پاکستان میں انسانی حقوق کا مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
جمہوریت کے نظام اور شفافیت کے تناظر کی بنیادی کنجی انسانی حقوق کی اہمیت،پاسداری اور اس کے اصولوں کے ساتھ خود کو جوڑنا ہوتا ہے اور یہ ہی عمل ریاستی نظام کی جمہوری ساکھ کو یقینی بناتا ہے۔ انسانی حقوق سے مراد وہ عالمی قوانین اور معاہدے ہوتے ہیں جن کو ہم نے دنیا کے عالمی نظام میں تسلیم کیا ہوتا ہے اور ہم ان قوانین پر عملدرآمد کے پابند اور جوابدہ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں 1973کے آئین میں موجود جو پہلا باب ہے جس میں آرٹیکل 8 سے 28 ہیں وہ بنیادی انسانی حقوق کی ریاست اور شہریوں کے درمیان ضمانت بنتے ہیں اوراسی عمل کو ہم عمرانی معاہدہ بھی کہتے ہیں۔پاکستان میں کیونکہ جمہوری نظام کمزور اور اپنے ارتقائی عمل سے گزررہا ہے تو ایسی ریاستوں میں یقینی طور پر انسانی حقوق کا مقدمہ بھی کمزور ہوتا ہے۔
ڈاکٹرتوصیف احمد خان ملک کے معردف استاد،دانشور،لکھاری اور کالم نگار سمیت جمہوریت اور انسانی حقوق کے تناظر میں ایک بڑے نام کی حیثیت رکھتے ہیں اور کئی دہائیوں سے پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق کی جدوجہد اور معاشرے کے محروم طبقات کے حق میں بڑی جرات کے ساتھ بات کرتے اور لکھتے بھی ہیں۔اسی طرح عرفان عزیز بھی معروف استاد ہیں اور شعبہ درس وتدریس کے علاوہ ملک میں جمہوری جدوجہد،انسانی حقوق اور اظہار آزادی کی بات کرنے والوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
چونکہ دونوں لکھنے والے یہ افراد تحقیق کے بنیادی اصولوں سے گہری وابستگی رکھتے ہیں، اسی لیے ان دونوں مصنفین نے بڑی محنت اور جان فشانی سے اپنی ایک نئی مشترکہ تصنیف یا جامع کتاب ’’انسانی حقوق کا ارتقا اور تصور‘‘ لکھی ہے۔اس اہم انسانی حقوق کے موضوع پر ان دونو ں مصنفین کی یہ جامع کتاب انسانی حقوق سے جڑے تمام اہم موضوعات اور اہم ماخذوں کا احاطہ پیش کرتی ہے۔
ڈاکٹرتوصیف احمد خان پرانے نظریاتی و علمی وفکری ساتھی ہیں جو ڈکٹیٹرجنرل ضیا الحق مرحوم کے دور سے علمی و فکری میدان میں کام کررہے ہیں اور ان کے نظریات اور خیالات میں کوئی جھول نہیں ملتا اور اسی طرح عرفان عزیز کا شمار بھی ملک کے علمی و فکری طبقہ میں ہوتا ہے۔اس سے قبل یہ دونوں مصنفین نے ’’ پاکستان میں میڈیا کا بحران‘‘ پر بھی فکر انگیز کتاب لکھی جو ان کی وجہ شہرت بھی بنی۔
معروف صحافی ، دانشور اور انسانی حقوق کے ایک بڑے راہنما حسین نقی کے بقول اس کتاب میں انسانی حقوق کے جدید عالمی نظام کے ارتقا سے آگہی بھی حاصل ہوگی اور پڑھنے والے کو وہ دستاویزات بھی ملیں گی جو اس ارتقائی عمل کے دوران بین الاقوامی اداروں نے تیار کی ہیں جو فکر انگیز معلومات کا احاطہ کرتی ہے۔ان دستاویزات میں انسانی حقوق کا اعلامیہ بھی شامل ہے اور عورتوں ،بچوں، غلاموںاور مجموعی طور پر انسانوںکے معاشی ،سماجی،ثقافتی،شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق اہم دستاویزات بھی اس کا حصہ ہیں۔
ان کے علاوہ یہ کتاب زمانہ حال میں ٹرانس جینڈر انسانوں اور جبری طور پرلاپتہ کیے گئے افراد کے حقوق کے بارے میں بھی بین الاقوامی سطح پر نافذ العمل دستاویزات بھی فراہم کرتی ہے۔بقول معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کے موجودہ دور میں انسانی حقوق کا موضوع انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ ایک جانب اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو دوسری طرف سماجی تحریکیںاس کے حق میں آواز اٹھاتی ہیں۔
اس کتاب کے مصنفین نے تحقیق کے بعدحقوق انسانی کی تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے پیش کیا ہے اور ساتھ ہی اس تحریک کے بارے میںنظریاتی بحث ومباحثہ کو بھی شامل کیا ہے جو اچھا پہلو ہے اور لوگوں کو بہت سے پہلوؤں پر آگاہی دیتا ہے۔ پاکستان میںانسانی حقوق کمیشن کے سربراہ اسداقبال بٹ کے بقول زیر نظر کتاب مصنفین کا ایک اچھوتا خیال ہے۔شاید ہی کسی دانشوریا مصنف نے اردو زبان میں انسانی معاشرے کے ارتقاکو عملا انسانی حقوق کے تصور کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا ہو یا اس انداز میں انسانی حقوق کی تاریخ کو قلم بند کرنے کی کوشش کی ہو۔اس پر یقیناً دونوں مصنفین مبارکباد کے مستحق بھی ہیں اور ان کے اس فکری اثاثے نے نئی بحث کو بھی آگے بڑھانے میں مدد کی ہے۔
