data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جامعات کی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے کیو ایس (QS) نے جامعات کی درجہ بندی 2026 جاری کردی ہے، جس کے مطابق پاکستان کی ایک بھی جامعہ دنیا کی 350 بہترین جامعات میں جگہ بنانے میں ناکام رہی لیکن دو وفاقی جامعات قائد اعظم یونیورسٹی 354، اور نیشنل یونیورسٹی سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) 371 نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہیں، جب کہ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی، جامعہ کراچی 1001 جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے تاہم سندھ کی کوئی اور جامعہ 1500 جامعات میں بھی جگہ نہیں بناسکی۔ جامعات کی درجہ بندی کرنے والے ادارے کیو ایس 2026 کی جنوبی ایشیا کی جامعات کی درجہ بندی رواں سال کے آخر یا آئندہ سال جنوری میں جاری کرے گا لیکن 2025 جنوبی ایشیا کی درجہ بندی میں جامعہ کراچی 58 ویں نمبر پر تھی جب کہ آغا خان یونیورسٹی کا نمبر 62 اور آئی بی اے کراچی کا درجہ 70 واں درجہ تھا۔ اقراء یونیورسٹی کا 110 واں، آئی بی اے سکھر کا 120 واں، این ای ڈی یونیورسٹی کا 131 واں، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا 140 واں، مہران انجینئرنگ یونیورسٹی جامشورو کا 168 واں، ضیاالدین یونیورسٹی کا 240 واں، سندھ یونیورسٹی جامشورو کا 263 واں اور یونیورسٹی آف بلوچستان کا 278 واں نمبر تھا۔ دنیا بھر میں مختلف شعبوں کے حوالے سے ممالک کی کارکردگی کی جانچ اور اس کے جائزے کے لیے متعدد عالمی ادارے سروے کرتے ہیں اور پھر ان سروے کی روشنی میں ممالک کی درجہ بندی شایع کی جاتی ہے، جس کا مقصد ملکوں کی معاشی، سماجی، سیاسی، تعلیمی، ماحولیاتی کارکردگی کا موازنہ کرنا ہوتا ہے۔ ہر سال کرپشن، معاشی وانسانی ترقی، تعلیم، صحت، ماحولیات، امن وامان، فریڈم انڈیکس، سائنس و ٹیکنالوجی، کاروباری سہولت، سیاحت اور دیگر شعبوں سے متعلق سروے کیے جاتے ہیں بدقسمتی سے ان تمام شعبوں میں پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ دنیا بھر کی جامعات کی درجہ بندی میں کسی یونیورسٹی کا مقام طے کرنے کے لیے چند بنیادی عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اہم تعلیمی معیار، تحقیقی کام، بین الاقوامی شہرت، فیکلٹی کی قابلیت، نوکریوں میں گریجویٹس کی کارکردگی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں شراکت شامل ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی جامعات تحقیقی معیار کے فقدان، فیکلٹی کی تربیت میں کمی، سیاسی مداخلت، ناکافی بجٹ اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان فہرستوں میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کا تعلیمی بجٹ نہایت کم ہے، جس سے جامعات جدید تحقیق، تدریس اور عالمی معیار کے انفرا اسٹرکچر سے محروم ہیں۔ سندھ کی جامعات، خاص طور پر دیہی علاقوں کی، پسماندہ ہیں جہاں وسائل کی تقسیم غیر مساوی اور سیاسی اثر رسوخ تعلیمی معیار کو متاثر کرتا ہے۔ اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی جامعات میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ انتہائی محدود ہے، پاکستان میں ریسرچ اینڈڈو یلپمنٹ پر خرچ کی جانے والی کل رقم جی ڈی پی کا صرف 0.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جامعات کی درجہ بندی یونیورسٹی کا یونیورسٹی ا پاکستان کی جامعات میں کی جامعات کے لیے
پڑھیں:
دہلی یونیورسٹی نے اسلام ، پاکستان ، چین کے حوالے سے کورسزختم کردیے
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 جون2025ء) دہلی یونیورسٹی کے پینل کی طرف پوسٹ گریجویٹ پولیٹیکل سائنس کے نصاب سے اسلام، پاکستان اور چین کے کورسز کو خارج کر دیا گیا ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق یونیورسٹی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیمی معاملات نے ”اسلام اور بین الاقوامی تعلقات، پاکستان اور دنیا، عصری دنیا میں چین کا کردار اور پاکستان میں ریاست اور معاشرہ“ کو ہٹانے کی ہدایت کی ہے ۔ یہ ہدایت وائس چانسلر یوگیش سنگھ کی طرف پاکستان کی تعریف والے مواد کو ہٹانے کی سفارش کے بعد کی گئی ہے ۔یونیورسٹی کے فیکلٹی ارکان نے اس ہدایت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے محض ایک سیاسی اقدام قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ کورسز کو ہٹانے سے جغرافیائی فہم کو نقصان پہنچے گا۔(جاری ہے)
ڈیموکریٹک ٹیچرز فرنٹ کی سکریٹری ابھا دیو کہتی ہیں کہ یونیورسٹیوں کی تعلیمی خود مختاری ختم ہو رہی ہے، عقائد کے نظام پر مبنی کورسز کو ختم کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔
اکیڈمک کونسل کے ایک منتخب رکن متھوراج دھوسیا نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے اختیار کے دائرہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمیٹی مشورہ دے سکتی ہے،یکطرفہ طور پر حکم نہیں دے سکتی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام تعلیمی اداروں میں اسلامو فوبیا اور پاکستان مخالف جذبات کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد دہلی یونیورسٹی نے مختلف انڈرگریجویٹ کورسز، خاص طور پر تاریخ اور سماجیات کے نصاب میں نمایاں تبدیلی کی ہے۔