Jasarat News:
2025-11-19@14:39:48 GMT

’’گاڈ بلیس ایران‘‘ جنگ

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جنگ تھم گئی ہے۔ آخر آخر جنگ کا ایک ہی پیغام تھا ’’بم ہوں یا بوسہ، پیشگی اطلاع ضروری ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ بلا کے ادا شناس ثابت ہوئے۔ اسرائیل دہائیوں سے ایران پر حملے کا آرزومند تھا، دل گرفتہ اور غم زدہ، اب تو آہیں بھرنے لگا تھا، نیتن یاہو نے شیو بڑھانے کا ارادہ بھی کر لیا تھا۔ آنکھ کے ایک اشارے سے صدر ٹرمپ نے اسے بھی جنگ کا خلل پورا کرنے کا موقع دے دیا۔ امریکیوں کے اندر بھی کھد بد ہورہی تھی افغانستان کے بعد عرصہ ہوا انہوں نے کسی اسلامی ملک پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا تھا، اندیشہ ہورہا تھا اسلامی ممالک پر حملہ کرنے کی عادت کہیں بالکل ہی چوپٹ نہ ہوجائے، پھر امریکی اسٹیلتھ بمبار طیارے اور بنکر بسٹر بم بھی جدید طوائفوں کی طرح شائستہ ہوتے جارہے تھے، ایران قریب بھی تھا اور مخاطب بھی لہٰذا اس پر ٹرائی کرنے میں کیا حرج تھا، سو امریکیوں کو بھی کسی اسلامی ملک میں جنگ کا سماں باندھنے کا موقع مل گیا۔ ایران نے بھی عرصے سے کسی عرب ملک کو نشانہ نہیں بنایا تھا قطر پر حملہ کرنے سے اس کا جی بھی ذرا ہلکا ہوگیا۔ وہ بھی بھک سے اُڑا دینے والے نشے سے سرشار ہو گیا۔
جنگ بندی کے بعد صدر ٹرمپ فخر وغلو کے ساتھ ساتھ ایران کی محبت میں بھی گرفتار ہوگئے اور نوبت ’’God bless Iran‘‘ تک پہنچ گئی۔ یہ مگر مچھ کے وہ جبڑے ہیں جو پیار بھی کرتے ہیں۔ یہ بولتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کو ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ کہتے ہوئے ایک طرف کردیا تھا اور نیتن یاہو کو گندی سی گالی بھی دے دی تھی۔ نیتن یاہو نے خلوت میں شکایت کی تو بولے ’’امریکی صدور صرف جنگ نہیں کرواتے، جنگ کا اسکرپٹ بھی لکھتے ہیں اور کردار بھی بانٹتے ہیں اور پھر آخر میں کیمروں کے سامنے آکر جنگ بندی کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ انہیں اپنی حرمزدگیوں کو نوبل پرائز تک بھی تو پہنچانا ہوتا ہے‘‘۔ نیتن یا ہونے اپنے یہودی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی نوبل پرائز کی آرزو کو عرس میں تبدیل کرتے ہوئے کہا ’’میں دنیا کو بتادوں گا کہ آپ نے ہمیں خود ایران پر حملے کی اجازت دی تھی‘‘ صدر ٹرمپ بولے ’’میں نے تمہیں کبھی ایران پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ اگر تم ایران پر حملہ کروگے تو میں برا نہیں منائوں گا‘‘۔
جنگ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے ایران پر بم گرائے اور ایران نے اسرائیل پر ڈرونز اور میزائل۔ عالمی سفارت کاری بستر کی چادریں درست کرتی رہی۔ بظاہر اسرائیل کی جان ایرانی نیوکلیئر طاقت کی بربادی میں اٹکی ہوئی تھی لیکن اس کا اصل ہدف ایران کو غیر جوہری نہیں ’’غیر ملّا‘‘ بنانا تھا۔ جنگ یورینیم کی افزودگی سے نہیں اعصاب پر سوار ملا رجیم سے تھی۔ حملے کے ساتھ ہی اس انداز کے تبصرے شروع ہو گئے تھے کہ موجودہ ایرانی رجیم کے خاتمے کے بعد کون سی رجیم اقتدار میں آنے والی ہے؟ لیکن حملوں کے بعد بے حد نقصان کے باوجود جب قم میں اذانیں وقت پر ہوئیں، خطبہ زیادہ جوشیلا ہوا، ملا ٹس سے مس نہ ہوئے اور عوام کسی خلفشار کا شکار ہوئے اور نہ بغاوت پر اترے بلکہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کے شانے سے شانہ ملاکر کھڑے ہوگئے۔ تب اسرائیل اور امریکا کو ملا رجیم کی قبروں پر سنگ مرمر کا مزار بنانے اور دھوم سے عرس منانے کی بے چینی پوری ہوتی نظر نہ آئی اور جنگ کی بھڑک مٹنے کے بجائے پھیلتی محسوس ہوئی تو انہیں بڑی بے دلی اور بے رغبتی سے ملائوں کی ہٹ دھرمی کے مقابل جنگ بندی کی طرف آنا پڑا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ یہ جنگ ہم جیت نہیں سکتے۔ معاملہ زیادہ بڑھا تو زمینی افواج ایران میں داخل کرنا پڑیں گی جس سے عزت، دستار اور سر کچھ بھی سلامت نہ رہتا۔ پہلی مرتبہ ہوا کہ 75 برس میں کسی امریکی صدر نے اسرائیلی سربراہ کو کھلے عام گالی دی ہو۔ ایران میں تو رجیم تبدیل نہ ہوسکی اب نیتن یاہو رجیم دھندے سے خیر باد کہتی اور ناک سے لکیریں کھینچتی نظرآئے گی۔
امریکا نے ڈھنگ سے ہوٹ ہونے کے لیے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ایران کی رضا سے حملہ کرنے کو کارگر سمجھا اور ایران کو پیغام بھیج دیا ’’ہیلو ایران۔ ہم آرہے ہیں۔ خبردار رہنا۔ اپنی چیزیں اٹھالو اور دیکھو ہمارے پائلٹوں کے لیے پاکستان کی طرح چائے کا اہتمام مت کرنا‘‘ سی آئی اے کے مطابق ایران نے بمباری سے پہلے ہی اپنا 400 کلو گرام افزودہ یو رینیم ایک خفیہ مقام پر منتقل کردیا تھا۔ امریکا کی اس کارروائی پر ایران نے قطر میں امریکی بیس پر اطلاع دے کر حملہ کر دیا۔ وہاں ایرانی حملے سے پہلے طیارے ہٹادیے گئے، نصف فوجیوں کو مکڈونلڈ بھیج دیا گیا اور بقیہ پاپ کارن، سوفٹ ڈرنک اور انٹرنیٹ کے ساتھ بم پروف بنکرز میں چلے گئے۔ کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیل کا بھرم اور ناقابل تسخیر ہونے کا زعم تیل ہو گیا جس کا دفاع بارہ دن تک محض میزائلوں کی بمباری سے ہی ڈھیر ہو گیا۔
اس دوران پا کستان کی خارجہ پالیسی نہایت موزوں اور سازگارہی۔ پاکستان کے لیے خوشی کا مقام یہ ہے کہ اس کے دودشمنوں بھارت اور اسرائیل کو جنگ کے میدانوں کو چھوڑ کر محکمہ چنگی میں ملازمت کرنی پڑ رہی ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں اور اسرائیل کو ایران کے ہاتھوں۔ شنید یہ ہے کہ چار روزہ جنگ کے بعد بھارت بڑی تیزی سے دنیا بھر سے اسلحہ خرید رہا ہے لیکن مسئلہ وہی ہے کہ اسلحہ چلانے کے لیے پاکستانیوں جیسا جگر وہ کہاں سے لائے گا۔
محبت اور جیو پالیٹکس میں فرق صرف یہ ہے کہ محبت میں دل ٹوٹتے ہیں اور جیو پالیٹکس میں ممالک۔ اس جنگ بندی کا کمال یہ رہا کہ دل ٹوٹے اور نہ ممالک۔ جنگ اور جیو پالیٹکس دونوں محفوظ رہیں۔ لیکن تنازع اپنی جگہ برقرار ہے جب تک اسرائیل فلسطین میں ظلم کرتا رہے گا جھگڑا موجود رہے گا۔ جب تک یہودی وجود خطے میں قائم رہے گا جنگ صورت بدل بدل کر آتی رہے گی۔ ایران کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اپنی قومی حمیت کا اس نے بھر پور مظاہرہ کیا اور کہیں سے کسی بھی مدد کے بغیر بھی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹا۔ ایران اس جنگ کا فاتح ہے۔ ایران میں جشن منایا جارہا ہے۔
تاہم سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ ایران نے ایک خلیجی مسلمان ملک پر ہی حملہ کیوں کیا جس سے جنگ پھیلنے کی صورت میں دو مسلم ملک برسر جنگ آسکتے تھے جس کے بعد قطر نے کہا کہ ہم حملے کا جواب محفوظ رکھتے ہیں۔ پاکستان سمیت بیش تر مسلم ممالک نے ایران کے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایرانی عوام میں اپنی حکومت کے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ جنگ نے اس غصے کو وقتی طور پر دھندلادیا تھا لیکن حالت امن میں یہ غصہ پھر بیدار ہوسکتا ہے پھر شاید وہ کام جو اسرائیل اور امریکا نہ کرسکے اندروں خود ہی ہو جائے۔ اسرائیل اور امریکا پسپا ہوئے ہیں لیکن جنگ ابھی جاری ہے۔ ختم نہیں ہوئی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نیتن یاہو ایران نے ایران پر حملہ کر ہو گیا کے بعد کے لیے جنگ کا

