Express News:
2025-11-12@04:36:36 GMT

پاکستان سفارتی محاذ پر سرخرو، بھارت کو ہزیمت

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون ( ایس سی او) کے دس رکنی وزرائے دفاع نے بلوچستان میں بھارت کی بالواسطہ دہشت گردی کی مذمت کردی جب کہ پہلگام واقعے پر بھارتی موقف کو مسترد کردیا۔ بھارتی وفد پہلگام واقعہ پر پاکستان کی مذمت کو اعلامیے میں شامل کرانے کے لیے منتیں کرتا رہا لیکن رکن ممالک نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ اب عالمی برادری کی مکمل حمایت پاکستان کو حاصل ہورہی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک اب بھارت کے مکروہ چہرے کو پہچاننے لگے ہیں۔ پاکستان ایک پُر امن ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرتا ہے۔ بھارت کی یہ علت پرانی ہے کہ جب میدانِ جنگ میں شکست کھا جاتا ہے تو محاذ بدل دیتا ہے۔

کبھی میڈیا کا ہتھیار استعمال کرتا ہے،کبھی سفارت کاری کی آڑ میں زہر گھولتا ہے۔ پچھلے دنوں جب پاکستان نے عسکری سطح پر واضح برتری دکھائی اور بھارت کی بلند بانگ دھمکیاں زمین بوس ہوئیں، تو دہلی کے ایوانوں میں جیسے زلزلہ آ گیا۔ بھارتی حکمران شکست تسلیم کرنے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے، دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف زہریلا بیانیہ پھیلانے نکل پڑے۔

بھارت کی ہٹ دھرمی، دہشت گردانہ ذہنیت، جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث جنوبی ایشیا اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات، شہری علاقوں کو نشانہ بنانا اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی جیسے اقدامات خطے میں امن و استحکام کے لیے خطرناک پیغام دے رہے ہیں۔

ان حالات میں پاکستان نے عالمی سطح پر سفارتی حکمتِ عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنا موقف مضبوطی سے پیش کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب ارکان سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں اس تناظر میں انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ پاکستانی پارلیمانی وفد کی قیادت چیئرمین پیپلز پارٹی و سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کی، جنھوں نے اقوام متحدہ کے دفتر میں سلامتی کونسل کے منتخب غیر مستقل ارکان سے ملاقاتیں کیں۔

ان میں ڈنمارک، یونان، پاناما، صومالیہ، الجزائر،گیانا، جاپان، جنوبی کوریا، سیرا لیون، اور سلووینیا شامل تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ بھارت کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور بلا ثبوت ہیں، جنھیں دلائل و شواہد کے ساتھ اقوام متحدہ کے نمایندوں کے سامنے رد کیا گیا۔

پاکستان کا ردعمل ان تمام بھارتی اشتعال انگیزیوں کے خلاف نہایت نپا تلا، ذمے دارانہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق رہا ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ محض تنازعہ کے بعد ’’کرائسس مینجمنٹ‘‘ کے بجائے، پیشگی حل پر توجہ دے اور جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کی بنیاد رکھے۔

حالیہ بھارتی جارحیت کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے، جس پر امریکی صدر ٹرمپ نے بھی بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات پر زور دیا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا، خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ موجودہ عالمی توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سفارتی سطح پر بھارت پر دباؤ بڑھائے۔ بھارت نے ہمیشہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے پوری تیاری، ثبوتوں اور اعتماد کے ساتھ عالمی فورمز پر، بھارت کی ایک ایک سازش کو بے نقاب کیا ہے۔

دنیا کو بتایا ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا سہولت کار بھارت ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ مالدیپ تک میں مداخلت کر چکا ہے۔ کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان دنیا کے سامنے موجود ہے، جس میں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایما پر بلوچستان میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم رہا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک پورا نیٹ ورک ہے جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پرکمزورکرنا ہے۔

پنجاب، جو پاکستان کا آبادی کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ ہے، اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بھی بھارت مختلف طریقوں سے مداخلت کرتا رہا ہے۔ دہشت گردوں کو فنڈنگ، اسلحہ، تربیت اور میڈیا پر پراپیگنڈا کے ذریعے عوام کو ریاست سے بدظن کرنے کی منظم کوشش کی جاتی رہی ہے۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پسِ پردہ بھی بھارت کا کردار بہت واضح تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود ایک عوامی جلسے میں اعتراف کر چکے ہیں کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

