کراچی: سرکاری ملازمین کا دھرنا مؤخر کرنے کا اعلان، گرفتار مظاہرین رہا
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
سندھ ایمپلائنز الائنس نے مذاکرات کے بعد دھرنا مؤخر کرنے کا اعلان کردیا جبکہ پولیس نے گرفتار مظاہرین کو رہا کردیا۔
سندھ ایمپلائنز الائنس کے مرکزی قائد اشرف خاصخیلی اور ایس ایس پی ساوتھ مہزور علی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے۔ جس کے بعد اشرف خاصخیلی نے اعلان کیا ہے کہ ہمارے تمام لوگ پولیس نے رہا کردیئے ہیں ہم منگل کو کراچی پریس کلب پر پریس کانفرنس کرکے اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے محرم کی وجہ سے اپنا احتجاجی مظاہرہ مؤخر کردیا ہے۔
مرکزی قیادت کی جانب سے دھرنا مؤخر ہونے کا اعلان سنتے ہی شرکا پریس کلب سے منتشر ہوکر گھروں کو روانہ ہوگئے جبکہ انتظامیہ اور پولیس نے رکاوٹیں ہٹا کر تمام راستے ٹریفک کے لیے کھول دیئے۔
ایس ایس پی ساؤتھ کا کہنا ہے کہ ہمارے اساتذہ سے مذاکرات ہوئے ہیں۔ زیر حراست اساتذہ کو رہا کررہے ہیں۔ جسکے بعد مظاہرین نے احتجاج موخر کردیا ہے۔
ایس ایس پی نے کہا کہ مظاہرین نے تیرہ محرم الحرام کو دوبارہ احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سندھ ایمپلائز نے مہنگائی کے مساوی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے لیے پریس کلب پر احتجاج کیا اور پھر مذاکرات میں ناکامی پر وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب پیش قدمی کا اعلان کیا تھا۔
مظاہرین کی ریڈ زون میں پیش قدمی روکنے کیلے پولیس نے لاٹھی چارج، شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا جبکہ متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا تھا، پولیس کے مطابق 20 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جبکہ دھرنا منتظمین نے دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے 300 سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اس سے قبل وزیر برائے توانائی، ترقیات و مںصوبہ بندی سید ناصر حسین شاہ نے شرکا سے محرم کے احترام میں دھرنا 13 محرم تک ملتوی کرنے کی درخواست کی اور یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کے بعد مذاکرات کر کے تنخواہوں کے فرق کو ختم کرنے کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مظاہرین کو کا اعلان پولیس نے کے بعد
پڑھیں:
کراچی کیلیے بجلی سستی کرنے کی درخواست پر پاور ڈویژن کا سماعت مؤخر کرنے کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:کراچی کے شہریوں کے لیے بجلی کے نرخ کم کرنے کی ایک ممکنہ خوشخبری اس وقت مزید تاخیر کا شکار ہوگئی جب پاور ڈویژن نے ایک بار پھر نیپرا سے کے الیکٹرک کی سستی بجلی کی درخواست پر سماعت مؤخر کرنے کی اپیل کر دی۔
ملک میں مہنگائی کی لہر کے تناظر میں عوام کو ریلیف دینے کے بجائے معاملہ ایک بار پھر بیوروکریسی کی فائلوں میں الجھتا نظر آ رہا ہے۔
معاملہ اُس وقت سامنے آیا جب کے الیکٹرک نے نیپرا سے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (FCA) کی بنیاد پر بجلی 4 روپے 69 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کی درخواست کی۔ یہ درخواست معمول کی پریکٹس کے تحت فیول قیمتوں میں کمی کے بعد صارفین کو فائدہ پہنچانے کے لیے دی گئی تھی۔ نیپرا میں اس درخواست پر سماعت طے شدہ تھی، تاہم پاور ڈویژن نے ایک بار پھر مداخلت کرتے ہوئے مؤخر کرنے کی اپیل کر دی۔
پاور ڈویژن کے مؤقف کے مطابق حکومت اس وقت فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کو ’یونیفارم ٹیرف‘ کے نظام میں شامل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس ضمن میں معاملہ کابینہ کے اجلاس میں لے جایا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں وفاق کے مالی وسائل محدود ہیں اور سبسڈی دینے کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ چنانچہ اگر کے الیکٹرک کی درخواست منظور کر لی گئی تو اس کا منفی اثر وفاق پر پڑے گا۔
اس پر نیپرا کی قانونی ٹیم نے کھل کر پاور ڈویژن کے مؤقف کی مخالفت کی۔ ٹیم کے مطابق ایف سی اے (Fuel Charges Adjustment) کے قواعد و ضوابط قانون کے مطابق واضح اور خودمختار ہیں اور وفاقی حکومت محض اپنی پالیسی کی بنیاد پر نیپرا کے قانونی دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ نیپرا کے وکلا نے واضح کیا کہ بنیادی ٹیرف اور ایف سی اے کے الگ الگ قانونی دائرہ کار ہیں جنہیں خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔
کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نے نیپرا سے اپیل کی کہ معاملے کو محض حکومتی دباؤ کے بجائے قانون اور ضابطے کی روشنی میں دیکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی درخواست 4 روپے 69 پیسے مہنگی کرنے کی ہوتی تو کیا پاور ڈویژن تاخیر کی اپیل کرتا؟ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہماری درخواست بالکل واضح اور قانونی دائرہ میں ہے، اور صارفین کو ریلیف ملنا چاہیے۔
مونس علوی کا کہنا تھا کہ نیپرا کا فرض ہے کہ وہ صارفین کے مفاد میں فیصلے کرے، چاہے وہ قیمتوں میں کمی ہو یا اضافہ اور کسی سیاسی یا حکومتی دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک شفافیت پر یقین رکھتا ہے اور عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کا خواہاں ہے، بشرطیکہ قانونی طور پر اجازت ہو۔
نیپرا حکام نے اس موقع پر تمام فریقین کی رائے سننے کے بعد بتایا کہ حتمی فیصلہ مشاورت کے بعد قانون کے دائرہ میں رہ کر کیا جائے گا۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ وزارت یا کسی اور اسٹیک ہولڈر کی رائے محض ایک پہلو ہے، فیصلہ صرف قانون کے مطابق کیا جائے گا۔