اس کتاب کی خاص بات یہ بھی کہ دونوں مصنفین نے پاکستان کے تناظر میں انسانی حقوق کی جد وجہد، قانون سازی اور سیاسی جدوجہد کے عمل کو جوڑ کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔انسانی حقوق کے معاملات میں جو خرابیاں یا کمزوریاں یا ریاست اور حکومت کی عدم ترجیحات کا نہ ہونے جیسے مسائل کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے اور ریاست و حکومت کے ان اقدامات کی منظر کشی بھی کی ہے جہاں ریاستیں اور حکومت طاقت اور ہتھیار کی بنیاد پر انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہیں یا لوگوں کی متبادل آوازوں کو طاقت کی بنیاد پر دبایا جاتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج عالمی دنیا کی درجہ بندی میں انسانی حقوق کے تناظر میں ہمارا مقدمہ بہت کمزور ہے یا ہم اس میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔پاکستان میں انسانی حقوق کی بات کرنا کوئی آسان کام نہیں اور انسانی حقوق پر آواز اٹھانے والے کارکنوں کو ریاستی و حکومتی سطح پر جس بڑے دباؤ یا جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بھی اہم پہلو ہے۔پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ہم نے عالمی دنیا کو خوش کرنے کے لیے بے پناہ قوانین اور پالیسیاں بنالی ہیں مگر عملدرآمد کے کمزور نظام ،عدم شفافیت اور عدم ترجیحات کی وجہ سے ہمارے یہاں سیاسی اور سماجی سطح پر کمزور طبقات اور اقلیتوں کو بھی بے شمار مسائل اور تفریق یا عدم انصاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی اپنی بھی داخلی کمزوریوں کے باعث انسانی حقوق کی تحریکیں بھی کمزور ہوگئی ہیں اور ان تحریکوں کی سیاسی جماعتیں بڑی طاقت بننے کے لیے تیارنہیں یا ان کے دوہرے معیارات بھی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔بالخصوص پاکستان میں ریاستی ،حکومتی ،نجی شعبہ یا سول سوسائٹی کی سطح پر جو ادارے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں وہ کہاں کھڑے ہیں یا ان کی اپنی شفافیت کیا ہے اس پر غورکرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اس عمل میں جو وسائل لگارہے ہیں ان کو کیسے جوابدہ بنایا جائے۔کیونکہ اتنی زیادہ پالیسیاں ،قوانین اور اداروں کی عملی طور پر موجودگی کے باوجود ہمارا انسانی حقوق کی پاسداری کا مقدمہ کیونکر کمزور ہے ، غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے ان میں انسانی حقو ق کا تصوراور ارتقا،ریاست کا قیام،مختلف مذاہب میں انسانی حقوق کا تصور،فطری انسانی حقوق،انسانی حقوق کے جدید عالمی نظام کا آغاز و ارتقا،پاکستان میں انسانی حقوق،انسانی حقوق سے متعلق نئے مسائل،انسانی حقوق کا متبادل نقطہ نظراور انسانی حقوق اور ہمارا ماحول پر فکر انگیز بحث بھی شامل ہے اور نئے سوالات کو بھی نئی بحثوں کے لیے اٹھایا گیا ہے جس پر دونو ں مضنفین ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز مبارکباد کے مستحق ہیں۔عالمی دنیا سمیت پاکستان میں انسانی حقوق کی بحث کو سمجھنے اور آگاہی کے لیے یہ کتاب واقعی بہت اہم اور معلوماتی ہے اور اس کو ہمارے تعلیمی نصاب کا بھی کسی نہ کسی شکل میں حصہ ہونا چاہیے۔کیونکہ انسانی حقوق کی پاسداری کے بغیر نہ تو کوئی معاشرہ مہذہب ہوسکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کی جمہوری ساکھ قائم ہوسکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں انسانی حقوق میں انسانی حقوق کا میں انسانی حقوق کی اور انسانی حقوق انسانی حقوق کے دونوں مصنفین ہیں اور ان مصنفین نے کے تناظر پیش کیا ہوتا ہے کیا ہے کو بھی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!