بھارتی فوج نے نہ صرف مشرقی پاکستان میں مداخلت کی بلکہ مکتی باہنی جیسے علیحدگی پسند گروہوں کو تربیت اور اسلحہ بھی فراہم کیا۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین اور خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی تھی، مگر بھارت اسے اپنی ’’ فتح‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ بھارت ہمیشہ اس کوشش میں رہا کہ دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ سفارتی طور پر وہ باقی دنیا سے کٹ جائے۔ بھارتی ریاست اپنے ملک میں خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروا کے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی۔ دوسری طرف شدت پسندوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت پھیلانے اور معصوم بچوں، عورتوں کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات پیش آئے ہیں، جنھوں نے ملک کو گہرے صدمے سے دوچار کیا۔

ان کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا، ریاستی اداروں کو کمزور کرنا اور مخصوص نظریات کو مسلط کرنا تھا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی بھارت کے ان اقدامات پر تنقید کرچکی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان الزامات کو سنگین قرار دیا اور کہا ہے کہ بھارت بیرون ملک مقیم ناقدین کو دھمکانے، ان کی نگرانی کرنے اور بعض اوقات انھیں قتل کرنے جیسے اقدامات میں ملوث ہے۔

ایک جمہوری ریاست کا یہ طرزِ عمل بین الاقوامی قوانین، ریاستی خود مختاری اور قانون کی حکمرانی جیسے عالمی اصولوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے، اگرکوئی ریاست جمہوری ممالک میں اپنے مخالفین یا شہریوں کو قتل کرتی ہے تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔جنوبی ایشیا کے تناظر میں بھی یہ اقدامات عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کا موضوع نیا نہیں۔ 2014 کے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے میں 149 افراد، جن میں 132 بچے شامل تھے، شہید کیے گئے۔ پاکستانی حکام نے اس حملے کو ان گروہوں سے جوڑا جو مبینہ طور پر بھارت کی افغان سرزمین سے حمایت حاصل کرتے تھے۔

پاکستان نے ان الزامات پر بین الاقوامی تحقیقات اور اقوام متحدہ و او آئی سی میں شواہد پیش کرنے کی بارہا کوشش کی۔ مختلف ممالک سے سامنے آنے والے ان شواہد، انٹیلیجنس شیئرنگ اور قانونی اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت پر لگنے والے الزامات محض مفروضے نہیں، اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو بھارت کو دیگر ریاستوں کی طرح بین الاقوامی قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔

عالمی امن و انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی ریاست کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت کی انتہا پسند حکومت نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر رکھا ہے۔ نریندر مودی عوامی جلسوں میں بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کا پانی روک دے گا۔ پاکستان نے پانی کے مسئلے کو ریڈ لائن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی روکا تو اسے اعلان جنگ تصورکیا جائے گا۔

بھارت کی خفیہ ایجنسیاں میڈیا، سوشل میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے پاکستان میں نوجوانوں کو ریاست مخالف بنانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ انھیں ایسے بیانیے دیے جاتے ہیں جن سے ملک میں انتشار پھیلے۔ یہ ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کا حصہ ہے، جس میں دشمن ہتھیار کے بجائے نظریاتی زہر استعمال کرتا ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، جعلی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بھارت کی ففتھ جنریشن وار کا سب سے بڑا ہدف ہماری نوجوان نسل ہے۔

بھارت کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندرونی اختلافات کو کم کرکے قومی اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ریاستی ادارے، عوام، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک بیانیے پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ صرف حکومتی نمایندے ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں، خاص طور پر امریکا،کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس اور دوسرے مغربی ملکوں میں آباد پاکستانی تارکین وطن، دانشور، طلبہ اورکاروباری شخصیات کو بھی اپنی اپنی سطح پر بھارت کی انتہا پسندی،کشمیر میں ظلم اور پاکستان مخالف مداخلت پر آواز بلند کرنی ہوگی۔بھارت کے خلاف ہمیں مقامی، عالمی اور سفارتی سطح پر ہر ممکن اقدام اٹھانا ہوگا۔ پاکستان کا کشمیر اور بلوچستان پر ٹھوس بیانیہ سامنے آیا، سفارت کاری کامیابی سے ہم کنار ہو رہی ہے۔ ان دونوں مسائل کے حل کے لیے ہمیں مضبوط بنیادوں پر استوار اپنا بیانیہ جاری رکھنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی پاکستان میں اقوام متحدہ پاکستان کا پاکستان کو پاکستان نے پاکستان کے بھی بھارت بھارت کی کے ذریعے پر بھارت کہ بھارت بھارت کے کے خلاف کرتا ہے کرنے کی رہا ہے کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

