بند آنکھوں اور اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت دینے والے لینس تیار
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
بیجنگ (نیوز ڈیسک)جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ خاص طور پر دیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے مختلف ایجادات سامنے آتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں سائنسدانوں نے ایک انقلابی ایجاد کی ہے جو رات کے اندھیرے میں بھی دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے، اور یہ ایجاد عام کانٹیکٹ لینز کی طرح پہننے میں آسان ہے۔ آئیے جانتے ہیں اس نئی حیران کن ایجاد کے بارے میں جو آنکھوں کے ذریعے سپر وژن فراہم کرے گی۔
چین کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے ایسے کانٹیکٹ لینز تیار کئے ہیں جو رات کے اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آنکھیں بند کرنے کے باوجود بھی نظر آتا ہیں۔ یہ جدید لینز خاص نینو پارٹیکلز اور لچکدار پولیمرز پر مشتمل ہیں جو انفرا ریڈ روشنی کو انسانی آنکھوں کے لیے قابل دید روشنی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
یہ لینز خاص طور پر نیئرانفرا ریڈ روشنی (Near-Infrared Light) کو محسوس کرنے کے قابل بناتے ہیں، جو 800 سے 1600 نینو میٹر کی حد میں ہوتی ہے، یعنی وہ روشنی جو عام انسان نہیں دیکھ سکتے۔ اس ایجاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے کسی پاور سورس کی ضرورت نہیں ہوتی، جو روایتی نائٹ وژن گگلز میں ضروری ہوتی ہے۔
ابتدائی تجربات چوہوں پر کیے گئے جہاں چوہوں نے ان لینز کے ذریعے انفرا ریڈ روشنی والے تاریک خانے کو ترجیح دی، جبکہ بغیر لینز کے چوہے اس روشنی کو محسوس نہ کر سکے۔ بعد ازاں انسانی تجربات میں بھی شرکاء نے فلیکرنگ انفرا ریڈ روشنی کو دیکھ کر اس کی سمت معلوم کی۔
تحقیق کے مطابق آنکھیں بند کرنے پر یہ لینز زیادہ موثر ثابت ہوئی کیونکہ آنکھوں کے پپوٹوں سے انفرا ریڈ روشنی آسانی سے گزر جاتی ہے اور عام روشنی کی مداخلت کم ہو جاتی ہے۔
یونیورسٹی کے نیوروسائنسدان، ڈاکٹر تیان ژو نے کہا، ’ہماری تحقیق غیر مداخلتی طریقے سے ایسے پہننے والے آلات کی راہ ہموار کرتی ہے جو لوگوں کو سپر وژن فراہم کر سکتے ہیں۔‘
اس ٹیکنالوجی کے کئی عملی استعمالات متوقع ہیں جیسے سیکیورٹی، ریسکیو آپریشنز، معلومات کی انکرپشن، اور دھند یا دھول والے موسم میں بہتر دیکھنے کی صلاحیت۔
یہ ایجاد نہ صرف سائنس کی دنیا میں انقلاب ہے بلکہ مستقبل میں عام زندگی میں بھی اس کا استعمال بڑھنے کی توقع ہے۔
مزیدپڑھیں:بحر الکاہل سکڑنے لگا، سائنسدانوں کی نئے براعظم کی تشکیل کی پیشگوئی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انفرا ریڈ روشنی فراہم کر
پڑھیں:
اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-5
غلام حسین سوہو
یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔
“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔
یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔
’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔
’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔
کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔
(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)