data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آخری حصہ
صحت: صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولت اپنے عوام کو مفت میں فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے، دنیا بھر میں یہ سہولتیں حکومتیں دیتی ہیں مگر سندھ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے یہاں دونوں پرائیویٹ اور مہنگی ہیں۔ گزشتہ سال 292 ارب روپے بجٹ میں رکھنے کے باوجود سرکاری اسپتالوں میں ویکسین نہیں ملتی۔ ایک طرف بلاول زرداری اور پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ میں گمس و این آئی سی وی ڈی، سمیت عالمی معیار کی صحت کی سہولتوں کا دعوی ٰ کرتے نہیں تھکتے تو دوسری جانب ضلع خیرپور کے ایم پی اے نعیم کھرل کے بیرون ملک علاج کے لیے 7 کروڑ روپے منظور کیے جاتے ہیں۔ بجٹ سیشن کے دوران ایم پی اے جمیل سومرو لاڑکانہ میں جدید اسپتال کا مطالبہ کرتے ہیں اس بجٹ میں لاڑکانہ میں جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال کی تعمیر کے لیے 10 ارب رکھے گئے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ 17 سال سے اقتدار میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اپنے شہر میں ایک جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال نہیں بنا سکی تو باقی شہروں کی کیا صورتحال ہوگی۔ البتہ کرپشن میں سندھ حکومت نے رکارڈ قائم کیے ہیں۔ حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی (این آئی سی وی ڈی) میں کرپشن پر وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھا ہے، جس کے مطابق اس ادارے میں بے ضابطگیاں پائی گئیں جن میں تعیناتیاں، من پسند افراد کو نوازنے، اضافی اخراجات، پروکیومنٹ پر پیرا لگائے گئے ہیں اور قومی خزانے کو 40 ارب کے نقصان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ صحت کے شعبے میں صرف ایک ادارے میں کرپشن کا حال ہے۔
تعلیم: تعلیم کی مد میں گزشتہ سال 458 ارب روپے رکھے گئے تھے مگر ایمرجنسی کے باوجود اس وقت بھی 78 لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ 25 ہزار اساتذہ غیر حاضر ہیں۔ تعلیمی ادارے واش روم، پانی اور چار دیواری سمیت بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اس مرتبہ 613 ارب تعلیم کا بجٹ رکھا گیا ہے، مگر سندھ کا تعلیمی انفرا اسٹرکچر تباہ ہے۔ 613 ارب روپے کا مطلب کل بجٹ کا 18 فی صد تعلیم کے لیے رکھا گیا ہے۔ سندھ میں کرپشن، جعلی بھرتیوں اور ملازمین کی تنخواہیں و پینشن کی خوربرد کے مقدمات اور نیب میں تحقیقات بھی اسی محکمہ کے خلاف چل رہی ہیں۔ چاروں صوبوں میں دو ہزار ارب سے زیادہ کا بجٹ ہے مگر تعلیمی صورتحال سے ہر باشعور فرد اچھی طرح واقف ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی کل تعداد 16,891,397 ہے! جن میں سے، اسکول سے باہر بچوں کی تعداد 7,818,248 (46.
مورو واقعہ: جتوئی خاندان کے خلاف انتقامی کاروائی: مورو ضلع نوشہرو فیروز میں متنازع نہروں کے ایشو پر احتجاج کے دوران پولیس نے براہ راست گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں احتجاج پرتشدد ہوگیا اور وزیر داخلہ کے بنگلے کو بھی نقصان پہنچا۔ مظاہرین میں سے دو افراد شہید ہوگئے۔ حکومتی نااہلی اور انتظامیہ کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے صورتحال خراب ہوگئی۔ اس کی آڑ میں جتوئی خاندان پر انتقامی کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اندھی ہوگئی ہے۔ سابق وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے بیٹے سابق وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی سمیت خاندان پر جھوٹے مقدمات اور سندھ کے پانی پر ڈاکا کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوں پر براہِ راست گولیاں چلانا شہید ہونے والے افراد کی لاشوں پر قبضہ اور بجرانی لغاری گوٹھ پر دھاوا بول کر گھروں کو مسمار اور مقدمات قابل تشویش اور غیر جمہوری و غیر انسانی رویہ ہے۔ ریاست و حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے اگر ان پر کوئی الزامات ہیں تو آئین و قانون کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔
بجٹ: مالی سال 25/26 کے لیے ساڑھے 34 ارب کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ وفاق کی طرح سندھ کا بجٹ بھی اعدادو شمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ 3000 ارب کا ٹیکس دینے والے شہر کو K- 4 منصوبہ کے لیے صرف 3 ارب رکھے گئے ہیں۔ مطلب وفاقی اور صوبائی حکومت، کے فور منصوبہ کو عملی طور ختم کرچکی ہے۔ تاکہ لائن میں پانی آنے کے بجائے عوام ٹینکر کے ذریعے پانی خریدیں۔ ماہرین کے مطابق اگر 40 ارب رکھے جاتے تو یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا تھا۔ سندھ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے بات سے لگائیں کہ وزیر اعلیٰ ہائوس کے چائے بسکٹ کے لیے 1 ارب 32 کروڑ رکھے گئے تھے اب مزید اضافہ کیا گیا ہے اسی طرح گورنر ہائوس کے چائے بسکٹ کے لیے 1 ارب 18 کروڑ رکھے گئے ہیں۔ سندھ میں کوئی ایسا ماڈل شہر نہیں بن سکا جس ڈرینج سسٹم، انفرا اسٹرکچر بہتر اور گلی محلے صاف ستھرے نظر آئیں۔ سندھ اسمبلی نے مالی سال 2025-26 کے لیے 156 ارب روپے مالیت کا ضمنی بجٹ منظور کر لیا۔ حکومت کی جانب سے 84 مطالبات زر پیش کیے گئے، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 735 کٹوتی کی تحاریک کو مسترد کر دیا گیا۔ ملک وقوم کی بہتری کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کا حکومتی رویہ عوام ملک اور سیاست کے لیے خطرناک ہے۔ عوام مہنگائی بدامنی بجلی گیس کے بحران کا شکار ہیں اور حکومتی ٹولے کی عیاشی وفضول خرچیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ مطلب یہ کہ چہرے تبدیل ہوتی رہتے ہیں، حکمرانوں کے بینک بیلنس ومحلات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے مگر عوام کی قسمت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ حقیقی تبدیلی اور سندھ کی ترقی کے لیے عوام کو شعور کا مظاہرہ اور اسمبلی سمیت ہر شعبے میں اہل ودیانتدار قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رکھے گئے ارب روپے کے مطابق حکومت کی کے خلاف گئے ہیں کا بجٹ کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
کراچی میں ٹوٹی سڑکیں، ای چالان ہزاروں میں، حافظ نعیم کی سندھ حکومت پر تنقید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ شہر کی بنیادی سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کا نظام ٹھیک نہیں جبکہ شہریوں کو غیر معقول ای چالان ادا کرنا پڑ رہے ہیں، انہوں نے وعدہ کیا کہ جماعت اسلامی شہر کو لوٹ مار اور قبضے کے نظام سے آزاد کرائے گی۔
ایک عوامی تقریب سے خطاب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی کے منتخب اراکین اپنی محدود وسعت کے باوجود عوامی فلاح کے کاموں میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں اور اب 9 ٹاؤنز میں ترقیاتی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں۔
انہوں نے موجودہ انتظامیہ کے منصوبوں پر بھی تنقید کی اور سوال اٹھایا کہ ایس تھری منصوبہ کہاں گیا، کراچی سرکلر ریلوے کب مکمل ہوگا اور ریڈ لائن نے یونیورسٹی روڈ کی حالت خراب کیوں کی۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہے، سڑکیں بنیں نہیں مگر ای چالان ہزاروں میں لگ رہے ہیں، لاہور میں جو چالان 200 روپے کا ہے وہیں سندھ میں پانچ ہزار کا چالان کیوں؟ یہ ظلم اور بے انصافی ہے، مقامی سطح پر قبضے اور سفارشات کے ذریعے انتظامی اختیارات مسلوب کیے جا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ٹاؤنز کو حقیقی اختیارات منتقل نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ کچرا اٹھانے کے اختیارات بھی صوبائی حکومت کے پاس جمع ہیں اور عوام خود کچرا اٹھانے کی فیس ادا کر رہے ہیں حالانکہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا پورا میکانزم موجود ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے مطالبہ کیا کہ ٹاؤنز کو کام کرنے دیا جائے اور سٹی وارڈنز کے غلط استعمال کو روکا جائے تاکہ مقامی سطح پر صفائی، سڑکوں اور بنیادی سہولیات کا بہتر انتظام ممکن ہو سکے، تعلیم خیرات نہیں بلکہ بچوں کا حق ہے اور بنو قابل پروگرام کے ذریعے جماعت اسلامی نوجوان نسل کو ہنر مند بنا رہی ہے تاکہ وہ روزگار کے قابل ہو سکیں۔
حافظ نعیم الرحمان نے آخر میں حکومت سے کہا کہ ’’ہمیں کام کرنے دو، قبضہ کی سیاست اور کرپشن بند کرو، اگر عوام ہمارے ساتھ نکلیں تو تبدیلی ناگزیر ہے۔