پاکستان کا ایوان بالا …… امن، سلامتی اور ترقی کے لیے عالمی پارلیمانوں کو یکجا کرنے والا اہم فورم

ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جو باہمی وابستگی اور عالمی چیلنجوں سے عبارت ہے۔ جنگ و تنازع، موسمیاتی تبدیلی کے خطرات، اور ترقی و سلامتی میں بڑھتے ہوئے فاصلے، یہ سب ہماری دنیا سے اجتماعی، مربوط اور جرات مندانہ اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایسے میں اقوام کی وہ آوازیں جو پارلیمانوں کے ذریعے اْبھر کر سامنے آتی ہیں، پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ حکومتیں اکیلی ان پیچیدہ بین الاقوامی مسائل کا حل نہیں نکال سکتیں۔ انھیں دنیا کی پارلیمانوں کے تجربے، عوامی نمایندگی اور اجتماعی دانش کی ضرورت ہے۔

اسی احساسِ ضرورت نے بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کو جنم دیا۔ رواں سال اپریل میں، چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی بصیرت افروز قیادت میں، دنیا کے پینتالیس سے زائد ممالک کے پارلیمانی اسپیکرز ایک تاریخی فورم پر اکٹھے ہوئے۔

یہ فورم اس یقین پر قائم کیا گیا کہ جمہوریت کے ستون، پارلیمان، ہی وہ ادارے ہیں جو دنیا کو زیادہ منصفانہ، پْرامن اور مستحکم عالمی نظام کی سمت لے جا سکتے ہیں۔

بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس تین بنیادی اصولوں پر استوار ہے:

1 باہمی انحصار ۔۔ یہ اعتراف کہ دنیا کے تمام ممالک کی تقدیریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔

2 مشترکہ خوشحالی ، علم، وسائل اور مواقع کی منصفانہ تقسیم کو فروغ دینا۔

3 انسانی وقار اور ثقافتی احترام ، مکالمے، برداشت اور عمل کے ذریعے عالمی اقدار کو مستحکم بنانا۔

یہ اصول محض نعرے نہیں بلکہ عمل کے رہنما خطوط ہیں جو ISC کے ایجنڈے کی بنیاد ہیں:

پارلیمانی سفارتکاری کے ذریعے امن و سلامتی کا فروغ

پائیدار ترقی اور ماحولیاتی لچک کی حمایت

شفافیت اور جوابدہی کے ذریعے بہتر طرزِ حکمرانی کا قیام

اور باہمی اعتماد پر مبنی بین الاقوامی اشتراک کا فروغ۔

اس سال نومبر میں، پاکستان سینیٹ فخر کے ساتھ بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کے اولین اجلاس کی میزبانی اسلام آباد میں کر رہا ہے۔اس اجلاس کا مرکزی موضوع ہے:’’امن، سلامتی اور ترقی‘‘۔یہ تاریخی اجتماع نہ صرف پارلیمانی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا بلکہ پاکستان کے اس دیرینہ عزم کی تجدید بھی کرے گا کہ وہ ایک امن دوست، تعمیری اور متوازن عالمی کردار ادا کرنے والا ملک ہے۔یہ کانفرنس سیول ڈیکلریشن برائے امن و خوشحالی کی بنیاد پر آگے بڑھے گی، جو رواں سال جنوبی کوریا میں دنیا کی پارلیما نوں نے مشترکہ طور پر منظور کیا تھا۔

اسلام آباد میں اس کے اصولوں کو عملی حکمتِ عملی میں ڈھالنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

اس اجلاس کا نتیجہ اسلام آباد ڈیکلریشن کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایک ایسا رہنما دستاویز جو مستقبل میں عالمی پارلیمانی تعاون، انصاف، اور اخلاقی حکمرانی کی سمت متعین کرے گا۔

چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں ISC پاکستان کے اس وژن کی عکاس ہے جس میں پارلیمانی سفارتکاری کو خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون قرار دیا گیا ہے۔بطور سابق وزیراعظم پاکستان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر، گیلانی صاحب نے ہمیشہ اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ مؤثر طرزِ حکمرانی اور سفارتکاری کا بہترین امتزاج پارلیمانی سطح پر ہی ممکن ہے۔

ان کی رہنمائی میں ISC ایک ایسا پْل بن چکا ہے جو اقوام و طبقات کو جوڑتا، باہمی اعتماد کو مضبوط کرتا، اور عوام پر مبنی پالیسی سازی کو فروغ دیتا ہے۔

پاکستان کا پیغامِ امن

آئی ایس سی کی میزبانی پاکستان کے لیے محض ایک سفارتی کامیابی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اعلان ہے کہ پاکستان مکالمے پر یقین رکھتا ہے، اختلاف کی جگہ اعتماد قائم کرنے کا خواہاں ہے، اور پارلیمانی ڈپلومیسی کے ذریعے تعاون و سمجھ بوجھ کے نئے دروازے کھول رہا ہے۔

یہ اقدام نہ صرف پاکستان کی عالمی ساکھ کو مضبوط بناتا ہے بلکہ ملک کی سوفٹ امیج کو بھی اجاگر کرتا ہے ایک ایسا پاکستان جو خطوں اور نظریات کے درمیان رابطہ پیدا کرتا ہے اور استحکام و کھلے پن کے ذریعے سرمایہ کاری، اختراع اور ترقی کے لیے نئے امکانات فراہم کرتا ہے۔

یہ کانفرنس دنیا کے پارلیمانوں کے اْس بنیادی کردار کی تجدید بھی کرتی ہے جو وہ امن اور ترقی کے فروغ میں ادا کر سکتی ہیں۔جب عوامی نمایندے ایک دوسرے سے براہِ راست مکالمہ کرتے ہیں تو وہ عوامی اعتماد اور اخلاقی جواز کے ساتھ کرتے ہیں۔بطور ISC سفیر، میں اس سفر کا حصہ بن کر فخر محسوس کرتی ہوں۔ہم نے اپنی دوستی کے گروپس کو فعال کیا، براعظمی سطح پر پارلیمانی تعلقات کو وسعت دی، اور پاکستان کو ایک امن کا پْل بنانے والی ریاست کے طور پر اجاگر کیا۔

آیندہ کانفرنس ایک پیغام ہے سمجھنے، جڑنے اور مل کر آگے بڑھنے کا۔یہ تمام اقوام کے لیے دعوت ہے کہ وہ اپنی پارلیمانوں کے ذریعے متحد ہوں اور اس عہد کی تجدید کریں کہ ہمارا مشترکہ عزم امن، سلامتی اور ترقی کے لیے، ہر اْس طاقت سے زیادہ مضبوط ہے جو ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرے۔

چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی پْرعزم قیادت، پاکستان کی حکومت اور عالمی شراکت داروں کے تعاون سے، مجھے یقین ہے کہ بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس (ISC) ایک امید کی کرن بنے گی ۔ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں مکالمہ عمل میں ڈھلے گا، اور جہاں دنیا کے عوام کی آواز، ان کی پارلیمانوں کے ذریعے، ایک منصفانہ، محفوظ اور خوشحال دنیا کی بنیاد رکھے گی۔

( مضمون نگار: سفیر بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس (ISC)ہیں)

متعلقہ مضامین

  • جنگ میں شکست کے بعد بھارت پراکسی وار کررہاہے، عطا تارڑ
  • پاکستان کا ایوان بالا …… امن، سلامتی اور ترقی کے لیے عالمی پارلیمانوں کو یکجا کرنے والا اہم فورم
  • تکفیریت، فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد و بیدار ہیں، متحدہ علماء محاذ
  • موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی تعاون ناگزیر ہے،مریم نواز
  • افغانستان میں غیر قانونی اسلحہ پھیلاؤ سے پورا خطہ غیر محفوظ ہے، پاکستان کا انتباہ
  • ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
  • فتنۂ الخوارج اور اس کے بھارت نواز سہولت کار پاکستان کے امن و استحکام کے دشمن ہیں؛ صدرِ مملکت
  • اسرائیل کا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھارت سے ہتھیاروں کا معاہدہ
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • بھارت کی اکڑ نکل گئی، ایشیا کپ ٹرافی کیلئے منتیں کرنے لگا