Jasarat News:
2025-06-28@00:23:47 GMT

’’گاڈ بلیس ایران‘‘ جنگ

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جنگ تھم گئی ہے۔ آخر آخر جنگ کا ایک ہی پیغام تھا ’’بم ہوں یا بوسہ، پیشگی اطلاع ضروری ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ بلا کے ادا شناس ثابت ہوئے۔ اسرائیل دہائیوں سے ایران پر حملے کا آرزومند تھا، دل گرفتہ اور غم زدہ، اب تو آہیں بھرنے لگا تھا، نیتن یاہو نے شیو بڑھانے کا ارادہ بھی کر لیا تھا۔ آنکھ کے ایک اشارے سے صدر ٹرمپ نے اسے بھی جنگ کا خلل پورا کرنے کا موقع دے دیا۔ امریکیوں کے اندر بھی کھد بد ہورہی تھی افغانستان کے بعد عرصہ ہوا انہوں نے کسی اسلامی ملک پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا تھا، اندیشہ ہورہا تھا اسلامی ممالک پر حملہ کرنے کی عادت کہیں بالکل ہی چوپٹ نہ ہوجائے، پھر امریکی اسٹیلتھ بمبار طیارے اور بنکر بسٹر بم بھی جدید طوائفوں کی طرح شائستہ ہوتے جارہے تھے، ایران قریب بھی تھا اور مخاطب بھی لہٰذا اس پر ٹرائی کرنے میں کیا حرج تھا، سو امریکیوں کو بھی کسی اسلامی ملک میں جنگ کا سماں باندھنے کا موقع مل گیا۔ ایران نے بھی عرصے سے کسی عرب ملک کو نشانہ نہیں بنایا تھا قطر پر حملہ کرنے سے اس کا جی بھی ذرا ہلکا ہوگیا۔ وہ بھی بھک سے اُڑا دینے والے نشے سے سرشار ہو گیا۔
جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ فخر وغلو کے ساتھ ساتھ ایران کی محبت میں بھی گرفتار ہوگئے اور نوبت ’’God bless Iran‘‘ تک پہنچ گئی۔ یہ مگر مچھ کے وہ جبڑے ہیں جو پیار بھی کرتے ہیں۔ یہ بولتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کو ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ کہتے ہوئے ایک طرف کردیا تھا اور نیتن یاہو کو گندی سی گالی بھی دے دی تھی۔ نیتن یاہو نے خلوت میں شکایت کی تو بولے ’’امریکی صدور صرف جنگ نہیں کرواتے، جنگ کا اسکرپٹ بھی لکھتے ہیں اور کردار بھی بانٹتے ہیں اور پھر آخر میں کیمروں کے سامنے آکر جنگ بندی کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ انہیں اپنی حرمزدگیوں کو نوبل پرائز تک بھی تو پہنچانا ہوتا ہے‘‘۔ نیتن یا ہونے اپنے یہودی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی نوبل پرائز کی آرزو کو عرس میں تبدیل کرتے ہوئے کہا ’’میں دنیا کو بتادوں گا کہ آپ نے ہمیں خود ایران پر حملے کی اجازت دی تھی‘‘ صدر ٹرمپ بولے ’’میں نے تمہیں کبھی ایران پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ اگر تم ایران پر حملہ کروگے تو میں برا نہیں منائوں گا‘‘۔
جنگ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے ایران پر بم گرائے اور ایران نے اسرائیل پر ڈرونز اور میزائل۔ عالمی سفارت کاری بستر کی چادریں درست کرتی رہی۔ بظاہر اسرائیل کی جان ایرانی نیوکلیئر طاقت کی بربادی میں اٹکی ہوئی تھی لیکن اس کا اصل ہدف ایران کو غیر جوہری نہیں ’’غیر ملّا‘‘ بنانا تھا۔ جنگ یورینیم کی افزودگی سے نہیں اعصاب پر سوار ملا رجیم سے تھی۔ حملے کے ساتھ ہی اس انداز کے تبصرے شروع ہو گئے تھے کہ موجودہ ایرانی رجیم کے خاتمے کے بعد کون سی رجیم اقتدار میں آنے والی ہے؟ لیکن حملوں کے بعد بے حد نقصان کے باوجود جب قم میں اذانیں وقت پر ہوئیں، خطبہ زیادہ جوشیلا ہوا، ملا ٹس سے مس نہ ہوئے اور عوام کسی خلفشار کا شکار ہوئے اور نہ بغاوت پر اترے بلکہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کے شانے سے شانہ ملاکر کھڑے ہوگئے۔ تب اسرائیل اور امریکا کو ملا رجیم کی قبروں پر سنگ مرمر کا مزار بنانے اور دھوم سے عرس منانے کی بے چینی پوری ہوتی نظر نہ آئی اور جنگ کی بھڑک مٹنے کے بجائے پھیلتی محسوس ہوئی تو انہیں بڑی بے دلی اور بے رغبتی سے ملائوں کی ہٹ دھرمی کے مقابل جنگ بندی کی طرف آنا پڑا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ یہ جنگ ہم جیت نہیں سکتے۔ معاملہ زیادہ بڑھا تو زمینی افواج ایران میں داخل کرنا پڑیں گی جس سے عزت، دستار اور سر کچھ بھی سلامت نہ رہتا۔ پہلی مرتبہ ہوا کہ 75 برس میں کسی امریکی صدر نے اسرائیلی سربراہ کو کھلے عام گالی دی ہو۔ ایران میں تو رجیم تبدیل نہ ہوسکی اب نیتن یاہو رجیم دھندے سے خیر باد کہتی اور ناک سے لکیریں کھینچتی نظرآئے گی۔
امریکا نے ڈھنگ سے ہوٹ ہونے کے لیے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ایران کی رضا سے حملہ کرنے کو کارگر سمجھا اور ایران کو پیغام بھیج دیا ’’ہیلو ایران۔ ہم آرہے ہیں۔ خبردار رہنا۔ اپنی چیزیں اٹھالو اور دیکھو ہمارے پائلٹوں کے لیے پاکستان کی طرح چائے کا اہتمام مت کرنا‘‘ سی آئی اے کے مطابق ایران نے بمباری سے پہلے ہی اپنا 400 کلو گرام افزودہ یو رینیم ایک خفیہ مقام پر منتقل کردیا تھا۔ امریکا کی اس کارروائی پر ایران نے قطر میں امریکی بیس پر اطلاع دے کر حملہ کر دیا۔ وہاں ایرانی حملے سے پہلے طیارے ہٹادیے گئے، نصف فوجیوں کو مکڈونلڈ بھیج دیا گیا اور بقیہ پاپ کارن، سوفٹ ڈرنک اور انٹرنیٹ کے ساتھ بم پروف بنکرز میں چلے گئے۔ کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیل کا بھرم اور ناقابل تسخیر ہونے کا زعم تیل ہو گیا جس کا دفاع بارہ دن تک محض میزائلوں کی بمباری سے ہی ڈھیر ہو گیا۔
اس دوران پا کستان کی خارجہ پالیسی نہایت موزوں اور سازگارہی۔ پاکستان کے لیے خوشی کا مقام یہ ہے کہ اس کے دودشمنوں بھارت اور اسرائیل کو جنگ کے میدانوں کو چھوڑ کر محکمہ چنگی میں ملازمت کرنی پڑ رہی ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں اور اسرائیل کو ایران کے ہاتھوں۔ شنید یہ ہے کہ چار روزہ جنگ کے بعد بھارت بڑی تیزی سے دنیا بھر سے اسلحہ خرید رہا ہے لیکن مسئلہ وہی ہے کہ اسلحہ چلانے کے لیے پاکستانیوں جیسا جگر وہ کہاں سے لائے گا۔
محبت اور جیو پالیٹکس میں فرق صرف یہ ہے کہ محبت میں دل ٹوٹتے ہیں اور جیو پالیٹکس میں ممالک۔ اس جنگ بندی کا کمال یہ رہا کہ دل ٹوٹے اور نہ ممالک۔ جنگ اور جیو پالیٹکس دونوں محفوظ رہیں۔ لیکن تنازع اپنی جگہ برقرار ہے جب تک اسرائیل فلسطین میں ظلم کرتا رہے گا جھگڑا موجود رہے گا۔ جب تک یہودی وجود خطے میں قائم رہے گا جنگ صورت بدل بدل کر آتی رہے گی۔ ایران کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اپنی قومی حمیت کا اس نے بھر پور مظاہرہ کیا اور کہیں سے کسی بھی مدد کے بغیر بھی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹا۔ ایران اس جنگ کا فاتح ہے۔ ایران میں جشن منایا جارہا ہے۔
