اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے آئندہ صدر کا انتخاب
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جون 2025ء) سابق جرمن وزیر خارجہ اور جرمنی کی ماحول پسند گرین پارٹی کی سیاستدان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے لیے بلامقابلہ منتخب کر لی جائیں گی۔ پیر کو اقوام متحدہ میں ہونے والے جنرل اسمبلی کے صدر کے الیکشن میں جرمنی کی سیاستدان انا لینا بیئر بوک کو ایک سال کے لیے صدارتی عہدے پر فائز کرنے کا اعلان کر دیا جائے گا۔
ماحول پسند گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والی جرمن سیاستدان انا لینا بیئربوک آئندہ ایک سال کے لیے اس اعلیٰ عہدے پر فائز رہیں گی۔ انا لینا اس ٹاپ پوزیشن کے لیے بلا مقابلہ منتخب ہونے جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ ان کا یہ عہدہ بنیادی طور پر رسمی نوعیت کا ہے اور اس سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریش کے کردار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
(جاری ہے)
193 رکن ممالک کے پلینری سیشن میں جنرل اسمبلی کے صدر کا انتخاب دراصل رسمی حیثیت رکھتا ہے۔
انا لینا بیئربوک کے جنرل اسمبلی کے صدارتی دور کا سرکاری طور پر افتتاح 9 ستمبر کو ہوگا، جس میں جرمن سفارتکار باضابطہ اپنی صدارتی ذمہ داری سنبھالیں گی۔ اس کے فوراً بعد جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ریاستی مہمانوں کے باقائدہ اجلاس کا آغاز ہوگا۔
بلا مقابلہ انتخاب
جرمنی کی سابق وزیر خارجہ انالینا بیئربوک اقوام متحدہ کے سب سے بڑے ادارے کی صدر کے عہدے کے لیے بلا مقابلہ انتخاب لڑ رہی ہیں۔ 44 سالہ جرمن سیاست دان نے
گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی کو بتایا تھا کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں اس عالمی ادارے میں شامل تمام ''بڑے چھوٹے‘‘ 193 رکن ممالک کی خدمت کریں گی اور ایک ''یونیفائر‘‘ یا ''متحد کرنے والے‘‘ کا کردار ادا کریں گے۔
جرمن سفارتکار کی ترجیحات
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک سالہ صدارت کے دوران جرمن سیاستدان اپنی ترجیحات صنفی مساوات، ماحولیاتی تحفظ اور اقوام متحدہ کے پائیداری کے اہداف شامل پر مرکوز رکھیں گے۔
ادارت: عاطف بلوچ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنرل اسمبلی کے اقوام متحدہ انا لینا کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں امدادی سامان کی تقسیم کے مراکز پر حملے، اقوام متحدہ کی تنقید
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جون 2025ء) فلسطینی علاقے میں امدادی کارکنوں نے بتایا کہ جنوبی شہر رفح میں امداد کی تقسیم کے مرکز کے قریب اسرائیلی فائرنگ کے نتیجے میں منگل کو 27 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس سے قبل اتوار کو بھی امدادی کارکنون نے بتایا تھا کہ امداد لینے کے لیے جانے والے 31 افراد اسرائیلی فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔
ترک نے اپنے بیان میں کہا، '' غزہ میں خوراک کی معمولی مقدار تک رسائی کی کوشش کرنے والے پریشان حال شہریوں پر مہلک حملے ناقابلِ قبول ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''تیسرے روز مسلسل، غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن کے زیرِ انتظام امدادی مراکز کے اردگرد لوگوں کو قتل کیا گیا۔ آج صبح ہمیں اطلاع ملی ہے کہ درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) ایک نو تشکیل شدہ امریکی حمایت یافتہ تنظیم ہے، جس کے ساتھ اسرائیل نے مل کر غزہ میں ایک نیا امدادی نظام نافذ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ اس فاؤنڈیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتی کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ یہ ادارہ غیرجانبداری، غیرسیاسی وابستگی اور آزادی جیسے بنیادی انسانی اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔
ترک نے ہر واقعے کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
ترک نے کہا، ''شہریوں کو براہِ راست نشانہ بنانا بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور ایک جنگی جرم ہے۔‘‘
حوثی میزائل حملوں کے بعد اسرائیل کے لیے بین الاقوامی پروازوں میں تعطلجرمن فضائی کمپنی لفتھانزا نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازوں میں مزید ایک ہفتے کے لیے معطل رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
منگل کے روز اس جرمن فضائی کمپنی کی جانب سے بتایا گیا کہ پروازوں کی معطلی جاری رکھنے کا یہ فیصلہ سکیورٹی خدشات کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس گروپ کی ملکیت آسٹرین ایئرلائنز، برسلز ایئرلائنز، سوئس اور یورو ونگز بھی اب بائیس جون تک اسرائیل کے لیے پروازیں نہیں بھریں گی۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے یمنی حوثی باغیوں کی جانب سے اسرائیل میں تل ابیب کے ہوائی اڈے پر میزائل حملے کے بعد لفتھانزا نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازوں کی معطلی کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیل کے لیے نصف ارب یورو کے جرمن ہتھیارجرمن وزارت اقتصادیات کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے اب تک جرمنی اسرائیل کو نصف ارب یورو کے ہتھیار فراہم کر چکا ہے۔ جرمن وزارت اقتصادیات کے اعداد و شمار کے مطابق فلسطینی عسکری گروہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے جرمن حکومت اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہی ہے۔
یہ واضح نہیں کہ ان اعداد و شمار میں نئی جرمن حکومت کی جانب سے اسرائیل کے لیے منظور کردہ ہتھیار بھی شامل ہیں یا نہیں، تاہم جرمنی سات اکتوبر دو ہزار تیئیس کو اسرائیل پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتا رہا ہے۔ البتہ چھ مئی کو اقتدار میں آنے والی نئی جرمن حکومت اسرائیل سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دے رہی ہے۔
حال ہی میں ایک سروے میں جرمن عوام کی اکثریت نے اسرائیل کے لیے جرمن ہتھیاروں کی فراہمی کی معطلی کے حق میں رائے دی تھی۔
ادارت :کشور مصفیٰ