئے مستفید ہونا ہے، اس کے لیے صبح دس سے شام چار بجے کے دوران کم از کم دس سے پندرہ منٹ تک اپنے جسم پر لگوائیں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو وقفے کے ساتھ بار بار ایسا عمل ضرور کریں تاکہ یہ ہارمون مستعد ہو اور ہمارے جسم میں موجود کیلشیم اور فاسفیٹ کو ناکارہ بنانے کے بجائے ہماری ہڈیوں اور عضلات کی بہتری اور مضبوطی کا کام کرے۔ یقین جانیے قدرت نے ہمیں کتنی خوب صورت نعمتیں عطا کی ہیں اور ان پر تحقیق کا عمل جاری ہے، کہ رب العزت نے کچھ بھی بے کار پیدا نہیں کیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے حوالے سے میں وٹامن کی روشنی کو مضبوط ہے لیکن ہوتی ہے کے لیے

پڑھیں:

بھارت میں ہندو بھی محفوظ نہیں

ریاض احمدچودھری

رکن قومی اسمبلی سنجے پروانی کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلتیں تو درکنار شودر ہندو بھی محفوظ نہیں، پاکستان کے ہندو تو شکر کریں کہ وہ بھارت کے مقابلے میں کہیں محفوظ ہیں۔مودی کا بھارت ایسا ہوگا، ہندوؤں نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا۔ سیکولر انڈیا اب انتہا پسند انڈیا میں بدل چکا ہے، مودی پہلگام طرز کے فالس فلیگ آپریشن کرنے کا ماہر ہے۔
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے، جعفر ایکسپریس واقعہ دنیا کو یاد ہوگا۔ بھارت نے افغانستان میں جو قونصل خانے کھولے ہوئے تھے وہ ویزے دینے کے لیے نہیں بلکہ دہشتگردی کے لیے تھے۔آج بھارتی فوجی بلبلا رہے ہیں، ہم نے تو ابھی کیا ہی کچھ نہیں اور ہم نے کوئی شہری نہیں مارا بلکہ بھارتی فوجی مارے ہیں۔ ہم نے بھارتی کے فوجی بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو اڑایا۔ بھارتی عوام سوچے کہ جب بھی بے جی پی کی حکومت آتی ہے وہاں دہشتگردی کیوں ہوتی ہے، ہم نے بھارتی سندور آپریشن کو تندور بنایا۔بدقسمتی سے ہمارا مقابلہ اس جاہل اور بزدل دشمن سے ہے جس نے ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا، ہم پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی برسوں سے حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ پورے ملک میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ چند فرقہ پرست عناصر کو اس کا سیکولر نظام بالکل پسند نہیں ہے اور وہ ساری اقلیتوں کو اپنے اندر جذب کرنے یا ان کا صفایا کرنے کے لئے نہایت بے تاب نظر آتے ہیں۔بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے۔ نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی ذات کا ہندو محفوظ۔ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔
دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔اپنے آپ کو دنیا بھر میں سیکولر ریاست کے طور پرپیش کرنے والے بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ جہاں گائے کے گوشت کو لے کر اب تک کئی افراد کو بیدردی اور درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ 1925 سے بھارت میں انتہا پسندی ابتدا ہوئی اسی سال آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندوؤں کا حق ہے۔ ہندوستان میں تہذیب، ثقافت، لباس،رسم ورواج سب کچھ ہندو دھرم کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ جو بھی ہندو اپنا دھرم چھوڑ کو مسیحت یا اسلام قبول کر چکا ہے اس کو گھر واپس لایا جائے گا۔اس تحریک کو شہرت اس وقت ملی جب 30 جنوری 1948 کو اسی تنظیم کے کچھ ارکان نے مہاتما گاندھی کے سیکولر بھارت کو مسترد کر کے گاندھی کو قتل کر دیا۔ گاندھی کے قتل کے جرم میں نتھو رام گوڈسے کو سزائے موت ہوئی۔ گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس سے تھا۔ اس واقعے کے بعدآر ایس ایس پر پاپندی لگ گئی لیکن آر ایس ایس کے نظریات نے بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا جن میں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو سویام سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی قابل ذکر ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی 1951 میں بھارتیہ جانا سنگھ کے نام سے وجود میں آئی۔ جو 1977 میں جنتا پارٹی بن گئی۔ اسی طرح وشوا ہندو پریشد کا آغاز 1964 میں ہوا انتہا پسند بجرنگ دل دراصل اسی جماعت کا طلبہ ونگ ہے۔ یہ تمام انتہا پسند اور شدت پسند تنظیمیں سنگھ پریوار (ایک خاندان) کہلاتی ہیں جو آر ایس ایس کا حصہ ہیں اور آج کل حکومت میں شامل ہیں۔نومبر 1984 میں تقریبا 3000 کے قریب سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ ان واقعات کے بعد ایک ملین کے قریب سکھ ہندوستان چھوڑ کر یورپ، برطانیہ، کینڈا اور امریکہ آباد ہوگئے۔ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل،شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر بابری مسجد کے خلاف تحریک چلائی اور اسے مسمار دیا اور اس کی جگہ پر رام مندر بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران تقریبا 1200 مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ 2002 میں گجرات میں ایک ٹرین سازش کی گئی جس میں چند ہندؤں کو جلانے کے الزام میں تقریبا ایک ہزار مسلمانوں کا قتل کر دیا گیا زیادہ تر کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلی آج کے وزیراعظم نریندر مودی تھے۔ہندو انتہا پسندوں کا حدف صرف مسلمان اور سکھ نہیں نچلی ذات کے ہندو اور مسیحی بھی نشانے پر ہیں۔ مدھیہ پردیش، کیرالہ، کرناٹکہ، اوڑیسہ، گجرات میں مسیحیوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وشواہندو پریشد کے غنڈے مسیحی آبادیوں پر حملے کر رہے ہیں اور چرچ اور مسیحیوں کی املاک کو تباہ کر رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ 2014 میں عین کرسمس کے دن کھرگون، کھنڈوا اور ہرہانپور کے مسیحیوں پر منظم حملے کئے گئے۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر پوری دنیا کے ممالک نے آنکھیں بند کیں ہیں۔
امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر منظم انداز میں حملے کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں 1947ء سے لے کر اب تک 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد چرچ اور دیگر عبادت گاہیں انتہا پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن چکی ہیں۔ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں حلال جہاد، گاؤ رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوؤں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • گوٹ مِلک
  • لہو لہو بلوچستان
  • ذہنی صحت : ایک نظرانداز شدہ بحران
  • شاداب خان نے شکست کی وجہ موسم کو قرار دے دیا
  • بھارت میں ہندو بھی محفوظ نہیں
  • ذکر ایک خطرناک ہتھیار کا
  • غزہ، ظلم کی انتہا اور انسانیت کا امتحان
  • فلسفۂ قربانی اور عصرِ جدید