تاہم سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ ایران نے ایک خلیجی مسلمان ملک پر ہی حملہ کیوں کیا جس سے جنگ پھیلنے کی صورت میں دو مسلم ملک برسر جنگ آسکتے تھے جس کے بعد قطر نے کہا کہ ہم حملے کا جواب محفوظ رکھتے ہیں۔ پاکستان سمیت بیش تر مسلم ممالک نے ایران کے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایرانی عوام میں اپنی حکومت کے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ جنگ نے اس غصے کو وقتی طور پر دھندلادیا تھا لیکن حالت امن میں یہ غصہ پھر بیدار ہوسکتا ہے پھر شاید وہ کام جو اسرائیل اور امریکا نہ کرسکے اندروں خود ہی ہو جائے۔ اسرائیل اور امریکا پسپا ہوئے ہیں لیکن جنگ ابھی جاری ہے۔ ختم نہیں ہوئی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو ایران نے ایران پر حملہ کر ہو گیا کے بعد کے لیے جنگ کا

پڑھیں:

ایران،اسرائیل جنگ ،مسلم دنیا کے لیے چشم کشا اسباق

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ نہ صرف دو ریاستوں کے مابین عسکری تصادم تھا، بلکہ اس نے پوری مسلم امہ کو ایک کٹھن آزمائش میں مبتلا کر دیا۔ یہ جنگ صرف میزائلوں اور ڈرونز کا تبادلہ نہیں تھی، بلکہ فلسطین کے مظلوموں کے لیے ایک امید اور مسلم اتحاد کے لیے ایک موقع تھی، جو ایک بار پھر ضائع ہو گیا۔ آج جب جنگ کا غبار چھٹ چکا ہے، دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں تبصرے ہو رہے ہیں، تجزیے چھپ رہے ہیں، تو ضروری ہے کہ ہم خود سے یہ سوال کریں کہ اسرائیل ایران جنگ پر مسلم دنیا کا مجموعی ردِعمل کیا رہا؟ اور کیا یہ ردِعمل امت کے شایانِ شان تھا؟ کئی عرب ممالک نے ایران کے ساتھ سیاسی و مسلکی اختلافات کی بنیاد پر غیر جانبداری کا رویہ اختیار کیا، حالانکہ ایران کی عسکری کاروائیاں دراصل اسرائیلی بربریت کے خلاف تھیں۔ ایران کو نظر انداز کر کے ان ممالک نے درحقیقت فلسطین کی جدوجہد کو کمزور کیا، جس کا فائدہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کو پہنچا۔ اگر بات کریں او آئی سی کی تو وہ ایک مردہ گھوڑے یا بےبس تماشائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کا کردار محض بیانات تک محدود رہا۔ کوئی ہنگامی اجلاس، کوئی مشترکہ قرارداد، کوئی مؤثر عملی قدم سامنے نہیں آیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم امہ کے اجتماعی ضمیر کی یہ بےحسی اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو، ایک عالمی مسلم بلاک قائم کرے، مشترکہ خارجہ پالیسی وضع کرے، اور مظلوموں کے دفاع کے لیے عملی اقدامات کرے، ورنہ تاریخ ہمیں بےحسی کے مجرموں میں شمار کرے گی۔
