معاشی و سماجی ناانصافی کیساتھ ترقی یافتہ ہندوستان کی بات ایک پُرفریب نعرہ ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
جے رام رمیش کا کہنا تھا کہ جب دنیا کے سامنے ہندوستان کی کثرت میں وحدت، جمہوری آزادیوں اور سماجی انصاف کو نقصان پہنچایا جائے، تو یہ ترقی کی نہیں بلکہ گمراہی کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر اور شعبہ مواصلات کے انچارج جے رام رمیش نے وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والی گورننگ کونسل کی میٹنگ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سلسلہ وار پوسٹس میں حکومت کے دعووں پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب ملک میں جمہوری ادارے کمزور کئے جا رہے ہوں، اظہار کی آزادی خطرے میں ہو اور معاشی و سماجی ناانصافی بڑھ رہی ہو، تو ایسے میں "ترقی یافتہ ہندوستان" کی بات صرف ایک پُرفریب نعرہ رہ جاتی ہے۔
جے رام رمیش نے لکھا کہ آج وزیراعظم کی صدارت میں گورننگ کاؤنسل کی میٹنگ ہو رہی ہے، جس میں "ترقی یافتہ ہندوستان" کے ہدف کی پیشرفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ مگر جب حکومت خود اپنے الفاظ اور اعمال سے سماجی ہم آہنگی کے تانے بانے کو توڑنے میں مصروف ہو، تو کیسا ترقی یافتہ ہندوستان۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب پارلیمان، عدلیہ، یونیورسٹیوں، میڈیا اور آئینی اداروں کی خودمختاری کو حکومت کی سہولت کے مطابق روندا جا رہا ہو، تو کیسا ترقی یافتہ ہندوستان۔
کانگریس کمیٹی کے لیڈر نے اپنی پوسٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ہندوستان جن اقدار اور اصولوں کے لئے عالمی سطح پر جانا جاتا رہا ہے، انہی پر ایک منظم طریقے سے حملے ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب دنیا کے سامنے ہندوستان کی کثرت میں وحدت، جمہوری آزادیوں اور سماجی انصاف کو نقصان پہنچایا جائے، تو یہ ترقی کی نہیں بلکہ گمراہی کی علامت ہے۔ انہوں نے معاشی عدم مساوات پر بھی حکومت کو گھیرتے ہوئے کہا کہ جب دولت چند ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی ہو، غریب اور غریب تر ہوتا جا رہا ہو، اور متوسط طبقے کا جینا دوبھر ہو رہا ہو، تو کیا یہی ترقی ہے۔
جے رام رمیش نے اظہارِ رائے کی آزادی کے بعد آنے والے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا ترقی یافتہ ہندوستان ہے جہاں نہ صرف بولنے کی آزادی چھینی جا رہی ہے بلکہ بولنے کے بعد کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔ انہوں نے نیتی آیوگ کو اب تک کی "سب سے ناکام ادارہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی میٹنگ بھی صرف ایک نمائش اور عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ ان کے مطابق یہ میٹنگ ان تلخ حقائق سے فرار کی کوشش ہے جن سے ملک کی اکثریت روزانہ دوچار ہو رہی ہے۔ جے رام رمیش کے اس بیان کو اپوزیشن کی اس وسیع تر تنقید کا حصہ سمجھا جا رہا ہے جو موجودہ حکومت کے ماڈل آف گورننس کو ایک "تصویری تاثر" قرار دیتی ہے، جبکہ زمینی حقائق بالکل مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ترقی یافتہ ہندوستان ہوئے کہا کہ انہوں نے جا رہا
پڑھیں:
پاکستان بزنس فورم کا حکومت سے خطے کی صورتحال کے پیش نظر گروتھ بجٹ لانے کا مطالبہ
اسلام آباد:پاکستان بزنس فورم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خطے کی موجودہ غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر آئندہ بجٹ کو کاروبار دوست اور معاشی بحالی پر مرکوز رکھا جائے۔
بزنس فورم کے صدر خواجہ محبوب الرحمان نے کہا کہ بجٹ میں محض ریونیو اہداف کے حصول کے بجائے معاشی استحکام کو ترجیح دی جائے۔
خواجہ محبوب الرحمن نے خبردار کیا کہ اگر آئندہ بجٹ میں مزید ٹیکسز عائد کیے گئے تو ملک کو معاشی سست روی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان بزنس فورم کے مطابق حکومت یکم جولائی سے پیٹرولیم لیوی کو 100 روپے فی لیٹر تک بڑھانے اور بجلی پر مزید ٹیکسز لگانے کا ارادہ رکھتی ہے، جو کاروباری سرگرمیوں کو مزید محدود کر دے گا۔
فورم نے انکشاف کیا کہ حکومت ٹیکس اہداف میں 2ہزار ارب روپے کے اضافے پر غور کر رہی ہے، جو موجودہ معاشی حالات میں کاروباری طبقے پر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
پاکستان بزنس فورم نے زور دیا کہ 10 جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ کاروباری ماحول کو سہارا دینے والا اور مہنگائی سے نجات دلانے والا ہونا چاہیے۔ فورم نے بجٹ میں مزید نئے ٹیکسز سے گریز کرنے اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی تجویز دی ہے تاکہ وسائل دفاع اور معاشی بحالی پر مرکوز کیے جا سکیں۔
بزنس فورم کے مطابق وزارتِ خزانہ کو سمجھنا چاہیے کہ موجودہ حالات غیر معمولی نوعیت کے ہیں، اور قوم اور افواج مزید مہنگائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
فورم نے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ تاجروں پر ماہانہ بنیاد پر فکسڈ ٹیکس عائد کیا جائے تاکہ براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ ممکن ہو، انڈسٹری کو کارپوریٹ ٹیکس میں ریلیف دیا جائے، اور بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایس ایم ای سیکٹر کو فنانسنگ فراہم کریں۔
اس کے علاوہ، کسانوں کو ریلیف دینے کے لیے کھادوں پر جی ایس ٹی کی شرح کو کم کرکے ایک فیصد کیا جائے۔ بزنس فورم کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ بھارت کی جارحانہ ڈاکٹرائن کو ایک مؤثر معاشی جواب دینے کا بہترین موقع بن سکتا ہے۔