آپی عائشہ خان کا اخلاقی قتل
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
یہ خبر پڑھ کر پاکستان کے قابل فخر خاندانی نظام سے دل اچاٹ ہو گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اپنی جائیداد زندگی ہی میں بچوں کے نام منتقل کر دینی چاہیے، انہیں انتظار کروانا چاہیے یا وصیت لکھنی چاہیے کہ اس کے مطابق وہ خود ہی پراپرٹی اور نقدی وغیرہ کا بٹوارا کر لیں؟ اس سوال سے قطع نظر جس بے بسی اور قید تنہائی میں کراچی کے ایک فلیٹ میں ماضی کی مشہور سینیئر اداکارہ عائشہ خان کی موت واقع ہوئی، وہ ہماری مشرقی اخلاقی اقدار کی موت ہے۔ ہم اپنے خاندانی نظام پر بڑا فخر کرتے ہیں۔ اسلام کے مطابق والدین کا بہت بلند مقام و مرتبہ ہے۔ خاص طور پر ماں کے بارے میں تو پاکستان کے ہر گھر میں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ، ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔‘‘ لیکن جب عائشہ خان کی وفات ہوئی تو اس وقت گھر میں وہ اکیلی تھی، بلکہ اس کی موت کے 7 روز تک اس کے بیٹوں یا رشتوں داروں میں سے کسی فرد کو اس کے انتقال کی خبر نہیں تھی، تاآنکہ ہمسایوں کو اس گھر سے بدبو آنا شروع ہو گئی تو پتہ چلا کہ عائشہ خان وفات پا گئی ہیں۔سنا جا رہا ہے کہ عائشہ خان بہت مہربان اور رحم دل خاتون تھی۔ ان کی کفالت میں بہت ساری فیملیوں کے گھر کا خرچہ چل رہا تھا۔ جب تک انہوں نے اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم نہیں کی تھی ان کی ڈائری پر ترتیب وار چیزیں لکھی ہوتی تھیں یعنی انہوں نے باقاعدہ شیڈول بنا رکھا تھا کہ روزانہ کسی نہ کسی غریب اور نادار کے گھر جانا ہے، ان کے لئے راشن، نقدی اور بچوں کے سکولوں کی فیسیں دینی ہیں۔ نجانے انہوں نے کتنے نادار خاندانوں کے تو باقاعدہ وظیفے لگا رکھے تھے۔ پھر ایک دن سب کچھ بدل گیا جب اچانک اس نے بیٹوں کو بلایا اور اپنی ساری جائیداد اپنے بچوں کے نام کر دی اور خود کراچی میں کرائے کے ایک فلیٹ رہنے لگیں۔ ان کے پاس پراڈو گاڑی تھی، اور ان کے ساتھ ایک نوکرانی بھی رہتی تھی۔ لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس روز ان کی نوکرانی کہاں تھی یا جب ان کی وفات ہوئی تو سات دن تک ان کے دونوں بیٹوں یا اس کے کسی دوسرے رشتہ دار نے ان سے کیوں رابطہ نہیں کیا، جبکہ ان کا ایک بیٹا کراچی ہی میں رہتا تھا۔اب عائشہ کی اس ناگہانی اور اندوہناک موت پر ایک رائے یہ قائم ہو گئی ہے کہ ان جیسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ آخر ان کو عقل کیوں نہیں آتی ہے کہ وہ اولاد کو قابو میں رکھنے اور ان کو وفا کی لڑی سے باندھے رکھنے کے لیئے انہیں اپنی زندگی میں جائیداد ان کے نام نہیں کرنی چایئے تاکہ وہ مجبورا والدین کی خدمت کرتے رہیں۔ میں کافی عرصہ انگلینڈ رہا ہوں ایسا تو میں نے وہاں بھی نہیں دیکھا تھا کہ گورے یا پاکستانی اولادیں اپنے والدین کو جائیداد ملنے کے بعد یوں ’’قید تنہائی‘‘ کا شکار کر کے مار ڈالیں۔ ہاں میں نے انگلینڈ رہنے کے 9 سال میں صرف ایک بار ایسا ہی ایک واقعہ اخبارات میں ضرور پڑھا تھا کہ کسی گورے کی اپنے فلیٹ میں موت ہو گئی تھی جس کا پتہ چند دنوں بعد پولیس کو اس وقت چلا تھا جب ہمسایوں نے گھر سے بدبو آنے کی شکایت کی تھی۔ اس وقت لندن میں پاکستانی کمیونٹی نے بڑے تفاخر سے یہ بحث چھیڑی تھی کہ ہمارے خاندانی نظام میں والدین کو اولڈ ہومز میں نہیں بھیجا جاتا ہے، ان کی اولادیں انہیں گھر میں رکھ کر ہی خدمت کرتی ہیں۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ ہمارا خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار اندر سے کتنی کھوکھلی ہو چکی ہیں کہ ایسی عظیم الشان ماں جس نے اپنی زندگی میں ساری جائیداد بچوں میں بانٹ دی ہو اس کو بیٹوں نے یہ صلہ دیا کہ اسے فلیٹ میں اکیلے ہی مرنے کے لیئے چھوڑ دیا۔
مرحومہ آپی عائشہ کے بارے پتہ چلا ہے کہ چند ماہ قبل وہ اکیلے رہتے ہوئے اکتا گئی تھیں۔ ایک دن وہ طلعت حسین نامی اپنے ہمسائے کے آگے پھٹ پڑیں اور انہوں نے زار و قطار روتے ہوئے کہا کہ، ’’میں دن میں کئی کئی بار سارے بچوں کو فون کرتی ہوں لیکن وہ کال اٹینڈ نہیں کرتے ہیں، کبھی کبھار اٹھا بھی لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دو منٹ ٹھہریں ابھی کال کرتے ہیں اور وہ دو منٹ پہلے گھنٹوں، پھر دنوں، پھر ہفتوں اور پھر مہینوں میں بدل جاتے ہیں۔‘ ‘ اس دوران عائشہ آپی فون ہاتھ میں پکڑے انتظار کرتی رہ جاتی تھی، کبھی کبھی تو وہ ساری رات انتظار کرتے گزار دیتی تھی مگر انہیں کسی ایک کا بھی فون نہیں آتا تھا۔ عائشہ خان کے پاس پراڈو ٹی زیڈ گاڑی تھی جسے وہ خود چلاتی تھیں۔ وہ ایک دن طلعت حسین کے گھر آئیں، کیک اور مٹھائی دے کر جلدی واپس لوٹ گئیں اور بتایا کہ وہ اپنے جاننے والے کچھ غریب حلقہ احباب اور رشتے داروں کو سامان دینے جا رہی ہیں۔
عائشہ خان عموماً اپنے فلیٹ کے باہر بے چینی سے ٹہلتی رہتی تھیں، تنہائی کے شکار کی وجہ سے بڑبڑاتی رہتی تھیں۔ جب وہ تھک کے چور ہو جاتیں تو نیچے بیٹھ جاتی تھیں، پھر ان سے اٹھا نہیں جاتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اچانک چیخیں مار کر رونے لگ جاتی تھیں۔ جب انہیں اپنی اس حالت کا احساس ہوتا تو ایک دم وہ خود ہی چپ کر جاتی تھیں۔ جب پڑوسی ان کے قریب آتے تو یہ انہیں زور سے ڈانٹ دیتی تھیں۔ گزشتہ کافی دنوں سے وہ رشتوں کے احساس سے عاری ہو گئی تھیں۔ کچھ ہفتوں سے انہوں نے رات کو فلیٹ سے باہر آنا بھی چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان کا ایک پائوں فریکچر ہو گیا تھا، اور وہ مکمل طور پر تنہا ہو گئیں تھیں۔ حتی کہ ان کی اس تنہائی نے انہیں قتل کر ڈالا۔اس المناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک آپ کے ہاتھ پائوں ٹھیک کام کر رہے ہیں جائیداد بچوں کے نام نہ کیجئے چاہے وہ کتنے ہی ترلے کریں۔ جس دن آپ نے جائیداد ان کے نام کر دی سمجھیں آپ اخلاقی طور پر اپنی اولاد ہی کے ہاتھوں قتل ہو گئے، کیونکہ بعض صورتوں میں نفسیاتی طور پر تنہائی خود ایک سفاک قاتل یے۔ اچھے انسانوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنی ہی مروت کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ یہ قدرتی یا فطری موت نہیں بلکہ اخلاقی قتل ہے جو خودغرضی اور لالچ میں ہوا ہے۔ بعض قتل آپ جسم کا نہیں روح کا کرتے ہیں جس میں آپ پر مقدمہ ہوتا ہے اور نہ آپ کو سزا ہوتی ہے مگر آپ اس قتل میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انہوں نے کرتے ہیں جاتی تھی بچوں کے کے نام اور ان ہو گئی
پڑھیں:
جگہیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں!
اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
امریکی ادیب W.C.Fields نے گو ئٹے پر اپنی کتاب میں لکھا تھا ْ ”وہ کسی طرح شیکسپیئر سے کم نہیں تھا۔ جو شیکسپیئر جانتا تھا وہ گوئٹے بھی جانتا تھا اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھا اور یہ وہ بات ہے جو شیکسپیئر کے سوانح نگا ر اس کی زندگی میں تلاش نہیں کرسکے”۔ 1744 میں اسکا شاہکار نا ولٹSorrows of Werther شائع ہوا۔ اس نا ول کی مقبو لیت اور شہرت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ورتھر کے نام سے یورپ اور جرمنی میں کئی کلب قائم ہوئے۔ نوجوان اس المناک رومانی ناول سے اتنے متا ثر ہوئے کہ خو د کشی کرنے لگے۔ اس ناول نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1775 میں اس کا دوسرا عظیم تخلیقی کارنامہ Gotl Mon Berlichingen شائع ہوتا ہے۔ اس کے اس شاہکارکو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انگر یزی میں اس کا ترجمہ والٹر اسکاٹ نے کیا۔
یہ ہی وہ دور ہے جب اس نے اپنا عظیم ترین تخلیقی شاہکار فاوسٹ لکھنا شروع کیا ۔ فاوسٹ نے اس لا فانی بنا دیا ۔ فاوسٹ کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ فاوسٹ ایک عالم کی حیثیت سے اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہے اور وہ افسردہ ہوجاتاہے اپنی جان لینے کی کوشش کے بعد ،وہ شیطان کو مزید علم اور جادوئی طاقتوں کے لیے پکارتاہے جس سے دنیا کی تمام لذتیں اور علم حاصل کیا جاسکتا ہے جواب میں شیطان کا نمائندہ مسفیٹو فلیس ظاہر ہوتاہے، وہ فاوسٹ کے ساتھ ایک سودا کرتاہے، میفسٹو فلیس اپنی جا دوئی طاقتوں سے فاوسٹ کی کئی سالوں تک خدمت کرے گا لیکن موت کے اختتام پر شیطان فاوسٹ کی روح کا دعویٰ کرے گا اور فاوسٹ ہمیشہ کے لیے اسکاغلام رہے گا۔ گوئٹے کا شیطان انسان کی اناکو بھڑکا تا ہے اور اس وسیلے سے اپنا کام نکالتاہے ۔وہ چاہتا ہے کہ انسان الجھنوں میں گھرا رہے۔ اس میں وہ مسرت محسوس کرتاہے انسان کی سربلندی اسے منظور نہیں ۔ وہ انسان کا سب سے بڑا حریف ہے وہ انسان کو ترغیب دیتاہے کہ وہ دوسروں کی بھلائی اور جذبات کو نظر انداز کرکے لذت دنیاوی میں مصروف رہے۔ جب فاوسٹ ایک جگہ میفسٹو فلیس کو لعنت ملامت کرتاہے تو شیطان کہتاہے ” اے زمین کے لاچار اور بے بس بیٹے! ذرا سوچ تو میرے بغیر تو زندگی کے دن کس طرح گزارتا؟ زندگی کے سو زو ساز اور ذوق و شوق کا سامان کہاں سے لاتا ؟ یاد رکھ اگر میںنہ ہوتا تو اس کرہ ارض پر تیرا وجود نہ ہوتا ۔ تو اسے چھوڑ کر بھاگ چکا ہوتا”۔ دوسر ی طرف فلابیئر نے 1874 میں ناول La Temptation De Saint Antonie لکھا ناول میں Saint Antoine کی آزمائش جسم اور روح کی آزما ئش ہے ۔ شیطان اسے اس طرح مخاطب کرتاہے ” یہاں کوئی مقصد نہیں ۔ صرف نا محدود کا وجود ہے اور بس ۔ عرض تیرے حواس کا دھوکہ ہے اور جو ہرتیرے تخیل کا کر شمہ ہے۔ چونکہ عالم اشیا کے دائمی سیلان کی کیفیت جاری وساری ہے اس لیے یہاں نمود ہی سب سے زیادہ حقیقی اور التبا س ہی واحد حقیقت ہے ”۔ شیطان سینٹ انتواں کو بہکانے میں کامیاب ہو جاتاہے۔ وہ اسے دنیاوی لذتوں میں پھنسا دیتا ہے اور اسے یہ باور کراتاہے کہ یہ ہی اصل اور آفاق گیر زندگی ہے ۔ فاوسٹ اور سینٹ انتو اں دنیا وی آسائشوں اور عیا شیوں، لذتوںکے لیے، ایک اپنی روح شیطان کے ہاتھوں فروخت کر دیتا ہے دوسرا شیطان کے بہکاوے میں پھنس جاتاہے ۔یہ دونوں کہانیاں اتنی سچی ہیں جو صدیوں سے دنیا میں باربار دہرائی جارہی ہے۔ گروڈک یہ کہتے کبھی نہ تھکتا تھا کہ ہم اپنی زندگی نامعلوم اور بے اختیار قوتوں کے اثرات کے تحت بسر کرتے ہیں۔
ہم اگر ملک کی76سالہ تاریخ کا باریکی کے ساتھ معالعہ کریں تو ہم پر یہ وحشت ناک انکشاف ہوگاکہ ہمارے ملک کے با اختیاروں، طاقتوروںاور حکمرانوں کی اکثریت نے یا تواپنی روحیں شیطان کے ہاتھوں فروخت کردیں یا پھر وہ شیطان کے بہکاوے میں آچکے ہیں کیو نکہ جس طرح سے انہوں نے اپنی عیا شیوں ، لذتوں اورآرام کے لیے ملک کے وسائل کو لوٹا اور ملک کے عوام کو جس طرح برباد اور ذلیل و خوار کیا اور کررہے ہیں۔ وہ کوئی سمجھدار ، ذہین ، باکردار انسان نہیں کرسکتا جس کے پاس جتنا بڑا عہد ہ یا رتبہ رہا ہے یا ہے وہ اتنا ہی بڑا بے ایمان اور بد کردار ثابت ہواہے ۔ہمارے ملک کے ہر کرتا دھرتا ، بااختیار اور طاقتور کی قبروں کے کتبے پر یہ ضرور لکھا ہونا چاہیے کہ یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے انسان محبت کرتے تھے اور نیک آدمی اس سے ڈرتے تھے اور جس کی بے ایمانی ، کر پشن اور لوٹ مار اور عیاشیوں کی ہمسری ممکن ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام یہ سو چنے پر مجبور ہیں کہ ان میں اور عہد وحشت کے انسانوں کے درمیان ترقی کی رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے۔ہمارے عہد کے بد کردار اور طاقتور لوگ اپنے عیش وا رام کی خاطر باقی ساروں انسانوں کا چین و سکون ، آرام اور انہیں برباد کرنے پر اسی طرح راضی اور تیار ہوجاتے ہیں جیسا کہ عہد و حشت کے زمانے میں ہوتا تھا۔ ان کی ہوس اور خو اہشیں انسانوں کی نہیں بلکہ دیوئوں کی ہیں۔جو کبھی ختم ہی نہیں ہوپارہی ہیں جو جتنا روپے پیسے ، ہیرے جواہرات ، زمینیں ، جاگیریں جمع کرتے جارہے ہیں ان کی بھوک او ر بڑھتی جارہی ہے ان کی بے چینی اور بے اطمینانی میں اور اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ پوری دنیا میں اس قدر ترقی کے باوجود ہمارے ملک کے شہروں میں آج بھی گندگی ،غلیظ اور قابل نفرت تاریک بستیوں کے ناسور پل رہے ہیں ۔ لوگ صرف ایک روٹی کی خاطر خو د کشیوں پر مجبور ہیں ۔لوگ غربت اور افلاس کی وجہ سے اپنے جسموں کے اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں ۔شیطان نہ انہیں چین لینے دے رہاہے اور نہ ہی ہمیں سکون سے زندگی بسر کرنے دے رہاہے۔ چاروں طرف صرف بھوک ہی بھوک ہے ۔
شیکسپیئراپنے ڈرامنے King Lear میں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا، زندگی کی ماہیت کونہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظر نہیں آتی ، جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا۔ نطشے بہت حساس انسان تھا 44 سال کی عمر میں وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ۔ سوانح نگاروں کے مطابق ایک روز وہ اپنے فلیٹ سے نکلا دیکھا کہ ایک شخص اپنے گھوڑے کو بے دردی سے پیٹ رہا ہے۔ نطشے سے یہ دلخراش منظر دیکھا نہ گیا بے خود ہو کر وہ گھوڑے سے لپٹ گیا۔ کوچوان نے گھوڑے کے ساتھ ساتھ نطشے کو بھی پیٹا۔ اس کے بعد وہ 12سال تک زندہ رہا لیکن وہ اپنی عقل و خرد سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ ہمارے ملک کے بااختیار اور طاقتور اتنے بے شرم اور بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں لاکھوں دم توڑ تے لوگ دکھائی نہیں د ے رہے ہیں ۔ایک ایک روٹی کے لیے بھاگتے لوگ ان کی آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔ سڑکوں پر ننگے پائوں ، بھوکے پیاسے لوگوں سے کیوں انہوں نے اپنی نظریں چرارکھی ہیں ۔کروڑوں انسانوں کی حالت زار روزانہ ٹی وی ، اخبارات اور سو شل میڈیا پر دکھائی جارہی ہیں ۔ لیکن وہ اندھے ، گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں شیلے اپنی نظم Ozymandias میں لکھتا ہے کہ ہر چیز یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہر چیز کا مقدر فنا ہوجاناہے ۔ یہ کائنا ت کا اصول ہے کہ کوئی چیز ہمیشہ ایک حالت میں نہیں رہتی ،اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ میرے ملک کے بااختیاروں ، طاقتوروں تمہارے پاس بھی اختیار اور طاقت ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ جگہیں بدلتی رہتی ہے۔ آج تم آقا ہو اور باقی سب غلام ہیں ۔ لیکن جس روز تم غلام ہوگے اور باقی جب آقاہوں گے تو سو چ لو تمہارے ساتھ کیا حشر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