’سردار جی 3‘ کے پاکستان میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم، بھارتیوں کو مرچیں لگنا بند نہ ہوئیں
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر اور بھارتی گلوکار و اداکار دلجیت دوسانجھ کی نئی پنجابی فلم ’سردار جی 3‘ نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں زبردست پذیرائی حاصل کی، تاہم بھارت میں فلم کی ریلیز تنازع کا شکار ہو گئی۔ ہندو انتہا پسند حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت کے باعث نہ صرف فلم کو بھارت میں ریلیز ہونے سے روکا گیا بلکہ یوٹیوب پر اس کا ٹریلر بھی بلاک کر دیا گیا ہے۔
بھارت میں بائیکاٹ، پاکستان میں پذیرائی
فلم کو 27 جون کو بین الاقوامی سطح پر ریلیز کیا گیا اور صرف دو دنوں میں 11.
نصیرالدین شاہ نے بھی دلجیت کی حمایت کردی
بالی ووڈ کے سینئر اداکار نصیرالدین شاہ دلجیت دوسانجھ کی حمایت میں سامنے آئے اور سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا، ’میں دلجیت کے ساتھ کھڑا ہوں۔ کچھ غنڈے چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان رابطے ختم ہوجائیں، لیکن کوئی مجھے پاکستان میں مقیم اپنے عزیزوں اور دوستوں سے ملنے سے نہیں روک سکتا۔‘ انہوں نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کافی عرصے سے دلجیت پر حملے کے موقع کی تلاش میں تھی۔
دلجیت دوسانجھ کی وضاحت
بی بی سی ایشین نیٹ ورک کو دیے گئے انٹرویو میں دلجیت دوسانجھ نے کہا کہ فلم کی شوٹنگ فروری 2025 میں مکمل ہو چکی تھی، اس وقت پاک بھارت کشیدگی موجود نہیں تھی۔ ’جب میں نے فلم سائن کی تھی، تب سب کچھ ٹھیک تھا۔ بعد میں صورتحال بدلی، جو ہمارے قابو میں نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں بالی ووڈ میں کام کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں، ’میں موسیقی سے محبت کرتا ہوں اور کسی کی مرضی کے بغیر بھی موسیقی کرسکتا ہوں۔‘
بھارتی فلم ورکرز یونین (FWICE) نے دلجیت دوسانجھ کو نئی فلم بارڈر 2 سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یونین نے وزیر دفاع سے درخواست کی ہے کہ نیشنل ڈیفنس اکیڈمی میں فلم کی شوٹنگ کی اجازت بھی منسوخ کی جائے۔
دلجیت دوسانجھ نے تمام تر تنازع کے باوجود فلم کی عالمی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور انسٹاگرام پر دنیا بھر سے آئے مداحوں کی ویڈیوز اور تبصرے شیئر کیے ہیں۔ ان کا فوکس بائیکاٹ کے شور سے ہٹ کر بین الاقوامی سامعین کی محبت پر مرکوز ہے۔
Post Views: 4ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دلجیت دوسانجھ پاکستان میں فلم کی
پڑھیں:
پیغامِ ماضی: بلوچستان کے نواب و سردار اور پاکستان کیلیے قربانیوں کی داستان
یومِ آزادی صرف جشن نہیں، قربانیوں کے تسلسل کی داستان ہے اور تجدیدِ عہد کا دن ہے، یہ دن ہمیں ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔
چودہ اگست وہ تاریخی دن ہے جب برصغیر کے مسلمانوں کے آزاد اور خودمختار ریاست کا خواب حقیقت میں بدلا۔
یوم آزادی معرکہ حق کے موقع پر پیغام ماضی دیتے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قاضی محمود الحسن نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’مجھے بزرگوں اور والدین سے معلوم ہوا کہ جب قائد اعظم یہاں تشریف لائے تھے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ قائداعظم نے میک موہن، جو اب صادق شہید پارک کے نام سے جانا جاتا ہے، وہاں تاریخی تقریر کی۔ قائدِ اعظم نے انگریزی میں تقریر کی، ان کی کرشماتی شخصیت نے سب کو متاثر کیا، جو لوگ انگریزی نہیں جانتے تھے، وہ بھی جذبے سے سن رہے تھے، جیسے دل کی بات ہو۔
قاضی محمود الحسن نے بتایا کہ نواب محمد خان جوگزائی اور جعفر خان نے پاکستان میں شمولیت کے لیے بھرپور کوشش کی، اپنے میروں اور سرداروں کو قائل کرنا ان کے لیے آسان تھا کیونکہ سب دل سے پاکستان کے خواہشمند تھے۔
قاضی محمود الحسن کا کہنا تھا کہ وہ سب پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں، یہاں ٹاؤن ہال میں ووٹنگ ہوئی جہاں تمام نواب و سرداروں نے اجتماعی طور پر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