پڑھیں:

عرب ممالک بھی ''فلسطینی ریاست کا قیام'' نہیں چاہتے، نیا اسرائیلی دعوی

قابض اسرائیلی رژیم کے وزیر توانائی نے دعوی کیا ہے کہ بیشتر عرب ممالک بھی ''آزاد فلسطینی ریاست کے قیام'' کے خلاف اور ہم سے ''حماس کے خاتمے کا مطالبہ'' کرتے ہیں اسلام ٹائمز۔ قابض اسرائیلی رژیم کے غاصب وزیر توانائی و انفراسٹرکچر ایلی کوہن نے صہیونی حکام کے فلسطین مخالف موقف پر روشنی ڈالتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام "اب'' یا ''مستقبل میں''، کبھی وقوع پذیر نہ ہو گا۔ غزہ سے متعلق امریکی قرارداد پر سلامتی کونسل میں ووٹنگ سے قبل، اسرائیلی چینل 14 کو دیئے گئے انٹرویو میں ایلی کوہن نے "فلسطینی ریاست کے قیام کے راستے کو وسیع تر اصلاحات سے مشروط بنانے'' کے حوالے سے کہا کہ ہماری رائے میں یہ مسئلہ بالکل واضح ہے، فلسطینی ریاست کبھی تشکیل نہ پائے گی، بات ختم! 

غاصب صیونی وزیر توانائی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امن معاہدے تک پہنچنے کے لئے اس طرح کی کوئی قرارداد جاری نہیں کی جانی چاہیئے تاہم اگر وہ مجھ سے پوچھیں کہ کیا فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے ابراہیمی معاہدے کو بڑھایا جانا چاہیئے، تو میرا جواب ہو گا کہ ''یقیناً نہیں!‘‘ ایلی کوہن نے دعوی کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کا سخت مخالف ہے.. یہ سرزمین ہماری ہے جبکہ غزہ سے انخلاء کے بعد ممکنہ طور پر سامنے آنے والے سکیورٹی خطرات کو ''تجربے'' نے ثابت کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر توانائی نے دعوی کرتے ہوئے مزید کہا کہ زیادہ تر ''اعتدال پسند عرب ممالک'' کہ جو بظاہر کھلے عام ''آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت'' پر بات کرتے نظر آتے ہیں، درحقیقت ایسا چاہتے ہی نہیں اور ہم سے حماس کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں!!

متعلقہ مضامین

  • نام نہاد غزہ امن فورس اور پاکستان
  • ایران کی منصفانہ تصویر پیش کریں، صدر پزشکیان کی آسٹریا کے سفیر سے گفتگو
  • اسرائیل کیخلاف عملی کارروائی ہونی چاہیئے محض مذمت کافی نہیں، جوزپ بورل
  • حماس نے غزہ قرارداد مسترد کردی، اسرائیل کے خلاف ہتھیار ڈالنے سے انکار
  • ماحولیاتی تباہیوں سے بے گھر بچے ڈپریشن کا شکار ہوئے، ماہرین
  • عرب ممالک بھی ''فلسطینی ریاست کا قیام'' نہیں چاہتے، نیا اسرائیلی دعوی
  • ہم لبنان کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دینگے، شیخ نعیم قاسم
  • سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • ایران کو صرف باوقار اور باہمی مفاد پر مبنی مذاکرات ہی قبول ہیں، عباس عراقچی
  • جوہری پروگرام پر سفارتکاری اور باوقار مذاکرات کےحق میں ہیں: ایران