یہ تباہ کن جنگ مسلم دنیا کے لیے گہرے غور و تدبر اور خود احتسابی کا لمحہ ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ جنگ چند ہفتوں میں اپنے انجام کو پہنچی، لیکن اس کے اثرات، پیغامات اور اسباق کئی دہائیوں تک مسلم اُمہ کو جھنجھوڑتے رہیں گے۔ خصوصاً غزہ میں جاری انسانی المیہ اور اسرائیلی بربریت کے تناظر میں اس جنگ نے مسلم ممالک کے کردار، اتحاد، سفارتی اہلیت اور دفاعی کمزوریوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ چند چشم کشا پہلوؤں سے اس کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ (1) ایران کو اسرائیل کے حملوں کا تنہا سامنا کرنا پڑا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی بڑے مسلم ملک نے عملی طور پر اس کا ساتھ نہیں دیا۔ چند رسمی بیانات، سفارتی ناپسندیدگی اور کچھ علامتی احتجاجات کے سوا مسلم دنیا سے کوئی مشترکہ، مؤثر یا متفقہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہی حال غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ یہ صورت حال اس ناقابل تردید حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ مسلم دنیا آج بھی شدید داخلی تقسیم، باہمی عدم اعتماد اور قیادت کے بحران کا شکار ہے (2) اس جنگ نے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں کر دی کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، خاص طور پر امریکہ، مسلم دنیا کے اصل دشمن ہیں۔ جہاں ایک جانب ایران کے جوہری پروگرام پر شور و غوغا کیا گیا، وہیں اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں پر عالمی خاموشی گہرا تضاد ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر ہونے والی بمباری، ہسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنانے کے باوجود مغرب کی طرف سے “انسانی حقوق” کی دہائی سنائی نہیں دی۔ اس منافقانہ رویے پر مسلم دنیا کو اب آنکھیں کھولنی ہوں گی۔(3) ایران نے میزائل، ڈرون اور دیگر دفاعی ٹیکنالوجیز کا استعمال کر کے واضح کیا کہ اگرچہ وہ معاشی پابندیوں میں جکڑا ہوا ملک ہے، لیکن دفاع کے لیے خود پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے برعکس، بیشتر عرب ممالک مغرب سے اسلحہ خریدنے، دفاعی مشاورت لینے اور سیکیورٹی معاہدے کرنے پر انحصار کرتے ہیں۔ جب تک مسلم ممالک اپنی دفاعی صنعت اور ٹیکنالوجی میں خودکفالت حاصل نہیں کریں گے، وہ کسی بحران میں آزادی سے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ (4) اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، یا بین الاقوامی میڈیا، سب نے ایک طرفہ بیانیہ اپنایا۔ ایران کے میزائلوں کو “خطرہ برائے امن” قرار دیا گیا، جبکہ اسرائیلی فضائی حملوں میں بچوں، خواتین اور شہریوں کی ہلاکتوں کو “دفاعی اقدام” کا نام دیا گیا۔ فلسطینی عوام کو انسانی حقوق کی بات کرنے والے عالمی اداروں نے عملاً تنہا چھوڑ دیا۔ یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا اقوام متحدہ کے متبادل ایک نیا عالمی فورم بنانے پر سنجیدگی سے غور کرے۔ (5) ایران کو دنیا بھر میں بالخصوص مسلم دنیا کی عوام کی زبردست اخلاقی حمایت حاصل رہی۔ پاکستان، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مراکش جیسے ممالک میں عوام نے مظاہروں، ریلیوں اور غزہ سے اظہار یکجہتی کے ذریعے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی، لیکن ان ممالک کی حکومتیں اکثر زبانی مذمت سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم عوام بیدار ہو چکے ہیں، مگر ان کی قیادت اب بھی مفادات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ (6) اسرائیل نے دنیا کے میڈیا پر اپنے بیانیے کو نہ صرف مسلط کیا بلکہ متاثرہ فریق کو مجرم بنا کر پیش کیا۔ مغربی میڈیا نے فلسطینیوں کی لاشوں کو “جنگی نقصان” کہہ کر اسرائیلی ریاست کی صفائی پیش کی۔ اس سے یہ سبق ملا کہ مسلم دنیا کو اپنا بین الاقوامی میڈیا نیٹ ورک قائم کرنا ہو گا جو ان کے موقف کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کر سکے۔ (7) ایران-اسرائیل جنگ نے جس طرح مسلم دنیا کو جھنجھوڑا، غزہ کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور جذباتی آزمائش ہے۔ ہزاروں شہادتیں، لاکھوں بے گھر افراد، تباہ شدہ انفراسٹرکچر اور بھوک سے بلکتے بچے، یہ سب مسلم دنیا کی بے حسی اور غفلت پر ایک کربناک سوالیہ نشان ہیں۔ اس وقت غزہ کو صرف مذمتی بیانات نہیں، بلکہ بھرپور عملی امداد، سفارتی مہمات، انسانی ہمدردی، اور تعمیر نو کے عزم کی ضرورت ہے۔ (8) ایران-اسرائیل جنگ اور غزہ کا بحران اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ مسلم ممالک صرف وقتی ردعمل سے آگے بڑھ کر ایک جامع پالیسی وضع کریں۔ اس پالیسی کے اہم نکات درج ذیل ہو سکتے ہیں: (1) ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ جس میں تمام مسلم ممالک کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں۔ (2) ایک اسلامی انسانی امدادی نیٹ ورک جو ہر بحران میں فوری رسپانس دے سکے۔ (3) ایک اسلامی میڈیا اتحاد جو عالمی سطح پر مسلم نقطۂ نظر کو اجاگر کرے۔(4) ایک سیاسی و سفارتی بلاک جو عالمی اداروں میں فلسطینی حقوق کی مؤثر وکالت کرے۔
ایران اور اسرائیل کی حالیہ جنگ محض دو ریاستوں کا ٹکراؤ نہیں بلکہ مسلم دنیا کے ضمیر کا امتحان تھا۔ یہ جنگ ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے یہ پیغام دے رہی ہے کہ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے، خود پر انحصار نہیں کریں گے، اور دشمن کو پہچان کر عملی اقدامات نہیں اٹھائیں گے، ہم اسی طرح تماشائی بنے رہیں گے۔ یہ وقت ہے جاگنے کا، قدم اٹھانے کا، اور اُمت کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا۔

متعلقہ مضامین

  • ایران،اسرائیل جنگ ،مسلم دنیا کے لیے چشم کشا اسباق
  • طاقت کے زعم میں امن؟
  • ایران کا جوہری پروگرام تباہ نہیں ہوا، رافاَئل گروسی
  • اسرائیلی حملے میں ایرانی ایٹمی سائنسدان اپنے خاندان کے  11 افراد کے ساتھ شہید ہوئے، ایرانی میڈیا
  • تہذیبوں کا تصادم اور پاکستان کی آزمائش
  • جنگ بندی کی اصل کہانی
  • پاکستان اور ایران نے اپنی طاقت منوائی، خطے میں نیا دفاعی بلاک بنانا چاہیے، حافظ نعیم
  • ایران اسرائیل جنگ بندی عالمی امن کی طرف تاریخی قدم ہے، ڈاکٹر شوکت علی شیخ
  • ایران اسرائیل جنگ میں طاقت کا توازن